فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوج کی طرف سے طاقت کے بے لگام استعمال کو درست قرار دینے کے لیے امریکی اسکالر نے انوکھی توجیہ پیش کی۔ اس کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو انتباہ کیا گیا تھا مگر انہوں نے توجہ نہ دی۔ قانون اس بات کا پابند نہیں کہ کسی کو انتباہ کرنے کے بعد اس بات کا انتظار کرے کہ وہ قانون پر عمل کرے۔ امریکی اسکالر کے خیال میں فلسطینیوں کے معاملے میں بھی ایسا ہی تھا۔
اسرائیل کی طرف سے جو بریف تیار کیا گیا تھا اُس میں ایک طرف تو یہ دعویٰ کیا گیا کہ فلسطینیوں کو پہلے سے انتباہ کیا گیا تاکہ کم سے کم جانی نقصان ہو، اور دوسری طرف یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی یقینی بنانے کے سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا! اس میں تو خیر کوئی شک ہی نہیں کہ جو کچھ بھی اسرائیل نے اپنے بریف میں کہا وہ نمایاں حد تک جھوٹ ہی پر مبنی تھا۔ فلسطینیوں کو جانی نقصان سے بچانے کے دعوے پر صرف ہنسا ہی جاسکتا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک نے بھی دعویٰ کیا کہ اسرائیلی قیادت نے اس بات کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی کہ فلسطینیوں کا کم سے کم جانی نقصان ہو۔ زمینی حقائق تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہے تھے۔ اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ادارے انتہائی نامساعد حالات میں بھی اپنا کام کرتے رہے۔ غیر سرکاری تنظیموں کا کردار بھی قابلِ ستائش رہا۔ یونائیٹڈ نیشنز آف فار کی کوآرڈی نیشن آف ہیومینیٹیرین افیئرز نے بتایا کہ غزہ کی صورتِ حال بہت خراب تھی مگر کسی نہ کسی طور امدادی کارروائیاں جاری رکھی گئیں تاکہ فوجی کارروائی کے ستائے ہوئے لوگوں کی مشکلات کچھ کم کی جاسکیں۔ تین ہفتوں کی لڑائی کے دوران یونائیٹڈ ریلیف اینڈ ورک ایجنسیز (یو این آر ڈبلیو اے) کے عملے کے 5 افراد اور3 کنٹریکٹرز جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ عملے کے دیگر 11 افراد اور 4 کنٹریکٹرز زخمی ہوئے۔ امدادی قافلوں پر اسرائیلی فوج کے حملوں کے 4 واقعات رونما ہوئے اور اقوامِ متحدہ کے تحت کام کرنے والی 53 عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ اسرائیلی وزیرِ خارجہ زپی لِونی نے لڑائی کے دوران انتہائی بے شرمی سے دعویٰ کیا کہ غزہ میں کوئی انسانی بحران نہیں پایا جاتا۔ یو این آر ڈبلیو اے کے ڈائریکٹر آف آپریشنز نے پلٹ کر جواب دیا کہ غزہ میں شدید نوعیت کا انسانی بحران پایا جاتا ہے، غزہ کے لوگ پھنس کر رہ گئے ہیں، وہ صدمے سے دوچار اور خوف زدہ ہیں۔ گولڈ کارڈزمین نے اپنی رپورٹ میں اسرائیل کے دعووں کو خاصے اہتمام سے بیان کیا، تاہم اقوامِ متحدہ کے افسران اور اہلکاروں کی وقیع گواہی کو شامل نہ کرسکے۔ گولڈ اسٹون نے اپنی رپورٹ اس بیان پر ختم کی کہ اسرائیل کا فرض تھا کہ غزہ کے لوگوں تک خوراک اور سارا امدادی سامان پہنچنے دیتا، تاہم اُس نے ایسا نہیں کیا، جس کے نتیجے میں غزہ کے لوگوں کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ غزہ کے لوگوں کو جو خوراک، دوائیں اور دوسرا ضروری سامان فراہم کیا گیا وہ ضرورت سے بہت کم تھا اور اس کے نتیجے میں ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا۔ آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد غزہ کی ناکہ بندی نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا۔ غزہ کے لوگوں کو خوراک، دواؤں اور دیگر ضروری سامان کی شدید قلّت کا خاصی طویل مدت تک سامنا کرنا پڑا۔ جنوری 2009ء میں نافذ کی جانے والی جنگ بندی کے بعد بھی اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں تک خوراک اور دواؤں کی رسائی کی راہ میں روڑے اٹکائے تاکہ اُن کی مشکلات میں اضافہ ہو۔ بچوں کے فوڈ آئٹمز اور دوائیں بھی روکی گئیں۔ اسرائیلی فوج کی بمباری اور گولہ باری کے نتیجے میں پورے غزہ کے بنیادی ڈھانچے، اداروں اور کاروبار کو پہنچنے والے نقصان کا معمولی سا ہی ازالہ ہوپایا ہے۔ مکانات کی تباہی نے ہزاروں افراد کو بے گھر کیا۔ انسانی حقوق اور امداد پہنچانے والے 16 معتبر اداروں نے آپریشن کاسٹ لیڈ کے ایک سال بعد اپنی اجتماعی رپورٹ میں بتایا ’’یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ پالیسی کا معاملہ ہے۔ اسرائیلی ناکہ بندی کے نتیجے میں فلسطینی باشندے نہ صرف یہ کہ باہر نہیں جاسکتے اور کچھ برآمد بھی نہیں کرسکتے بلکہ بنیادی ضرورت کی تمام اشیا بھی ان تک پہنچنے نہیں دی جارہیں۔ وہ بیشتر معاملات میں انتہائی پریشانی کا شکار ہیں۔ تعمیرِنو کا عمل بھی شروع نہیں ہو پارہا اور اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تعمیراتی سامان بھی غزہ تک پہنچنے نہیں دیا جارہا۔ غزہ کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی کو روزانہ 4 سے 8 گھنٹے بجلی کے بغیر رہنا پڑ رہا ہے۔ ہزاروں افراد کو پینے کا صاف پانی بھی آسانی سے میسر نہیں۔ بچوں کی تعلیم مستقل بنیاد پر کھٹائی میں پڑگئی ہے۔ فلسطینی بچوں کے لیے درسی کتب اور دیگر متعلقہ مواد بھی پہنچنے نہیں دیا جارہا۔ بچے پہلے ہی عسکری کارروائیوں سے سہمے ہوئے ہیں۔ اُن کی حالت ایسی نہیں کہ ڈھنگ سے تعلیم حاصل کرسکیں۔ ایک طرف تو انہیں صاف ستھری رہائش میسر نہیں اور دوسری طرف وہ خود کو غیر محفوظ بھی تصور کرتے ہیں۔‘‘
آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران اسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام کام کرنے والے اسپتالوں اور دیگر دفاتر کو نشانہ بناکر علاج کی سہولتوں کو انتہائی محدود کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ دواؤں اور اسپتالوں کے ضروری آلات اور مشینری کی راہ روک کر اسرائیل نے زخمی فلسطینیوں کے علاج کی راہ میں خوب روڑے اٹکائے۔ اسرائیلی فوج نے اقوام متحدہ کے ایک ادارے یو این آر ڈبلیو اے کی تنصیبات پر فاسفورس گولے برسائے تب اُس وقت کے یو این سیکریٹری جنرل بان کی مُون نے انتہائی اشتعال کے عالم میں کہا کہ اسرائیل نے جو کچھ کیا ہے اُس کے بارے میں تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ اقوامِ متحدہ کے تحت تحقیقات کرنے پر معلوم ہوا کہ اسرائیل نے متعدد اسپتالوں اور دیگر متعلقہ تنصیبات کو انتہائی ڈھٹائی اور سفاکی سے نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں متعدد بچے بھی جاں بحق ہوئے۔ اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے متعدد اسپتالوں اور کلینکس کو نشانہ بناکر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ جن اسکولوں میں شہریوں نے بچوں کے ساتھ پناہ لے رکھی تھی اُنہیں بھی نہیں بخشا گیا۔ اسکولوں میں پناہ لینے والوں پر حملوں میں کئی بچے بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حماس کے ٹھکانوں سے ہٹ کر خالص سویلین تنصیبات کو چُن چُن کر نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل نے جنگ کے تمام اصولوں کو بری طرح پامال کیا۔ بورڈ آف انکوائری نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی کسی بھی عمارت یا تنصیب کے اندر سے اسرائیلی فوج پر حملہ کیا گیا نہ حملے کا جواب ہی دیا گیا۔ ایک واقعے میں اقوام متحدہ کی ایک تنصیب پر غزہ کے اندر ہی سے حماس یا کسی اور عسکریت پسند گروپ نے ایک راکٹ داغا۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے کیا جانے والا یہ دعویٰ یکسر بے بنیاد ہے کہ اقوام متحدہ کی تنصیبات سے حماس یا کسی اور فلسطینی عسکریت پسند گروہ کے ارکان نے حملے کیے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، اسرائیلی حکومت بھی یہ بات جانتی اور سمجھتی ہے۔ اسرائیل کے صدر شمعون پیریز نے اس رپورٹ کو ماننے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ جھوٹ پر مبنی ہے جسے کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیلی قیادت نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا کہ دنیا بھر میں اخلاقی معیارات کا خیال رکھنے والی فوج اسرائیل کی ہے!
اسرائیلی حکومت نے آپریشن کاسٹ لیڈ سے قبل بھی فلسطینیوں کو علاج کی سہولتوں تک رسائی سے بہت حد تک روک رکھا تھا۔ غزہ میں حماس اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کے نام پر جو کچھ بھی کیا گیا اُس نے فلسطینیوں کے لیے علاج کی سہولتوں کو مزید کمیاب بنادیا۔ اسرائیلی حکومت نے اس بات کا اہتمام کیا کہ فلسطینی اسپتالوں میں دوائیں، آلاتِ جراحی اور دیگر متعلقہ سامان انتہائی ناکافی مقدار و تناسب سے ہو اور عام فلسطینیوں کو انتہائی نوعیت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں تھا۔ بہت سے فلسطینیوں کو ایگزٹ پرمٹ کے حصول کے لیے مجبور کیا گیا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس سے تعاون کریں، اور اس سلسلے میں اُنہیں یرغمال بناکر بھی رکھا گیا۔
اسرائیل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران جن فلسطینیوں کو علاج کے لیے بیرونِ ملک جانا تھا اُنہیں ایسا کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت نے بھرپور معاونت فراہم کی۔ بنیادی حقوق اور بہبودِ عامہ کی تنظیموں نے اس دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیل نے ایسے حالات پیدا کردیے تھے کہ علاج کے لیے فلسطینیوں کا غزہ سے نکلنا ناممکن ہوگیا تھا۔ اسرائیل کی بمباری اور گولہ باری سے غزہ میں 19 ایمبولینس تباہ ہوئیں اور 15اسپتالوں سمیت صحتِ عامہ سے متعلقہ 122 تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا۔ اسپتالوں میں تعینات 16 افراد اسرائیلی فوج کے حملوں میں شہید اور25 سے زائد زخمی ہوئے۔ کارڈزمین کا دعویٰ تھا کہ اسرائیلی حکومت نے ایمبولینسوں کی آزادانہ آمد و رفت یقینی بنانے کی کوشش کی۔
غیر جانب دار تنظیموں اور ذرائع نے جو رپورٹس مرتب کیں اُن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے ذریعے غزہ کو پہنچنے والا نقصان کم و بیش 90 کروڑ ڈالر کا تھا۔ دوسری طرف اسرائیل کو پہنچنے والا جانی نقصان ڈیڑھ کروڑ ڈالر سے زیادہ نہ تھا۔ کئی ذرائع سے اس امر کی تصدیق ہوئی کہ اسرائیل نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو اس قدر تباہ کردیا کہ عام فلسطینیوں کے لیے زندہ رہنا بھی ایک بڑے چیلنج کا درجہ اختیار کرگیا۔ بنیادی ڈھانچے کی تباہی نے معاملات کو اس قدر بگاڑ دیا کہ ایک طرف تو فلسطینیوں کے لیے معاشی سرگرمیاں جاری رکھنا دشوار ہوگیا اور دوسری طرف خواتین اور بچوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ اسپتالوں اور ایمبولینسوں کی تباہی سے فلسطینیوں کے لیے علاج کرانا بھی دردِ سربن گیا۔ زخمیوں کو زیادہ اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ صحتِ عامہ کا نظام بگڑ گیا۔ وبائی امراض پھیلنے کی صورت میں فلسطینی خواتین اور بچوں کو علاج کی بہتر سہولتیں فراہم کرنا انتہائی دشوار ہوگیا۔ فزیشنز فار ہیومن رائٹس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ زخمی فلسطینیوں کو علاج کے لیے منتقل کرنے کے عمل میں بھی روڑے اٹکائے گئے۔ بیمار فلسطینیوں کو علاج کے بغیر دن گزارنا پڑے جس کے نتیجے میں ان کی بیماریاں پیچیدہ تر شکل اختیار کرگئیں۔ فزیشنز فار ہیومن رائٹس (اسرائیل) اور دی پیلسٹینین میڈیکل ریلیف سوسائٹی کے نامزد کردہ ماہرین کے ایک گروپ نے آزادانہ و غیر جانب دارانہ تحقیقات کے نتیجے میں بتایا کہ اسرائیلی فوج نے زخمی اور انتہائی بیمار فلسطینیوں کو علاج کے لیے ایمبولینسوں کے ذریعے منتقل کرنے کی اجازت نہیںدی اور اگر کسی نے منتقلی کی کوشش کی تو گاڑی کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس عام طور پر سخت بیانات جاری نہیں کرتی، مگر جب اسرائیلی فوج نے ریڈ کراس کی ایک میڈیکل ٹیم کو غزہ جانے اور وہاں زخمیوں کا علاج کرنے سے محض روکا نہیں بلکہ واپس بھیج دیا تب انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس نے اس واقعے کی شدید مذمت کی۔
(جاری ہے)