میرے والدِ محترم اپنی ہٹ کے پکے تھے، مگر پھوپھی جان کی بزرگی اور رعب کا بھی اپنا ایک مقام تھا۔ سو آپ بڑی مشکل سے اپنی محترمہ بہن کی بات ماننے پر تیار ہوئے۔ اگلے دن مجھے اسکول میں دوسری جماعت میں بٹھایا گیا۔ میں ابھی بالکل مبتدی تھا، لیکن کلاس کے انچارج ماسٹر محمد شریف صاحب نے خوش آمدید کہا اور میری تختی اور کتاب دیکھی تو کہا کہ ٹھیک ہے، آپ کی پڑھائی آج سے شروع ہوگئی ہے۔ والد صاحب تو میرے ساتھ اسکول نہیں گئے تھے، تایا جی مجھے وہاں چھوڑ کر آئے تھے۔ انھوں نے ماسٹر صاحب کو بتایا کہ ابھی باقاعدہ داخلہ نہیں ہوگا بلکہ ایک سال بعد اسے تیسری یا چوتھی جماعت میں بٹھانا ہے، پھر داخلہ کرائیں گے۔ کچھ عرصے کے بعد ہماری کلاس کے نئے انچارج چودھری محمد ریاض گوندل مقرر ہوئے۔ وہ بھی بہت عظیم انسان اور قابل استاد تھے۔
آج تایا جان کے ساتھ گھر سے نکلا تو میرے احساسات بہت عجیب تھے۔ ایک طرف تو میں خوش تھا کہ اسکول جارہا ہوں۔ دوسری طرف دادا جان کے ساتھ مکتب جانے کا منظر بھی میری آنکھوں کے سامنے بار بار آرہا تھا۔ دادا جان مرحوم کا مجھ سے اور میرا اُن سے محبت و پیار کا بے نظیر باہمی تعلق تھا۔ تایا جان سے بھی راستے میں کئی لوگ محبت و عقیدت سے ملے، مگر دادا جان سے تو سارے لوگوں کے ملنے کا منفرد انداز اپنی مثال آپ تھا۔ میں اب اسکول کے تصور سے بے نیاز اپنے عظیم بزرگ کے لیے بلندیِ درجات کی دعائیں کررہا تھا کہ ہم اسکول پہنچ گئے۔ اس دوران مجھے کئی واقعات جو سن رکھے تھے، بار بار یاد آئے۔ ان میں سے ایک آدھ کا ذکر کررہا ہوں۔
میرے دادا جان بلند قامت اور بالکل دبلے پتلے انسان تھے۔ ہم نے تو اُن کو عمر کے آخری حصے میں ہی دیکھا تھا۔ بزرگوں سے مرحوم کی ذہانت، حاضر جوابی، بہادری اور مردانگی کے بہت سے واقعات سنے جو آج تک حافظے میں محفوظ ہیں۔ خاندانی روایات کے مطابق آپ نوعمری ہی سے بہترین شاہ سوار تھے۔ میرے نانا جان (جن کی وفات 1970ء میں ہوئی) ہمیں بہت سے واقعات سنایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ دادا جان نوعمری میں ایک گائوں کے پاس سے گزرے۔ اس گائوں کے ایک بڑے زمیندار کی مجلس کے پاس پہنچے تو اس بزرگ نے اپنی طرف بلایا اور سلام دعا کے بعد تعارف پوچھا۔ آپ نے اپنا نام بتایا اور تعارف کرایا تو وہ بزرگ بولے: ’’فتح علی کے ساتھ تو میاں جچتا ہی نہیں، پھر حقارت سے کہنے لگے کہ ایسے نام تو چودھریوں کے ہوتے ہیں۔‘‘
دادا جان ان بزرگ کو اچھی طرح جانتے تھے۔ آپ نے فرمایا ’’میاں صاحب! نام تو والدین نے ہی رکھا تھا، میرا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ آپ کا نام تو ماشاء اللہ پیغمبری ہے، میاں محمد اسماعیل! مگر آپ کے کارنامے تو سب میاں برادری کے لیے باعثِ عار ہیں۔ پورے علاقے میں جس شخص کی بھی بھینس چوری ہوجائے، اُسے یقین ہوتا ہے کہ وہ آپ کے ذریعے دریائے جہلم یا چناب پار کرچکی ہوگی۔‘‘ ساری مجلس دم بخود تھی اور میاں اسماعیل بھی لاجواب! ایک شخص نے کہا: نوجوان آخر میاں محمد مصطفیؒ کا بیٹا اور بابا عبدالخالقؒ کا جانشین ہے۔
ایک بار آپ نے نوعمری میں گائوں سے جانبِ شمال (اپنی زمینوں اور پھر آگے ڈھولہ گائوں کی طرف) جانے والے راستے پر گھوڑی دوڑائی تو اس سے گر گئے۔ آپ کے ماں جائے بڑے بھائی حافظ غلام علی صاحب نے اپنے مکان کی چھت سے یہ منظر دیکھا۔ اپنے خاندان کی گھوڑیوں کے بارے میں ہم نے بزرگوں سے یہ بھی سنا تھا کہ سوار کے گر جانے پر وہ کہیں دور بھاگ جانے کے بجائے اس کے پاس آکر کھڑی ہوجاتی تھیں۔ جانوروں کی اپنے مالک سے وفاداری کے بہت سے واقعات تاریخِ انسانی میں محفوظ ہیں۔ دادا جان نے اٹھ کر کپڑے جھاڑے اور گھوڑی پر پھر چھلانگ لگائی اور ایڑ لگا کر اسے دوبارہ دوڑا دیا۔ پھر فصلوں اور زمینوں کا چکر لگا کر واپس آئے۔
آپ حافظ غلام علی صاحب کے دروازے کے پاس سے گزر رہے تھے کہ انھوں نے کہا ’’ہاں میاں فتح علی! آج خوب بازی لگی؟‘‘ فرمانے لگے: ’’حافظ جی! سواروں کی بازیاں تو لگتی ہی رہتی ہیں۔ جو مردانِ ہنرمند گھروں میں بیٹھ کر انگیٹھیاں اور چولھے بنانے میں مصروف رہیں، وہ بازیوں سے محفوظ ہوتے ہیں۔‘‘ بزرگوں سے یہ واقعہ سنا تو بے ساختہ غالب کا شعر یاد آ گیا:
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
دیہات ہوں یا شہر، سماجی و معاشرتی معاملات پہ نظر رکھنے والی کوئی اتھارٹی یا ذمہ دار افراد اور محکمے نہ ہوں تو معاشرہ بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ کمزور بے بس اور طاقتور منہ زور ہوجاتے ہیں۔ دانش مندی اور بہادری کا امتزاج اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجود ہو تو اس معاشرتی مرض کا علاج ممکن ہوتا ہے۔ ورنہ بدچلنی اور سینہ زوری معاشرے کا سرطان بن جاتی ہے۔ ہمارے گائوں کے بزرگ ہمارے دادا جان کے متعلق کئی واقعات کا اکثر تذکرہ کیا کرتے تھے۔ بیشتر واقعات میری پیدائش سے پہلے کے ہیں جو اپنے خاندانی بزرگوں کے علاوہ علاقے کے دیگر لوگوں سے بھی سننے کا موقع ملا۔ پرانے وقتوں میں جدید تعلیم یافتہ افراد شاذ و نادر ہی ہوتے تھے۔ ہمارے گائوں کے ایک پڑھے لکھے فرد جو شعبہ تعلیم میں ملازم تھے، اپنا پرانا مکان گرا کر نئے سرے سے تعمیر کررہے تھے، اُن کا گھر جس گلی میں واقع ہے، وہ پہلے سے ہی تنگ تھی۔ اسے تنگ گلی یا اندرونی گلی کہا جاتا تھا۔
موصوف منشی جی (ٹیچر کو ماسٹر یا منشی کہا جاتا تھا) نے اپنی دیوار گلی کی طرف مزید بڑھانے کی کوشش کی۔ ہمارے دادا جان گائوں کے اندر ایسے تمام معاملات پر نظر رکھا کرتے تھے۔ منشی جی کے گھر کی دوسری جانب بے چارے غریب اور غیر کاشت کار (جولاہے) لوگوں کے گھر تھے جو کھڈیوں میں کپڑا بُنا کرتے اور اپنی روزی کماتے۔ ان کے ذریعے دادا جان مرحوم کو اس واقعے کا علم ہوا تو فوراً موقع پر پہنچے اور مزدوروں، مستریوں کو کام سے روک دیا۔ منشی جی اندر سے آئے اور بحث مباحثہ شروع ہوگیا۔ دادا جان انھی دنوں حج کرکے واپس آئے تھے۔ منشی شرف دین صاحب کہنے لگے ’’کیا مکہ اور مدینہ والوں نے آپ کو یہ کہا ہے کہ جاکر لوگوں کے ذاتی کاموں میں رکاوٹ ڈالتے رہنا؟‘‘
اس کے جواب میں دادا جان نے فرمایا ’’ منشی صاحب! انھوں نے مجھے یہ بھی نہیں کہا کہ آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہنا، جو کسی کے جی میں آئے وہ کرتا پھرے، اپنی من مانی سے دوسروں کے حق چھینتا رہے۔ یہ میرا اخلاقی و دینی فرض ہے کہ میں کمزور لوگوں کے حقوق پر کسی طاقتور کو ڈاکہ نہ ڈالنے دوں۔‘‘ پس وہ دیوار اپنی اصلی جگہ پر چلی گئی اور جولاہا برادری کے غریب لوگوں نے بابا جی کا بہت شکریہ ادا کیا۔ اس طرح کے کئی واقعات ہیں، مگر طوالت کے خوف سے انھیں چھوڑتا ہوں۔
ہمارے گائوں میں جہاں تک مجھے معلومات ملی ہیں، قتل مقاتلے کا المیہ ایک مرتبہ کے سوا پوری تاریخ میں کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا۔ یہ سانحہ غیرت کے معاملے میں دو خاندانوں گورسی اور کھوکھر کے درمیان ہوا۔ یہ ہماری نوعمری کا واقعہ ہے جو دادا جان کی وفات کے کئی سال بعد رونما ہوا۔ مرحوم کی زندگی کا جو مختصر دور دیکھنے کی مجھے سعادت ملی، اس میں افراد یا برادریوں کے درمیان کوئی تنازع کھڑا ہوجاتا تو فریقین کو ہمارے بزرگ اپنی چوپال یا اپنے گھر میں بلا لیتے اور ان کے درمیان صلح کرا دیتے۔ ایک آدھ بار ایسا بھی ہوا کہ فریقین میں سے کسی ایک نے دوسرے کا قرض دینا ہوتا جو ادا کرنا اس کی سکت میں نہ ہوتا اور قرض خواہ معاف کرنے یا ڈھیل دینے پر بھی آمادہ نہ ہوتا، تو دادا جان غلّے کی صورت میں خود اس کی ادائیگی کرکے معاملہ حل کردیتے اور مقروض سے کہتے کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق جب ممکن ہو غلہ واپس کردے۔
میرے ایک رشتے دار جن کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں ہمارے ساتھ مل جاتا ہے، مجھے کئی مرتبہ ایک واقعہ بڑی محبت کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔ مرحوم نے بتایا کہ ان کے والد (جن کو ہم نے بھی بہت قریب سے دیکھا تھا) اپنی زمینوں پر کھیتی باڑی میں دلچسپی لینے کے بجائے سیر سپاٹے کے شوقین تھے۔ میں اکیلا بھائی اور دو بہنیں تھیں، تم اچھی طرح جانتے ہو۔ ہمارے معاشی حالات نے مجھے چھوٹی عمر میں ہل چلانے پر مجبور کردیا۔ اُن دنوں میں میری والدہ ضرورت کے وقت آپ کی پھوپھی سے مدد مانگتیں اور چولھا جلتا۔ اس زمانے میں ہندو آبادی جو ملحقہ گائوں جوڑا میں رہتی تھی، ضرورت مند لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتی تھی۔ میرے ماں باپ نے ایک بار ارادہ کیا کہ ان کھتریوں سے قرض لیا جائے۔ جب باپو فتح علی مرحوم کو اس بات کا پتا چلا تو آپ نے مجھے اور میرے ماں باپ کو اپنے پاس بلایا۔ (ان لوگوں کا گھر ہمارے گھر سے بالکل متصل جانب مشرق واقع تھا) باپو جی نے میری والدہ کی محنت و مشقت اور گھریلو معاملات کو سلیقے سے سنبھالنے اور چھوٹی عمر کے باوجود میرے ہل چلانے کی تحسین فرمائی۔ اس کے بعد میرے والد کی جو کلاس لی وہ یادگار تھی۔ اس ایک روز کی سرزنش اور سخت الفاظ میں لعن طعن نے ہمارے گھر کی قسمت بدل دی۔ میرے والد نے اب اپنی ذمہ داریوں کو سنبھال لیا اور خوب نبھایا۔ میں بھی ان کے ساتھ حسبِ معمول محنت و مشقت کرتا رہا۔ سود پر رقم لینے کے ارادے پر بابا جی اس قدر غصہ ہوئے کہ مجھے لگا وہ ہمارے باپ کی ٹھکائی کردیں گے، مگر سختی کے بعد انھوں نے پیار، محبت اور نرمی سے معاملہ سلجھا دیا۔ آپ نے ساتھ ہی کہا ’’جتنے غلّے اور پیسوں کی ضرورت ہے، وہ لے لو۔ خبردار! کبھی سود کا خیال دل میں نہ لانا۔ فصل پکنے پر جتنا ممکن ہو غلہ واپس کردو اور حالات درست ہوجائیں تو باقی قرض اتار دینا۔‘‘
’’حافظ جی! [متکلم عطا محمد بھائی مرحوم مجھ سے کئی سال بڑے تھے، مگر انتہائی احترام کے ساتھ مجھے حافظ جی کہہ کر ہی مخاطب کیا کرتے تھے۔ ]میرے جسم کارواں رواں اس عظیم بزرگ کا احسان مند ہے جس نے ہمیں بہت نیچے سے اوپر اٹھایا۔‘‘ بھائی عطا محمد اور ان کی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے خوشحالی سے مالامال کردیا ہے۔ مرحوم کے پانچ بیٹے تھے۔ ایک جوان بیٹا ان کی زندگی میں فوت ہو گیا، ایک ان کے ساتھ پاکستان میں مقیم ہے اور تین بیٹے یورپی ممالک میں رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ رہنے والے بیٹے کو اپنے ماموں میاں صبح صادق مرحوم کی مدد سے حلال کاروبار (بھٹہ خشت) میں اللہ نے بے پناہ برکت دی ہے۔ یہ عزیز اپنے مرحوم ماموں کا احسان ہمیشہ بیان کرتا اور ان کے لیے دعاگو رہتا ہے۔ اللہ ان سب کو سلامت رکھے اور مزید برکات سے نوازے۔ بھائی عطا کے مرحوم بیٹے اکرام محمد کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹا ماشاء اللہ قریبی شہر میں اپنا بزنس کرتا ہے جس میں وہ بہت کامیاب ہے۔ اللہ اس کو بھی خیروبرکت سے نوازتا رہے۔
بھائی عطا صاحب 2023ء میں نوّے سال کے قریب عمر پا کر فوت ہوئے۔ آخری ایام تک گائوں کی جامع مسجد میں پانچوں نمازوں کے لیے گھوڑوں کی چال چلتے ہوئے آتے۔ میں جب کبھی گائوں جاتا تو ان سے مسجد میں ملاقات ہوتی۔ وہ مل کر بہت زیادہ خوش ہوتے۔ حق تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ میرے نوجوان بیٹے ہارون کی وفات کے بعد مجھے جب بھی ملے، مرحوم کا تذکرہ کرکے آبدیدہ ہوگئے۔ ہارون بیٹے کی وفات کے آگے پیچھے ہی آپ کا اپنا بیٹا، ایک داماد، ایک بیٹی بھی جوانی ہی میں داغِ مفارقت دے گئے، مگر عجیب بات ہے کہ مرحوم ہارون کے تذکرے پر ان عزیزوں سے بھی زیادہ غمزدہ ہو جاتے۔
(جاری ہے)