نون لیگ اسٹابلشمنٹ کی بغل میں، پیپلزپارٹی سہولت کار
8 فروری 2024ء کے عام انتخابات بلوچستان میں بھی بڑے نرالے ثابت ہوئے ہیں۔ سخت الفاظ میں اظہار یہ ہوسکتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اکثر حلقوں میں کامیاب ہونے والوں کی جیت ہار میں بدل دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن، آر اوز اور ڈی آراوز نے ایسا صرف اور صرف اداروں کے کہنے اور دباؤ پر کیا ہے۔ گویا نتائج مقتدرہ نے اپنی خواہش اور ترتیب دی گئی اسکیم کے تحت مرتب کروائے ہیں۔ ملک پاکستان میں سرکار کا ادارہ دوسرے سرکاری اداروں اور انتظامیہ پر بالادست ہے کہ اُس کے پاس طاقت کے استعمال کا اختیار ہے۔ ستم یہ ہے کہ بلوچستان کے اندر پیپلز پارٹی سہولت کار بنی ہے، نواز لیگ بھی اسٹیبلشمنٹ کی بغل میں تھی، اور بی اے پی کی تو تشکیل ہی اس ادارے کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کی حکومت کو سلیکٹڈ کہا تھا اور یہ طعنہ بڑا معروف ہوا۔ عمران خان کے دوسرے ناقدین بھی یہی آوازہ کستے تھے۔ اب بلاول بھٹو زرداری سے سوال ہے کہ آیا وہ بلوچستان کے اندر پیپلز پارٹی کی جیت اور حکومت کو کیا نام دیں گے؟ جہاں پیپلز پارٹی کے متعدد امیدوار جو ایک ہزار سے زائد ووٹ نہیں لے سکے تھے اُنہیں جیتنے والے امیدواروں پر برتری دلاکر اسمبلیوں میں لایا گیا۔ عمران خان کی جماعت کا 2018ء میں بھی ووٹ بینک تھا اور 2024ء میں بھی اس جماعت نے تمام تر رکاوٹوں اور تخریبی حربوں کے باوجود نمایاں ووٹ حاصل کیے ہیں اور ووٹ کی پرچی کی قوت ثابت کردی ہے۔ یقینی طور پر بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور پیش ازیں امیدواروں کی کامیابی انٹیلی جنس اداروں کی کارستانی ہے، اور بلاشک و شبہ یہ حکومت سلیکٹڈ ہی ہے۔ سلیکٹڈ نہ ہوتی تو سرفراز بگٹی کی جگہ پیپلز پارٹی کا ہی کوئی بندہ وزارتِ علیا کی مسند پر بیٹھا ہوتا۔ سرفراز بگٹی کس کے نمائندے ہیں یہ عقدہ بلاول بھٹو اور اُن کے والد آصف علی زرداری پر اچھی طرح منکشف ہے۔ 2019ء میں ایوانِ بالا کی چیئرمین شپ کے فارمولے میں بھی پیپلز پارٹی شراکت دار تھی جس کے نتیجے میں ملک کو صادق سنجرانی کا تحفہ دیا گیا۔ صادق سنجرانی کس کے مہرے ہیں یہ امر بھی بلاول اور آصف زرداری سے اوجھل نہیں۔ میاں نوازشریف کا ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ بھی فریب ثابت ہوا ہے۔ بلوچستان کے اندر نون لیگ بدنما چہرے کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ چناں چہ اب صوبے کے اندر طاقت کا استعمال ہوگا۔ خواہش کے مطابق معدنیات کی سودے بازیاں ہوں گی۔ اقربا پروری کا دور دورہ ہوگا۔ پی ایس ڈی پی کی بندر بانٹ ہوگی۔ بدعنوانیاں ہوں گی۔ سول اداروں اور محکموں پر مقتدرہ کی گرفت مزید سخت ہوجائے گی۔ پیپلز پارٹی کے وہ ارکانِ اسمبلی جو خود کو حقیقی جیالے سمجھتے اور گردانتے ہیں سرفراز بگٹی کے وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر بھٹائے جانے پر ششدر رہ گئے ہیں۔ بعض نے کہا کہ نظریات، جمہوریت اور پارٹی کچھ نہیں، بوٹ پالش کی سیاست کامیاب ہے۔ پیپلز پارٹی کی صفوں کے اندر منشیات اسمگلروں کو جگہ دے کر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں دلوائی گئی ہیں۔ ادارے جو ملک کے تحفظ اور مفاد کے بڑے دعوے دار ہیں اس سیاہ عمل کے سرخیل ہیں۔ بے بسی ایسی کہ الیکشن کمیشن، آر اوز اور ڈی آراوز کی اس کھلی خیانت پر کوئی ادارہ بازپرس کرنے والا نہیں، نہ ہی کسی کو جرأت ہے۔ وگرنہ فارم 45 اس سراسر دھاندلی کا اظہار کررہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کی کوئٹہ کی تقریباً سبھی نشستوںپر جیتنے والوں کی جیت شکست میں بدل دی گئی ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 264 پر سردار اختر مینگل کو ہرواکر پچیس سالہ نوجوان جمال رئیسانی کو جتوایا گیا جو ایک ہزار سے زائد ووٹ بھی نہیں لے سکے لیکن انہیں ہزاروں ووٹوں کا حامل ٹھیرایا گیا۔ این اے 263 پر محمود خان اچکزئی اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سالار کاکڑ نمایاں تھے، لیکن نون لیگ کے جمال شاہ کاکڑ اٹھا کر کامیاب کرائے گئے۔ این اے 262 پر جے یو آئی کے ملک سکندر ایڈووکیٹ کا راستہ روکا گیا۔ مقابلے میں ایک نوجوان عادل بازئی کامیاب ہوئے۔ عادل بازئی نے پی ٹی آئی کا ماسک پہنا اور عمران خان کے شیدائیوں کا ووٹ حاصل کیا،لیکن ہیں اسٹیبلشمنٹ کے فرماں بردار۔ غرض ایسے تماشے چند انتخابی حلقوں کو چھوڑ کر اکثرحلقوں میں دیکھنے کو ملے ہیں۔ اس بدنما عمل میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) برابر کی شریک رہی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام بھی بری الذمہ نہیں۔ پشین کی دونوں ہاری ہوئی صوبائی نشستوں پر اس کے لوگوں کو دھاندلی سے کامیاب کرایا گیا۔ مولانا عبدالغفور حیدری بھی قومی اسمبلی کی نشست پر دھاندلی سے کامیاب کرائے گئے۔ خود جے یو آئی کے پی بی 36 قلات کے امیدوار سعید لانگو غفور حیدری کے کرتوت کی گواہی دے چکے ہیں۔ سعید لانگو جیتے ہوئے تھے، اُن پر بی اے پی کے ضیاء اللہ لانگو کو سبقت دی گئی۔ ضیاء لانگو معلوم طور پر مقتدرہ کے تابع دار ہیں۔ سرفراز بگٹی کی طرح ضیاء لانگو نے بھی پی ڈی ایم اے کے فنڈز پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ پی ڈی ایم اے کا ادارہ اس وقت بدعنوان ترین ادارہ ہے جہاں اربوں روپے شیر مادر کی طرح نوش ہوجاتے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے اندر بڑے اور چھوٹے سب آفیسر خوردبرد میں لگے ہیں، مگر آڈٹ اور بازپرس کہیں سے نہیں ہورہی۔ نیب کا ادارہ خود بد عنوانی کا شکار ہے۔ نیب سے سیاسی انتقام کا کام لیا جاتا ہے۔ اب گوادر شہر سیلاب میں ڈوب چکا ہے۔ یہ آفت بھی خور و نوش کا ذریعہ بن گئی ہے۔ پی ڈی ایم اے کے لیے ہر آفت عید سے کم نہیں ہوتی کہ مال و دولت بٹورنے کے نئے مواقع ہاتھ آجاتے ہیں۔ صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی ہے، سو پیپلز پارٹی کا دوسرا نام بدعنوانی ہے۔
آنے والے دنوں میں سینیٹ آف پاکستان کے انتخابات ہوں گے۔ بلوچستان کے اندر ان انتخابات میں نئی کہانیاں بنیں گی۔ دوسرے صوبوں سے لوگ لاکر یہاں سے کامیاب کرائے جائیں گے۔ باقی ووٹوں کی خرید و فروخت تو عام سی بات ہے۔ بربادی اور اتھل پتھل کے اس ماحول میں چارہ گر کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طور برائیوں میں حصہ دار ٹھیر چکی ہیں، وگرنہ نظریات اور اصولوں پر قائم ہوں تو ان برائیوں کا مقابلہ اور تدارک کارِ گراں ہرگز نہیں ہے۔ جمعیت علمائے اسلام دُہرا کھیل کھیل رہی ہے۔ پشتون خوا میپ، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت کئی جماعتیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل تھیں، اور پی ڈی ایم مقتدرہ کی کٹھ پتلی تھی جو اس کے اشاروں پر نقل و حرکت کرتی رہی۔ اسی مقتدرہ نے جے یو آئی، پشتون خوا میپ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کو ڈس لیا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو جیسے نشئی شخص کو دو مرتبہ وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر بٹھانے کے مقتدرہ کے کھیل میں سردار اختر مینگل کی جماعت نے ساتھ دیا۔ اب سیاسی جماعتیں خواہ کتنے ہی جتن کرلیں مقتدرہ اپنے لوگوں کو اقتدار کے ایوانوں تک لے جانے کا راستہ بنا چکی ہے۔ اب سیاسی جماعتیں اپنے وجود کی فکر کریں۔ عبدالخالق اچکزئی پی بی 51 چمن سے کامیاب کرائے گئے اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی مقرر کیے گئے۔ پیپلز پارٹی کی غزالہ گولہ ڈپٹی اسپیکر بنیں۔ سرفراز بگٹی نے 2 مارچ کو حلف اٹھالیا۔ وہ غیر منظم، غیر یکسو حکومت کے سربراہ ہیں۔ یہ آپس میں اکٹھے رہیں گے۔ ظاہر ہے الجھنے کا سبب مالی فوائد اور ترقیاتی منصوبوں میں حصہ داری ہوگی۔ سول سرونٹس وزراء اور اراکین اسمبلی کے تابع ہوں گے۔ بد عنوانیوں اور بدمعاشیوں کا راج ہوگا۔ حکومتی عمل داری اور اچھی حکمرانی کا ستیاناس ہوگا۔ ترقی اور خوشحالی کے نام پر بدقسمت بلوچستان کا بد ترین استحصال ہوگا۔
انتخابات کے اس تماشے کے بعد سخت گیر سوچ کی حامل تنظیموں کے بیانیے کو تقویت ملی ہے۔ بلوچ افراد بالخصوص نوجوان یہ اخذ کرچکے ہیں کہ پارلیمانی سیاست ان کی بربادی اور افلاس کا ذریعہ ثابت ہوچکی ہے۔جو یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں قومی جماعتوں کو پذیرائی ملی ہے وہ گمراہ ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست ترک کرنے کا بیانیہ معروف ہوا ہے۔