منافقت کی ایک نئی قسم!

یقین کیجیے اسلام کو مسلمانوں کے سوا کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بڑا دشمن وہ نہیں ہوتا جو خارج میں وجود رکھتا ہو، بلکہ بڑا دشمن وہ ہوتا ہے جو ہمارے اپنے درمیان ہو۔ یہود و ہنود اسلام کے لیے ایک خارجی حقیقت ہیں، جب کہ مسلمان ایک داخلی حقیقت… کیوں کہ وہ عمل پیدا کرتے ہیں، اسلامی عمل۔ یہ عمل ردعمل کی ہزار صورتیں پیدا کرتا ہے۔ عمل اور ردعمل کے یہی سلسلے ہمارے ذہنی سانچے اور روّیوں کی تشکیل کرتے ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں بھی اسلام کو مسلمانوں نے ہی نقصان پہنچایا ہے… منافق مسلمانوں نے۔ آج ایک بار پھر اسلام منافق مسلمانوں کے گھیرے میں ہے۔ کم سے کم پاکستان میں یہ گھیرا روز بہ روز تنگ ہوتا جارہا ہے، بلکہ بہت سی جگہوں پر تو شاید یہ تنگ ہوکر حلقہ بن چکا ہے۔

منافقوں کی مذہبی اعتبار سے جو تعریف کی گئی ہے، قارئینِ فرائیڈے اسپیشل کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس سے آپ مجھ سے زیادہ اچھی طرح واقف ہوں گے۔ مگر ہمارے معاشرے میں منافقت کی ایک نئی قسم بڑی پھل پھول رہی ہے مگرآنکھوں سے اوجھل ہے۔ منافقت کی یہی قسم آج ہمارا موضوع ہے۔

پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر ہر بات پر ’ہاں‘ کہنے والوں کا معاشرہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہ ’ہاں‘ نکاح کی ’ہاں‘ کی طرح گمبھیر تو ہے مگر مقدس نہیں۔ معاشرے کا ہر گروہ اپنے ارکان سے مکمل ہاںکا طالب ہے، حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ مکمل اتفاق مکمل تردید کے مترادف ہوتا ہے، بلکہ تردید کیا تکذیب کے مترادف۔ مکمل ہاں کہنے والے کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک ہاں کہنے والے وہ ہوتے ہیں جو کسی بات یا کسی حکم کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ لوگ اپنی لاعلمی کی بنیاد پر ہاں کہنے والے ہوتے ہیں، ان سے شکوہ کرنا دراصل خدا سے شکوہ کرنے کے مترادف ہے۔ ایک ہاں کہنے والے وہ ہوتے ہیں جن پر جذبات اور عقیدت کا غلبہ ہوتا ہے۔ ان سے صرف یہ شکوہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیت کے باوجود عمل کی سمت کی درستی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ ایک ہاں کہنے والے وہ ہوتے ہیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے دنیاوی مفادات کے تحفظ کے لیے ہاں کہتے ہیں۔ ان میں بھی کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں انتخاب کے مواقع حاصل نہیں ہوتے، انہیں بددلی کے ساتھ معاف کیا جاسکتا ہے۔ مگر ان میں ایک ہاں کہنے والے وہ بھی ہوتے ہیں جنہیں انتخاب کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ہاں کہنے والوںکی مکروہ ترین شکل ہے، اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی تعداد دن بہ دن ہمارے معاشرے میں بڑھتی جارہی ہے۔ یہ ہر تنظیم، ہر گروہ اور ہر ادارے میں موجود ہیں۔ یہ سیاست دانوں، مذہبی تنظیموں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں… غرض کہ ہر طبقۂ فکر میں موجود ہیں۔ ذرا اپنے اطراف و اکناف پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیے۔ جی ہاں یہی ہیں وہ۔

سوال یہ ہے کہ وہ ’ہاں‘ جس کے بیان کے سلسلے میں ہم نے مذمتی انداز اختیار کیا ہے آخر اس کی برائی کیا ہے؟

یہ لوگ دراصل ہاں کہہ کر خیال کے منطقی ارتقا کو روک دینے کا سبب بنتے ہیں جس کی وجہ سے خیال ادھورا رہ جاتا ہے۔ ادھورے خیال سے ادھورا عمل پیدا ہوتا ہے۔ یہ لوگ مسلسل اور مکمل ہاں کے ذریعے رائے دینے والے کی انا کو بناتے ہیں۔ اگر رائے دینے والا یہ شخص اجتماعی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے دائرے پر بھی اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اس کی اَنا اس عمل کے نتیجے میں جیسے جیسے موٹی ہوتی جائے گی اس کے خیالات اور عمل کی خوب صورتی اور تقدیس بھی ویسے ویسے زائل ہوتی چلی جائے گی جو کہ ایک اجتماعی معاشرتی نقصان ہوگا۔ اس اعتبار سے ہاں کہنے والا رائے دینے والے کے خلاف ایک سازش ہے۔

ہاںکہنے کا سب سے بڑا نقصان ہاں کہنے والے کی اپنی ذات سے وابستہ ہے۔ قبولیت کی عدم موجودگی اور انتخاب کی سہولت دستیاب ہونے کے باوجود محض اپنے چھوٹے چھوٹے دنیوی مفادات کے تحفظ کی غرض سے ہاں کہنے کا مطلب اپنی روح کو فروخت کرنا ہے۔ روح کیا ہے؟ اس کے مختلف جوابات ہیں۔ سائنس دان اسے توانائی یا انرجی کہتے ہیں۔ جدید عہد کے اجتماعی طرزِ احساس سے پوچھیے گا تو وہ کہے گا کہ روح دراصل پیٹ ہے۔ خالقِ کائنات کا فرمان ہے کہ روح امرِ ربی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایسے افراد امرِ ربی کو فروخت کرنے والے ہیں۔

مسلسل ہاں کہنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان میں ’نہیں‘ کہنے کی صلاحیت سرے سے ختم ہوجاتی ہے اور اس کی ذات جمود کا شکار ہوکر ایک ایسے عمل کو پیدا کرتی ہے جس میں مثبت کیا، منفی پہلو بھی نہیں ہوتا۔ یہ ایک حرکتِ محض ہوتی ہے جس کی کوئی سمت، کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ میرا احساس کہتا ہے کہ شر اسی حرکتِ محض کا نام ہے۔ چوں کہ اس خیال کے سلسلے میں ہمارے مذہب کے بعض تصورات موجود ہیں، اس لیے مجھ جیسا جاہل شخص اپنی رائے کی درستی پر رتی برابر اصرار نہیں کرتا۔

اجتماعی نفسیات کا معاملہ چوں کہ انفرادی نفسیات سے مختلف ہوتا ہے، اس لیے جب کوئی معاشرہ اختلاف یا ’نہیں‘ کے عمل سے عاری ہونے لگتا ہے تو پھر اس میں مخالفت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اختلاف اور مخالفت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اختلاف کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایک دوسرا موجود ہے جس سے اختلاف کیا جارہا ہے۔ جب کہ مخالفت کے معنی یہ ہیں کہ صرف میں موجود ہوں دوسرا کوئی موجود نہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ ہم چاہے جتنی بار کہیں، دوسرا تو ہے۔ تو جب ایسے معاشرے میں فرد کو دوسرے کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے تو وہ اس دوسرے کو ختم کرنے پر تل جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک، دوسرے کو ختم کردینے پر تلا ہوا ہے، لیکن ہم نہیں جانتے کہ ہماری معنویت دوسرے کے ہونے سے ہے۔ دوسرا نہیں تو ہم بھی نہیں۔

اختلاف (مخالفت نہیں) کائنات کی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ کائنات میں تنوع ہے۔ اختلاف بھی تنوع ہی کی ایک شکل ہے۔ جب آپ کسی سے اختلاف کرتے ہیں تو اس سے خیال میں ایک تنوع وجود میں آتا ہے، پھر اس اختلاف سے بھی اختلاف ہوتا ہے تو تنوع کی ایک اور صورت پیدا ہوتی ہے۔ اختلاف دراصل خیال کو ایک نئی جہت دینے کا نام ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ اختلاف کرتے ہوئے کسی کو مکمل طور پر بھی رد کردیتے ہیں تو یہ بھی اس خیال کو ایک نئی جہت دینے کے مترادف ہوتا ہے، کیوں کہ نیا خیال پرانے خیال کے نتیجے میں ہی پیدا ہوتا ہے، اگر پرانا خیال نہ ہوتا تو نیا خیال بھی نہ ہوتا۔ ممکن ہے ہمارے تمام موجودہ خیالات کسی ایک عظیم خیال (Great Idea) کی مختلف جہتیں ہوں۔ کیا واقعی کوئی گریٹ آئیڈیا موجود ہے؟ اور ہے تو وہ کیا ہے؟ کوئی ہے بتانے والا؟ کوئی مذہب کا عالم، کوئی فلسفے کا ماہر…!

اپنی ہر بات سے کامل اتفاق، اور اپنے ہر عمل میں مکمل شرکت کا مطالبہ کرنے والوں سے یہاں یہ پوچھنا بے جا نہ ہوگا کہ آخر کیوں کوئی آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرے؟ اور کیوں کوئی آپ کے عمل میں مکمل شرکت کرے؟ اور وہ بھی اس صورت میں کہ اسے آپ کی رائے اور عمل سے اتفاق نہ ہو۔

ہمارا مذہب کہتا ہے کہ ہر شخص اپنا جرم خود بھگتے گا۔ اس کے عذاب میں کوئی کسی کا حصے دار نہیں ہوگا۔ چنانچہ جب آپ کسی کے جرم کے عذاب میں اس کے حصے دار نہیں ہوسکتے تو کوئی کیوں آپ کی غلط رائے سے اتفاق اور غلط عمل میں شرکت کرے، اور اس شرکت کے نتیجے میں جہنم کمائے؟ اور آپ کو کسی سے یہ مطالبہ کرنے کا کیا اخلاقی حق حاصل ہے؟

خیر کسی اور کی بات تو کیا کہوں، میں خود چاہتا ہوں کہ لوگ میری رائے سے اتفاق کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ میں اتفاق سے زیادہ اختلاف کا خواہش مند رہتا ہوں۔ مگر جب کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ لوگ میری رائے سے اتفاق کریں تو اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر لوگوں نے خلوصِ نیت کے ساتھ سہی، میری رائے سے اتفاق کیا اور اس کے نتیجے میں کوئی عمل بھی کیا، اور فرض کریں کہ میری رائے غلط ہوئی تو اُن کے عمل کا ادبار مجھ پر بھی پڑے گا۔ یہ خیال آتا ہے تو کچھ بھی لکھنے کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ مگر پھر یہ خیال دل کو تقویت دیتا ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے بدنیتی کے ساتھ نہیں لکھا۔ اس میں خلوص شامل ہے، اور اتنا فہم بھی کہ جتنا مجھے میرے بنانے والے نے دیا ہے۔ نیت ٹھیک ہے تو عمل بھی ٹھیک ہی ہوگا۔

اس سلسلۂ کلام کے آخر میں ایک بات عرض کرنا تھی، اور وہ یہ کہ اس ملک کے شاعروں، ادیبوں، دانش وروں اور صحافیوں وغیرہ سے تو خیر کیا البتہ مذہب کے لیے خلوصِ نیت سے کام کرنے والوں سے ضرور یہ کہنا ہے کہ تجربہ اور مشاہدہ یہ بتا رہا ہے کہ آپ کی صفوں میں ایسے لوگ گھس چکے ہیں۔ اگر آپ ان سے ناواقف ہیں تو آپ کی لیاقت مشکوک ہے، اور اگر آپ ان سے واقف ہیں اور پھر بھی خاموش ہیں تو پھر آپ کی نیت بھی مشکوک ہے۔ یاد رکھیے یہ عناصر آپ سے مکمل اتفاق کرکے آپ کی مکمل تردید کررہے ہیں، اور اگر خدانخواستہ خود آپ کے اندر یہ خواہش پیدا ہوچکی ہے کہ آپ سے ہر قیمت پر مکمل اتفاق کیا جائے توآپ کی پیروی تو شیطان کی پیروی ہے کہ وہ پہلا وجود ہے جس کی اَنا نے مریضانہ مزاج کی انتہا کو چھوا۔