رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ آپؐ رمضان کی آمد اور استقبال کی تیاری پہلے سے ہی شروع کردیتے تھے۔ جیسے ہم کسی خاص مہمان کی آمد سے پہلے گھر کو صاف کرتے ہیں، انواع و اقسام کے لوازمات تیار کرتے ہیں، مہمانوں کی خاطر مدارات کا اہتمام کرتے ہیں، مہمان کے لیے عزت و احترام اور تکریم سے خود کو منور کرتے ہیں تاکہ آنے والا مہمان ہم سے راضی اور خوشی سے رخصت ہو، اسی طرح رمضان المبارک بھی ایک خاص مہمان ہے۔ جیسے آنے والے خاص مہمان میزبان کے لیے تحائف لاتے ہیں، اسی طرح رمضان المبارک اپنے ساتھ رحمتوں، برکتوں، نعمتوں اور دوزخ سے نجات کا پروانہ لیے قیمتی تحائف کی صورت میں روزہ داروں کے لیے آتا ہے۔ اور رمضان المبارک جیسے خاص مہمان کے لیے ہمیں روزہ، تراویح، نوافل، تلاوتِ قرآن، حقوق العباد اور حقوق اللہ کی پیروی کرکے اللہ تعالیٰ کے اس مہمان کو راضی کرنا چاہیے، اپنا ایک ایک لمحہ مہمان کو خوش کرنے میں لگا دینا چاہیے تاکہ جب مہمان رخصت ہو تو ہمیں دوزخ سے نجات اور جنت میں جانے کا ٹکٹ تھمایا جائے۔
حضرت سلمان فارسیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ دیا اور فرمایا:
’’لوگو! تم پرعظمت اوربرکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے، ایسا مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزارمہینوں سے بہتر ہے، اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیے ہیں اور اس کی راتوں کا قیام نفل ہے، جس نے بھی اس مہینے میں نیکی کی، وہ ایسے ہے جس طرح عام دنوں میں فرض ادا کیا، اور جس نے رمضان میں فرض ادا کیا گویا کہ اس نے رمضان کے علاوہ ستّر فرض ادا کیے۔ اور رمضان صبر کا مہینہ ہے، صبر کا اجر جنت ہے، یہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس میں کسی روزہ دار کا روزہ کھلوا دے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے، اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اس روزہ دار کے لیے روزہ رکھنے کا ہے۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق میسر نہیں کہ کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ یہ اجر اُس شخص کو بھی دے گا جو کسی روزہ دار کو دودھ کی لسی سے روزہ کھلوادے یا ایک کھجور کھلادے، اور جو شخص کسی شخص کو پیٹ بھر کر کھانا کھلادے تو اللہ اسے حوضِ کوثر سے پانی پلائے گا، پھر اسے پیاس محسوس نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔‘‘ (شعب الایمان)
رمضان المبارک امتِ محمدیہ کے لیے ایک انمول تحفہ ہے، ایک عظیم دولت ہے، ایک خزانۂ رحمت ہے۔ اس بابرکت مہینے کا ہر پل مسلمانوں کے لیے بخشش کا ذریعہ ہے۔ رمضان المبارک کا ہر عشرہ روزہ داروں کے لیے خیر و برکت کا باعث ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’رمضان المبارک کے آغاز میں رحمت، وسط میں مغفرت اور آخر میں دوزخ سے رہائی ہے‘‘۔
رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اس کے استقبال کی تیاری شروع کردیں۔ ابھی سے یہ نیت کرلیں کہ آپ کو اس رمضان المبارک میں اپنے گناہوں کو معاف کروانا ہے، اللہ کو منانا ہے۔ وہ کوتاہیاں جو ہم پورا سال کرتے ہیں اس بابرکت مہینے میں ان سب سے خود کو دور رکھنا ہے، روزانہ کسی روزہ دار کو روزہ افطار کروانا ہے، اپنے روزے میں اخلاص اور تقویٰ پیدا کرنا ہے، روزے کا مقصد حاصل کرنا ہے، اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا ہے۔ پچھلے رمضان میں جو نیک اعمال نہیں کرسکے تھے اِس سال وہ سب اعمال کرنے ہیں، زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے کھلے دل سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ اللہ کے اس مہمان کو راضی و خوشی رخصت کرنا ہے تاکہ جب یہ مہمان رخصت ہو تو اللہ کے حضور پیش ہوکر ہماری شکایتیں نہ لگائے بلکہ ہم سب کا نام لے لے کر اللہ سے ہماری تعریفیں کرے۔
رمضان المبارک اپنی زندگی کو بدلنے، اس کو سمجھنے، اسے صراطِ مستقیم پر آگے بڑھانے کا ایک موقع ہے۔ یہ صرف اور صرف قرآن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگر آپ کو زندگی عزیز ہے، اگر آپ کو زندگی میں کامیابی مطلوب ہے، اگر آپ کو زندگی میں پاکیزگی حاصل کرنے کی خواہش ہے، اگر آپ کو اِس زندگی میں اللہ تعالیٰ کی ضمانت چاہیے تو رمضان المبارک کو پانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ اللہ تعالیٰ کی خوشی کے لیے اپنی زندگی تبدیل کرنے پر آمادہ ہیں، اپنی زندگی کو بدلنے کے لیے تیار ہیں تو رمضان المبارک آپ کی مدد کے لیے اللہ کی طرف سے آچکا ہے۔ اس رمضان المبارک کو رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر اپنی زندگی بدلنے کے لیے وقف کردیجیے۔ رمضان المبارک کو تھام لیں، اس کو اپنی گرفت میں لے لیں، اس میں خود بس جائیں، اس کی ہوائوں پر سوار ہوجائیں، اس کی خوشبوئوں میں ڈوب جائیں۔ رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں، اس کے روزوں سے، اس کی تراویح، تلاوتِ قرآن سے، اس کی عبادت و معمولات سے، اس کی راتوں سے اور اس کے دنوں سے تقویٰ کی قوت اور استعداد حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
اعتکاف اور شب قدر کا اہتمام کریں۔ یہ وہ مبارک رات ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ یہ رات اپنی قدر و قیمت کے لحاظ سے بڑی قیمتی رات ہے اور ہزاروں مہینوں اور ہزاروں سالوں سے بہتر ہے۔ جو اس رات میں قیام کرے اس کو سارے گناہوں کی مغفرت کی بشارت دی گئی ہے۔ ہر رات کی طرح اِس رات میں بھی وہ گھڑی ہے جس میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، اور دین و دنیا کی جو بھلائیاں مانگی جائیں وہ عطا کی جاتی ہیں۔ اس کو پوشیدہ رکھنے کا راز یہ ہے کہ آپ اس کی جستجو اور تلاش میں سرگرداں رہیں، محنت کریں، اپنی آتشِ شوق کو جلتا رکھیں۔
آخری عشرے کی ہر طاق رات میں اسے تلاش کریں، اگر ہمت و حوصلہ ہو تو پھر آپ آخری عشرے میں اعتکاف بھی ضرور کریں۔ اعتکاف قلب و روح، مزاج و انداز اور فکر و عمل کو للہیت کے رنگ میں رنگنے اور ربانیت کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔ اس طرح شب قدرکی جستجو کا کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اعتکاف کیا اور اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ حضرت عائشہؓ بتاتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے، راتوں کو جاگتے، اپنے گھر والوں کو جگاتے اور اتنی محنت کرتے جتنی کسی اور عشرے میں نہ کرتے۔ (بخاری و مسلم)
اپنے لیے مغفرت، نیکی، صحت، خوش حالی، رزقِ حلال اور اس میں برکت و ترقی کے دعائیں کیجیے۔ اس کے ساتھ پاکستان کی خوش حالی، استحکام اور یہاں اسلامی نظام کے قیام کی دعائیں ضرور مانگیں۔ پورے عالمِ اسلام کے لیے دعائے خیر کیجیے۔ خاص طور پر کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ مجاہدینِ کشمیر کو جلد از جلد فتحِ مبین عطا فرمائے اور بھارت کے مظلوم مسلمان ہندوئوں کے ظلم و ستم سے نجات پائیں، اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمان پریشان حال ہیں، پریشانیوں سے نجات پائیں۔ خصوصاً فلسطین میں اسرائیل کے مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ اللہ اہلِ فلسطین کی مدد کرے اور ان کو ہمت اور حوصلہ دے، اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ حق کے لیے مضبوط مؤقف اختیار کرسکیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو پکا مسلمان اور مومن بنائے، اور ہم اس کے پسندیدہ بندے بن جائیں، آمین یارب العالمین۔