غزہ: بموں اور میزائلوں کی بارش میں رمضان کی آمد

باوردی امریکی فوجی کی ”خودسوزی“

جب یہ سطور آپ تک پہنچیں گی، مسلمانانِ عالم رمضان کی برکتوں سے مستفید ہونے کی تیاری کررہے ہوں گے۔ اہلِ غزہ بے چارے7 اکتوبر سے کھجور اور چند گھونٹ پانی پر ’سحر و افطار‘ کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے عالمی ادارۂ صحت (WHO)نے یہ روح فرسا خبر سنائی کہ غزہ کے دس بچے بھوک و پیاس سے دم توڑ گئے۔ ادارے نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ خوراک کی قلت سے مرنے والوں کی تعداد میں ہر روز مزید اضافہ ہوگا۔

دنیا یہ مظالم دیکھ رہی ہے، اس پر افسوس اور گریہ و زاری کا عمل بھی نظر آرہا ہے، لیکن دستِ قاتل کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش اب تک سامنے نہیں آئی، حتیٰ کہ ظلم کا بچشمِ خود مشاہدہ کرنے والے بھی جنگ بندی کے مطالبے سے گریزاں ہیں۔ اسرائیل سے مرعوب امریکی سیاست کا عبرت ناک مشاہدہ چند روزپہلے ہوا جب امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے 6 اراکینِ کانگریس نے اسرائیل سے واپسی پر ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ’’وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو فلسطینی زندگیوں کو نظرانداز کرکے غزہ کی ’مکمل تباہی‘ کے درپئے نظر آرہے ہیں‘‘۔ ایوان کی مجلس قائمہ برائے تفویض و تخصیص (Appropriation) کی سینئر رکن محترمہ روسا ڈیلیرو کی قیادت میں اس وفد نے غزہ کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ بیان میں بہت وضاحت سے نیتن یاہو کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکامی کا براہِ راست ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے، لیکن ستم ظریفی کہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی امریکہ کے ان لال بجھکڑوں نے مکمل جنگ بندی کے بجائے لڑائی میں 6 ہفتے کے وقفے کا مطالبہ کیا تاکہ قیدیوں کا تبادلہ ممکن ہوسکے، یعنی 25 لاکھ فلسطینیوں پر 100 قیدی بھاری ہیں۔

غزہ آنے کے تمام راستوں پر اسرائیلی انتہا پسند دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ رفح مصر سرحد پر تلاشی کا نظام اتنا سست ہے کہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 15 ٹرکوں کو غزہ آنے کی اجازت مل پاتی ہے۔ جہاں 20 لاکھ افراد بھوک پیاس کا شکار ہوں وہاں پندرہ ٹرکوں سے کتنے لوگوں تک چند گھونٹ پانی پہنچ سکتا ہے! اسرائیلیوں کی کٹھور دلی کا یہ عالم ہے کہ انھیں ان پندرہ ٹرکوں کا آنا بھی قبول نہیں۔

جمعرات 29 فروری کو شمالی غزہ میں امدادی راشن کے لیے جمع ہونے والے بھوکے پیاسے شہریوں کو اسرائیلی فوج نے گھیر کر چاروں طرف سے فائرنگ شروع کردی، یا یوں کہیے کہ جلیانوالہ باغ کی تاریخ دہرا دی گئی۔ نہتے لوگوں کو ڈرون سے بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس وحشیانہ کارروائی میں خواتین اور شیرخوار بچوں سمیت 130 افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے پہلے تو بھگدڑ کو ان اموات کا سبب قرار دیا، لیکن جب اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے بصری تراشے جاری کیے تو تل ابیب نے مؤقف تبدیل کرلیا اور کہا کہ ہجوم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’دہشت گردوں‘‘ نے ٹینکوں کو گھیر لیا اور فوج نے اپنے دفاع میں گولی چلائی۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ اکثر لاشوں میں 6 سے زیادہ گولیاں پیوست پائی گئیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مجمع پر بہت قریب سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔ امریکی صدر نے اس واقعے پر گہرے رنج کا اظہار کیا لیکن اس بھیانک واقعے پر سلامتی کونسل کی مذمتی قرارداد ویٹو کی دھمکی دے کر رکوا دی۔ الجزائر کی پیش کردہ اس تحریک کی امریکہ کے سوا تمام کے تمام ارکان نے حمایت کی تھی۔

اس بھیانک واقعے کے دوسرے روز ایک مزاحیہ فنکار کے ساتھ آئس کریم چاٹتے ہوئے امریکی صدر نے غزہ امن کی ’’نوید‘‘ سنادی۔ موصوف بہت اعتماد سے بولے کہ 10 مارچ تک جنگ بندی ہوسکتی ہے۔ فرمایا کہ وہ ’’احترامِ رمضان‘‘ میں 6 ہفتے کے لیے جنگ بندی کے خواہش مند ہیں تاکہ اہلِ غزہ رمضان کے روزے اطمینان سے رکھیں، عید منائیں اور اس دوران قیدی بھی رہا کردیے جائیں۔ زمینی حقائق سے بے خبر بائیڈن نے ’’رمضان امن پیکیج‘‘ کی رونمائی اس شان سے فرمائی جیسے یہ امریکی خارجہ پالیسی کا بڑا کارنامہ ہے۔ صدر بائیڈن اور گوری دنیا کو غزہ قتل عام پر فکرو پریشانی صرف اس لیے ہے کہ اس کے نتیجے میں زیرحراست اسرائیلی قیدیوں کی زندگی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ اسی لیے وہ مسلسل عارضی جنگ بندی کی تجویز دے رہے ہیں تاکہ اس دوران قیدی رہا ہوجائیں، جس کے بعد بلا سے اسرائیل ہلاکت خیز بمباری دوبارہ شروع کردے۔

عین اُس وقت جب آئس کریم کے مزے لیتے ہوئے موصوف امن کی جگالی فرما رہے تھے، اہلِ غزہ نے اعلان کیا کہ مکمل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی ان کی بنیادی شرط ہے جس کے بعد ہی قیدیوں کے تبادلے پر بات ہوسکتی ہے۔ اسرائیلی خبر رساں اداروں نے بھی اہلِ غزہ کی جانب سے پیرس امن تجاویز مسترد کردینے کی تصدیق کی ہے۔

جہاں امریکی قیادت بے حسی کی انتہا پر ہے، وہیں امریکی فضائیہ کے ایک باوردی افسر نے ضمیر کی خلش مٹانے کے لیے دارالحکومت واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے خود کو آگ لگالی۔ پیٹرول سے شرابور جسم کو دیا سلائی دکھانے سے پہلے اس نے کہا ’’میں غزہ نسل کُشی میں سہولت کار نہیں رہ سکتا اور اس ظلم پر شدید احتجاج کرتا ہوں‘‘۔ شعلوں میں گھرا یہ شخص ’’فلسطین کو آزاد کرو‘‘ کا نعرہ لگاتا رہا۔ پولیس اور فائربریگیڈ کے عملے نے آگ بجھا کر اُسے اسپتال پہنچا دیا، جہاں یہ 25 سالہ اہلکار آرون بشنیل (Aaron Bushnell) زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔ بشنیل امریکی فضائیہ کے محکمہ سراغ رسانی میں تھا اور اسے غزہ کے بارے میں اہم معلومات تک رسائی تھی۔ سوشل میڈیا پر اس نے کہاکہ ’’امریکہ کی پشت پناہی میں اسرائیلی فوج نہتے اہلِ غزہ پر جو ظلم ڈھارہی ہے اسے بیان کرنا میرے بس میں نہیں۔ ضمیر کی خلش مجھے سونے نہیں دیتی، میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ انسان ایسا وحشی بھی ہوسکتا ہے! اگر میں مزید زندہ رہا تو پاگل ہوجائوں گا، اس لیے اپنی زندگی ختم کررہا ہوں۔‘‘

مظالم کی انتہا اور اسرائیلی جرنیلوں کی جانب سے فتح کی نوید کے باوجود زمین پر عسکری صورتِ حال فلسطینیوں کے لیے مایوس کن نہیں۔ امریکی سراغ رساں اداروں کی رپورٹ کے بعد سینیٹ کی مجلسِ قائمہ برائے سراغ رسانی کے سربراہ سینیٹر مارک ورنر نے امریکی ٹیلی ویژن NBC کو بتایا کہ ’’غزہ سرنگ نیٹ ورک کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کو کلیئر کیا گیا ہے۔ جن سرنگوں کو اسرائیلی مکمل طور پر صاف کرنے میں کامیاب رہے ہیں وہ بہت کم اور حیرت انگیز طور پر بہت چھوٹا حصہ ہے‘‘۔ امریکی مرکزی کمان کے سابق سربراہ جنرل جان ووٹل نے کہا کہ اگر اسرائیل کے اس دعوے کو درست بھی مان لیا جائے کہ وہ 40 فیصد فلسطینی جنگجوئوں کو ہلاک کرچکے ہیں تب بھی غزہ اسرائیل کے لیے دلدل بنتا نظر آرہا ہے۔

غیر جانب دار عسکری ماہرین میدانِ جنگ میں فوجی یونٹوں کے تعیناتی دورانیوں میں تبدیلی کو بھی معنی خیز قرار دے رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ اسرائیلی فوج فلسطینی نشانچیوں کے حملے سے خاصی پریشان ہے۔ سنگلاخ و مشکل علاقوں کے لیے خصوصی تربیت یافتہ اسرائیلی گیواتی بریگیڈ میں درجنوں افسران کو چند میٹر کے فاصلے سے نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوجی قیادت کو اس بات پر بڑی حیرت ہے کہ تربیت یافتہ کتوں اور جسم کی حرارت اور سانس کی حرکت نوٹ کرنے والے حساس آلات کی موجودگی میں شکاری بلا اطلاع اُن کے سروں پر کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ جمعرات 29 فروری کو پیراٹروپر بریگیڈ کی جگہ تازہ دم پیادہ کور کے تربیت یافتہ کمانڈوز کو جنوبی غزہ میں تعینات کیا گیا۔ اسی رات ایک دومنزلہ خستہ عمارت میں مستضعفین نے بارود بھرکر یہ تاثر دیا کہ یہاں مزاحمت کار چھپے ہوئے ہیں۔ جب اسرائیلی فوجی تلاشی کو آئے تو پوری عمارت دھماکے سے اڑگئی، جس میں 3 اسرائیلی سپاہی ہلاک اور 14 زخمی ہوگئے، یعنی ’سر منڈاتے ہی اولے پڑے‘ کے مصداق پہلے ہی روز نوواردوں پر یہ آفت ٹوٹ پڑی۔ اسرائیل کے عسکری اسپتالوں، بحالی مراکز (Rehabilitation Center) اور پارکوں میں جوانانِ رعنا بیساکھیوں پر گھسٹتے اور وہیل چیئر پر محوِ خرام نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کسی اسرائیلی صارف نے فیس بک کے ایک عبرانی صفحے پر لکھا کہ غزہ سے آنے والے زخمیوں میں کوئی بھی پورے جسم کے ساتھ نہیں آیا۔کسی کی آنکھ غائب ہے تو کسی کا ہاتھ یا پیر۔

اسرائیلی فوجیوں کے مظالم کے جو روح فرسا بصری تراشے leak ہورہے ہیں، صحافتی حلقوں کے خیال میں وہ اسرائیل کی نفسیاتی مہم کا حصہ ہیں۔ حال ہی میں ایک تراشا جاری ہوا ہے جس میں چند مشکیں کسے بچوں کو ٹینکوں سے کچلنے کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔ اس سے پہلے ایک فلسطینی بچے کو برہنہ کرکے تشدد کا منظر عام ہوا۔ ایک ہفتہ قبل جاری ہونے والے کلپ میں دکھایا گیا ہے کہ غزہ کی خواتین سے چھینے گئے زیورات، اسرائیلی فوجی بہت فخر سے اپنی بیویوں اور گرل فرینڈز کو پیش کررہے ہیں۔ یہ مناظر کسی بھی فوج کے لیے شرمناک ہیں، لیکن ان کے اجرا کا مقصد ایک طرف فلسطینیوں کو دہشت زدہ کرنا ہے اور دوسری طرف یہ مناظر خوف زدہ سپاہیوں کے حوصلے بلند کرنے اور اُن کو مزید مظالم پر آمادہ کرنے کی کوشش ہے۔

جہاں امریکہ میں ایک فوجی کی خودسوزی سے انسانی ضمیر کی بیداری کا پتا چل رہا ہے وہیں انگلستان کے شہر روکڈیل (Rockdale) کے ضمنی انتخاب میں فلسطینیوں کے پُرجوش حامی جارج گالووے (George Galloway)کی شاندار کامیابی سے سیاست کا نیا رجحان ظاہر ہورہا ہے۔ یہ نشست لیبر پارٹی کے سر ٹونی لائیڈ کے انتقال سے خالی ہوئی تھی۔ آزاد فلسطین کے نعرے پر جارج گالووے ورکرزپارٹی کے نمائندے کی حیثیت سے کھڑے ہوئے اور 12335ووٹ لے کر یہ نشست جیت لی۔ ان کے قریب ترین حریف، آزاد امیدوار ڈیوڈ ٹلی نے 6638 ووٹ لیے۔ گالووے نے اپنی کامیابی کو غزہ کے شہیدوں کے نام کیا اور ایک بڑے ہجوم سے خظاب کرتے ہوئے انھوں نے قائدِ حزبِ اختلاف کیر اسٹارمر(Keir Starmer) کو مخاطب کرکے کہا کہ جنابِ عالی یہ غزہ کی کامیابی ہے۔ جناب گالووے نے کہا کہ وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں جو ذاتی سیاسی مفاد کے لیے غزہ قتلِ عام کو سہولت کاری فراہم کررہے ہیں۔

غزہ کے ساتھ غربِ اردن پر مظالم میں مزید شدت آگئی ہے۔ منگل 27 فروری کی شام الخلیل (Hebron)شہر کی رائل پلاسٹک فیکٹری میں پراسرار طور پر آگ بھڑک اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے آدھے شہر کو لپیٹ میں لے لیا۔ یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں تلال الخلیل پہاڑ پر واقع یہ شہر سطح سمندر سے 930 میٹر بلند ہے۔ غزہ حملے کے بعد سے غربِ اردن کے دوسرے صنعتی یونٹوں کی طرح یہ فیکٹری بھی تالا بندی کا شکار تھی۔ الخلیل کے رئیسِ شہر (Mayor) تیسیر أبو سنینہ کے مطابق آگ اچانک بھڑکی اور انتہائی پراسرار انداز میں پھیل گئی۔ فائر بریگیڈ کا مرکزی دفتر بھی آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ میئر صاحب اسرائیل کی خفیہ پولیس کی فہرست میں ایک دہشت گرد اور بستہ ب کے بدمعاش ہیں، اس لیے فائر بریگیڈ اور شہری خدمات کے اسرائیلی اداروں نے اُن کے فون کا جواب تک نہیں دیا اور دولاکھ نفوس پر مشتمل اس شہرکا بڑا حصہ راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ فلسطینیوں کے خیال میں آتش زدگی اسرائیلی بستی کی تعمیر کے لیے مقامی شہریوں کو بے دخل کرنے کی حکمت عملی ہے۔

غزہ قتلِ عام پر دنیا کی بے حسی کا کیا گلہ، کہ پاکستان سپر لیگ (PSL)کی انتظامیہ نے اسٹیڈیم میں فلسطینی پرچم لہرانے پر پابندی لگادی۔ جواب میں کراچی کے شہریوں نے پی ایس ایل سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اسٹیڈیم نشانِ عبرت بن گیا، جہاں اُلّو بول رہے ہیں۔ کسی منچلے نے سوشل میٖڈیا پر ہانک لگائی کہ ’’تم نے فلسطینی پرچموں پر پابندی لگائی، کراچی کے شہریوں نے تمہارے منہ پر ویرانی کی لعنت ثبت کردی۔ نہر تا بحر… فلسطین‘‘

پریشانیوں اور آزمائشوں کے باوجود فلسطینی القدس شریف کے معاملے پر کسی مداہنت پر تیار نہیں۔ رمضان میں مسجدِ اقصیٰ تک رسائی محدود کرنے کے خلاف مطالبہ یا درخواست کے بجائے استقبالِ رمضان کے لیے القدس مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔ نمازی پہلی تراویح کے لیے مقبوضہ بستیوں سے جلوس کی شکل میں مسجدِ اقصیٰ پہنچیں گے۔ ایسے ہی ایک حوصلہ مند نوٹ پر آج کی نشست کا اختتام:

اسرائیلی فوج شہریوں پر رفح خالی کرنے کے لیے دبائو ڈال رہی ہے۔ ایک 80 سالہ نہتی دادی اماں نے مسلح سپاہیوں سے دوٹوک کہا ’’میں کم عمری میں اپنے والدین کے ساتھ اپنے گھر سے نکالی گئی اور غزہ آگئی،یہیں میری شادی ہوئی اور میرے بچوں اور اُن کے بچوں نے جنم لیا۔اسرائیلی بمباری نے مجھے اور میری بیٹیوں کو بیوہ کردیا،اوراب یہیں میری قبر بنے گی۔ میں کہیں نہیں جانے والی۔ بم گرائو، توپ چلائو، گولیاں مارو، ٹینکوں سے روند ڈالو۔‘‘
………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
nn