نئی حکومت،پرانے چیلنج نئے سیاسی طوفان کا خطرہ

شہبازشریف کو آئی ایم ایف سے قلیل مدتی بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے اور پاکستان کی معاشی بحالی کے لیے ایک نئے توسیعی معاہدے کی ضرورت ہوگی۔

ملک میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آچکی ہیں، وزرائے اعلیٰ کا انتخاب بھی ہوچکا ہے، وفاق میں وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کی شکل میں نئی قومی اسمبلی کی تشکیل کا ایک بنیادی مرحلہ پایۂ تکمیل کو پہنچا، صدر مملکت کے عہدے پر پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے آصف علی زرداری براجمان ہونے والے ہیں۔ اگلے مرحلے میں سینیٹ کے ارکان منتخب کیے جائیں گے، جس کے بعد پارلیمنٹ اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں کام کرنا شروع کردیںگی۔ پاکستان کی یہ پہلی قومی اسمبلی ہے جس میں اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیراعظم کا انتخاب اپوزیشن کی جانب سے چور چور کے نعروں سے ہوا۔ مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کے امیدوار سردار ایاز صادق اسپیکر اور سیّد غلام مصطفی شاہ ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگئے۔ ایاز صادق نے 199، جبکہ ان کے مدمقابل سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عامر ڈوگر نے 91 ووٹ حاصل کیے۔ سیّد غلام مصطفی شاہ نے 197، جبکہ سنی اتحاد کونسل کے جنید اکبر نے 92ووٹ لیے۔ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے انتخاب کے وقت بھی چور چور کے ہی نعرے ایوان میں لگائے گئے۔ مسلم لیگ(ن) کے شہبازشریف نے201 جبکہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عمر ایوب خان نے92 ووٹ حاصل کیے۔ 336 کے ایوان میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 169 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ جبکہ سردار اختر مینگل اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہ لینے کے باوجود شہبازشریف کو 201 ووٹ حاصل ہوئے۔

نومنتخب وزیراعظم شہبازشریف حلف لے چکے ہیں۔ حلف برداری کی تقریب ایوانِ صدر میں ہوئی، جہاں صدر عارف علوی نے ان سے حلف لیا۔ انتخابات کے بعد اب تک اس کارروائی اور پیش رفت سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قائدِ ایوان سے لے کر تمام آئینی اور انتظامی مناصب تک انتخاب کا عمل مکمل ہوچکا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں تشکیل پا چکی ہیں اور رواں ماہ 9 مارچ کو صدرِ مملکت کے انتخاب کا مرحلہ بھی تکمیل پا جائے گا۔ اس منصب پر حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے آصف علی زرداری اور سنی اتحاد کونسل کی جانب سے محمود خان اچکزئی کے کاغذاتِ نامزدگی بھی داخل کرائے جا چکے ہیں۔ صدرِ مملکت کے انتخاب کے بعد قوم ایک نئے سیاسی دور کا آغاز کرنے جارہی ہے۔

اسی پس منظر میں الیکشن کمیشن نے بھی فیصلہ سنا دیا ہے کہ خواتین کی مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہیں مل سکتیں۔ اگرچہ یہ آنے والے دنوں میں معاملہ گرم ہوگا اور تحریک انصاف کا احتجاج اسمبلی میں صرف نعرے بازی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس سے آگے بھی جاسکتا ہے۔ جماعت اسلامی، جے یو آئی اور جی ڈی اے مسلسل احتجاج کر رہی ہیں، جماعت اسلامی نے عدالتی کمیشن کامطالبہ کیا ہے اور یہ بھی مطالبہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہوجائیں، سیاسی جماعتوں کو شامل کرکے دھاندلی کی تحقیقات کرائی جائے، جماعت اسلامی آئین میں ایک نئی تجویز بھی دے رہی ہے کہ ملک میں متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کرائے جائیں۔ بہرحال دیکھتے ہیں کہ حکومت اس پر کیا ردعمل دے گی، فی الحال حکومت کی طرف سے اس معاملے پر خاموشی ہے، لیکن حکومت کو اسمبلی کے اندر اور باہر ایک نئے سیاسی طوفان اور رد عمل کا سامنا ہے۔ قومی اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں اسے دن میں تارے نظر آگئے ہیں، اس کا ایک ہلکا سا منظر یہ ہے کہ جب نوازشریف اور شہبازشریف ایک ساتھ داخل ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کے اراکینِ اسمبلی نے اپنے روایتی انداز میں’’شیرآیا‘‘ کا نعرہ لگایا، جبکہ سنی اتحاد کونسل نے جواباً ’’شیم‘‘ کا نعرہ لگایا۔ سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے اسپیکر روسٹرم کے سامنے شدید نعرے بازی کی۔ ایوان میں ’’مینڈیٹ چور‘‘ اور’’گھڑی چور‘‘ سمیت بیشتر نعرے سننے کو ملے۔ مسلم لیگ (ن) کے اراکین جوابی نعرے بازی کرتے نظر آئے۔ نوازشریف اور شہبازشریف کے روبرو ایک بار پھر شدید نعرے بازی جاری تھی، اور اسی شور شرابے میں اسپیکر نے نتائج کا اعلان کیا۔ اس پورے منظرنامے میں نوازشریف کچھ غیرآرام دہ نظر آئے، اپنے خلاف ہونے والی نعرے بازی کا غصہ اُن کے چہرے کے تاثرات سے واضح محسوس کیا جاسکتا تھا۔پانچ برس پہلے بالکل ایسا ہی ہوا تھا جیسے اب ہورہا تھا۔ اُس وقت عمران خان تھے، آج شہبازشریف تھے۔ اِس بار بھی شہبازشریف کی تقریر میں ہر ممکن رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی جیسے پانچ سال پہلے مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کے منتخب ہونے کے بعد کیا تھا۔ پیپلزپارٹی اُس وقت بھی سکون سے سب کچھ دیکھ رہی تھی، اِس بار بھی ایسا ہی تھا۔ لیکن شہبازشریف بھی مکمل تیاری سے آئے تھے اور وہ نعرے لگانے والوں کو تھکانا چاہتے تھے۔ وزیراعظم شہبازشریف کی طویل تقریر کو ایوان کی ایک بڑی اکثریت اس لیے نہیں سن پائی کیونکہ سنی اتحاد کونسل کے نعروں کا شور وزیراعظم کے خطاب پر حاوی تھا۔ اگرچہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین ’’فارم47 والا وزیراعظم نامنظور‘‘، ’’مریم کے پاپا چور ہیں‘‘،’ ’دیکھو دیکھو کون آیا، چور آیا چور آیا‘‘ کے نعرے لگاتے رہے لیکن وزیراعظم نے پورا وقت لے کر اپنی تقریر مکمل کی۔

پانچ سال پہلے مسلم لیگ (ن) دھاندلی کا رونا رو رہی تھی، پانچ سال بعد پی ٹی آئی چیخ رہی ہے، لیکن بدلتے کرداروں کے ساتھ ایک طرح کی کہانی نے اب پاکستان کے عوام کو بیزار کردیا ہے۔ دائروں کا یہ سفر ختم ہی نہیں ہورہا۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد ہماری پارلیمان میں حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے لیے انتہائی توہین آمیز رویّے کا مظاہرہ کیا جاتا رہا،جس کی وجہ سے بیشتر قانون سازی صدارتی فرامین کی شکل میں ہوتی رہی۔ ’’مریم کے پاپا چور ہیں‘‘ کے نعروں میں وزیرا عظم کا انتخاب مسلم لیگ(ن) کے لیے قومی اسمبلی میں ایک مشکل ترین دور کی نشان دہی کرتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن پارلیمانی سفر کے آغاز ہی سے بہتر ماحول تشکیل دینے کی کوشش کریں تاکہ قوم کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کی راہیں کشادہ ہوں۔

قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں نومنتخب ارکان میں سے شہبازشریف، احسن اقبال، عمر ایوب، عامر ڈوگر، محمود خان اچکزئی اور دیگر نے خطاب کیا ہے۔ مختصر ترین جائزہ یہ ہے کہ رکن قومی اسمبلی عمرایوب نے کہاکہ قیدی نمبر 804 کو قائدِ ایوان کی سیٹ پر بٹھائیں گے، جنید اکبر بولے کہ اس اسمبلی کو مانتے ہیں نہ ایوان چلنے دیں گے، عامر ڈوگر کاکہنا تھاکہ ہمارا مینڈیٹ واپس کریں،مفاہمت کے لیے تیار ہیں، بیرسٹر گوہر نے کہاکہ صرف فارم 45 والا بندہ یہاں بیٹھ سکتا ہے، پختون خواہ میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے انتخابی نتائج میں تبدیلی کے ذمہ داروں کو ملک وقوم کا غدار قرار دیتے ہوئے کہاکہ ایجنسیوں کو سیاست سے توبہ کرنا ہوگی، جبکہ مسلم لیگ (ن)کے احسن اقبال نے اپوزیشن کو ساتھ بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے واضح کیا کہ مسائل مل کر حل کرنا ہوں گے۔

سیاسی طاقتوں کے مابین مفاہمت میں فی الوقت جو واحد رکاوٹ نظر آرہی ہے وہ حالیہ عام انتخابات کے نتائج ہیں، جنہیں تحریک انصاف کے علاوہ بھی کئی سیاسی جماعتیں دھاندلی زدہ قرار دے رہی ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ نئے پارلیمانی سفر کے آغاز ہی میں اس مسئلے کو منصفانہ طور پر حل کرلیا جائے۔ اپنا مینڈیٹ چوری ہونے کا شکوہ کرنے والوں کو فارم 45 کی بنیاد پر اپنا دعویٰ ثابت کرنے کا مکمل موقع فراہم کیا جائے، اور اس کا جو بھی نتیجہ ہو اُسے سب کی جانب سے تسلیم کیا جائے۔ محمود خان اچکزئی نے اپنی تقریر میں ووٹ کو عزت دوکے نعرے کے حوالے سے ملک کی پوری سیاسی قیادت سے آئینی بالادستی پر اتفاق کی جو اپیل کی ہے، نوازشریف نے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کرکے جس پیش رفت کا آغاز کیا ہے، اسے تحریک انصاف سمیت ملک کی پوری سیاسی قیادت تک وسعت دی جانی چاہیے اور سب کو اس کا مثبت جواب دینا چاہیے، کیونکہ ملک کو مستقل بنیادوں پر بحرانوں سے نکالنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔

پاکستان کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہوسکی، جس کے بعد اُسے مجبوراً سیاسی اتحاد کی طرف پلٹنا پڑا۔ سیاسی اتحاد کی چھتری تلے شہبازشریف دوسری بار ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ شہبازشریف ملک کی سیاسی تاریخ کے واحد سیاست دان ہیں جو مسلسل دوسری مدت کے لیے پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ 2024ء کے عام انتخابات سے قبل اُن کے بڑے بھائی نوازشریف چوتھی بار ملک کا وزیراعظم بننے کے لیے سب سے موزوں اور پسندیدہ امیدوار تھے، تاہم وہ مخلوط حکومت کی قیادت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مرکز میں حکومت بنانے کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں مل سکی جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ملک کے بے شمار سیاسی اور معاشی چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے شہبازشریف نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی ہے۔ پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے اور افراطِ زر کی شرح 30 فیصد کے قریب ہے، جبکہ معاشی ترقی کی شرح 2 فیصد تک سست روی کا شکار ہے۔شہبازشریف کو آئی ایم ایف سے قلیل مدتی بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے اور پاکستان کی معاشی بحالی کے لیے ایک نئے توسیعی معاہدے کی ضرورت ہوگی۔

حکومت کا اپنے ابتدائی 100 دنوں کے اہداف کا اعلان کرنا، صدارتی اور پارلیمانی دونوں طرزِ حکومت میں عام ہے۔ یہ 100 دن قائدین کو اپنے دورِ اقتدار کے لیے طرزِ حکومت مرتب کرنے، قومی اور بین الاقوامی ساکھ بنانے، ترجیحات طے کرنے اور مستقبل کے اقدامات کے لیے ایک روڈمیپ بنانے کا اہم موقع فراہم کرتے ہیں۔ اس روایت کا مقصد قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنا ہے تاکہ اتفاقِ رائے اور امید پیدا کی جا سکے۔ یہ ابتدائی فیصلے انہیں اپنی انتخابی جیت کو ثابت کرنے، ترجیحات طے کرنے، فوری کامیابی کو یقینی بنانے، اپنے اتحاد کو مضبوط کرنے اور اپنے منصوبوں کے لیے عوامی حمایت پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں نئی حکومت کو مخلوط حکمرانی کی پیچیدگیوں، معاشی پابندیوں، مالی بحران اور سماجی ردعمل جیسے لاتعداد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسے میں اس کے لیے ابتدائی 100 دنوں کے اہداف طے کرنا، قیادت کا ابتدائی مظاہرہ کرنے کے لیے ایک قابلِ قدر عمل ہوگا۔ کیا نئی حکومت کسی نئے مخصوص اقدام کے لیے عزم کا اظہار کرسکے گی؟اقتصادی ترقی کی سُست رفتار، سنگین مالیاتی صورت حال، یکے بعد دیگرے موسمیاتی آفات کا سامنا اور وفاق اور صوبوں کے متعلقہ کرداروں اور ذمہ داریوں سے متعلق ابہام کی وجہ سے اس ضرورت نے زور پکڑ لیا ہے کہ سیاسی ایجنڈے میں ساختی اصلاحات لائی جائیں۔آخر میں موسمیاتی تبدیلی سے موافقت اور اس سے مقابلے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے اقدامات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جیسا کہ پہلے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق کیا گیا ہے، ان میں قومی موافقت کے منصوبے کا نفاذ شامل ہے 6 شعبوں پر محیط ہے۔ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے موجودہ پورٹ فولیو کو قومی ایکشن پلان کے مقاصد کے ساتھ دوبارہ ترتیب دینا، نئے منصوبوں کے لیے لاگت کا تعین کرنا اور پالیسی پلاننگ کی دستاویزات میں ماحولیاتی تحفظات کو بھی شامل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان پہلے ہی آئی ایم ایف کی کلائمیٹ پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ اسسمنٹ کے تحت ادارہ جاتی اصلاحات نافذ کرنے کے عزم کا اظہار کرچکا ہے۔ امریکہ کی طرح ہمارا ملک بھی ’نیو ڈیل‘ کی امید کررہا ہے، ایسے میں نئے حکمران 100 دنوں کے لیے شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر یہ نہیں سمجھ سکتے کہ وہ چھپ گئے ہیں، کیونکہ ایسا کرنا سیاسی انتشار کا باعث بنے گا۔