جمعۃ المبارک… آٹھ مارچ … پوری دنیا میں ’’یومِ نسواں‘‘ کے طور پر منایا جارہا ہے تاکہ معاشرے میں خواتین کے حقوق کا شعور اجاگر اور ان حقوق کے حصول کی جدوجہد تیز سے تیز تر کی جا سکے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی یہ دن خاصے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، تاہم ’’یوم نسواں‘‘ کے موقع پر یہ حقیقت فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ مرد ہو یا عورت، کسی کی تنہا کوئی حیثیت نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ عورت کے لیے شاعر نے بجا طور پر کہا ہے کہ ’’اے مائو! بہنو! بیٹیو! دنیا کی زینت تم سے ہے‘‘۔ تاہم دوسری جانب علامہ اقبال ؒ نے جس طرف توجہ دلائی ہے اُسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ’’نسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد‘‘۔ ’’یومِ نسواں‘‘ مناتے ہوئے اس امر واقع سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں کہ عورت، محض عورت نہیں بلکہ وہ ایک ماں بھی ہے، بیٹی بھی، بہن بھی، اور سب سے بڑھ کر وہ مرد کی شریکِ حیات بھی ہے۔ اسی طرح مرد فقط ایک مرد نہیں، اس سے پہلے وہ ایک بیٹا ہے جس نے ایک عورت کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور ایک عورت ہی کی آغوشِ محبت میں پرورش پائی ہے۔ مرد ایک بھائی بھی ہے اور ایک باپ بھی… یوں مرد اور عورت ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں بلکہ باہم ایک دوسرے کے معاون، ایک دوسرے کے لیے سامانِ راحت بناکر دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔ دنیا میں ’’زندگی‘‘ کی جو نعمت خالقِ کائنات نے انہیں عطا کی ہے اس ’’زندگی‘‘ کی گاڑی میں مرد و عورت کی حیثیت دو پہیوں کی ہے، جو اگر درست سمت باہم تعاون کرتے ہوئے آگے بڑھیں تو سفر آسانی سے طے ہوتا چلا جاتا ہے، منزل قریب سے قریب تر آتی چلی جاتی ہے اور اس کے حصول میں مشکل پیش نہیں آتی، ورنہ اگر دو پہیوں کی سمت باہم متصادم ہو اور وہ متضاد رخ پر بڑھنے کے لیے زور لگاتے رہیں تو نہ صرف یہ کہ منزل کا حصول ممکن نہ ہوگا بلکہ گاڑی کی تباہی اور اس کے مسافروں کا کسی گہری کھائی میں گرنا بھی یقینی ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے، اس نے انسان کو زندگی گزارنے کے لیے بہترین اصول عطا کیے ہیں، پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈیڑھ ہزار برس قبل مرد و عورت کو باہم ایک دوسرے کے احترام کا درس دیا اور حصولِ علم کو تمام مسلمان خواتین و حضرات کے لیے لازم قرار دیا، جس کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حقوق سے آگاہی حاصل کرسکیں اور ان کی ادائیگی پر کمربستہ ہوسکیں۔ آج بھی اگر ایسا ہوجائے تو ہمارا معاشرہ امن و خوشحالی اور تعمیر و ترقی سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔ معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہے، اگر خاندان مضبوط ہو تو عورت محفوظ و مامون ہوگی، اور اس کا لازمی نتیجہ مستحکم و خوشحال، پُرامن و پُرسکون معاشرے کی صورت میں سامنے آئے گا۔
اسلام نے اپنے معاشرے میں خواتین کوجو حقوق عطا فرمائے ہیں اس کی مثال کوئی دوسرا معاشرہ پیش نہیں کر سکتا۔ایک ایسے وقت میں جب کہ عورت کی پیدائش ہی کو باعثِ عار سمجھا جاتا تھا اور اسے زندہ درگور کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا تھا، اسلام نے نہ صرف عورت کو تحفظ فراہم کیا بلکہ اسے ماں،بہن، بیٹی اور بیوی ہر روپ میں عزت و احترام، عظمت اور وقار کی علامت بنا دیا۔ ایک ایسے وقت میں اسے وراثت کا حق دار بنایا جب کسی دوسرے معاشرے میں اس کا تصور بھی محال تھا۔ ممتاز عالمِ دین مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم نے اپنی کتاب ’’دعوتِ اسلامی اور اس میں خواتین کا حصہ‘‘ میں اسلامی معاشرے میں خواتین کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے بہت خوب لکھا ہے کہ:
’’ہماری اصل دولت عورتوں ہی کے پاس ہے۔ نسلیں اُن کی تحویل میں ہیں، اُن کا بٹھایا ہوا نقش قبر تک باوجود کھرچنے کے نہیں مٹتا… خواہ وہ نقشِ باطل بٹھائیں یا نقشِ حق… وہ چاہیں تو ان کے فیضِ تربیت سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو ہماری تاریخ کو از سرِ نو روشن کردیں، اور چاہیں تو اس طرح کے لوگوں کو جنم دیں جیسے کہ آج کل کے مسلمان ہیں۔ خیال تو کیجیے کہ کبھی گنتی کے چند نفوس تھے، لیکن زمین ان کے وجود سے تھرا اٹھی تھی، آج مردم شماری کے اعتبار سے مسلمانوں کی تعداد کس قدر زیادہ ہے مگر صفحہ گیتی کو خبر تک نہیں کہ کوئی اس کی پشت پر ہے…‘‘
حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت میں خواتین کے حقوق سے متعلق نہایت جامع ہدایات مسلمانوں کے لیے ارشاد فرمائی گئی ہیں جن پر عمل کرکے ہمارا معاشرہ آج بھی امن و آشتی اور تعمیر و ترقی کا گہوارہ بن سکتا ہے، مگر افسوس کہ ہم نے ان تعلیمات کو مکمل طور پر فراموش کردیا ہے، ان پر عمل درآمد تو بہت بعد کی بات ہے ہم نے کبھی قرآن و حدیث اور سیرت کے مطالعے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، اور ہمارا پورا زور مغرب کی تقلید پر صرف ہورہا ہے۔ عورتوں کے حقوق سے متعلق بھی مغرب کی تقلید میں ہمارے یہاں وہ درفنطنیاں چھوڑی جارہی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ہمارے یہاں مغرب اور اس کی این جی اوز کا پروردہ ایک طبقہ اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر معاشرے میں فتنہ انگیزی میں مصروف ہے۔ خواتین کے حقوق کے نام پر نئی نسل کو معاشرتی روایات سے برگشتہ کیا جا رہا ہے، خصوصاً دینی اقدار کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور نوجوانوں کو نت نئے نعروں کے ذریعے فکری انتشار میں مبتلا کرکے دین سے بغاوت کی راہ دکھائی جارہی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ ایسے عناصر کی بھر پور سرپرستی کررہے ہیں اور معاشرتی بے راہ روی کے فروغ میں ہر اول دستے کی خدمات انجام دینے میں ذرّہ بھر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ اس صورتِ حال میں اربابِ اقتدار و صاحبانِ اختیار کا طرزِعمل جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے۔ ہمارے انھی رویوں کا نتیجہ ہے کہ ہم آج امت ِمسلمہ اور پاکستانی ملت کی حیثیت سے زوال آشنا اور ’’ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہیں، مگر اس کے باوجود اپنی حالت کے بدلنے کا خیال تک کہیں موجود نہیں… خدا ہم پر رحم فرمائے۔
(حامد ریاض ڈوگر)