قائداعظم کے اے ڈی سی گل حسن (سابق آرمی چیف) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک دن وہ قائداعظم کے ساتھ گورنر ہائوس سے ملیر جارہے تھے۔ راستے میں ریلوے کا پھاٹک بند ملا۔ گاڑی آنے میں چند منٹ باقی تھے۔ گل حسن نے پھاٹک کھلوا دیا۔ قائداعظم نے کہا ’’گل! میں گورنر جنرل پاکستان ہوں، میں اگر خود قانون توڑوں گا تو پاکستان کے عوام قانون پر کیسے عمل کریں گے‘‘۔
سردار عبدالرب نشتر نے قائداعظم کے بارے میں اپنی کتاب میں ایک دلچسپ واقعہ تحریر کیا: ’’جب ہم مانکی شریف سے رُخصت ہورہے تھے تو قائداعظم آگے آگے تھے اور پیر صاحب مانکی شریف سمیت پیران اُن کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ جب قائداعظم موٹر میں بیٹھ گئے تو میں بھی ساتھ بیٹھا اور موٹر روانہ ہوگئی تو میں نے کہا ”قائداعظم مجھے ہنسی آتی تھی لیکن میں نے ضبط کرلی“۔ پوچھا ”کیوں؟“ میں نے کہا ’’جب ہم ان پیروں کے پاس جاتے ہیں تو بہت عزت و احترام سے اُن کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، لیکن آج تمام پیر آپ کے پیچھے پیچھے آرہے تھے تو مجھے ہنسی آرہی تھی‘‘۔ فرمانے لگے ’’تمہیں معلوم ہے اور ان کو بھی معلوم ہے کہ میں متقی، پرہیز گار اور زاہد نہیں ہوں۔ میری شکل و صورت زاہدوں کی سی نہیں ہے۔ مغربی لباس پہنتا ہوں، لیکن اس کے باوجود یہ لوگ میرے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیوں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق میرے ہاتھ میں محفوظ ہیں اور میں اپنی قوم کو کسی قیمت پر بھی فروخت نہیں کرسکتا‘‘۔
قائداعظم کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری اجلاس میں خطاب کررہے تھے۔ بھارت سے آئے ہوئے ایک مندوب نے اُن کی تقریر میں مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ ہندوستانی مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے ہندوستان واپس جانے کے لیے تیار ہوں گے؟ قائداعظم نے کہا کہ اگر مسلم لیگ کونسل کا اجلاس فیصلہ کرلے تو وہ مشکل کی اس گھڑی میں ہندوستان واپس جاکر مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ وہ پہلے ہی یہ بیان دے چکے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے بعد اُن کی ذمہ داری ختم ہوچکی ہے اور اب وہ سیاست سے ریٹائر ہوکر تنہائی کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
فروری 1948ء میں مسلم لیگ کے اجلاس میں جمال میاں فرنگ محلی نے قرارداد پیش کی کہ قائداعظم کے سوا حکومتی عہدے دار جماعتی عہدے چھوڑ دیں۔ مسلم لیگ کونسل نے قائداعظم کے اعتراض کے باوجود یہ قرارداد منظور کرلی۔ اس کے باوجود قائداعظم نے استثنیٰ حاصل کرنے سے انکار کردیا اور مسلم لیگ کی صدارت چھوڑ دی۔
قائداعظم عوام پر کامل اعتماد کرتے تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے عبدالرب نشتر کو نصیحت کی:
’’عوام سے خوف زدہ نہ ہوں۔ اُن کے ساتھ دیانت داری کریں، وہ ہمیشہ آپ سے تعاون کریں گے۔ آپ کے لیے مشکلات اُس وقت شروع ہوں گی جب آپ اُن سے حقائق چھپائیں گے۔‘‘
“Never be frightened of people. Be honest with them and tell them all and they will always support you. Your difficulties will begin when you hide things from them.”
قائداعظم سرکاری خزانے اور پبلک فنڈ کا مکمل حساب کتاب رکھنے کے قائل تھے۔ انہوں نے 22 جنوری 1948ء کو حبیب بینک دہلی کے نام خط لکھ کر 28 اگست 1947ء سے 8 اکتوبر 1947ء تک پاکستان فنڈ کے اکائونٹ میں جمع ہونے والی رقوم کی تفصیل طلب کی۔
ریزو بینک انڈیا نے 22 جنوری 1948ء کو قائداعظم کو انکم ٹیکس ادائیگی کی رسید ارسال کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پورا ٹیکس ادا کرتے تھے۔
(”قائداعظمؒبحیثیت گورنر جنرل“۔قیوم نظامی)
مجلس اقبال
جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہر درد میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ!
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک
ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ