رمضان کے بابرکت مہینے کی آمد

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
”جب ماہ رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دوزخ کے
دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیطان زنجیروں میں کس دیئے جاتے ہیں“۔
(بخاری، جلد اول کتاب الصوم ، حدیث نمبر 1781 )

اللہ تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے کہ رمضان کا بابرکت مہینہ ہم پر اور اُمت مسلمہ پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ مہینہ اہلِ ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کے انعامات میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اور یہ ہماری بڑی بدنصیبی ہوگی کہ اس مبارک مہینے کو پائیں، اللہ کی رحمت سے اس میں روزوں کی سعادت بھی حاصل کریں، مگر اس اصل مقصد اور پیغام کے بارے میں غافل رہیں جو اس مہینے اور اس میں انسانیت کو دیے جانے والے ربانی تحفے کا اصل جوہر ہے۔

روزے کے تین امتیاز
روزہ اللہ کے ماننے والے تمام انسانوں کے لیے ہر دور میں فرض کیا گیا ہے اور اس کی بے شمار مصلحتوں میں سے تین کم از کم ایسی ہیں جن کا ہرلمحے شعور از بس ضروری ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ روزہ بندے کو اپنے رب سے جوڑتا ہے اور اس سے وفاداری اور صرف اس کی اطاعت کے جذبے پر دل و دماغ کو قانع اور مستحکم کرتا ہے، اور اس کے اس عہد کی تجدید کی خدمت انجام دیتا ہے کہ بندے کا جینا اور مرنا اور عبادات اور قربانیاں سب صرف اللہ کے لیے ہیں۔ حلال اور حرام کا تعلق صرف اللہ کی مرضی اور حکم سے ہے۔ جو چیز اُفق پر روشنی کی پہلی کرن آنے تک حلال تھی وہ صرف اس کے حکم سے سورج کے غروب ہونے تک حرام ہوگئی اور سورج کے غروب ہوتے ہی پھر حلال ہوگئی۔ یہ وہ عبادت ہے جس کا حقیقی گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک شخص دوسروں کے سامنے صائم ہوتے ہوئے بھی تنہائی میں کھا پی سکتا ہے مگر صرف اللہ کی خاطر کھانے اور پینے سے جلوت اور خلوت ہر کیفیت میں پرہیز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود ربِ کائنات نے فرمایا ہے کہ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجردوں گا۔ اللہ سے جڑنا اور اللہ کی رضا کا پابند ہوجانا اور یہ عہد کرنا کہ ہمیشہ صرف اس کی رضا کا پابند رہوں گا یہ ہے روزے کا پہلا روشن ترین پہلو۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کی زندگی میں نظم و ضبط اور خواہشات پر قابو پانے کی تربیت دیتی ہے اور اسی کیفیت اور رویے کا نام ہے تقویٰ۔ اسی لیے فرمایا گیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo(البقرہ ۲:۱۸۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیروئوں پر فرض کیے گئے تھے، اس توقع کے ساتھ کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔

روزے کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے ہے۔ جن انبیاے کرام ؑ کو کتاب سے نوازا گیا، ان کو یہ کتاب اس حالت میں دی گئی جب وہ روزے سے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وحی کا آغاز غارِحرا میں اس وقت ہوا جب آپؐ وہاں مسلسل روزوں کی حالت میں تھے اور اس مقدس کتاب کا آغاز بھی روزے سے ہوا اور اس کی تکمیل ماہِ رمضان میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مہینہ دراصل قرآن کا مہینہ ہے اور اس کے شب و روز قرآن سے تعلق کی تجدید، اس کی تلاوت، تراویح میں اس کی سماعت اور اس کے پیغام کی تفہیم اور تلقین کے لیے خاص ہیں۔ قرآن نہ صرف مکمل ہدایت کا حقیقی مرقع ہے بلکہ انگلی پکڑ کر ہدایت کی راہ پر انسان کو گامزن کرنے اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت اور داعیہ پیدا کرنے والی ہدایت ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج (البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے، اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔

بس یہ مہینہ قرآن کا مہینہ ہے اور اس مہینے کا حق یہ ہے کہ ہم پورے شعور کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ قرآن کیا ہے، اس کی اتھارٹی کی کیا حیثیت ہے، اس کی تعلیمات کی نوعیت کیا ہے، اس سے ہمارا تعلق کن بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے اور اس کے پیغام کے ہم کس طرح علَم بردار ہوسکتے ہیں تاکہ اللہ کے انعام کا شکر ادا کرسکیں۔ اس موقعے کی مناسبت سے ہم قرآن کے مقصد ِ حیات، اس سے تعلق کی بنیادوں اور ان کے تقاضوں پر اپنی معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

اصل موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے روزے کے تیسرے امتیازی پہلو کی طرف بھی اشارہ کردیں اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ ایک طرف رمضان کے روزوں کو مکمل کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو ذمہ داری تمھیں ادا کرنی ہے اور پورے سال بلکہ پوری زندگی ادا کرنی ہے وہ اعلاے کلمۃ الحق ہے، یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی کوشش کریں اور اس طریقے سے کریں جو تمھیں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا اور دکھایا ہے:

وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۵) تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔

قدرت کا قانون ہے کہ جب تاریکی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو روشنی اس کا سینہ چیرتی ہوئی رُونما ہوجاتی ہے، ظلمتیں چھٹ جاتی ہیں اور فضا نور سے بھرجاتی ہے۔ تاریخِ انسانی میں روشنی اور نور کا سب سے بڑا سیلاب ۲۷رمضان المبارک ۱۳ قبل ہجرت میں رُونما ہوا۔