تھیلیسیمیا کیا ہے ؟ اور قبرص نے اس کا تدارک کیسے کیا؟

1979ء میں یونیورسٹی کالج لندن کی فیکلٹی ممبر اور عالمی ادارۂ صحت کی مشیر ڈاکٹر برناڈیٹ موڈیل کو تھیلیسمیا کے مریضوں کا جائزہ لینے اور اس مرض کے تدارک کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی غرض سے قبرص مدعو کیا گیا۔ دورے کے اختتام پر ڈاکٹر موڈیل نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ (تب کے قریباً پانچ لاکھ آبادی والے) اس ملک میں 15 فیصد لوگ تھیلیسیمیا کے کیریئر ہیں۔ شادی شدہ افراد میں سے 2 فیصد جوڑے ایسے تھے جن میں میاں بیوی دونوں ہی کیریئر تھے اور ان کے ہاں تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچے پیدا ہو رہے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق صورتحال پر قابو نہ پانے کی صورت میں اگلے پچاس سال (2030ء) میں ملک میں تھیلیسیمیا سے متاثرہ افراد کی تعداد 2000 سے تجاوز کر جاتی جو اس چھوٹے سے ملک کی معیشت کے لیے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ ہوتا۔

کیریئر کون ہوتے ہیں؟
تھیلیسیمیا ایک جینیٹیک بیماری ہے جو ہیموگلوبین بنانے والے جین میں نقائص کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ہیموگلوبین خون میں پایا جانے والا ایک پروٹین ہے جس کا کام ہمارے پھیپھڑوں سے آکسیجن لے کر ٹِشوز کو فراہم کرنا ہے۔ ہر انسان اپنے ماں باپ سے تمام جینز کا ایک ایک سیٹ وصول کرتا ہے، چنانچہ ہمارے اندر تمام جینز جوڑوں میں پائے جاتے ہیں (سوائے Y کروموسوم کے اور مردوں میں X کروموسوم کے)۔ تھیلیسیمیا ایک Recessive بیماری ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تب ہوتی ہے جب کسی بچے کو ماں اور باپ دونوں سے ملنے والے جین میں نقص ہو۔ جن افراد میں صرف ایک طرف سے آنے والے جین میں نقص ہو (اور دوسرے میں نہ ہو)، وہ کیریئر کہلاتے ہیں۔ ایسے افراد بظاہر صحت مند ہوتے ہیں اور جب تک ان کی جینیاتی تشخیص نہ ہو، ان میں اور صحت مند افراد میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ تاہم اگر کیریئر افراد آپس میں شادی کرلیں تو ان کے ہاں متاثرہ بچوں کی پیدائش کا امکان ہوتا ہے۔ اگر دونوں پارٹنر کیریئر نہ ہوں تو متاثرہ بچے کی پیدائش کا امکان نہیں ہوتا البتہ مزید کیریئر بچے پیدا ہو سکتے ہیں۔ نسل در نسل کیریئر بچے پیدا ہونے کی وجہ سے خاندان میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس لیے کزن میرج میں دونوں پارٹنرز کے کیریئر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور یہ شادیاں نہ صرف تھیلیسیمیا بلکہ تمام Recessive بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بنتی ہیں۔

تھیلیسیما اور بلڈ ٹرانسفیوژن
مریضوں کو صحت مند افراد کا خون ٹرانسفیوز کیا جاتا ہے جس سے عارضی طور پر ہیموگلوبین کی کمی پوری ہوجاتی ہے۔ تاہم خون کے خلیوں کی عمر بہت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایسے افراد کو تواتر سے خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہیموگلوبین پروٹین کا ایک اہم حصہ آئرن (لوہا) بھی ہے۔ خون کی متواتر منتقلی سے جسم میں آئرن کی مقدار بڑھ جاتی ہے (اور مسلسل بڑھتی رہتی ہے)۔ خون کے ہر ملی لیٹر کے ساتھ تقریباً آدھا ملی گرام آئرن جسم میں جاتا ہے (420 ملی لیٹر خون کی تھیلی میں اوسطاً 200 ملی گرام آئرن ہوتا ہے)۔ یہ اضافی آئرن انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے اور حرکت قلب بند ہونے، جگر کے سیروسیس اور کینسر، نشوونما میں کمی اور متعدد غدود کے ناکارہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔ نتیجتاً تھیلیسیمیا کے مریضوں کی اوسط عمر دس سال سے کم ہوتی ہے (اگرچہ ایک آدھ بچہ 18 سال کی عمر تک بھی پہنچ پاتا ہے)۔

اس اضافی آئرن کے اخراج کے لیے ہمارے جسم میں کوئی قدرتی میکانزم نہیں ہے اس لیے اسے مصنوعی طریقے سے جسم سے نکالا جاتا ہے۔ یہ طریقہ آئرن چیلیشن/کیلیشن تھراپی (Iron Chelation Therapy) کہلاتا ہے۔ بلڈ ٹرانسفیوژن کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے کیلیشن تھراپی کرانے سے مریضوں کی عمر میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کوئی حتمی علاج نہیں ہے۔ بون میرو ٹرانسپلانٹ (Bone marrow transplant) اس بیماری کا ایک ممکنہ علاج ہے لیکن اس کے اخراجات اور اس کے ساتھ وابستہ خطرات کی وجہ سے یہ عام لوگوں کی استطاعت سے باہر ہے۔

کیریئر اسکریننگ اور تشخیص قبل از پیدائش
ہم کہہ سکتے ہیں کہ مریضوں کی اکثریت کے لیے یہ بیماری عملی طور پر لا علاج ہے، اس لیے اس کے تدارک کا سستا، مؤثر اور طبی لحاظ سے آسان طریقہ کیرئیر افراد کی شناخت ہے جس کے بعد دو کیریئر افراد کی آپس میں شادی اور نتیجتاً متاثرہ بچوں کی پیدائش کو روکا جا سکتا ہے۔ تاہم جب تک جینیاتی تشخیص کے ذریعے کیریئر افراد کی نشاندہی نہیں ہوتی، ماہرینِ جینیات حفظ ما تقدم کے طور پر قریبی رشتہ داروں میں شادی کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔

لیکن لوگ بیماری کا ادراک ہوتے ہوئے بھی متعدد وجوہات کی بناء پر خاندان میں شادیوں کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ عموماً والدین کو خاندان میں بیماری والے جینز کا علم پہلے مریض بچے کی پیدائش کے بعد ہی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود انہیں مزید بچوں کی خواہش بھی ہوتی ہے۔ ایسے جوڑوں کے لیے تشخیص قبل از پیدائش یا Prenatal Diagnosis ایک ایسا راستہ ہے جس سے وہ اپنے لیے بہتر تولیدی فیصلے کر سکتے ہیں۔ اس طریقہ تشخیص میں حمل کی پہلی سہ ماہی میں رحمِ مادر سے سیمپل لے کر اس کی جینیاتی تشخیص کی جاتی ہے۔ اگر بچے میں بیماری کا سبب بننے والے جینز پائے جائیں تو ایسے حمل کو متعلقہ ڈاکٹر کی مشاورت سے بروقت ختم کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ کیریئر یا مکمل طور پر صحت مند ہونے کی صورت میں اعتماد کے ساتھ حمل جاری رکھا جا سکتا ہے۔

واپس قبرص کی طرف
قبرص میں تھیلیسیمیا کی اسکریننگ 1973ء سے جاری تھی لیکن یہ عمل سست روی کا شکار تھا اور اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے تھے۔ چنانچہ 1980ء میں قبرص کی حکومت نے بھرپور قانون سازی کرکے شادی کے خواہش مند افراد کے لیے شادی سے قبل تھیلیسیمیا کی اسکریننگ لازمی قرار دی۔ 1984ء میں رحمِ مادر میں موجود بچے سے خون کے نمونے لے کر تشخیص قبل از پیدائش کا آغاز کر دیا گیا۔ 1991ء میں اس طریقے کے بجائے بچے کے ڈی این اے کے ذریعے تشخیص شروع کر دی گئی۔ ڈی این اے کے لیے بچے کے خون کے بجائے رحم مادر میں بچے کے گرد پائی جانے والی جھلی سے نمونہ (Chorionic Villus Sample یا CVS) (باقی صفحہ 33پر)

لیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ خون کے نمونے سے زیادہ محفوظ ہے۔ مختلف اوقات میں کی گئی رائے شماری کے مطابق اگرچہ قبرص میں 75 فیصد لوگوں کو اس بیماری کی شدت اور نتائج کا اندازہ تھا لیکن صرف 42 فیصد افراد نے رضاکارانہ طور پر خود کو اسکریننگ کے لیے پیش کیا۔ 58 فیصد افراد نے قانون کے ہاتھوں مجبور ہوکرا سکریننگ کروائی۔ اس سے مؤثر قانون سازی کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 1984ء میں شروع ہونے والے پروگرام سے پہلے قبرص میں سالانہ اوسطاً 18 سے 20 تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچے پیدا ہوتے تھے جبکہ 1991ء سے لے کر 2001ء تک دس سال میں کُل پانچ ایسے بچوں کی پیدائش ہوئی۔ اگلے 5 سال میں پورے ملک میں ایک بھی متاثرہ بچہ پیدا نہیں ہوا۔ قبرص نے تھیلیسیمیا کو شکست دے دی تھی۔

متاثرہ بچوں کی پیدائش کم کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت نے چیلیشن تھراپی پر سبسڈی بھی دے دی تاکہ پہلے سے متاثرہ مریض نسبتاً طویل اور بہتر زندگی گزار سکیں۔ چنانچہ 2007ء میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق تھیلیسیمیا سے متاثرہ دو تہائی لوگوں کی اوسط عمر 25 سال سے زائد تھی۔ یہ مریض برسرِ روزگار تھے اور ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ ان میں سے 38 فیصد شادی شدہ اور بچوں والے تھے۔

سائنسی معلومات کی بنیاد پر کی گئی قانون سازی کی مدد سے ایک خوفناک بیماری کے تدارک اور مریضوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے قبرص نے ہمیشہ کے لیے ایک ماڈل پیش کر دیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں اس وقت تھیلیسیمیا کی کیریئر فریکوئنسی 5 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ اس کے علاوہ بھی باقی موروثی بیماریاں دنیا کے اکثر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہیں، اس طرح کا ایک نیشنل ایکشن پلان انتہائی ناگزیر ہے۔ پاکستان کی آبادی قبرص سے کہیں زیادہ ہے لیکن گزشتہ 40 سال میں جینومیکس ٹیکنالوجی کی بے مثال ترقی اور اس کے اخراجات میں مسلسل کمی کی وجہ سے اس طرح کا پروگرام قابلِ عمل ہے۔