آدمی کی تہذیب پروفیسریوول نوح ہراری کی تصانیف

مغرب اور مغرب زدہ معاشروں میں جب تاریخ کا طالب علم آنکھ کھولتا ہے، وہ کیا دیکھتا ہے؟ ایک کھنچا ہوا نقشہ اس کے سامنے کردیا جاتا ہے، جس کے بعد اس کے تعلیمی مستقبل کا انحصار اندھیارے تصورِ تاریخ پر تعمیر ہوتا ہے۔ اصل قصہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے اعمال اور عمّال دونوں کمزور ہوئے۔ حصولِ علم اور تحقیق میں جمود آگیا۔ دوسری جانب جہالت کی تاریکیوں سے بیدار ہونے والے یورپ نے مسلمان اندلس کی علمی روایتیں اپنالیں، مسلم سائنسی علوم کی بنیاد پر نئی سائنس کی عمارت اٹھائی مگر ساتھ مذہب دشمنی بھی پروان چڑھائی، کیوں کہ عیسائیت کی کمزوریاں بالکل واضح ہوچکی تھیں۔ یوں جدید مغربی سائنس لادینیت کی گود میں پلی بڑھی۔ جدید مغرب کا سارا بچپن مذہب نفرت میں گزرا۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ جوانی میں ایمان و انکسار آجاتا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ تحقیق کا رخ مذہب مخالف، خدا مخالف ہی رہا۔ اب اگر سائنس دان لادین ہوگا تو کس طرح وہ تحقیق کی تعبیر میں روحِ خدا پائے گا؟ لہٰذا یہاں سے مغرب کا تصورِ تاریخ تباہ کن ہوتا چلا گیا۔ یوں پروفیسر یوول نوح ہراری کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا پوزیشن اختیار کریں۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام، استعماریت، ریاستی آمریت، منڈی کی من مانیوں اور جسمانی عیش و طرب کے قصیدے پڑھتے پڑھتے وہاں پہنچ گئے جہاں فرعون نے خدائی کا دعویٰ کردیا تھا، کیوں کہ اُس کا فہم یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ کوئی بالاتر ہستی بھی ہوسکتی ہے جو نظام چلا رہی ہے۔

سادہ سی بات ہے، معاشرہ و تہذیب انسانوں سے بنتے ہیں، بے جان اشیا سے نہیں۔ تہذیبیں جو فنا ہوئیں، اُن کے بے جان مادی آثار ملتے ہیں، اور آثار ہی کہلاتے ہیں۔ معاشرہ فرد، خاندان، رشتے داروں، احباب اور باہم محبت کے رشتوں سے پروان چڑھتا ہے، جو بتدریج ثقافت اور پھر تہذیب کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یہی ہے وہ تہذیب و معاشرت جس نے انسان کو اس مقام تک پہنچادیا، اور اب اپنی ہی تشکیل و معاشرہ بندی کی منکر ہوئی جاتی ہے۔ یہ کتاب معروف اسرائیلی مؤرخ یوول نوح ہراری کی

Sapiens:A Brief History of Human Kind
21 Lessons for 21st Century
Homo Dues:A Brief History fo Tomorrow

نامی کتابوں میں پیش کی جانے والی فکر کی تنقید پر مبنی ہے۔ یہ کتابیں جدید سائنس پرست مغرب کا علمی مؤقف ہے۔ یہ مؤقف مذہب، روایت اور تہذیب سے متصادم ہے۔ یہ مغربی مؤقف مستقبل کی دنیا میں الٰہیات کا کوئی کردار تسلیم نہیں کرتا۔ زیر نظر کتاب کے مضامین مغرب کے اس مؤقف کا سامنا کرنے کی کوشش ہے۔ مذکورہ کتاب ’’آدمی کی تہذیب‘‘ میں مغرب اور مذہب کی تاریخ و عقائد کی تفصیل کو چند اصطلاحوں میں سمیٹنے کی سعی کی گئی ہے۔

اسلام مسلمانوں سے صرف یہی تقاضا نہیں کرتا کہ وہ حق کو پہچانیں، بلکہ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ مسلمان حق کے ساتھ باطل کا بھی شعور حاصل کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حق و باطل کی کش مکش ابتدا سے جاری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گی۔ اس کش مکش میں کردار بدلتے رہیں گے، مگر یہ کش مکش کبھی ختم نہیں ہوگی۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں سمجھنے اور اس کی تنقید لکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ نوجوانوں میں ایسے لوگ خال خال نظر آتے ہیں جو مغرب کو پڑھتے اور اس پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوں۔ ناصر فاروق ایسے ہی نایاب نوجوانوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی زیادہ توجہ مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی پر مرکوز ہے۔ وہ اس حوالے سے مترجم کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں اور طبع زاد تحریریں تخلیق کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ناصر فاروق کی خاص بات یہ ہے کہ انہیں اپنے مذہب، تہذیب اور تاریخ سے محبت ہے، اور وہ مغرب کو پڑھتے ہوئے مسلم تناظر کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے آپ مغرب کی سائنسی اور تکنیکی فکر کو سمجھنے کے قابل ہوسکیں گے۔ ناصر فاروق کے زیر نظر مضامین مغرب کی تکنیکی ترقی کے کئی اہم پہلوئوں کو سامنے لائے ہیں۔ ناصر فاروق مغربی فکر کی تفہیم اور ابلاغ کے حوالے سے جتنی محنت کریں گے ان کی تحریروں کی قدر و قیمت اتنی ہی بڑھتی جائے گی۔ اس کام پر وہ تحسین کے مستحق ہیں۔ ’’آدمی کی تہذیب‘‘ کا مقصد اسرائیلی پروفیسر یوول نوح ہراری کی مقبول کتابوں اور اُن کے طریقہ ہائے تحقیق کا جائزہ لینا ہے۔ دینی اسلوب سے تخلیق سے ارتقا اور تہذیب کی تشکیل تک جامع تعلیمات اور تاریخ سے سماجی مثالیں پیش کرنا ہے۔ مذہب، فلسفہ، تاریخ، سیاست اور حالاتِ حاضرہ ناصر فاروق کے خاص موضوعات ہیں۔
خوب صورت سرورق کے ساتھ مضبوط جلد، اعلیٰ سفید کاغذ پر اعلیٰ حروف خوانی کے ساتھ کتاب اچھی طبع ہوئی ہے۔