معروف کالم نگار اللہ بخش راٹھور نے بروز پیر 26 فروری 2024ء کو اپنے زیر نظر کالم میں کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’سندھ ایکسپریس‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’سندھ میں حکمرانی کے حوالے سے مختلف آرا موجود ہیں۔ عام طور پر اس امر پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ گزشتہ ساڑھے بارہ برس سے سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ ہی آخر کیوں؟ اس پر مستزاد مزید 5 برس کے لیے موصوف ہی کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ بننے کی بات کی گئی اور انہیں باقاعدہ طور پر پیپلز پارٹی کی قیادت نے بعدازاں نامزد بھی کردیا تو کئی طرح کی باتیں سننے میں آئیں۔ اس امر پر اتفاقِ رائے پایا گیا کہ وزارتِ علیا کے منصب کے لیے فریال تالپور سے لے کر ناصر حسین شاہ تک جتنے بھی نام لیے گئے ان میں سب سے بہتر امیدوار سید مراد علی شاہ کو گردانا گیا۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ اگر نواز لیگ نے پنجاب میں خاتون وزیراعلیٰ کو نامزد کیا ہے تو پھر کیوں نا سندھ میں بھی اسی طرح کا تجربہ کیا جائے اور یہاں پر بھی یہ ریکارڈ قائم ہوجائے کہ صوبہ سندھ میں بھی عورت چیف ایگزیکٹو ہوسکتی ہے۔ اسے پی پی کی دوسری رائےسمجھا گیا۔ لیکن اس سے رائے عامہ کیا ہوتی؟ یا مختلف سیاسی حلقے کیا کیا باتیں بناتے؟ اسے پیش نظر رکھتے ہوئے ہی شاید دوسری کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کیا گیا۔
ہمارے ہاں دو قسم کی انتہائیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ سید مراد علی شاہ نے اپنی وزارتِ علیا کے دوران سندھ کا ستیاناس کر ڈالا ہے۔ کرپشن ان کے دور میں عام ہوچکی ہے۔ حکومتِ سندھ نے اپنے سارے مالی وسائل کو چند طاقتور حلقوں کے ڈسپوزل پر دے دیا۔ اس انتہا میں بھی یقیناً کچھ باتیںدرست ہوں گی۔ یہ ممکن ہوسکتاہے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ سید مراد علی شاہ ہی سارے فیصلے ماضی میں کرتے رہے ہیں، یہ بات سو فیصد درست نہ ہو۔ عام تاثر یہ ہے کہ سید مراد علی شاہ سندھ کے چیف ایگزیکٹو ضرور رہے ہیں اور اب تو پانچ برس مزید بھی اس عہدے پر فائز رہیں گے، تاہم سارے نہ سہی اکثر فیصلے پہلے کی طرح اب کی مرتبہ بھی طاقت کے اصل مرکز کی طرف سے ہی صادر ہوتے رہیں گے۔ اس حوالے سے پی پی پی کی قیادت میں ایسے متعدد رہنما ہیں جو سندھ کی حکومت میں با اثر ہیں، ان کی باتوں اور کہے کو کوئی بھی نہیں ٹال سکتا۔ یہ بھی تاثر عام ہے کہ سندھ کا چیف ایگزیکٹو خواہ کوئی بھی بن جائے لیکن ان کا حکم بہرحال ضرور چلتا ہے۔ وہ چاہے وزارتِ علیا کے منصب پر نہ بھی فائز ہوں، پھر بھی سکہ اور حکم انہی کا جاری و ساری رہتا ہے۔ پارٹی اور حکومتِ سندھ میں کئی ایسے رہنما ہیں جن کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوں، لیکن قرعۂ فال ہمیشہ سید مراد علی شاہ کے نام ہی نکلتا ہے۔
مراد علی شاہ جو کسی زمانے میں محکمہ فشریز میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے، اُس وقت مجھے انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ تب انہوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ بعدازاں جب سید مراد علی شاہ کے والد سید عبداللہ شاہ سینیٹر تھے اور پھر وہ وزیراعلیٰ سندھ بھی بنے اُس وقت مراد علی شاہ اُن کے زیر تربیت رہے۔ یہ بھی اپنے مرحوم والد ہی کی طرح سے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ان کا دوسرا دور شروع ہوا۔ ان کا سیاست کے علاوہ بھی وسیع حلقۂ احباب اور سماجی رابطہ ہے۔ موصوف نواںجتوئی کے جتوئیوں سے لے کر مختلف مخالف خاندانوں میں بھی اپنا اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی دیکھی گئی ہے کہ پی پی کے وزارتِ علیا کے لیے جتنے بھی امیدوار تھے ان میں سید مراد علی شاہ زیادہ سمجھ دار، پڑھے لکھے اور حکومتی معاملات میں زیادہ بہتر آگہی رکھنے والے گردانے گئے ہیں۔ انہیں محض اپنی وزارتِ علیا کے دوران ہی حکومت چلانے کا تجربہ حاصل نہیں ہوا، بلکہ قبل ازیں سید قائم علی شاہ کے دور میں بھی خاص طور پر مالی امور میں اور پانی کے ایشوز پر انہیں تجربہ اور آگہی حاصل ہوئی، کیوں کہ انہوں نے ان معاملات کو بڑے قریب سے دیکھا جس کی وجہ سے پی پی قیادت بھی انہیں سندھ کے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز کرنے کے لیے آمادہ اور تیار ہوئی۔
ایک دوسری انتہا پسندی یہ ہے کہ سید مراد علی شاہ کے سوا وزارتِ علیا کا کوئی بھی اور امیدوار نہیں تھا، جو تھے وہ کسی بھی طور سے ان سے بہتر نہیں تھے۔ ’’خدا جب حُسن دیتا ہے، نزاکت آ ہی جاتی ہے‘‘ کے مصداق اقتدارکی کرسی پر جس سیاسی رہنما کو بھی بٹھا دیا جائے گا وہ اچھی یا خراب کارکردگی کا مظاہرہ ضرور کرے گا، البتہ اسے بہتربنانے کے لیے تربیت کی ضرورت پڑے گی، جس کی وجہ سے سید مراد علی شاہ کے ساتھ تین، چار مزید امیدوار بھی ظاہر کیے گئے اور ساتھ ہی یہ اشارہ بھی کہ ان میں سے بھی کوئی وزیراعلیٰ بن سکتا ہے۔ لہٰذا پنجاب میں خاتون وزیراعلیٰ کو سامنے رکھتے ہوئے سندھ میں بھی اسی نوعیت کا تجربہ کرنا کوئی عقل مندی کی بات اس لیے نہیں سمجھی گئی کہ ایک طرف وفاق میں اگر صدرآصف علی زرداری ہوں گے تو دوسری جانب ملک کے ایک انتہائی اہم صوبے کے وزیراعلیٰ کے منصب پر ان کی ہمشیرہ فریال تالپور… تو اس صورت میں اسے اقربا پروری ہی سمجھا جاتا۔
سندھ میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے حوالے سے کسے اس عہدے پر بٹھایا جانا چاہیے تھا؟ اس سے بھی کہیں بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ صوبے کے اندر ایک بہتر اور اچھی حکمرانی کیسے اور کیوں کر قائم کی جاسکتی ہے؟ اس بارے میں ترجیحات کا تعین ضروری ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے صوبے کا حکومتی نظام ڈیجیٹلائزڈ کرنا پڑے گا تاکہ شفافیت دکھائی دے۔ اس حوالے سے کچھ ادارے بھی قائم کیے گئے ہیں لیکن وہ تاحال پوری طرح سے فنکشنل نہیں ہوسکے ہیں۔ اسی طرح سے عام آدمی کو کیسے ریلیف دیا جائے؟ اس بارے میں بھی سوچنا پڑے گا، محض یہ کہہ دینا کہ صوبے میں مہنگائی اور بے روزگاری تب ختم ہوگی جب وفاق اپنی پالیسیاں تبدیل کرے گا۔ یہ اصل میں ادھورا سچ ہے۔ اگر پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کو سر گرم کیا جائے اور وہ کاروباری اداروں، کارخانوں اور عام دکانوں پر جاکر چھاپے ماریں تو صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔ اب تو یہ صاف لگ رہا ہے کہ حکومت ریگولیٹری اتھارٹی کے طور پر کوئی بھی کام نہیں کررہی ہے۔ تمام اشیا کی قیمتیں جب آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں تو چند عام افراد انتظامیہ یا حکومت کے ہاں جانے کے بجائے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ صوبے میں جتنا بھی نقلی دودھ فروخت ہورہا تھا اس پر کنٹرول عدالت نے کیا، جبکہ حکومتِ سندھ خاموش تماشائی بنی رہی۔ یہاں تک کہ کوکنگ آئل اور دودھ کے نرخ میں اضافے کے خلاف بھی عوام نے عدالت ہی کا دروازہ کھٹکھٹایا، حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ اگر سارے کام عدالت ہی کو کرنے ہیں تو پھر انتظامیہ یا حکومت کا آخر فائدہ ہی کیا ہے؟ ہمارے ہاں آئے دن اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں۔ مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کوئی بھی ادارہ اپنی ذمہ داری ادا کرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے ارسا میں جو تبدیلی کی ہے اس کی وجہ سے سندھ کو ملنے والے پانی کا مسئلہ مزید خراب ہوگا۔ حکومتِ سندھ کو اس سلسلے میں سی سی آئی میں اپنا کیس مؤثر انداز میں لے جانا پڑے گا۔ ملک بھر میں سب سے زیادہ غربت بھی سندھ ہی میں ہے، جس کے خاتمے کے لیے مراد علی شاہ نے ماضی میں کوئی بھی کام اپنے دورِ حکومت میں نہیں کیا ہے۔ یہ بھلا کس طرح ممکن ہے کہ لوگ مارے غربت کے خودکشی کرتے رہیں اور حکمران اپنی موج مستیوں میں لگے رہیں! سندھ سے ملنے والے قدرتی وسائل از قسم تیل، گیس وغیرہ دوسرے استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں دیہات اور شہروں میں وقت پر کھانا پکانے کے لیے گیس تک میسر نہیں ہوتی اور نہ ہی پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔ وفاق جس طرح سے سندھ کے قدرتی وسائل بجلی، گیس اور تیل کو لے جاتا ہے وہ سراسر آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت ِ سندھ کو اس کے لیے بھی پیش رفت کرنی چاہیے۔ مالی وسائل ہونے کے باوجود صوبے کے نوجوان روزگار سے محروم ہیں۔ نوکریوں کا سرِعام فروخت ہونا کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ چپراسی سے لے کر پبلک سروس کمیشن سندھ کی حد تک لاکھوں روپے کی کرپشن کے قصے زبان زدِ عام ہیں اور یہ میڈیا کے توسط سے اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔ سندھ کے اداروں کو کون بہتر بنائے گا؟ کیا ان سارے ایشوز کا تعلق سندھ اور اچھی حکمرانی سے نہیں ہے؟ جس حکومت کی ترجیحات میں عام لوگ، اور ان کی زندگی کو بہتر بنانا شامل نہیں ہے، اس کے ہونے یا نہ ہونے سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے؟۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ کے نئے وزیراعلیٰ اِس مرتبہ کس کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔