فرائیڈے اسپیشل: بلور صاحب! آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس انٹرویو کے لیے وقت عطا کیا۔ میں یہ انٹرویو اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کے لیے کررہا ہوں۔ آپ چونکہ عوامی نیشنل پارٹی کے سینئرترین راہنما ہیں اور اس کے ٹکٹ پر کئی بار رکن قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں، آپ نے حیدرآباد ٹریبونل کا بھی سامنا کیا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ تو میرا جو پہلا سوال ہے وہ ملک کے عمومی سیاسی حالات اور پچھلی 76 سالہ تاریخ سے متعلق ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان ایک سیاسی جماعت کی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد پچھلے 76 سالوں میں ہمارے ہاں نہ تو جمہوری ادارے پنپ سکے ہیں چاہے وہ پارلیمنٹ ہو یا اس پارلیمنٹ کا سب سے اہم عنصر سیاسی جماعتیں، نہ ان کے اندر وہ جمہوریت پروان چڑھ سکی جو کہ ہم انڈیا میں دیکھتے ہیں کہ اُن کے جمہوری ادارے اور ان کی پارلیمنٹ بہت زیادہ ترقی کرگئے ہیں، اُن کی سوچ میں پختگی ہے، جبکہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ہم نے 1947ء میں آغاز کیا تھا۔ اس کا ایک عملی اظہار آپ اور ہم حالیہ عام انتخابات میں ایک بار پھر دیکھ چکے ہیں۔ اس سیاسی ناپختگی بلکہ سیاسی ابتری کی وجہ آپ کس کو سمجھتے ہیں؟
حاجی غلام احمد بلور: پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے ہم عصر باچاخان اور دیگر مجاہدینِ آزادی کی کوششوں سے بنا، ان لوگوں نے آزادی کے لیے بہت قربانیاں دیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد وہ لوگ برسراقتدار آگئے جو اس جنگِ آزادی یا تحریکِ پاکستان کا حصہ نہیں تھے، بلکہ انگریز کے ساتھی تھے۔ مثال کے طور پر آپ اسکندر مرزا کو دیکھیں، قیام پاکستان سے پہلے وہ یہاں ڈی سی تھے، انہوں نے یہاں خدائی خدمت گاروں کو مارا پیٹا، ان پر تشدد کیا لیکن پاکستان بننے کے بعد وہ وزیر داخلہ بنے، پھر گورنر جنرل بنے۔ ہمارے مقابلے میں انڈیا میں جو لوگ تحریکِ آزادی کے روحِ رواں تھے، آزادی کے بعد وہی لوگ اقتدار میں آگئے، ان کو اپنے وطن سے پیار تھا، وہ اپنے ملک کو آگے لے کر گئے۔ نہرو نے پندرہ سولہ سال اپنے ملک کی خدمت کی اور اپنے ملک کو بنایا۔ بدقسمتی سے یہاں وہ لوگ آگئے جن کے بارے میں قائداعظم نے کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ تو ان دونوں قیادتوں کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ پھر اللہ کی مہربانی سے (ہنستے ہوئے)یہاں چار مارشل لا لگے، انڈیا میں تو ایک مارشل لا بھی نہیں لگا۔ باقی کے سول ادوار میں بھی اسٹیبلشمنٹ ایک دن کے لیے بھی اقتدار سے الگ نہیں ہوئی جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اسی طرح جس وقت جنگِ آزادی لڑی جا رہی تھی تو اس ملک کی آزادی کے لیے تحریک سادہ لوح معصوم عوام چلارہے تھے، اور یہاں جو طبقہ برسراقتدار آیا وہ انگریز اسٹیبلشمنٹ کا وفادار اور ساتھی تھا۔ ہم لوگوں نے انگریزوں کا فیصلہ نہیں مانا تو انہوں نے انڈیا کو سب کچھ دے دیا اور ہمیں خالی ہاتھ چھوڑ دیا۔ اس وقت انڈیا کے پاس 700 ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جبکہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کے ہاں سیاسی ادارے مستحکم بنیادوں پر کھڑے ہیں جب کہ ہمارے ہاں لولی لنگڑی جمہوریت بھی کسی کو قبول نہیں ہے، جس کا خمیازہ آج ہم سیاسی اور معاشی تنزل کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کیا، اور یہ حقیقت بھی ہے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ پاکستان کے 76 سالوں میں تقریباً 35 سال فوج کی براہِ راست حکومت رہی۔ لیکن اس میں ایک ضمنی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے آپ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کو کیسے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں؟ انہوں نے بھی تو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار میں آنے کے لیے اپنا کندھا پیش کیا ہے، تو کیا سیاست دان اس ابتری کے ذمہ دار نہیں ہیں؟
حاجی غلام احمد بلور: دیکھیں اقتدار بہت عجیب شے ہے۔ لوگوں نے میدانِ کربلا میں اقتدار کی خاطر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بال بچوں سمیت شہید کیا۔ تو جب اقتدار آتا ہے، لوگ اقتدار کے پاس خودبخود جاتے ہیں۔ ان کو پھر لوگ مل جاتے ہیں۔ یہاں آزادی کے بعد جو لوگ برسراقتدار آئے یہ وہی تھے جن کے بزرگ انگریزوں کے ساتھ تھے۔ جو لوگ آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، ان کو اقتدار میں حصہ نہیں دیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے ہمارے بھائیوں نے ایسے لوگوں کو آگے لانے کے لیے سہولت کاری فراہم کی، تو یہ ہمارا ایک تاریک ماضی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مستقبل کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور ملٹری کے لوگ ساٹھ سال کی عمر کے بعد سیاست شروع کردیتے ہیں۔ جو بندہ ریٹائر ہوتا ہے وہ مر جاتا ہے، اس کو کوئی پوچھتا نہیں، اس کا ماتحت بھی اسے نہیں پوچھتا، لیکن سیاست دان مرکر بھی زندہ ہوتا ہے۔ آپ بھٹو کو دیکھ لیں۔ بے نظیر بھٹو اور باچا خان کو دیکھ لیں، یہ لوگ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں، جب کہ اسٹیبلشمنٹ والے زندہ ہوکر بھی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد عملاً مرجاتے ہیں، ان کے نام بھی کسی کو یاد نہیں رہتے۔
فرائیڈے اسپیشل: حاجی صاحب! یہ جو لیڈرشپ کا ہمارا ایک مسئلہ ہے اس میں یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں پارٹیوں کے اندر قیادت پر موروثیت کا کلچر غالب ہے۔ وہاں ایک سرگرم کارکن یا دوسرے تیسرے درجے کے راہنما کو قیادت کی صفوں میں نہیں آنے دیا جاتا۔ ایک پارٹی میں ایک ہی خاندان کے اندر سب کچھ چل رہا ہوتا ہے، تو شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں مستحکم نہ ہوسکیں۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
حاجی غلام احمد بلور: میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، دیکھیں انڈیا میں جو گاندھی خاندان ہے سیاست میں، اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ موتی لعل نہرو اور جواہر لعل نہرو سے شروع ہونے والا یہ سفر اندراگاندھی اور راجیو گاندھی سے ہوتا ہوا راہول گاندھی تک پہنچ چکا ہے۔ آج اگر راہول بھارتی سیاست میں آگے آیا ہے تو اس کے خاندان کی قربانیاں ہیں، خدمات ہیں، اس وجہ سے لوگ ان کے ایک طرح عاشق ہوجاتے ہیں، متوجہ ہوجاتے ہیں، ان کو آگے کیا جاتا ہے۔ بنگلادیش میں شیخ حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء اس کی نمایاں مثالیں ہیں، حتیٰ کہ سری لنکا میں بھی ہمیں یہ کلچر کارفرما نظر آتا ہے۔ انڈونیشیا میں سوئیکارنو کی بیٹی سوئیکارنو پتری کو آگے کیا گیا۔ تو یہ ہمارے ہاں ایک کلچر ایسا ہے کہ اس میں چونکہ قربانی ہوتی ہے، محنت ہوتی ہے، بھاگ دوڑ ہوتی ہے تو پھر اس میں جو چہرے ہوتے ہیں لوگ ان کا احترام کرتے ہیں، ان کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرتے ہیں۔ تو یہ اتنی بڑی بات نہیں کہ کہا جائے کہ اس سے سیاسی نظام مستحکم نہیں ہوتا۔ یہاں مقتدرہ لوگوں کو اٹھاکر ان سے اپنے معاملات طے کرتی ہے۔ مجھے ولی خان صاحب نے بتایا کہ لندن میں انڈیا آفس لائبریری میں تحقیق کے سلسلے میں ایک خط دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک گورنر وائسرائے سے چھٹی لے رہا ہے۔ اس پر وائسرائے نے لکھا کہ باچا خان تحریک چلا رہا ہے اور تم چھٹی مانگ رہے ہو! تو گورنر نے دوسرا خط لکھا کہ میں نے باچاخان کے ایک بہت نزدیکی ساتھی کے ذریعے اُن کی تحریک کو اکتوبر تک موخر کرادیا ہے تو مجھے اب چھٹی ملنی چاہیے۔ تو یہ ایسے ہوتا ہے کہ کچن کیبنٹ سے ایک بندہ اٹھاکر اُس کے ساتھ سازباز کی جاتی ہے۔ 1956ء میں ون یونٹ بنا، 1958ء میں مارشل لا لگا۔ باچا خان اور ولی خان نے اس کے خلاف تحریک چلائی۔ 6ہزار آدمی باچا خان کے ساتھ گرفتار ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ میں فیڈریشن میں رہنا چاہتا ہوں، مجھے صوبائی خودمختاری چاہیے، ہم ون یونٹ نہیں مانتے۔ باچا خان گرفتار ہوئے اور 6 سال جیل میں گزارے۔ جب قیوم خان گرفتار ہوئے تو انھوں نے لکھ کر دے دیا کہ میرا باچا خان سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس طرح وہ واپس آگئے، پھر انتخابات میں حصہ لیا اور اُن کی 8 سیٹیں آئیں۔
فرائیڈے اسپیشل: ان موروثی جماعتوں کے برعکس جماعت اسلامی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں قیادت کا انتخاب اور تبدیلی میرٹ کی بنیاد پر کی جاتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ پچھلے 83 سالوں میں اس کا کوئی بھی امیر ایک صوبے یا خاندان سے نہیں آیا، لیکن اس کے باوجود جماعت بھی انتخابی میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکی ہے۔ چونکہ آپ ساری عمر سیاسی جدوجہد میں گزارچکے ہیں تو اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
حاجی غلام احمد بلور: میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی میں جمہوریت ہے اور وہ دوسری پارٹیوں سے بہت زیادہ مضبوط ہے۔ جبکہ باقی سب پارٹیوں میں یہی ہے کہ ہر پارٹی کا ایک لیڈر ہے، لوگ اس کے ساتھ وابستہ ہیں، اس کے بچوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ لیکن جماعت اسلامی میں ایسا نہیں ہے۔ ان کا ایک امیر پنجاب سے آتا ہے، ایک سندھ سے آتا ہے، ایک پختون خوا سے آتا ہے۔ ان کا یہ سلسلہ بہت اچھا ہے۔ لیکن وہ عوام کو اپنی طرف راغب نہ کرسکے۔ کیونکہ ان کا اپنا طرزِ زندگی ہے، یا عقیدہ کہہ لیں کہ وہ مولانا مودودی کی ہر بات کو سرآنکھوں پر لیتے ہیں، ان کو امام سمجھتے ہیں۔ دوسری مذہبی جماعتوں میں یہ چیز نہیں ہوتی، تو یہ ان کے ساتھ بھی نہیں چل پاتے، اس کی وجہ سے جماعت نہ مذہبی بن سکی نہ سیاسی بن سکی۔ جماعت اسلامی صرف مولانا مودودی کی کتابیں پڑھنے پر زور دیتی ہے۔ صرف وہ ان کے نزدیک جائز ہیں۔ جبکہ باقی مذہبی لوگ جو ہیں یعنی تبلیغی جماعت والے، جمعیت علمائے اسلام والے، شاہ احمد نورانی والے… یہ ان کو اپنے سے بہتر نہیں سمجھتے، حالانکہ ان ساروں نے ماضی میں اپنی اتحادی حکومتیں بھی بنائی ہیں۔ لیکن وہ پھربھی اکٹھے نہیں رہ سکے۔
فرائیڈے اسپیشل: جیسے آپ نے اشارہ کیا، جماعت اسلامی کی ایک بہت طویل تاریخ ہے جو اسّی سال سے زائد عرصے پر محیط ہے، لیکن ابھی تک یہ ایک مقبول عوامی پارٹی نہ بن سکی، آپ کی نظر میں اس کی وجہ کیاہے؟
حاجی غلام احمد بلور:جماعت اسلامی اس لیے ایک عوامی مقبول پارٹی نہ بن سکی کہ اس کا ایک عقیدہ ہے، جو اس عقیدے کو مانے گا وہ آگے آئے گا، جو نہیں مانے گا، وہ آگے نہیں آئے گا۔ مولانا مفتی محمود صاحب نے اپنے علمائے کرام کے ذریعے اپنی پارٹی کو بنایا، عوام میں گئے۔ بھٹو جب پورے پاکستان میں جیت گئے تھے، ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود صاحب سے ہار گئے۔ انہوں نے اپنے آپ کو عوام میں پیش کیا، اپنے دیوبند کے علمائے کرام کے ذریعے انہوں نے مسجدوں پہ قبضہ کیا اور مسجدوں میں انہوں نے بیٹھ کر اپنا بڑا کام چلایا۔ تو جو چیزیں جماعت اسلامی استعمال نہیں کرسکی، انہوں نے ان پر قبضہ کرکے انھیں استعمال کیا۔ پھر ایک بات اور بھی ہے کہ پنجاب میں جو سب سے بڑا صوبہ ہے، ملّا کو پسند نہیں کیا جاتا۔ پچھلے الیکشن میں عمران خان نے منصورہ جاکر سراج الحق سے درخواست کی کہ لاہور میں اپنا امیدوار ہمارے حق میں دست بردار کرلیں تاکہ مسلم لیگ (ن) کو شکست دی جاسکے۔ تو اس پر سراج الحق صاحب نے کہا کہ آپ نے بہت دیر کردی ہے، پہلے کہتے تو ہم کر لیتے، ابھی تو ہم بہت دور نکل گئے ہیں۔ جب نتیجہ آیا تو ان کے امیدوار نے چار پانچ سو ووٹ لیے تھے۔ اگر عمران خان کی بات مان لیتے تو عزت رہ جاتی۔ اب دیکھیں پنجاب سے کوئی ملاّ اسمبلی میں نہیں آتا، سندھ سے نہیں آتا۔ کراچی سے آتے تھے، ایم کیو ایم کے بعد اب وہاں سے بھی نہیں آتے۔ بلوچستان میں صرف پختونوں کے علاقے سے ملاّ آتا ہے، بلوچوں کے علاقے سے نہیں آتا۔ تو یہ ہمارے پختون جو ہیں ان کا مذہب سے ایک خاص لگاؤ ہے۔ جماعت اسلامی دیر سے جیتتی آئی ہے لیکن اِس مرتبہ وہ بھی ہاتھ سے نکل گیا، سراج الحق صاحب اپنی سیٹ بھی ہارگئے۔ جماعت اسلامی کے لیے مسئلہ یہی ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اس وجہ سے جماعت کو خیرباد کہا کہ ہمارا کام اسلام کی خدمت کرنا ہے، سیاست نہیں۔ اگر جماعت اسلامی بھی تبلیغی جماعت والوں کی طرح سیاست سے گریز کرتی تو کچھ بن پاتا۔ لیکن انہوں نے دو کشتیوں پر پاؤں رکھے اور نتیجہ یہی نکلا کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔
فرائیڈے اسپیشل: جماعت کی مرکزی لیڈرشپ کے بارے میں آپ نے اشارہ کیا کہ وہ ایک جمہوری طریقہ کار کے تحت آتے ہیں، اسی طرح اے این پی بھی اپنی صفوں میں جمہوریت کا دم بھرتی ہے لیکن عملاً وہاں بھی ساری سیاست ایک ہی خاندان کے گرد گھومتی ہے، تو کیا یہ ایک تضاد نہیں ہے؟ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
حاجی غلام احمد بلور: اگر آپ مجھے حق دے رہے ہیں تو پھر تو براہِ راست حق دے دیں۔ ہمارے ہاں عوامی نیشنل پارٹی میں ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے لوگ فارم بھرتے ہیں اور پھر ہماری ایک کونسل بنتی ہے، یہ کونسل ان سب لوگوں کو منتخب کرتی ہے، نام پیش ہوتے ہیں، تو جو زیادہ ووٹ لیتا ہے وہ دو آدمی اوپر چلے جاتے ہیں۔ تو اس وجہ سے ہر علاقے کے لوگ آتے ہیں۔ ہمارے پشاور سے پچیس تیس بندے منتخب ہوتے ہیں۔ پھر آگے جاکر صوبائی سطح پر ایک الیکشن ہوتا ہے۔ اس میں کچھ لوگ مرکزی کونسل میں جاتے ہیں۔ ایسا ہر جماعت میں نہیں ہوتا۔ پارٹی کا اپنا ایک جمہوری طریقہ کار ہے۔ اب دیگر پارٹیوں میں مثلاً پیپلز پارٹی میں زرداری صاحب نے گیارہ سال جیل کاٹی ہے، تو اُن کے سامنے کون کھڑا ہوسکتا ہے؟ زرداری کا بیٹا آئے گا، ان کا پوتا بھی ہوگا۔ باچاخان نے تیس سال جیل کاٹی ہے، ولی خان نے سولہ سال جیل کاٹی ہے، میں نے چھے سال جیل کاٹی ہے، اتنا اچھا بڑا گھر چھوڑ کے میں حیدرآباد جیل میں اپنے گھر سے ایک ہزار میل دور قید تھا، اور اس میں بھی ایک سال تک ہم سے ملاقات پر پابندی تھی۔ تو پھر لیڈر کے ساتھ ایک محبت پیدا ہوجاتی ہے جو آگے جاکر اس کے بچوں کے ساتھ بھی ہوجاتی ہے۔ تو شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں وراثت باپ سے بچوں کو منتقل ہوتی ہے جو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:پاکستان قومی اتحاد میں جماعت اسلامی کے علاوہ آپ کی پارٹی بھی شامل تھی، تو اس اتحاد میں جماعت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟
حاجی غلام احمد بلور: 1973ء میں ہم نے یہاں پر صوبے میں متحدہ محاذ بنایا تھا، میں اس کا ضلع پشاور کا صدر تھا اور قاضی صاحب اس کے جنرل سیکرٹری تھے۔ ہم آپس میں باتیں بھی کرتے تھے، بحث مباحثے بھی کرتے تھے، کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کرنا چاہتا ہے لیکن نہیں کرسکتا، لیکن پھر کر بھی دیتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ سارے علمائے کرام اسلام کی بات کرتے ہیں۔ میں کہتا کہ اسلام کا جھگڑا تو کسی کا ہے ہی نہیں۔ کون سا مسلمان ایسا بے وقوف ہے جو اسلام کو نہیں مانتا! سب اسلام کو مانتے ہیں، بس اپنی اپنی اپروچ ہے۔ اسی طرح چاروں ائمہ کرام میں ہر امام کی اپنی اپنی اپروچ ہے۔ تعلیم عام ہوگئی ہے تو ہر تعلیم یافتہ آدمی اپنی سوچ رکھتا ہے۔ تو اسلام کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اسلام سب کا ایک ہے۔ آج سے کئی سو سال پہلے عربوں میں لڑائیاں ہوئی ہیں، بنو امیہ اور بنو عباس دونوں لڑے، دونوں مسلمان تھے۔ جھگڑا تو اقتدار اور وسائل پر ہوا تھا۔ اسلام پر تو جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ تنازع یہی تھا کہ وسائل کس کے پاس ہوں گے۔ سارے مسلمان تھے، کافر تو نہیں تھے، وہ عربی تھے اور قریش بھی تھے تو وہ کیوں لڑپڑے؟ ابھی اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کو ختم کردو۔ آپ آئین اٹھا کر دیکھیں، اس میں تو لکھا ہے کہ آپ علیحدہ بھی ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں تو ہم یہ نہیں کہتے، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارا بھی کچھ حق ہے، ہمارے وسائل ہیں، وسائل کا کنٹرول کسی اور کے پاس ہے، یہ ہمیں مسلمان مانتے ہیں لیکن پاکستانی نہیں مانتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں کے شہریوں میں فرق نہیں ہے، میں کہتا ہوں کہ فرق ہے۔ ہم پٹھان اگر کسی کو ماما کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس کو عزت دی ہے۔ اگر آپ پنجابی کو ماما کہہ دیں تو اس کے نزدیک یہ گالی ہے، وہ آپ کو مارنے کے لیے دوڑتا ہے۔ تو ہماری اور ان کی ثقافت میں فرق ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے جو مسائل ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے وسائل پر مرکز نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ آپ اپنے خرچے کم کریں اور سب کو منصفانہ حصہ دیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ ہم نے افغان صدر اشرف غنی کی دعوت پر کابل کا دورہ کیا تو عشائیے کے بعد ہم بیٹھے ہوئے تھے، میں نے پوچھا کہ آپ کے ملک کے اوپر کتنا قرض ہے؟ انھوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کا کوئی قرض نہیں، اللہ کی مہربانی ہے۔ میں نے کہا کہ یہاں تو کابل میں بڑی بڑی گاڑیاں پھر رہی ہیں، آپ ان پر ڈیوٹی نہیں لیتے؟ انھوں نے کہا ہم تھوڑی ڈیوٹی لیتے ہیں۔ میں نے کہا ملک کیسے چلاتے ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ ہمارے آٹھ ارب ڈالر امریکی بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں، پھر ہم نے کنٹرول بہت زیادہ رکھا ہوا ہے۔ ہم صرف وہی کام کرتے ہیں جو ہم کرسکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:جماعت اسلامی نے ہمیشہ انتخابی اتحادوں کو ترجیح دی، پاکستان قومی اتحاد میں گئی، آئی جے آئی میں گئی، پھر ایم ایم اے میں گئی۔ تو جماعت کو ایک طعنہ یہ دیا جاتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ انتخابی اتحادوں کے ذریعے کامیابی حاصل کی۔ آپ نے کبھی سولو فلائٹ سے کامیابی حاصل نہیں کی۔ اس کو جماعت کے اندر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے جماعت کا اپنا تشخص اور انفرادیت ختم ہوئی۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
حاجی غلام احمد بلور:میں 2022ء میں انتخابات میں کھڑا تھا، میرے مدمقابل جماعت اسلامی کے حاجی محمد اسلم تھے۔ میں نے ان کو فون کیا کہ آپ بیٹھ جائیں تو میں شاید کچھ ووٹ زیادہ لے سکوں۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ کی بڑی عزت کرتا ہوں اور آپ کے پیچھے ایک نماز بھی ادا کی ہے، لیکن یہ فیصلہ ہمارے مرکزی امیر صاحب کریں گے۔ میں نے سراج الحق صاحب کو فون کیا، وہ اُس وقت سندھ یا پنجاب میں کسی جگہ دورے پر تھے، انھوں نے کہا کہ میں واپس آکر آپ کو کال کرتا ہوں، لیکن انھوں نے کال نہیں کی۔ پھر میں نے کہا کہ چھوڑو یار کھڑا رہے۔ جب نتیجہ آیا تو جماعت کے مذکورہ امیدوار نے تیرہ سو ووٹ لیے تھے۔ جماعت کے مقابلے میں جمعیت تگڑی ہے، ان کا مسجدوں پر قبضہ ہے۔ وہ عوام میں موجود ہیں، اور عوام کو اپنی پارٹی کے حق میں ترغیب دیتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:حال ہی میں 8 فروری کو جو انتخابات ہوئے ہیں، اس کے بعد 1971ء کی مثالیں دی جارہی ہیں۔ یہ سلسلہ آخر کہاں جاکر رکے گا؟ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
حاجی غلام احمد بلور: ملک دیوالیہ تو ہوچکا ہے۔ اب اگر اعلان نہیں کرتے تو علیحدہ بات ہے۔ انڈیا ہمارے ساتھ آزاد ہوا، وہ کہاں پہنچ گیا، چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا، وہ کہاں پہنچ گیا۔ وہ اللہ اور رسول کو نہیں مانتے، تو ان کو کس نے سنبھالا دیا؟ ان کی قیادت نے ملک و قوم کی خدمت کی۔ بنگلادیش ہم سے چوبیس سال بعد آزاد ہوا، وہ ہم سے آگے چلا گیا۔ ہمارے ساتھ تھے تو یہاں کی افسرشاہی کہتی تھی کہ ہماری معیشت ان کے سیلابوں کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ اب وہ کہاں ہیں اور ہم کہاں ہیں! عمران خان واحد سیاست دان ہیں جنھوں نے ہماری روایات، تہذیب اور شائستگی کو تباہ کردیا۔ ہمارے نوجوانوں کو ایسے اخلاق دیے کہ اگر ہم اسی طرح چلتے رہے تو خدانخواستہ کسی بڑے معاشرتی حادثے سے دوچار ہوجائیں گے۔ عمران کے خلاف جو تحریکِ عدم اعتماد آئی، اس کے بعد پی ڈی ایم کو حکومت نہیں لینی چاہیے تھی، عمران مکمل طور پر فیل ہوچکے تھے لیکن عدم اعتماد نے ان کی جماعت کو نئی زندگی بخش دی۔ تحریک عدم اعتماد کےفوراً بعد نئے انتخابات کروانے چاہیے تھے لیکن وہ موقع ضائع کردیا گیا۔یہ حکومت لے کر بیٹھ گئے اور ان کا گند اپنے سر لے لیا۔ وہ اس کو سنبھال نہ سکے اوراس کانقصان ان کو ہوا، فائدہ پی ٹی آئی نے اٹھایا۔ اب جو یہ حکومت بنا رہے ہیں تو مجھے نہیں لگتا کہ یہ پانچ سال چل سکے گی۔اُس وقت پی ڈی ایم کو استعمال کیا گیا۔کس کے کہنے پر حکومت لی؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اب جو اسٹیبلشمنٹ کی حامی جماعتیں ہیں مثلاً مسلم لیگ، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی.. ان کو پچھلے تیس چالیس سال سے موقع مل رہا ہے، لیکن اے این پی اور جماعت اسلامی جیسی نظریاتی پارٹیوں کو آگےنہیں آنے دیا جاتا جو مخلص ہیں اور عوام سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان کو منظرنامے سے ہٹادیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی حامی پارٹیوں کا ایک گلدستہ بنایا ہوا ہے۔ جو ان کا منظورِنظر ہو، اس کے سب داغ دھل جاتے ہیں۔ اللہ ہمارے ملک پر رحم کرے۔ اگر سیاست دان ہمت کریں تو وہ پاکستان کو صحیح راستے پر ڈال سکتے ہیں، ورنہ یہ بہت مشکل نظر آتا ہے کہ آپ پاکستان کو اس اقتصادی اور معاشی بحران سے نکال سکیں۔ مہنگائی نے عام آد می کا جینا محال کردیا ہے۔ میرے اپنے گھر کا بجلی کا بل چھے لاکھ روپے سے زائد آیا ہے، تو یہ عوام کیا کریں گے؟لوگ بجلی کا بل لے کر پھرتے ہیں کہ یہ اتنا زیادہ کیوں ہے؟ لیکن کوئی اس پر نہیں بولتا۔عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ اگر یہی حالت رہی تو لوگوں کا سرے سے انتخابی عمل ہی سے اعتماد اٹھ جائے گا، اور بعض قوتیں چاہتی بھی یہ ہیں کہ ملک میں افتراتفری پیدا ہو اور بیرونی قوتوں کو یہاں دخل اندازی کا موقع مل سکے۔اس بین الاقوامی سازش میں بدقسمتی سے ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے استعمال ہو رہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ کی ساری عمر عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ گزری ہے۔ جیلیں دیکھیں، آپ اور آپ کے خاندان نے بہت قربانیاں دیں، تو ابھی جو انتخابی نتائج آئے ہیں یہ اے این پی کی توقعات کے خلاف ہیں جو خیبر پختون خوا میں حکومت سازی کے دعوے کررہی تھی۔ آپ کیا سمجھتے ہیں عوامی نیشنل پارٹی پھر سے قوت حاصل کرلے گی یا آپ کو اس کا مستقبل مخدوش نظر آتاہے؟
حاجی غلام احمد بلور: سیاست میں اتار چڑھاؤ رہتا ہے اور اس سے پارٹی ختم نہیں ہوتی۔ ابھی جو پشاور، مردان اور دیگر جگہوں سے نتائج آئے ہیں ان کے مطابق یہاں پی ٹی آئی جیتی ہے لیکن دوسری پوزیشن اکثر جگہوں پر ہماری آئی ہے۔ میں نے 2018ء کے الیکشن میں عمران خان کے مقابلے میں پینتالیس ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے، اگر تمام دیگر امیدواروں کے ووٹ جمع کریں تو وہ میرے نصف کے برابر بھی نہیں بنتے۔ لیکن پی ٹی آئی کو اُس وقت ووٹ دینے والی قوت کوئی اور تھی، اس نے تو انتخابی مہم بھی نہیں چلائی تھی، میں نے پوری کمپین چلائی، لیکن ووٹ پھر بھی اس کو پڑے۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ اپنے تجربے کی بنیاد پر کیا سمجھتے ہیں کہ آیا اسٹیبلشمنٹ کے اس جن کو جس نے ہماری سیاست کو گالی بنادیا ہے، کیا قابو کرنے کی کوئی امید باندھی جاسکتی ہے؟
حاجی غلام احمد بلور: یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ ہمارا کوئی بھی سیاسی لیڈر ان کے ساتھ لڑ نہیں سکتا۔ البتہ یہ ہے کہ وہ اگر خود سمجھیں کہ ہماری وجہ سے اس ملک کو نقصان پہنچا ہے یا ملک تباہ ہورہا ہے اور ہمیں اس ملک کو بچانا ہے، اور وہ یہ فیصلہ کرلیں کہ اقتدار ہمیں عوام کے حوالے کردینا چاہیے.. تو یہ ایک صورت ہوسکتی ہے۔ اگر ان پارٹیوں کے درمیان میثاقِ جمہوریت کی طرز پر کوئی معاہدہ ہوجائے تو شاید ایک امید بندھ سکتی ہے۔ دراصل سیاست دان خود کمزورہیں۔وہ اپنے اقتدار کے لیے سب کچھ کرتے ہیں۔ماضی میں اتحادوں کے لیے پیسے کس نے لیے؟ سیاسی لوگوں نے لیےہیں۔ وہ بھی کروڑوں کے حساب سے۔ تو اب ولی خان جیسے آدمی جو نہ بکتے تھے، نہ جھکتےتھے، وہ ختم ہوگئے۔جنرل ضیاءالحق کے دور کے بعد ارکانِ پارلیمنٹ کو گلی کوچوں کو پختہ کرنے، اور کھمبوں اور نالیوں پر لگادیا گیا۔ تو لوگ ووٹ اس کو دیتے ہیں جو ترقیاتی کام کرے۔ اس میں اسمبلی کا رکن بھی فنڈز کا شیدائی ہوتا ہے کہ فنڈ آئے تو اس میں سے کچھ ترقیاتی کام کرکے باقی اپنی جیب میں ڈالے۔ان چیزوں سے پیچھا چھڑانا چاہیے جو بظاہر ایک مشکل کام ہے، لیکن اگر ہم اپنی بقا چاہتے ہیں تو اس جانب آنا ہوگا اور اس ضمن میں تمام اداروں کو اپنے اپنے دائروں میں واپس جاناہوگا، اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔اس ملک کا مستقبل جمہوریت اور جمہور کی حکمرانی ہی سے وابستہ ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی دوسرے راستے کا چنائو مسائل کو مزید پیچیدہ بنائے گا۔