بچوں کا احترام کیجیے

یہ بات کتنی دل چسپ ہے کہ بعض خیالات، تصورات اور رویّے بظاہر جتنے درست نظر آتے ہیں اس سے کہیں زیادہ غلط ہوتے ہیں۔ ان میں بعض خیالات، تصورات اور رویّے تو ایسے ہیں جو کسی مخصوص و محدود جغرافیائی خطے میں رائج و مقبول ہیں، جب کہ بعض تصورات اور رویّے عالم گیر قبولیت سے ہم کنار ہیں۔ بچوں اور بڑوں کا ایک مخصوص زاویے سے ایسا ہی تعلق ہے، یعنی یہ تعلق بظاہر جتنا درست نظر آتا ہے اس سے زیادہ غلط ہے بلکہ مجھے تو کبھی کبھی مضحکہ خیز بھی لگتا ہے۔

ساری دنیا میں بچوں اور بڑوں کے باہمی تعلق کے حوالے سے ایک فقرہ کہا جاتا ہے بلکہ اس فقرے کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے، اور وہ یہ کہ ’’بڑوں پر لازم ہے کہ بچوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آئیں۔ جب کہ بچوں پر لازم ہے کہ وہ بڑوں کا احترام کریں۔‘‘ اس فقرے میں بڑوں کو جو تلقین کی گئی ہے وہ تو سمجھ میں آتی ہے، اس لیے کہ فطری‘ یعنی ممکن ہے۔ لیکن بچوں کو جو ’’تاکید‘‘ کی گئی ہے وہ کم از کم میری سمجھ سے باہر ہے، کیوں کہ غیر فطری یعنی ناممکن ہے۔ میں نے مذکورہ بالا فقرے میں بڑوں کے لیے تلقین کا لفظ استعمال کیا ہے اور بچوں کے لیے تاکید کا۔ میرے ذہن پر اس فقرے یا اس طرح کے فقرے کا یہی تاثر مرتب ہوتا ہے۔ آپ توجہ فرمائیں گے تو محسوس کریں گے کہ ’’تلقین‘‘ کے لفظ میں لازمیت کا عنصر نہیں پایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ساتھ سزا کا تاثر نہیں ابھرتا۔ اس کے برعکس تاکید میں نہ صرف یہ کہ لازمیت کا تاثر پایا جاتا ہے بلکہ جبر کا بھی۔ مطلب یہ کہ اگر بڑے ایسا نہ کریں تو کوئی بات نہیں، اگر بچے ایسا نہ کریں تو قابلِ سزا ہیں۔ عملی طور پر ہوتا بھی یہی ہے۔

ظاہر ہے کہ تاریخ کے جس دور سے بھی اس رویّے کا تعین ہوا ہوگا یہ بات طے ہے کہ اس کا تعین کسی نہ کسی بڑے نے کیا ہوگا۔ اس کے تعین میں عقل، احساس اور جذبے سے زیادہ قوت کا دخل ہوگا۔ یہاں قوت سے میری مراد یہ ہے کہ بڑوں کو ہر معاشرے میں ایک Active وجود سمجھا جاتا ہے، اور بچوں کو Passive وجود۔ یعنی یہ فیصلہ یا اس رویّے کا تعین ایک Active وجود کی جانب سے ایک Passive وجود کے بارے میں ہوا۔ بڑوں کے Active وجود ہونے اور بچوں کے Passive وجود ہونے کا یہ تصور بھی خاصا غلط اور بڑا خطرناک ہے، لیکن اس پر ہم پھر کبھی بات کریں گے۔

تو گویا میرے نزدیک بچوں سے احترام طلب کرنا ایک غیرفطری یعنی ناقابلِ فہم بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اگر بچوں کو احترام کا تجربہ ہی نہیں ہوگا تو وہ بڑوں کا احترام کس طرح کریں گے؟ مگر یہ جواب ذرا تفصیل چاہتا ہے۔

دیکھیے نا! جب ہم بچوں سے یہ کہتے ہیں کہ انہیں بڑوں کا احترام کرنا چاہیے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے بچوں کو ایک باشعور، ذی عقل فرد سمجھ لیا ہے جو نہ صرف یہ کہ مراتبِ وجود سے بہ خوبی آگاہ ہے بلکہ اپنے خیالات، احساسات اور جذبات کے اظہار پر بھی مکمل گرفت رکھتا ہے۔ وہ چاہے تو کسی چیز پر ردعمل کا اظہار کرے، چاہے تو نہ کرے۔ وہ چاہے تو بوقتِ ضرورت اپنے ردِعمل کی شدت میں کمی بیشی کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر آپ غور کریں گے تو میری اس بات سے متفق ہوں گے کہ حقیقت مذکورہ بالا تمام حقائق کے برعکس ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بچہ بطنِ مادر سے ہی ایک ذی شعور وجود ہوتا ہے، اور اسی بنا پر مجھے اس رائے سے اتفاق نہیں کہ بچے ایک Passive وجود ہوتے ہیں۔ لیکن بعض غیر معمولی طور پر ذہین بچوں کو چھوڑ کر اکثر بچے خاصی بڑی عمر تک (دس، بارہ برس تک) جبلتوں کے زیرِ اثر حسیات کے Level پر ہوتے ہیں۔ اس مقام پر بیشتر صورتوں میں ان کی حس ہی ان کی عقل ہوتی ہے اور ان کا ذاتی تجربہ ہی ان کی دلیل ہوتا ہے۔ ان کی جذباتی اور احساساتی رویں ہی ان کی فکری رویں ہوتی ہیں۔ چونکہ بچے جبلتوں کے زیرِ اثر ہوتے ہیں اس لیے ان کے ردعمل برجستہ اور یقینی ہوتے ہیں۔ آپ نہ بچے کو مسکرانے سے روک سکتے ہیں اور نہ رونے سے، اس لیے کہ بچہ خود بھی نہ اپنے آپ کو مسکرانے سے روک سکتا ہے اور نہ رونے سے۔ لیکن بچہ جوںجوں بڑا ہوتا جاتا ہے اپنی عقلی قوتوں کے زیر اثر اپنے ردعمل پر قابو پانے لگتا ہے۔ یہ بات اچھی بھی ہے اور بری بھی، اچھی کم بری زیادہ۔

میرے خیال میں اب تک کی اس بحث سے یہ امر ثابت ہوگیا ہوگا کہ بچوں سے احترام طلب کرنے کا مطالبہ نہ صرف یہ کہ غیر فطری ہے بلکہ مضحکہ خیز بھی۔ اس لیے نہیں کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس لیے کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ اور اگر کوئی کسی کام کو کرنے کی صلاحیت ہی نہ رکھتا ہو تو اُس سے اس کام کے کرنے کا مطالبہ غیر فطری اور مضحکہ خیز ہی نہیں ظالمانہ بھی قرار پائے گا۔ تو کیا صدیوں سے بڑے اپنے چھوٹوں پر یہ ظلم کرتے آئے ہیں؟ اور اگر ظلم کرتے آئے ہیں تو پوری انسانی تہذیب کا لمحہ لمحہ ظلم سے بھرا ہوا ہے، اور ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انسان چاہے عقل پسند و عقل پرست اور سلیم الطبع ہونے کے کتنے ہی دعوے کیوں نہ کرے، حقیقت یہ ہے کہ اس کے اکثر بنیادی رویوں کی تشکیل عقل، احساس یا جذبے کے بجائے قوت نے کی ہے، قوت کررہی ہے اور شاید قوت ہی کرتی رہے گی۔

اس پوری بحث کے پس منظر میں سوال یہ ہے کہ بچوں اور بڑوںکے اس تعلق کو جاری رہنا چاہیے یا اس کا تبدیل ہونا ضروری ہے؟ میرے نزدیک اس کا تبدیل ہونا ضروری بلکہ لازمی ہے، اور اس کی تبدیلی کی صورت یہ ہونی چاہیے کہ بچوں کے بجائے بڑوں پر لازم ہو کہ وہ بچوں کا احترام کریں، انہیں عزت دیں اور ان کا ادب کریں۔ میرا مطلب ہے جہاں تک ممکن ہو… آغاز میں… اکثر نہ سہی، کبھی کبھی سہی بچوں کا کھڑے ہوکر استقبال کریں۔ اگر آپ بس میں سفر کررہے ہوں اور کوئی بچہ بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہو اور ایسے میں کوئی سیٹ خالی ہوجائے تو اس پر دوڑ کر خود بیٹھنے کے بجائے بچے کو بیٹھنے کا موقع دیں یا کم از کم اپنی گود ہی میں بٹھا لیں۔ اگر کوئی بچہ آپ سے ضد کرے تو چاہے آپ اُس کی ضد پوری نہ کریں مگر اسے جھڑکیں مت، اس کی تذلیل نہ کریں۔ کم سے کم دوسرے کے سامنے۔

اگر بچے کے تجربے اچھے ہوں گے تو وہ ان تجربوں کو اپنے سے چھوٹوں کو منتقل کرے گا، اور وہ چھوٹے اپنے سے چھوٹوں کو۔ تجربوں کی منتقلی منطقی اعتبار سے بڑوں سے چھوٹوں کی طرف ہونی چاہیے، چھوٹوں سے بڑوں کی طرف نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے، ناممکن حد تک مشکل۔ اقبال نے کہا تھا:

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پر اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے، قوموں کی زندگی میں

مگر یہ کسی قوم کا نہیں، پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ کسی ایک تہذیب کا نہیں، پوری انسانی تہذیب کا۔ پوری انسانیت، پوری انسانی تہذیب۔ کتنے متاثر کن الفاظ ہیں؟ رہیں گے۔