نئی حکومت، نئے چیلنجز:کیا سیاسی نظام اپنی ساکھ قائم کرسکے گا؟

اسٹیبلشمنٹ اور کچھ سیاسی قوتوں کے کھیل نے پورے سیاسی اور جمہوری نظام کو کمزور بھی کردیا ہے اور مفلوج بھی۔

مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کے مراحل مکمل ہونے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اگلے چند دنوں میں مرکز اور صوبوں میں حکومتیں بن چکی ہوں گی۔ حکومت سازی کے اس کھیل میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت پسِ پردہ قوتوں کی لاڈلی ایم کیو ایم بھی شامل ہے۔ یہ حکومت بن تو رہی ہے لیکن پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ عمومی بحث موجود ہے کہ یہ حکومت سیاسی اور قانونی ساکھ نہیں رکھتی بلکہ اس کا مینڈیٹ بددیانتی، جھوٹ اور دھاندلی پر مبنی ہے۔ یہ حکومت بنیادی طور پر عوامی مینڈیٹ پر سیاسی ڈاکہ ہے اور عوامی رائے کا سیاسی قتل ہے۔ لیکن یہ سب کھیل ایسے ہی نہیں ہوگیا بلکہ اس کے تانے بانے بہت سوچ سمجھ کر بُنے گئے تھے۔ یعنی یہ سب پہلے سے طے شدہ اسکرپٹ کا حصہ ہے اور اسی بنیاد پر نئے جعلی سیاسی نظام کی بساط بچھائی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) خوش ہیں کہ ایک بار پھر ان ہی کی پسند کا دو جماعتی سیاسی نظام بنادیا گیا ہے جس میں وہ اقتدار کی بندر بانٹ کرکے اپنا کھیل، کھیل سکتے ہیں۔ ان ہی کی خواہش پر ایک بڑی جماعت پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر یا جبری بنیادوں پر میدان سے بے دخل کیا گیا تاکہ اسے اقتدار کی سیاست سے باہر نکالا جاسکے۔ اس کھیل میں پورے انتخابی نظام کو ہی متنازع بنادیا گیا اور اب موجودہ انتخاب اور اس کے نتائج اپنی سیاسی، قانونی اور اخلاقی ساکھ کھوچکے ہیں، اور یہ جعلی مینڈیٹ اس حکومت کا پیچھا کرتا رہے گا۔ اس کھیل میں پیپلز پارٹی نے دباؤ کا شکار مسلم لیگ(ن) کے خلاف اچھا کھیل کھیلا ہے اور اس کو خاصی برتری بھی ملی ہے، لیکن یہ بھی طے ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں مرکز میں حکومت بنانے کے حق میں نہیں تھیں لیکن طاقت ور طبقے نے ان ہی پر مرکزی حکومت کا بوجھ ڈال دیا۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو واضح پیغام دیا گیا کہ اگر مرکز میں حکومت نہ بنائی تو ان کا صوبائی کھیل بھی بگاڑ دیا جائے گا۔ اس لیے یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ موجودہ مرکزی حکومت عملی طور پر جبری شادی ہے اور دباؤ کے تحت بنائی گئی ہے۔ لیکن اب یہ حکومت کیسے چلے گی اور کون اس کو سیاسی اور معاشی سہارا دے گا اس پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ کیونکہ اِس وقت ملک کے جو داخلی اور خارجی حالات ہیں یا معیشت کی جو بدحالی ہے اس سے نمٹنا اس مخلوط اور کمزور حکومت کے بس کی بات نہیں ہوگی، کیونکہ جبری بنیادوں پر ہونے والی یہ شادی خود کئی طرح کے داخلی بحرانوں کا شکار رہے گی، کیونکہ پیپلز پارٹی اقتدار کے مزے تو لے گی مگر حکومتی مشکلات کی ذمہ داری کسی بھی طور پر قبول نہیں کرے گی، اور یہ امر دونوں بڑی جماعتوں میں ٹکراؤ پیدا کرے گا۔ مسلم لیگ(ن) یا شریف خاندان یا نوازشریف نے کمالِ ہوشیاری سے مریم نواز کو پنجاب کا وزیراعلیٰ اور شہبازشریف کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیا ہے، لیکن یہ اقتدار خود ان کی سیاسی بقا کے لیے چیلنج بن گیا ہے۔ کیونکہ جس دباؤ اور دھاندلی کی بنیاد پر ان کو جعلی مینڈیٹ دیا گیا ہے اس نے عملاً ان کے ہاتھ پائوں باندھ دیے ہیں۔ اس لیے اس نئی حکومت سے جو پہلے ہی بوجھ بنی ہوئی ہے، زیادہ توقعات رکھنا خوش فہمی ہوگی۔ اس حکومت کو پہلا سیاسی اور معاشی دھچکہ آئی ایم ایف سے آئندہ ہونے والے معاہدے کی صورت میں لگے گا، کیونکہ اس معاہدے کی بنیاد پر لوگوں پر جو خودکش حملے ہوں گے تو اندازہ ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کدھر جارہے ہیں! کیونکہ حکومت کو سارا بوجھ عوام پر ڈالنا ہے، اور عوام مزید بدحال ہوکر اس نظام سے لاتعلق ہوں گے۔ جب بھی جعلی مینڈیٹ کی بنیاد پر اس طرز کے جعلی نظام کی بساط بچھائی جائے گی، اس سے بحران کم نہیں بلکہ مزید سنگین ہوگا۔

بدقسمتی سے ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا، اور تواتر کے ساتھ جاری سیاسی مہم جوئی کو بنیاد بناکر ملک میں عدم استحکام پیدا کیا جارہا ہے۔

ایک طرف اس نئی حکومت کو معاشی چیلنج درپیش ہوگا تو دوسری طرف اپوزیشن جو بڑی تعداد میں ہے اور کئی جماعتوں پر مشتمل ہے، اس کی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ انتخابی دھاندلی آسانی سے ہضم نہیں ہوسکے گی۔ جو کچھ پنجاب میں ہوا اور جس طرح سے پی ٹی آئی کی عددی برتری کو اقلیت میں ابھی تک تبدیل کیا جارہا ہے اور جیسے کراچی میں جبری بنیادوں پر ایم کیو ایم کو مسلط کیا گیا ہے اس سے سیاسی استحکام کسی بھی صورت قائم نہیں ہوسکے گا۔ اس کھیل میں اسٹیبلشمنٹ بھی بری طرح پسپا ہوئی، اور جو کھیل وہ آسانی سے جیتنا چاہتے تھے اس میں انھیں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اور بڑی تعداد میں ووٹ ان کے سیاسی اسکرپٹ کے خلاف پڑے، اور جس طریقے سے انتخابی نتائج تبدیل کیے گئے اس کا بڑا الزام بھی ان ہی پر پڑرہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور کچھ سیاسی قوتوں کے کھیل نے پورے سیاسی اور جمہوری نظام کو کمزور بھی کردیا ہے اور مفلوج بھی۔

جمہوری قوتوں کے مقابلے میں غیر جمہوری قوتوں کا مضبوط ہونا بھی جمہوریت کے لیے کوئی اچھا پہلو نہیں ہے۔ لیکن جو کچھ ہوا ہے یا ہورہا ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ خود سیاسی قوتیں بھی ذمہ دار ہیں۔ یہ جو دعوے ہیں کہ ”ہم کو ریاست کو بھی بچانا ہے اور حکومت کو بھی“ اس میں سے کچھ نہیں نکل سکے گا۔ پی ڈی ایم کی پہلی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہم نے 16 ماہ کی حکومت میں سیاسی قربانی دے کر ریاست کو بچایا ہے، اور اب بھی اس نئی حکومت میں ریاست بچانے کی دُہائی دی جائے گی، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ بننے والی حکومت کی صلاحیت کیا ہے۔ یہ حکومت اگر اپنے داخلی مسائل سے بچ جائے تو یہی اس کی بڑی کامیابی ہوگی۔ کچھ لوگوں کے بقول اس گھر کو آگ لگے گی اپنے ہی چراغ سے۔ اسی طرح بہت جلد اس حکومت کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی خرابیاں دیکھنے کو ملیں گی، کیونکہ جو ڈکٹیشن کا ماحول ہوگا وہ بھی نئی محاذ آرائی کو جنم دینے کا سبب بنے گا۔

اس حکومت کا المیہ یہ بھی ہے کہ عالمی برادری اور میڈیا میں بھی اسے جعلی حکومت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جو عوامی مینڈیٹ کی چوری کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے۔ اس لیے اس حکومت کا محض داخلی چہر ہ ه ہی نہیں بلکہ خارجی چہرہ بھی بہت سیاہ ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ یہ نیا حکومتی بندوبست نہ حکومت کو اور نہ اسے لانے والے سہولت کاروں کو مطلوبہ نتائج دے سکے گا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انتخابات کے نام پر جو کھیل کھیلا گیا اس نے مجموعی طور پر عوام میں مایوسی پیدا کی اور اُن کی نظام پر پہلے سے موجود بداعتمادی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ عوام کو لگتا ہے کہ ووٹ کی بنیاد پر تبدیلی موجودہ نام نہاد جمہوری فریم ورک میں ممکن نہیں۔ بلوچستان، سندھ اور خیبرپختون خوا کے قوم پرست ہوں یا پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی… یہ آسانی سے حکومتی عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس وقت واقعی اس جعلی سیاسی نظام کے خلاف بڑی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کی ضرورت ہے، سب کو مشترکہ طور پر یہ جدوجہد کرنا ہوگی اور خاص طور پر جمہوری نظام میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کا راستہ روکنا ہوگا۔ کیونکہ اس نکتہ کو بنیاد بناکر ہی ہم جمہوری نظام کی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بناسکتے ہیں۔ یاد رکھیں، ان انتخابات اور حکومت سازی کے کھیل نے پہلے سے موجود سیاسی تقسیم اور ٹکراؤ کو مزید گہرا کردیا ہے۔ لوگ سوالات اٹھا رہے ہیں جن کا انھیں تسلی بخش جواب نہیں مل رہا، جس سے مسائل مزید الجھ رہے ہیں۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ہمیں مفاہمت کی سیاست درکار ہے، لیکن دوسری طرف بہت سی قوتوں کو سیاست سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ انتخابی دھاندلی کی بنیاد پر مفاہمت کی سیاست کا کھیل نہیں چل سکے گا۔

اسٹیبلشمنٹ اور روایتی سیاسی جماعتوں کو سمجھنا ہوگا کہ ہم ماضی سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں اور پسِ پردہ کھیل اب بہت برے انداز میں پورے ریاستی نظام اور افراد کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔ خاص طور پر نئی نسل کے لوگ اب اس موجودہ نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، اور ان کو لگتا ہے کہ ان پر ان کی رائے کو نظرانداز کرکے جبری بنیادوں پر سیاسی نظام اور حکمران مسلط کیے جاتے ہیں۔ لوگ اب کھل کر اظہار کر رہے ہیں اور پورے نظام کو چیلنج کررہے ہیں۔ ان کو جواب دینے کے بجائے ان کے خلاف طاقت اور جبر کا استعمال یا سوشل میڈیا کی بندش جیسی حکمتِ عملی نئی نسل میں اور زیادہ رد عمل پیدا کرے گی جو ریاستی نظام کے لیے مزید مسائل پیدا کرے گا۔ یہ نیا حکومتی بندوبست عوام اور اس ریاستی نظام پر نیا بوجھ پیدا کرے گا اور جو ہمارے حقیقی سیاسی، سماجی، معاشی اور سیکورٹی مسائل ہیں وہ بہت پیچھے جا سکتے ہیں، کیونکہ دنیا بھی ہماری طرف دیکھ رہی ہے اور جو کچھ ملک میں ہورہا ہے اس کا بھی ان کو خوب اندازہ ہے۔ اس لیے عالمی برادری میں بھی تشویش ہے اور ان کو لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہورہا۔ اس لیے اس مصنوعی نظام کی داخلی اور خارجی دونوں ساکھ پر سوالیہ نشان ہیں۔ ان سوالوں کا جواب تلاش کرکے ہی ہم آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔