قرآن کا انقلابی تصور

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
”قیامت کی نشانیوں میں یہ بھی ہے کہ (دین کا) علم اٹھ جائے گا اور جہالت جم جائے گی
اور شراب کو (کثرت سے) پیا جائے گا ،زنا علانیہ ہوگی“۔
(بخاری ،جلد اول کتاب العلم ،حدیث نمبر80)

قرآن انسانی زندگی کو مختلف گوشوں اور شعبوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ وہ پوری زندگی کو بندگیِ رب میں لانا چاہتا ہے۔ انسان کے فکروخیال اور عقیدہ و رجحان سے لے کر اس کی اجتماعی زندگی کے ہرپہلو پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مطالبہ خود مسلمانوں سے یہ ہے کہ:

داخل ہوجائو خدا کے دین میں پورے کے پورے۔(البقرہ۲:۲۰۸)

یعنی اسلام کے راستے کو اختیار کرنے کے بعد زندگی کے کسی شعبے کو خدا کی ہدایت سے آزاد رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پھر انسان کی انفرادی زندگی اور اس کی اجتماعی زندگی ، خدا کے قانون کی پابندی اور اس کی رضا کو تلاش کرنے والی ہوگی۔پھر تمدن کے پورے نظام، یعنی معاشرت، سیاست، معیشت، قانون و عدالت، انتظام و انصرام، ملکی اور بین الاقوامی تعلقات، سب پر خدا کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔ صرف اپنے اُوپر ہی اس قانون کو جاری و ساری نہیں کرنا، بلکہ پوری انسانیت کو اپنے قول اور عمل سے اس راستے کی طرف دعوت دینا ہے۔ انسانیت کو حق کی طرف بلانا ہے، اور ہر اس رکاوٹ کو ہٹانے کی جدوجہد کرنی ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان اس تعلق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہے۔ اس کا نام دعوتِ حق ہے جو اسلام میں جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے۔ یہی وہ دعوت ہے جس کی طرف یہ کتاب بلاتی ہے۔

علامہ اقبالؒ مشہور صوفی بزرگ شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ کے حوالے سے قرآن کے اس مخصوص مزاج کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں:’’محمد عربیؐ برفلک الافلاک رفت و باز آید واللہ اگر من رفتمے ہرگز با ز نیامدے، محمد عربی ؐ [معراج کے موقعے پر] آسمانوں پر گئے اور واپس آگئے۔ اللہ کی قسم! اگر میں جاتا تو ہرگز واپس نہ آتا۔ یہ مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی ؒ کے الفاظ ہیں جن کی نظیر تصوف کے سارے ذخیرۂ ادب میں مشکل ہی سے ملے گی۔ شیخ موصوف کے اس ایک جملے سے ہم اس فرق کا اِدراک نہایت خوبی سے کرلیتے ہیں جو شعورِ ولایت اور شعورِ نبوت میں پایا جاتا ہے۔ صوفی نہیں چاہتا کہ وارداتِ اتحاد سے جو لذت اور سکون حاصل ہوتا ہے اسے چھوڑ کر واپس آئے لیکن اگر آئے بھی، جیساکہ اس کا آنا ضروری ہے، تو اس سے نوعِ انسانی کے لیے کوئی خاص نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ، نبیؐ کی بازآمد تخلیقی ہوتی ہے ۔ وہ ان واردات سے واپس آتا ہے تو اس لیے کہ زمانے کی رُو میں داخل ہوجائے اور پھر ان قوتوں کے غلبہ و تصرف سے، جو عالمِ تاریخ کی صورت گرہیں، مقاصد کی ایک نئی دنیا پیدا کرے۔ صوفی کے لیے تو لذتِ اتحاد ہی آخری چیز ہے۔ لیکن انبیا علیہم السلام کے لیے اس کا مطلب ہے ان کی اپنی ذات کے اندر کچھ اس قسم کی نفسیاتی قوتوں کی بیداری، جو دنیا کو زیروزبر کرسکتی ہیں، اور جن سے کام لیا جائے تو جہان انسانی دگرگوں ہوجاتا ہے۔ لہٰذا انبیا ؑکی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان واردات کو ایک زندہ اور عالم گیر قوت میں بدل دیں… لہٰذا انبیاؑ کے مذہبی مشاہدات اور واردات کی قدروقیمت کا فیصلہ ہم یہ دیکھ کر بھی کرسکتے ہیں کہ ان کے زیراثر کس قسم کے انسان پیدا ہوئے‘‘۔ (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، علامہ محمد اقبال، ترجمہ سیّد نذیرنیازی، بزمِ اقبال، لاہور، ص ۱۸۸-۱۹۰)

مطلب یہ کہ بزرگ صوفی کا یہ قول زندگی کے محدود تصور کا غماز ہے۔ اس تصور میں اصل اہمیت عرفانِ ذات کی ہے اور وہ اس سے اُونچے کسی مقام کا تصور نہیں کرسکتی ہے کہ بندے کے قدم وہاں پہنچ جائیں جہاں فرشتوں کے پَر جلتے ہیں۔ پھر اس دنیا کی طرف واپس آنے کا کیا سوال؟ لیکن محمدصلی اللہ علیہ وسلم جس دین کے علَم بردار ہیں وہ دین جس کا نبی اس بلندی پر پہنچ کر پھر اس دنیاے رنگ و بو میں لوٹتا ہے، تاریخ کے منجدھار میں قدم رکھتا ہے اور اس نور سے جو اسے حاصل ہوا ہے تنگ و تاریک دنیا کو منور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ صرف اپنے اس سینے کو گنجینۂ اَنوار نہیں بناتا بلکہ پورے عالم کو روشن کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ ایک نیا انسان بنانے، ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنے، ایک نئی ریاست قائم کرنے اور تاریخ کو ایک نئے دور سے ہمکنار کرنے میں مصروفِ جہاد ہوجاتا ہے۔

قرآن اسی دعوتِ انقلاب کو پیش کرتا ہے، وہ زمانے کے چلن کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک نیا نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد ایک انقلاب برپا کرنا ہے، دلوں کی دنیا میں بھی انقلاب اور انسانی معاشرے میں بھی انقلاب۔ وہ صالح انقلاب جس کے نتیجے میں خدا سے بغاوت کی روش ختم ہو اور اس کی بندگی کا دور دورہ ہوجائے۔ بُرائیاں سرنگوں اور نیکیوں کو غلبہ حاصل ہو۔ خدا کے منکر اور اس سے غافل قیادت کو مسند سے ہٹا دیا جائے اور اس کے مطیع اور فرماں بردار بندے زمانے کی قیادت سنبھال لیں، یہ ہے نزولِ قرآن کا مقصد اور یہی ہے انسانیت کی نجات کا راستہ۔

ہم اُمت مسلمہ کو جس بات کی دعوت دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس اُمت کا ہر فرد اس موقعے پر اور بھی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ قرآن کی اصل حقیقت کو سمجھے۔ اس کے مقصد کا حقیقی شعور پیدا کرے۔ اس کے پیغام پر کان دھرے اور اس کے مشن کو پورا کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائے۔

قرآن نے انسانیت کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔ اس نے قبیلے، نسل، رنگ، خاک و خون اور جغرافیائی تشخص کے بتوں کو پاش پاش کیا ہے۔ اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ پوری انسانیت ایک گروہ ہے اور اس میں جمع تفریق اور نظامِ اجتماعی کی تشکیل کے لیے صرف ایک ہی اصول صحیح ہے، یعنی عقیدہ اور مسلک۔ اسی اصول کے ذریعے اس نے ایک نئی اُمت بنائی اور اس اُمت کو انسانیت کی اصلاح اور تشکیل نو کے عظیم کام پر مامور کردیا:

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)

قرآن نے اس اُمت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بھی صورت گری کی ہے، اور اسے باقی انسانیت کے لیے خیروصلاح کا علَم بردار بنایا ہے۔ یہی وہ چیز تھی جس نے چھٹی صدی عیسوی کی ظلم اور تاریکی سے بھری ہوئی دنیا کو تاریخ کے ایک نئے دور سے روشناس کرایا۔

جس نے عرب کے اُونٹ چرانے والوں کو انسانیت کا حدی خواں بنایا۔ جس نے ریگستان کے بدوئوں کو تہذیب و تمدن کا معمار بنادیا۔ جس نے مفلسوں اور فاقہ کشوں میں سے وہ لوگ اُٹھائے، جو انسانیت کے رہبر بنے۔ جس نے وہ نظام قائم کیا، جس نے طاغوت کی ہر قوت سے ٹکر لی اور اسے مغلوب کرڈالا۔

قرآن طاقت کا ایک خزانہ ہے۔ اس نے جس طرح آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانوں کی اصلیت بدل کر رکھ دی تھی اور ان کے ہاتھ سے ایک نئی دنیا تعمیر کرائی تھی، اسی طرح آج بھی فساد سے بھری ہوئی دنیا کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ اپنے ماننے والوں کو، بشرطیکہ وہ اس کا حق ادا کرسکیں، انسانیت کا رہنما اور تاریخ کا معمار بناسکتا ہے۔

خوب کہا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے:
لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلُحَ اَوَّ لُھَا، اس اُمت کے بعد کے حصے کی اصلاح بھی اسی چیز سے ہوگی، جس سے اس کے اوّل حصے کی اصلاح ہوئی تھی۔

_ اور یہ چیز قرآن ہے۔

قرآن سے حقیقی تعلق اور تقاضے

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن نے پہلے بنجر اور شور زمین سے ایک نیاجہاں پیدا کردیا تھا، تو آج وہ یہ کارنامہ کیوں سرانجام نہیں دے رہا؟

oاگر وہ کل شفا و رحمت تھا، تو وہ آج یہ وظیفہ سرانجام دیتا ہوا کیوں نظر نہیں آتا؟

oاگر ہم کل اس کی وجہ سے طاقت ور تھے، تو آج اس کے باوجود ہم کمزور کیوں ہیں؟

oاگر کل اس کے ذریعے ہم دنیا پر غالب تھے، تو آج اس کے ہوتے ہوئے ہم مغلوب کیوں ہیں؟

اگر غور کیا جائے تو اس کی دو ہی وجوہ ہوسکتی ہیں، ایک،یہ کہ ہم نے عملاً اس کتابِ ہدایت کو اپنا حقیقی رہنما باقی نہ رکھا ہو۔ اس سے ہمارا تعلق، غفلت و سردمہری و بے التفاتی اور بے توجہی کا ہوگیا ہو۔ دوسرے، یہ کہ ہم بظاہر تو اس کا احترام اور تقدیس کررہے ہوں لیکن اس کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح راستہ اور صحیح طریقہ اختیار نہ کر رہے ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاملے میں یہ دونوں ہی باتیں صحیح ہیں۔