قصۂ یک درویش!

درس گاہ میں اکثر طلبہ ناظرہ قرآن مجید پڑھنے والے تھے، حفظ کے چند ایک ہی تھے، جب کہ طالبات سبھی ناظرہ پڑھنے والی ہوتی تھیں۔ ان میں سے کوئی ایک آدھ کبھی کبھار اپنے شوق اور ذہانت کی بدولت حفظ بھی کرلیتی تھی۔ میں نے تقریباً تین، ساڑھے تین سال میں حفظ مکمل کیا۔ اگر کسی منظم و منضبط اور سخت ڈسپلن والے ادارے میں ہوتا تو اس سے بہت کم مدت میں قرآن پاک یاد کرلیتا۔ بہرحال یہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت ساڑھے آٹھ سال کی عمر میں حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد کچھ عرصے کے لیے منزل کی دہرائی میں مصروف رہا۔ اگلا رمضان آیا تو نو سال کی عمر میں تراویح میں قرآن سنانے کا اعزاز حاصل ہوا۔

عرض کرتا ہوں کہ یہ بھی میری زندگی کا عجیب مرحلہ اور کٹھن منزل تھی۔ مسجد میں نمازیوں کے درمیان پانچ بزرگ اور جیّد حفاظ موجود تھے۔ ان میں ایک میرے استادِ محترم جو اُن دنوں پھر مشرقی مسجد کو چھوڑ کر مرکزی مسجد میں درس منتقل کرچکے تھے، دوسرے میرے نانا جان حافظ فضل الٰہی مرحوم، جن کے جلال اور ہیبت سے سب لوگ کانپتے تھے، تیسرے میرے تایا جان، جیّد عالمِ دین، حافظ غلام محی الدین مرحوم (ان کے حالات میری کتاب ’’مسافرانِ راہ وفا‘‘ کے صفحہ53 تا60، میں ہیں)، چوتھے میرے ماموں جان حافظ غلام محمد مرحوم (ان کے حالات میں نے ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد چہارم میں صفحہ200تا 210میں لکھے ہیں) اور پانچویں گائوں کے ایک انصاری بزرگ حافظ محمد شریف مرحوم۔

اس موقع پر تایا جان نے بڑی حکمت کے ساتھ چند باتیں کہیں۔ ان کی ایک ایک بات اب تک میرے دل میں محفوظ ہے۔ آپ نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’ادریس! تمھیں مبارک ہو تم آج تراویح کی امامت کے لیے مصلّے پر کھڑے ہو۔ ہمت سے کام لو، اللہ آسانیاں پیدا فرما دے گا۔‘‘ اس کے بعد فرمایا: ’’میں تمام حفاظ کرام کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ بچہ پہلی مرتبہ قرآن سنا رہا ہے اورآپ جانتے ہیں کہ انتہائی کم عمر ہے۔ اگر تلاوت کے دوران بھول جائے تو اس کو لقمہ صرف اس کے استاد دیں، اگر وہ نہ دے سکیں تو حافظ غلام محمد یہ فرض ادا کریں۔‘‘ اس طرح آپ نے میرے نانا جان کو بھی پیغام دے دیا اور مجھے بھی تسلی ہوگئی۔ حافظ جان محمد مرحوم اور حافظ غلام محمد مرحوم نہایت حلیم الطبع شخصیات تھیں۔ ان میں جلال نہیں جمال تھا۔ پس پورے مہینے میں یہی دو حفاظ مجھے غلطیوں پر لقمہ دیتے تھے۔

اس دور کی ایک اور عجیب اور دلچسپ بات بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ ملحقہ بڑے گائوں جوڑا میں بہت سے مہاجرین انڈیا کے مختلف علاقوں، بالخصوص مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ ان میں سے کچھ پکے دیوبندی تھے اور جوڑا میں سب مساجد بریلوی حضرات کے زیر انتظام تھیں۔ ہماری مسجد تو الحمدللہ ایسے فرقہ وارانہ تصورات سے پاک تھی، مگر ہمارے بزرگ بھی پہلے دیوبندی تھے اور پھر بعد میں جماعت اسلامی کے کارکنان و ارکان بن گئے تھے۔ اُس زمانے میں کئی مذہبی لوگ ہمیں ’’وہابی‘‘ کہا کرتے تھے۔ مہاجر بزرگوں کے نام حاجی نوازش علی، میاں وزیر علی، عبدالشکور اور کئی ایک مزید تھے جو میں بھول گیا ہوں۔ یہ لوگ ضلع انبالہ، مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ آرائیں فیملی سے تعلق تھا اور زمینوں کے مالک تھے۔ ان کے نام زرعی زمینیں جوڑا اور ایک دوسرے قریبی گائوں کرنانہ میں الاٹ ہوئی تھیں۔

ان مہاجر حضرات میں سے ایک زمیندار حافظ نور محمد تھے۔ وہ مکمل حافظ تو نہ تھے، مگر معروف حافظ ہی کے نام سے تھے۔ وہ مفتی کفایت اللہؒ کی کتابیں پڑھے ہوئے تھے اور نہایت متقی انسان تھے۔ کئی دنوں تک تراویح کے وقت وہ تایا جان سے ایک ہی بات کہتے رہے: ’’حافظ صاحب! چھوٹے بچے کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ مفتی کفایت اللہؒ نے یہی لکھا ہے۔‘‘ تایا جان ہر روز انہی کے لب و لہجے میں بڑی نرمی کے ساتھ جواب دیتے: ’’حافظ صاحب! آپ فکر نہ کریں، نماز ہوجاتی ہے۔ جیّد ائمہ کا اس بارے میں مؤقف آپ کے مؤقف سے مختلف ہے۔‘‘ میں ان باتوں کو سن کر بہت محظوظ ہوتا تھا۔ یہ مہاجر حضرات ہمارے خاندان کے ساتھ یوں گھل مل گئے تھے کہ جیسے پرانے رشتے دار ہوں۔ باہمی تعلقات بہت خوشگوار اور مخلصانہ دوستی و اخوت پر استوار تھے۔ غم خوشی میں ایک دوسرے کے ہاں اسی طرح آنا جانا ہوتا تھا جیسے قریبی رشتے داروں کے ہاں جانے آنے کا سلسلہ ہوتا ہے۔

تقریباً ربع صدی یہاں قیام کے بعد ان تین چار خاندانوں نے یہاں سے زمینیں بیچ کر ضلع سیالکوٹ میں بن باجوہ کے قریب ایک گائوں میں اراضی خرید لیں اور وہاں منتقل ہوگئے۔ اس نقل مکانی کی وجہ یہ تھی کہ سیالکوٹ کے اس علاقے میں ان کے اکثر و بیشتر رشتے دار اور عزیز و اقارب ہجرت کے بعد آکر آباد ہوگئے تھے۔ ان مہاجر بھائیوں کے ضلع سیالکوٹ میں نقل مکانی کر جانے کے باوجود باہمی رابطے قائم رہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ خلا پیدا ہوتا چلا گیا۔ آج کل بھی کبھی کبھار فون پر تو رابطہ ہوجاتا ہے، مگر آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ باہمی روابط میں پہلے والا جوش و خروش نہیں۔ ظاہر ہے اب تیسری، چوتھی نسل میدان ِ عمل میں ہے، اس لیے یہ رابطہ کمزور ہوگیا ہے۔ بہرحال حافظ نور محمد مرحوم کے بیٹے، میرے ہم نام محمد ادریس کے ساتھ میرے چھوٹے بھائی میاں محمد یوسف کا اور خود میرا بھی فون پر کبھی کبھار رابطہ ہوجاتا ہے۔

پہلی بار قرآن پاک سنانے کا ذکر ہو رہا تھا۔ تراویح میں نمازیوں کی تعداد تو ٹھیک یاد نہیں، مگر شروع میں ڈھائی تین صفیں ہوتی تھیں، بعد میں وہ ڈیڑھ دو صف تک آگئیں۔ ایک صف میں تقریباً 25اور 30کے درمیان نمازی ہوتے تھے۔ آخری دنوں میں پھر تین سوا تین صفیں ہوگئیں۔ ہماری مسجد میں قرآن پاک سنانے والے ہمیشہ ہمارے ہی خاندان کے لوگ ہوتے تھے۔ اس لیے یہ روایت چلی آرہی تھی کہ جو قرآن پاک سنائے اسی کا گھرانہ ختمِ قرآن پر تمام نمازیوں میں شیرینی تقسیم کرے، اور گرمیوں میں رمضان ہو تو شربت بھی پلائے۔ میرے قرآن سنانے کے سال تو پورا رمضان گڑ کا ٹھنڈا شربت مٹی کے مٹکوں میں بھرا ہوتا تھا اور سبھی بڑے چھوٹے جی بھر کر پیتے تھے۔ اگلے سالوں میں بھی موسم گرما میں یہ معمول جاری رہا، مگر اب وہ قصۂ پارینہ ہوگیا ہے۔ شیرینی کی تقسیم بھی اب اجتماعی فنڈ سے ہوتی ہے۔ ہمارے والد صاحب نے ختمِ قرآن پر شیرینی کا بہت اچھا اہتمام کیا۔

ایک اور یادگار بات یہ تھی کہ ہمارے علاقوں میں روایت چلی آ رہی تھی مساجد میں خواتین نماز باجماعت کے لیے نہیں آتی تھیں۔ اس سال پہلی بار خواتین نے بھی عشا اور تراویح کی نماز میںشرکت کی۔ میری والدہ محترمہ اور پھوپھی جان نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جب ادریس تراویح پڑھائے گا تو ہم اپنی چھت پر اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ ان کے اس ارادے سے بہت سی خواتین واقف ہوئیں تو انھوں نے بھی یہ عزم کرلیا۔ ہمارا گھر مسجد سے ملحق مشرق کی جانب واقع ہے۔ مسجد کی مشرقی دیوار اور ہمارے گھر کی مغربی دیوار ایک تھی۔ اس کے ساتھ ہماری بیٹھک اور ایک طویل برآمدہ ہوا کرتا تھا۔ خواتین کی صفیں اس حصے کی چھت کے اوپر بچھ جاتی تھیں۔ روزانہ تیس پینتیس خواتین اس میں شریک ہوتی تھیں۔ آخری روز یہ تعداد بچوں سمیت ڈبل سے بھی زیادہ تھی۔

یہ اپریل کا مہینہ تھا اور رات کے وقت اُس زمانے میں چھتوں کے اوپر موسم بہت خوشگوار ہوتا تھا۔ ابھی تک نہ بجلی گائوں میںآئی تھی نہ لائوڈ اسپیکر کا کوئی انتظام تھا، اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ صحنِ مسجد اور ملحقہ چھت پر تلاوت کی آواز صاف سنائی دیتی تھی۔ اس سال کے بعد آج تک خواتین کی شرکت ہر سال تراویح میں ہوتی رہی ہے۔ اب تو ہماری نئی تعمیر شدہ مسجد میں خواتین کے لیے بالائی منزل پر مخصوص مصلّیٰ بھی بنادیا گیا ہے۔ پھر لائوڈ اسپیکر کی سہولت کی وجہ سے قریبی گھروں میں سردیوں میں کمروں کے اندر بھی تلاوت کی آواز سنی جا سکتی ہے۔

حفظِ قرآن کے بعد مجھے اسکول، کالج کی تعلیم حاصل کرنا تھی۔ میں اردو اچھی طرح پڑھ سکتا تھا مگر لکھنے کی مہارت حاصل نہ تھی، اسی طرح ہندسے لکھنا اور سمجھنا بھی ابھی تک نہ سیکھا تھا۔ اسکول کی تعلیم کا مرحلہ شروع ہونے سے پہلے والدِ محترم نے مجھے کچھ لکھائی سکھانے اور حساب (ریاضی) وغیرہ کی تعلیم اور معلومات دینے کی خاطر گھر میں پڑھانا شروع کیا۔ وہ بہت ذہین تھے مگر ان کا تدریس کا قطعاً کوئی تجربہ نہ تھا۔ مجھے ان کی تدریس سے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ وہ جلالی اتنے تھے کہ میری ناسمجھی پر خوب خبر لیتے۔ شاید اسی وجہ سے میرے اوسان خطا ہوگئے اور میں نے سمجھا کہ یہ کام میرے لیے ناممکن ہے۔ میں نے جتنا عرصہ مکتب میں پڑھا، پڑھائی کے معاملے میں کبھی ذرا سی بھی سرزنش سننے کو نہ ملی، کہاں یہ کہ کوئی جسمانی سزا دی جاتی۔

درس گاہ میں پڑھائی کے پورے عرصے میں استادِ محترم کے ہاتھوں صرف ایک بار مجھے سزا ملی اور وہ بھی سبق کے معاملے میں نہیں بلکہ اجتماعی شرارت اور شور ہنگامے کی وجہ سے۔ ہوا یوں کہ آپ کہیں گئے ہوئے تھے اور ہم چند ساتھیوں نے مسجد میں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق اور شور مچانے کی حرکات شروع کی ہوئی تھیں۔ استادِ محترم اچانک تشریف لے آئے اور دبے پائوں مسجد کے ہال میں آگئے۔ یوں ہم رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ اُس روز دیگر ساتھیوں کے ساتھ راقم کی بھی پٹائی ہوئی۔ ایک عجیب بات یہ کہ پٹائی سے تکلیف تو پہنچی مگر مجھے ایک طرح کی خوشی بھی ہوئی کہ ایسی حرکت پر ہمیں سزا ملنی ہی چاہیے تھی۔

والد صاحب چاہتے تھے کہ مجھے ٹریننگ دے کر تیسری یا چوتھی جماعت میں بٹھا دیں۔ ایک روز مجھے کچھ کام دے کر ہدایت کی کہ میرے آنے تک یہ مکمل کرنا ہے۔ پھر گھوڑی پر سوار ہوکر گھر سے باہر نکلے تو میں نے روتے ہوئے پھوپھی جان سے کہا کہ مجھ سے یہ کام نہیں ہوسکتا، خدا کے لیے والد صاحب سے میری جان چھڑائیں، میں یہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتا، میں کاشت کاری کرلوں گا، ہل چلا لوں گا۔ (میری ہل چلانے کی اس بات کو میری بڑی ہمشیرہ مرحومہ مزاحیہ انداز میں کئی مرتبہ بیان فرمایا کرتی تھیں اور ہم سب لطف اندوز ہوتے تھے۔ بقول ہمشیرہ مرحومہ’’ از اول تا آخر ہر کلاس میں ٹاپ کرنے والے طالب علم پر یہ دور بھی کبھی گزرا تھا‘‘) اس موقع پر پھوپھی جان نے مجھے بہت پیار سے سمجھایا کہ بیٹا ہمت کرو کام آسان ہوجائے گا۔ مگر میں نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا۔ اگر ضرور مجھے پڑھانا ہی چاہتے ہیں توآپ لوگ مجھے اسکول میں چھوڑ دیں، پھر میں کوشش کروں گا کہ پڑھ لکھ لوں۔

قارئین محترم! آپ کو یہ بات یاد ہوگی کہ میں نے مکتب میں قرآن حفظ کرنے کے لیے جانے کے دوسرے روز درخواست کی تھی کہ مجھے مکتب کے بجائے گھر ہی میں پڑھائیں، آج میں اس کے برعکس عرض کررہا تھا کہ مجھے گھر میں تعلیم دینے سے نجات دلائیں اور اسکول میں چھوڑ آئیں۔ واہ رے درویش تیری زندگی کے نشیب و فراز اور تیری طبیعت کی کمزوریاں! والد صاحب جب واپس گھر آئے تو پھوپھی جان ان سے کہنے لگیں: ’’فیض میاں! تمھیں پڑھانے کا سلیقہ نہیں آتا ہے۔ اچھے بھلے ذہین بچے کو تم نے پریشان اور بدحواس کردیا ہے۔ (پنجابی میں آپ کے الفاظ تھے، توں تے اس مسکین کی مت ای مار دتی اے۔) اس کو چھوڑ دو، کل اس کو اسکول میں داخل کرا دیں گے۔‘‘ (جاری ہے)