ایسا کہاں سے لاؤں تجھ سا کہوں جسے !
پٹیل اسپتال کراچی کے آئی سی یو وارڈ میں میرے سامنے رضی بھائی مختلف نلکیوں سے لدے ہوئے مجھ سے مخاطب تھے:
’’کیسے ہو؟ کوئی غلطی ہو تو معاف کردینا۔‘‘
میرا دل کٹ کر رہ گیا۔
رضی بھائی سے تعلق بہت پرانا تھا۔ جسارت کے برابر میں جنگ کا دفتر تھا۔ رضی بھائی جنگ کے سائنس کے صفحے کے انچارج تھے۔ شام کو میں اور وجیہ صدیقی دونوں ان کے پاس روزنامہ جنگ کے دفتر پہنچ جاتے۔ وہ سائنس کی چھوٹی چھوٹی خبریں نکال کر دیتے اور ہم سے ترجمہ کراتے، ہم خوش خوش وہ ترجمہ کرتے، رضی بھائی ان کی نوک پلک درست کرتے، پھر چائے بسکٹ سے ناشتہ کراتے۔ ہم رضی بھائی سے فرمائشیں کرتے، وہ ہمارے لاڈ اٹھاتے۔ شام کو ہم دفتر سے نکلتے اور راستے میں مختلف باتیں کرتے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتے۔ یہ معمول بہت عرصے تک جاری رہا۔ پھر میں نوائے وقت میں چلا گیا۔
رضی بھائی اور احمد سعید قریشی نے ”سائنس ڈائجسٹ“ کا ڈول ڈالا اور ہم سب رضی بھائی کے پاس سائنس ڈائجسٹ کے دفتر جانے لگے۔ وہاں تنویر شیرازی تھے، وجیہ صدیقی تھے، محمد اسلام نشتر، عبدالودود شاہ، مفتاح الدین صدیقی اور بہت سارے ساتھی تھے۔ یہاں محفل جمی رہتی۔ نئے نئے مضامین کی جستجو ہوتی، لطیفے ہوتے، کہانیاں ہوتیں، کھانے کھائے جاتے، کیا مزے کی زندگی تھی۔
رضی الدین خان سائنسی صحافت کا ایک بڑا نام تھا۔ پورے ملک میں ان کی شہرت تھی۔ بیرونِ ملک پاکستانی سائنس دانوں، ڈاکٹروں، ادیبوں سے ان کا رابطہ تھا۔ سائنس ڈائجسٹ نے اڑان بھری تو وہ نوجوانوں میں ملک کا مقبول جریدہ بن کر ابھرا۔ رضی صاحب نے سائنس ڈائجسٹ میں اپنی جان لڑا دی۔ ان کی صبح شام سائنس ڈائجسٹ سے جڑی تھی۔ وہ ملک کے لیے نئے نئے منصوبوں اور ان کے خالق سائنس دانوں کو سائنس ڈائجسٹ سے متعارف کراتے، اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگ شہرت اور مرتبے کی بلندی کو پہنچ جاتے، لیکن رضی بھائی وہیں کے وہیں تھے، انھیں بہت سی آفر بھی آتیں۔ لوگ اپنا مضمون اور انٹرویو شائع کرانے کے لیے پوری پوری اشاعت کا خرچہ اٹھانے کو تیار تھے، لیکن رضی صاحب پر تو ایمان داری، سچائی، ملک اور قوم کی خدمت کا نشہ سوار تھا۔ وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے۔ جس کو حق اور سچ سمجھتے اس کا ساتھ دیتے۔ اس خرابے میں عزتِ سادات پر بھی حرف آیا۔ ایٹمی سائنس دانوں کے فارمولے پر امریکہ نے بھی انھیں رجھایا، لیکن وہ کسی کے جھانسے اور پھندے میں نہیں آئے۔
سائنس ڈائجسٹ کو پہلا جھٹکا تو ایک فراڈی اشتہاری منیجر نے دیا۔ جو ]1981ء میں[ ہزاروں روپے کے جعلی اشتہارات چھپوا کر ادارے کو نقصان پہنچا کر غائب ہوگیا۔ پھر رضی صاحب نے سائنس ڈائجسٹ میں اپنا سب کچھ لگا دیا۔ سائنس ڈائجسٹ بند ہوا تو رضی صاحب بھی ڈھے گئے۔ پھر رضی بھائی نے لیاقت نیشنل لائبریری کا کونا پکڑ لیا۔ وہ وہاں صبح چلے جاتے اور شام تک کچھ نہ کچھ کام کرتے رہتے۔ وہاں انہوں نے بہت سارے محبت کرنے والے دوست اور ساتھی ملازمین سے رشتہ جوڑ لیا۔ میں اور وجیہ کئی بار رضی صاحب سے ملنے وہیں گئے۔ ان کے پاس یادوں کے خزانے تھے، ان کی یادداشت بہت اچھی تھی۔
رضی صاحب بہت پائے کے صحافی تھے، بہت زبردست لکھنے والے تھے، جو صحیح سمجھتے تھے وہ لکھا اور سائنس ڈائجسٹ کو پاکستان کے نمبر ون سائنسی جریدہ بنادیا۔ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کو سپورٹ نہیں کیا جاتا، اگر رضی صاحب کا سائنس ڈائجسٹ چلتا رہتا تو حکومت کو بھی سائنس کے میدان میں ہونے والی پیش رفت اور نچلی سطح پر ہونے والی بہت سی تحقیقات اور تجربوں سے آگاہی ہوتی۔ ہمارے صنعت کار بھی نوجوانوں کی ایجادات سے واقف ہوتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے۔ پاپولر سائنس جرنلز کے زمرے میں سائنس ڈائجسٹ پاک و ہند میں اردو زبان کا پہلا مقبول سائنس جرنل تھا۔ اس رسالے میں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے تقریباً تمام شعبوں فزکس، ریاضی، زولوجی، نباتیات، میرین سائنسز، ارضیات، فلکیات، خلائی اور ایروناٹکس، کیمیکل سائنسز، ماحولیات، بشریات، جنگلی حیات، نفسیات، جینیات، ادویہ، کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائنس کی تاریخ، جغرافیہ، سول، مکینیکل اور الیکٹریکل انجینئرنگ، جنگ اور ملٹری سائنس، روبوٹکس اور آٹومیشن اور مصنوعی ذہانت سب کچھ شامل تھا۔ فروری 1981ء سے نومبر 2001ء تک 21 سالوں میں سائنس ڈائجسٹ کے 119 شمارے شائع ہوئے۔ 2500 سے زائد مضامین، انٹرویوز، تحقیقی مقالے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں پر رپورٹس اور تبصرے شائع ہوئے۔
بی بی سی اردو سروس کے سائنس پروگرام میں کئی بار سائنس ڈائجسٹ کا حوالہ دیا جاتا تھا۔ یہ نوجوان نسل خاص طور پر اردو میڈیم طلبہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے کچھ کچھ آگاہ ہوئے ہیں، تو اس میں سائنس ڈائجسٹ اور رضی الدیں خان کا خونِ جگر شامل ہے۔ شائع ہونے والے 2500 مضامین میں سے کم از کم 300 مضامین اتنے ہی تازہ اور نئے ہیں جیسے کہ آج لکھے گئے ہیں اور دنیا بھر میں اردو زبان میں غیر معمولی طور پر منفرد ہیں۔ رضی الدین خان کے بہت بڑے بڑے سائنس دانوں سے رابطے تھے، وہ نئے نئے خیالات اور تھیوریز پر بات کرتے تھے اور ان کے ذریعے اس ملک میں کچھ اچھا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے کینسر کے علاج کے لیے بہت سارے لوگوں سے انٹرویوز کیے اور ایسے اتائی اور جعلی لوگوں کو بے نقاب کیا جو کینسر کے علاج کے نام پر لوگوں کو لوٹ رہے تھے۔
رضی بھائی بہت ہنس مکھ اور لطیفہ گو تھے۔ وہ ہمارا حوصلہ بڑھاتے۔ انہوں نے ہمیں بہت کچھ سکھایا اور سمجھایا۔ کہتے تھے میں اپنے دوستوں کے ان بیٹوں سے ملتا ہوں جن کے والد رخصت ہوگئے ہیں۔ ان کا والد کے لیے تڑپنا اور انھیں یاد کرنا دل کو بہت ناشاد کرتا ہے۔ خوش قسمت ہیں جن کو اپنے والدین کی خدمت کا موقع ملتا ہے۔ رضی صاحب کے بیٹے فیضان رضی الدین نے ان کی دل و جان سے خدمت کی۔ تن تنہا اس کرب اور دکھ کو سمیٹا۔ رضی بھائی اب رخصت ہوگئے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔