آپ کے انتخاب کے صدقے

لو صاحبو، بالآخر وطنِ عزیز میں انتخابات ہو ہی گئے… اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات۔ یہ انتخابات بہت سے لوگوں کو ہوتے نظر نہ آتے تھے، کیوں کہ آئینی طور پر ان انتخابات کا انعقاد اکتوبر یا نومبر 2023ء ہی میں ہوجانا چاہیے تھا۔کہا جاتا ہے کہ ’دیر آید، درست آید‘ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ پر آج کل ’غلطی ہائے مضامین‘ کے ساتھ ساتھ ’غلطی ہائے انتخابات‘ کا غلغلہ بھی مچا ہوا ہے کہ ’درست نہ آید‘۔ کسی جماعت کو غالب اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے جو ملغوبہ سا بن گیا ہے، دنیائے ابلاغیات پر فی الوقت اُسی ملغوبے کے مباحث کا غلبہ ہے، اور غالباً یہ غلبہ ابھی کچھ دن اور رہے گا۔ سو، ہم قارئین سے معذرت خواہ ہیں کہ آج کا کالم اسی ملغوبے کے غلبے سے مغلوب ہوگیا ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ 8 فروری 2024ء کو برپا ہونے والے اس انتخابِ اراکین کے بعد ملک بھر میں اس سوال کا غوغا مچ گیاکہ

’’کس نے کس کا انتخاب کیا؟ یعنی جو منتخب قرار دیے گئے ہیں ان کا انتخاب عوام نے کیا ہے یا خواص نے؟‘‘

یہ کیفیتِ غوغائی اس کالم کی لکھائی کے وقت بھی برقرار ہے۔ ’غلطی ہائے مضامین‘ کھوجنے کو جب ہم نے ذرائع ابلاغ پر نظر کی تو دیکھا کہ ہر طرف غُل بھی بپا ہے اور غپاڑا بھی۔ بہت سے لوگ ہُلّڑ مچا مچا کر اس انتخابی اونٹ کو مختلف سمتوں میں دوڑا رہے ہیں۔ اب دیکھیے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ بیٹھتا بھی ہے یا نہیں؟ فی الحال تو ’بے چارا‘ اونٹ گردن اُٹھائے چاروں کھونٹ بلبلاتا پھر رہا ہے کہ’’یااللہ ایسا انتخاب؟ یہ بھلا کیسا انتخاب؟‘‘ فقط وہ لوگ نہیں بلبلا رہے ہیں جو ساجھے کی اِس انتخابی ہنڈیا میں مل بانٹ کر حکومت بنا رہے ہیں۔ بس یہی لوگ ہیں جو اس قسم کے انتخاب پر بے حد خوش ہیں… انتخاب کرنے والوں سے… کہ

آپ نے مجھ کو انتخاب کیا
آپ کے انتخاب کے صدقے

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ’صدقے جاؤں‘ کی صدا لگانے والی پارٹیاں بھی فارم سینتالیس کے صدقے ملنے والی وفاقی حکومت قبول کرنے سے ڈرنے لگی ہیں۔ ہاتھ بڑھا بڑھا کر ہاتھ کھینچ رہی ہیں۔ گھونگھٹ اُٹھا لوں کہ گھونگھٹ گرالوں؟ …سیّاں جی کا کہنا میں مانوں کہ ٹالوں؟اُدھر اِن تمام مثبت انتخابی نتائج کا اہتمام کرنے والے چچا غالبؔ بھی الگ اپنا سر پکڑے بیٹھے ہیں:

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
’’شیروں‘‘ کے انتخاب نے رُسوا کیا مجھے

خیر، اب اُن شیر افگنوں سے کیا عرض کریں جو اسی میں خوش ہیں کہ ’بصد سامانِ رُسوائی سرِ بازار می رقصم‘۔ سوچیے تو سہی کہ بھلا ہم کیا کہیں؟ اپنے لیے رُسوائی اور رقصِ رُسوائی کا ’انتخاب‘ بھی تو اُنھوں نے خود ہی کیا ہے۔

عربی زبان میں’’نَخَبَ‘‘ کے معنی ہیں کھینچ کر نکالنا، چننا یا عمدہ حصہ لے لینا۔ اسی سے ’انتخاب‘ کا لفظ بنا ہے۔ اُردو میں ’انتخاب‘ کثیر المعانی ہوگیا ہے۔ لفظی مطلب تو پسند کرنا، چننا یا عمدہ حصہ نکال لینا ہی ہے، مگر اصطلاحی معنوں میں سیاست داخل ہوگئی ہے۔کثرتِ رائے سے کسی فرد کو عوام کا نمائندہ بنانا یا کسی خاص منصب کے لیے استصوابِ رائے سے کسی کو پسند کرلینا سیاست کی اصطلاح میں ’انتخاب‘ کہلاتا ہے۔ جمع اس کی ’انتخابات‘ ہے۔ اِنھیں معنوں میں بہت سی تراکیب بھی بنا لی گئی ہیں مثلاً انتخابی عمل، انتخابی مہم، انتخابی جلسہ، ناظمِ انتخاب، انتخابی نتائج، انتخابی عذرداری، منتخب نمائندہ اور ’پرچۂ انتخاب‘ جس کے لیے اب اُردو میں ووٹ کا مختصر نام اختیار کرکے معززین یعنی اشراف سے مطالبہ کیا جانے لگا ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘۔ مگرووٹ کو عزت تو اُسی صورت میں مل سکتی ہے جب ووٹر کو عزت دی جائے۔ یہی بات ہم نے گزشتہ تین بار کی سرکارکے ایک رہنما کے گوش گزار کی تو بھڑک اُٹھے، کہنے لگے:

’’اگر میں ووٹر کو عزت نہ دیتا تو بھلا اِن ٹکے ٹکے کے لوگوں کے پاس ووٹ مانگنے آتا؟‘‘

انتخاب کا ایک مطلب چھانٹنا یا چھانٹی کرنا بھی ہے۔گویا جن لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ خاصے چھٹے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ اگرچہ بتانے کا کوئی فائدہ نہیں، مگر ایک بات اور بتاتے چلیں کہ ایک ہی املا سے لکھے جانے والے الفاظ کے تلفظ میں زیرو زبر کے فرق سے بھی معنی میں فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک آسان سی پہچان یہ ہے کہ پانچ حرفی الفاظ میں اگر چوتھے حرف پر زیر ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے ’’کرنے والا‘‘۔ لیکن اگر چوتھے حرف پر زبر ڈال دیا جائے تو مطلب اُلٹ جاتا ہے ’’کیا ہوا‘‘ یا ’’کیا گیا‘‘۔ مثال کے طور پر منتظر کے ’ظ‘ پر زیر ہو تو اس کا مطلب ہوگا ’’انتظار کرنے والا‘‘۔ جب کہ ’ظ‘ پر زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا مطلب ہوگا ’’وہ جس کا انتظار کیا گیا‘‘ یا ’’وہ جس کا انتظار ہے‘‘۔ اقبالؔ کے اس مصرعے میں منتظر کے ’ظ‘ پر زبر ہی ہے ’’کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں‘‘۔

اسی طرح منتظم کے ’ظ‘ پر زیر ہو تو وہ ’’انتظام کرنے والا‘‘ ہوگا اور اگر ’ظ‘ پر زبر ہو تو مطلب ہوگا ’’جس کا انتظام کیا گیا‘‘۔ چناں چہ اگر آپ منتخب کے ’خ‘ کو زیر لگاکر پڑھیں گے تو اس کا مطلب ہوگا ’’انتخاب کرنے والا‘‘ یعنی ووٹر۔ لیکن ’’جس کا انتخاب کیا گیا‘‘ ہے اُس کے ’خ‘ پر خواہ مخواہ زبر ہوگا، خواہ وہ منتخب صدر ہو یا منتخب وزیراعظم۔ ’خواہ مخواہ‘ کا مطلب ہے ’چاہو یا نہ چاہو‘۔

آج کل برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ پر ایک بھاری بھرکم اصطلاح کی بھرمار ہے: ’مینڈیٹ‘ (Mandate)۔ اس لفظ کے کئی معانی ہیں، فرمان، حکم، اجازت، ہدایات وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جس مفہوم میں یہ لفظ آج کل استعمال ہورہا ہے وہ ہے ’’عوام کی اکثریت کی حمایت سے ملنے والا حقِ حکمرانی‘‘۔ تاہم پاکستان کے عوام کی اکثریت ’مینڈیٹ‘ کے مفہوم سے ناآشنا ہے۔ جب ذرائع ابلاغ سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فلاں کو عوام نے مینڈیٹ دے دیا ہے تو ’عوام‘ کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ وہ فلاں کو کیا دے بیٹھے ہیں۔ اُردو میں ایک ہلکا پھلکا عام فہم لفظ ہے’اختیار‘۔ جس کی جمع ’اختیارات‘ ہے۔ ’اختیار دینا‘ کسی کو صاحبِ اختیار و اقتدار بنانا ہے۔ جس کو ’اختیار‘ دیا جاتا ہے وہ ’بااختیار‘ ہوجاتا ہے۔ مقتدروں کو ’صاحبِ اختیار‘ کہنا عام ہے۔ اُستادِ محترم پیرزادہ قاسم رضا نے اپنے شہر کا ’مینڈیٹ‘ رکھنے والوں کو ہدایت کی تھی:

شہر کرے طلب اگر تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو آگ لگا دیا کرو

ہدایت سن کر ’ صاحبانِ اختیار‘ نے سعادت مندی سے سر جھکایا اور ’’جی، اچھا!‘‘ کہہ کر ہدایت پر عمل شروع کردیا۔ اگر ہمارے ذرائع ابلاغ ’مینڈیٹ‘ کی جگہ ’اختیار‘ کا لفظ اختیار کرلیں تو اس سے اُن کے یا کسی اور کے اختیارات میں کوئی کمی نہیں آجائے گی۔ مگر ہم نے کہا نا کہ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس اختیار ہوتا تو قومی ذرائع ابلاغ کو قومی زبان کی اصطلاحات اختیار کرنے پر مجبور کردیتے۔ مگر کیا کیجیے کہ اس وقت تو ہم ہی مجبور ہیں، وہ ہی مختار ہیں۔ ’مختار‘ اُس شخص کو کہتے ہیں جو ’بااختیار‘ ہو۔ کسی کا پابند یا کسی کے زیراثر نہ ہو۔ رشکؔ نے عشق کو تمام پابندیوں سے آزاد کرکے ’خودمختار‘ کردیا تھا:

عقل و حواسِ خمسہ کو بے کار کر دیا
ہم نے جنابِ عشق کو مختار کر دیا

جسے مختار کیا جاتا ہے اُسے ’مختارنامہ‘ بھی دے دیا جاتا ہے۔ مختارنامہ پکڑ کروہ ’مختارِ عام‘ ہوجاتا ہے۔اُسے ہر کام کرنے کا اختیار مل جاتا ہے۔ ایک سرکاری عہدہ ہے ’مختارِ کار‘۔اللہ جانے کس نے ہمارے صوبہ سندھ میںاسے ’مختیارِ کار‘ قرار دے کر اس کی مت مار دی ہے۔