رومانیت پسند تحریک
درحقیقت یہ ایک پیغام تھا جو بہت سے رومانیت پسندوں کو ’’ماورائی تصور‘‘ کے فلسفے سے ملا تھا۔ انگریز رومانیت پسند سیموئل ٹیلر کالرج اس کی مثال ایک رجحان کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ اُس کی مشہور کتاب Biographia Literaria جو 1817ء میں شائع ہوئی، رومانوی تحریک کی تھیوری کی کلاسیک کہلائی۔ کالرج نے تسلیم کیا ہے کہ اس تھیوری کے لیے اس نے شیلنگ کے نظریے سے مدد لی۔ اس تھیوری پر تفصیلی تجزیے کیے گئے۔ ابرامس کا ’آئینہ اور چراغ‘، آرسینی کا ’کالریج اور جرمن مثالیت پسندی‘، اور مارسل کا ’کالرج اٹ شیلنگ‘ قابل ذکر ہیں۔ ہم یہاں تفصیل میں جانے کے بجائے کالرج کے متن سے چند اہم حصے الگ کریں گے، کہ جو رومانوی فکر کا اسلوبِ استدلال واضح کریں گے۔
بائیوگرافیا کے دسویں باب میں کالریج esemplastic کی اصطلاح وضع کرتا ہے، اس سے اُس کی مراد ’’تصور‘‘ کی وہ قوت ہے جو ’وحدت کی صورت گر‘ ہو۔ وہ جرمن مثالیت پسندوں کے نظریہ تخلیقی تصور اور اس اصطلاح میں براہِ راست تعلق تسلیم کرتا ہے۔ کالریج تخلیقی تصور کو اس کے روایتی کردار سے الگ کرکے پیش کرنے کے لیے پُرعزم نظرآتا ہے۔ روایتی نقلی کردار کے لیے ’خیالی دنیا‘ کی اصطلاح مخصوص کرتا ہے۔ بائیوگرافیا کے ایک مشہور حصے میں کالریج ان دونوں میں فرق کی وضاحت کرتا ہے، انہیں دو الگ اسلوبِ تخلیق قرار دیتا ہے۔ ایک مقدم اور دوسرا ثانوی درجے کا ہے۔ مقدم ’’تصور‘‘ ایک زندہ متحرک قوتِ تصور ہے، یہ محدود ذہن میں لامتناہی عملِ تخلیق کے دہرائے جانے کی کیفیت ہے۔ جب کہ ثانوی ’’تصور‘‘ مقدم کی بازگشت ہے، یہ شعوری ارادے کے ساتھ ہے، محض درجے میں کم اور طریقے میں مختلف ہے۔ اس کثیف اور قدرے الجھے ہوئے متن پر بڑے تبصرے کیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے مصنف یہاں مقدم تصور کی کارگزاری کو مثالیت پسند نظریہ ’ماورائی تصور‘ کے برابر بیان کرنا چاہ رہا ہے: ایک ایسا نظریہ جسے کانٹ نے ’نامعلوم جڑ‘ کہہ کر متعارف کروایا ہے۔ بعد میں شیلنگ نے اسی خیال کو ’لاادری شاعری‘ کہا ہے۔ جب کہ دوسرے درجے کے ’’تصور‘‘ کو مناسب فنکارانہ کاموں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے، کہ جسے کانٹ نے ’جمالیاتی بصیرت‘ اور شیلنگ نے شاعر کی الہامی تخلیقات سے شناخت کیا ہے۔ مزید یہ کہ کالریج لامتناہی (مَیں ہوں) کا حوالہ دیتا ہے، جو بظاہر خدائی عملِ تخلیق (اناجیل کے ’میں ہوں جو ہوں‘) کا اطلاق آدمی کی خلّاقیت پر کررہا ہے۔
بہرحال ایک نظر میں مقدم اور ثانوی تصور کی تفریق الجھادینے والی ہے۔ زیادہ غور کیا جائے تو تصور کی ماورائی قوتوں کی مربوط تشکیلِ نو کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ ’’تخلیقی تصور‘‘ کے اس جدید طریقہ تحقیق پر دیگر کئی رومانیت پسندوں نے بھی مہرتصدیق ثبت کی ہے۔ ورڈزورتھ نے تصور کو قوتِ مطلق کا دوسرا نام دیا، اور اسے عقل کی راحت قرار دیا۔ بلیک نے اسے الوہیت سے پھوٹتی روحانیت کہا کہ جسے ہمیشگی حاصل ہے۔ اور شیلے نے A Defence of Poetry میں لکھا کہ عقل تصور کا ’سایہ‘ ہے۔
لب لباب: تصور کی پسپائی
جرمن مثالیت پسندی اور رومانیت پسند تحریک کے ساتھ تصور کی جدید تعریف اپنی انتہا پر پہنچتی نظر آتی ہے۔ کائنات فتح کرنے کے بعد لگتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں بچا جو تصور کی عمل داری میں آنے سے رہ گیا ہو۔ مگر تصور کی یہ لاانتہا بلندیاں جلد ہی زوال کا شکار ہوتی ہیں۔ اس زوال کی جڑیں رومانیت پسند تحریک کے اندر ہی ہیں۔ آدمی کی تخلیقی قوت کے بلند بانگ دعوے کرنے کے بعد یہ ناگزیر تھا کہ جلد یا بدیر سراب کی سی کیفیت پیدا ہو۔ رومانوی تصور ممکنہ طور پر اپنے وعدے پورے نہیں کرسکا تھا۔ یہ جدید وجودیت کے حقائق کا سامنا نہیں کرسکا تھا۔ سیاسی انتشار اور صنعتی انقلاب کی تباہ کن فطرت، معاشرے کی بیوروکریٹائزیشن اور میکانیت نے منڈی کی تشہیر کی، اور سرمایہ دارانہ نظام کی اجارہ داری قائم کردی۔ روشن خیال تحریک اور رومانیت پسند تحریک کی امیدیں دم توڑ گئی تھیں۔ تصور نے خود کو بہت جلد ناگوار پسپائی سے دوچار پایا، جیسے ماسکو کے بعد نپولین کی مہم جوئی وغیرہ۔
تصور کی یہ پسپائی پہلے ہی بہت سے رومانیت پسندوں کے کام میں محسوس ہوتی ہے۔ ورڈز ورتھ رومانوی تصور کو ایک مثالی استعارے کی صورت میں پیش کرچکا تھا جب اُس نے لکھا کہ ایک شاعر اس ظالم دنیا کو چھوڑ کر واچ ٹاور میں گوشہ نشین ہوجاتا ہے۔ یہاں ایسا لگتا ہے تخلیقی تصور اپنی شان و شوکت کھو رہا ہے۔ اس کی تصویر سازی بلاشبہ جاری ہے مگر یہ حقیقت بدلنے کے قابل نہ رہا۔ رومانیت پسند افسانہ حقیقت میں نہ ڈھل سکا۔ سماجی تنازعات اور سیاسی انتشار کی جدید دنیا میں یہ بے جوڑ بے محل ہوچکا تھا۔ اب یہ صرف حقیقی اور غیر حقیقی دنیا کے بیچ دیوار اٹھا رہا تھا۔ اب تصور صرف اپنی ناممکن آرزوؤں کو اپنی حدوں میں محفوظ بنارہا تھا۔ حُسنِ خیال اور حقیقت کی یہ تقسیم صرف انگریز رومانیت پسندوں تک محدود نہیں تھی۔ مختلف درجوں میں دیکھا گیا کہ سارے یورپ کی رومانیت پسند تحریکوں میں یہ صورتِ حال پیدا ہوچکی تھی۔ جرمن رومانیت پسند فریڈرک شلر نے اپنی تحریروں میں پوری طاقت سے اس بات کا اظہار کیا کہ حقیقت اور تصور میں طلاق ہوچکی ہے۔ اس نے اپنے Letters on the aesthetic education of man میں کہا کہ تصور ڈرامے کی جمالیات میں پوری ازادی سے غیر حقیقی دنیا تخلیق کررہا ہے۔ ’’تصور‘‘ حقیقت کی دنیا سے چھلانگ لگا کر ایک خیالی دنیا ایجاد کررہا ہے۔ شلر اسے ڈرامے کی تفریحی دنیا کہتا ہے۔ اس کی وجہ یہاں یہ معلوم ہوتی ہے کہ ذہن اور جسم کے درمیان روایتی دہرا پن جسے آرٹ میں دور کیا جاسکتا ہو، مگرحقیقی تاریخ میں ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی کوئی خدائی سلطنت نہیں ہے جو خدا ہم پر منکشف کرے۔ یہ صرف آدمی کے تصور کا جمالیاتی پروجیکٹ ہے۔ تصور کی دنیا وہ ہے جہاں آدمی خود ہی بادشاہ ہے اور خود ہی اپنے بہترین افسانوں کا خالق۔ شاید ہیگل بھی یہی کررہا تھا جب وہ کہہ رہا تھا کہ انسانی طاقت کی ساری حقیقت ’’روحِ کامل‘‘ میں ہے۔ اور جیسا کہ بعد میں رومانیت پسند مفکر ویلیس اسٹیونس نے کہا کہ تصور ایک ایسی قدر ہے جس کے ذریعے ہم خدا کے خیال کو آدمی کے خیال میں پراجیکٹ کرتے ہیں، تصور ہی واحد ذہانت ہے۔ (جاری ہے)