بلوچستان میں فروغِ زبان و ادب اور خواتین کی مثالی خدمات
اب یہ تصور یا نظریہ کچھ عام نہیں رہا کہ تخلیقی، تحقیقی یا مطالعاتی سرگرمیاں صرف مردوں تک محدود و مخصوص ہوتی ہیں اور خواتین ان سرگرمیوں سے بالعموم دور یا لاتعلق رہتی ہیں۔ اس خیال کے برعکس اب واقعی چند سالوں سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے ہر طرف دیکھیں تو خواتین بھی قلم اور کاغذ سے متعلق علمی و تصنیفی سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر شرکت کرتی اور ان سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ ہی نہیں لیتیں بلکہ نمایاں و سرگرم حصہ لیتی ہیں، یہاں تک کہ خود کو ممتاز و نمایاں بھی رکھتی ہیں! بعض ادبی و تخلیقی اصناف میں تو ان میں سے کئی خواتین کا مقابلہ کرنے میں مرد بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ تعلیم کے عام ہونے اور جامعات کے پھیلاؤ کے سبب اب تعلیم اور مطالعات و تحقیقات میں جو بے پناہ اضافہ ہوا ہے اس نے آبادی کے ہر طبقے میں اپنے مثبت اثرات قائم کیے ہیں، اب عورت اور مرد کا فرق بہت نمایاں اور امتیازی نہیں رہا، اور شعبہ ہائے علوم بھی اب مردوں اور عورتوں کے لحاظ سے الگ الگ یا مختلف یا مخصوص نہ رہے، اور اس مناسبت سے لسانیات اور زبان و ادب اور ان میں مطالعات کی نوعیت بھی ایسی نہ رہی کہ انھیں صنفی اعتبار سے عورتوں یا مردوں سے مخصوص یا محدود کیا جاسکے۔ چناں چہ اب اگر صرف ادب و لسانیات میں تخصیص یا اعلیٰ ادبی تحقیقات و مطالعات کا شعبہ یا موضوعات زیر جائزہ ہوں تو بھی خواتین ان میں نہ صرف سرگرمی سے حصہ لیتی نظر آتی ہیں بلکہ عمدہ اور حد درجہ معیاری مطالعات و تحقیقات میں بڑھ چڑھ کر خود کو نمایاں کرتی بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ایسی ہی فاضل خواتین میں بلاشبہ بلوچستان یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر فردوس انور قاضی بھی ہیں، ضروری ہے کہ جن کی علمی و مطالعاتی خدمات اور اس ضمن میں ان کی منفرد و امتیازی خصوصیات کو قدرےدیکھا اور دکھایا جائے۔ ویسے اس موضوع یا متعلقہ موضوعات سے قطع نظر ڈاکٹر صاحبہ کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ انھوں نے تحقیق و تنقید سے بھی نسبت رکھی ہے اور تخلیق کے زمرے میں ”خواب کہانی“، ”خوابوں کی بستی“ جیسے دو ناول اور افسانوں کا ایک مجموعہ ”آخری ٹرین“تخلیق کیا ہے۔ تحقیق و تنقید اور تخلیق بیک وقت کم ہی مصنفین اور تخٖلیق کاروں کی یکساں دل چسپیوں میں شامل ہوتے ہیں۔ پھر اعلیٰ سطحی زبان و ادب کی نصابی کتابیں بھی آپ نے اپنے ذخیرے میں یادگار چھوڑی ہیں۔ ”قلم قبیلہ“ نامی ایک معروف تہذیبی و ادبی مجلس کے مجلے کی ادارت بھی ڈاکٹر صاحبہ ایک عرصے سے انجام دیتی آئی ہیں۔ اس طرح انہوں نے ساری ہی عملی زندگی طرح طرح کی علمی و ادبی مصروفیات و مشاغل میں بسر کی ہے اور بسر کررہی ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی عملی زندگی کا ایک بڑا حصہ زبان و ادب کی تدریس میں کوئٹہ میں رہ کر، اور 1975ء سے بلوچستان یونیورسٹی میں شعبۂ اردو سے منسلک رہ کر گزارا ہے،اور سبک دوشی کے بعد بھی اب اسی یونیورسٹی سے کسی نہ کسی طرح منسلک رہ کر اپنے شغلِ علم و تحقیق میں منہمک اور اپنے ذوق وشوق کے مطابق ممتاز و منفرد ادبی و مطالعاتی منصوبوں میں اس کی نگرانی و رہنمائی کی ذمے داری انجام دیتی آرہی ہیں۔ اس اضافی وابستگی کے عرصے میں جو جو سرگرمیاں بلکہ خدمات ڈاکٹر صاحبہ کی رہی ہیں مجھ سے زیادہ قریبی ربط و تعلق نہ ہونے کے سبب میرے راست علم میں نہیں، لیکن ان کی تصنیفات و مطبوعات ایک وسیلہ ضرور رہی ہیں ان کی علمی و تصنیفی سرگرمیوں و خدمات کو ان کی حد تک جاننے اور سمجھنے کا۔
تصانیف میں لگتا ہے مطبوعات کے تعلق سے کوئی مخصوص موضوع یا روایت ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ وابستہ نہیں ہے۔ جو تصانیف اس وقت میرے پیشِ نظر ہیں ان میں ناولوں اور افسانوں کے علاوہ بالخصوص دو ضخیم مطالعات ”اردو افسانہ نگاری کے رجحانات“ اور ”اردو ادب کے مختلف زاویے“ ہیں جو ڈاکٹر صاحبہ کے ذوق و رسائی اور طرز و اسلوب کی عمدگی سے نمائندگی کررہی ہیں۔
ان کی اولین مطبوعہ اور ضخیم تصنیف ”اردو افسانہ نگاری کے رجحانات“ ان کی ایسی ہی مبسوط تصنیف ہے، یہ ان کا پی ایچ ڈی کا سندی مقالہ ہے جو انھوں نے مجتبیٰ حسین کی نگرانی میں تصنیف کیا اور سند حاصل کی۔ مجتبیٰ حسین صاحب ہمہ دل چسپیوں کے حامل ایک سینئر قلم کار رہے ہیں لیکن کسی ایک موضوع سے ان کا ایسا تعلق نہ رہا کہ جس کی بنیاد پر انھیں کسی خاص موضوع سے منسوب کیا جاسکے۔ وہ ایک نقاد ہی کی شہرت رکھتے تھے، لہٰذا ان کی نگرانی میں لکھا جانے والا یہ ضخیم مقالہ تمام تر ڈاکٹر فردوس انور قاضی صاحبہ کی مصلحتوں اور کوشش و جستجو اور ذاتی محنتوں کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال مقالے کے موضوعات اور فاضل مقالہ نگار کی محنت اور کوشش اس مقالے کے معیار، اس کی شہرت اور قدر و قیمت کا سبب کہی جاسکتی ہے۔ جس زمانے میں یہ مقالہ منظرِ عام پر آیا اُس وقت تک افسانہ نگاری کے فنی و اسلوبیاتی مطالعات پر ایک خاصی بڑی تعداد اردو دنیا میں سامنے آچکی تھی جب بڑے بڑے نامور مصنفین اس موضوع کو اختیار کرکے خاصے اہم اور یادگار مطالعات پیش کرچکے تھے، لیکن اس کے باوجود اس زیرِنظر مقالے نے بھی ماہرین اور نقادوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔ چناں چہ نو دس سال کے عرصے ہی میں اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا اور شائقین کی ضرورت پوری کرگیا۔
مقالے کا معنوی و موضوعاتی آغاز مصنفہ نے سرسید تحریک سے کیا ہے، اور اس سے قبل کا اردو کے افسانوی ادب کا وہ مختصر اور سرسری دور شامل نہ کیا جس میں افسانوی ادب کے چند ابتدائی نمونے بہرحال موجود تھے اور شمار یا جائزے میں لائے جاسکتے تھے۔ لیکن خیر، سرسید کے زمانے میں ادب کی جہاں دیگر اصناف نے اپنی ایک قدرے ترقی یافتہ شکل اختیار کی وہیں اس زمانے میں سامنے آنے والے بعض نہایت پختہ قلم اور وسیع المطالعہ مصنفین نے افسانوی ادب کی تخلیق میں اپنے اپنے انداز سے شرکت کی اور اپنی صلاحیتوں کا اپنے مخصوص انداز میں اظہار کیا اور اپنا نام کمایا۔ اس مقالے کا جائزہ دراصل اسی دور سے لیا گیا ہے اور ایک عمدہ ارتقائی رجحان اور تاریخ کو اس کے دورِ آخر تک سمیٹنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے، اور جو جو موضوعات، افسانہ نگار اور نمایاں تخلیقات سامنے آتی رہیں انھیں مطالعے اور نقد و تبصرے کا موضوع بنایا گیا ہے جو واقعتاً اس مقالے یا مطالعے کی جان ہے۔ اس ارتقائی مطالعے کے دوران جو جو مقامی، بیرونی یا مغربی تحریکات اور رجحانات ہمارے افسانوی ادب کو متاثر کرتے اور اپنے اثرات نمایاں کرتے رہے ان سب ہی کا بڑی حد تک احاطہ بھی کیا گیا ہے جو اس مطالعے کا ایک نمایاں وصف و امتیاز ہے۔ تقسیم کے بعد کے ادوار کا بھی خوب جائزہ اس مقالے کا ایک وصف ہے اور اسی ذیل میں جدید افسانہ نگار اور جدید تر افسانہ نگار بھی مطالعے کا موضوع بنے ہیں جن کا فن اور تخلیقات بھی جائزے اور مطالعے میں شامل ہیں۔ بہرحال اردو افسانہ نگاری کے ارتقا کو ہم سرسید کے دور سے اس مقالے کی تصنیف تک کے ادوار میں نہایت عمدگی اور سلیقے و معیار کے ساتھ مطالعے کا موضوع بنتے ہوئے دیکھتے ہیں، جسے دیکھنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دراصل اردو افسانے کی بڑی حد تک کُل تاریخ ہمارے مطالعے میں آجاتی ہے اور جسے دیکھ کر یہ بھی یقین کیا جاسکتا ہے کہ جب سے یہ مقالہ تصنیف ہوا ہے اُس نے افسانے کے طالبِ علموں اور مصنفین و محققین کا ان کی ضرورتوں میں پوری طرح ضرور ساتھ دیا ہوگا، اور اب اپنے موضوع کی کمی کا احساس و خیال کسی کے قریب بھی نہیں آئے گا جس پر فاضل مصنفہ یا مقالہ نگار حقیقتاً مبارک باد و استحسان کی مستحق ٹھیرتی ہیں۔
ان کی دوسری ضخیم تصنیف دراصل ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جو بہت عمدہ موضوعات اور جائزوں و مطالعات سے مزین ہے۔ ان کی قبل ازیں مذکورہ تصنیف تو ایک مبسوط مطالعے پر مشتمل تھی اور اپنے موضوع کا حق ادا کرتی ہے، لیکن زیر نظر مجموعہ مضامین اپنے موضوعات اور ان میں پیش کردہ نظریات اور خیالات کے لحاظ سے واقعتاً بے حد پُرکشش اور قابلِ مطالعہ ہے۔ نوعیت کے لحاظ سے یہ ادبی و تنقیدی مضامین پر بھی مشتمل ہے اور شخصی خاکوں اور شخصی مطالعات پر بھی مبنی ہے۔ مجموعے کا عنوان ”اردو ادب کے مختلف زاویے“ خود مجموعے کے موضوع کے تعین یا رائے قائم کرنے کے لیے بہت مناسب ہے۔ نمایاں موضوعات کے لحاظ سے یہ مجموعہ تحقیقی یا کلاسیکی مقالات کا احاطہ کرتا ہے جس میں اگر تلاش و تحقیق کا عنصر دیکھا جاسکتا ہے تو اسی گوشے میں ہلکے پھلکے تنقیدی و تعارفی مضامین بھی موجود ہیں۔ ان موضوعات میں دوردراز نوعیت کے مضامین کے ساتھ ساتھ نہایت عمومی اور سامنے کے مضامین بھی شامل ہیں۔ ان مضامین کا تعلق تحقیق و تنقید سے بھی ہے۔ ایک گوشہ شخص و عکس پر مشتمل ہے جس میں شخصیات کے ذکر و فکر اور ان کی خدمات اور حیثیت کو موضوع بنایا گیا ہے، جس کا بنیادی مقصد ان شخصیات کا واقعتاً تعارف اور ان کے امتیازات کا حوالہ دینا ہے۔ اسی طرح کا ایک گوشہ ”ادبی و فکری زاویے“ ہے جس میں قومی و سیاسی، تہذیبی و ثقافتی اور تعلیمی موضوعات پر مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ یہ سبھی مضامین کسی نہ کسی طرح عام قارئین کے لیے بھی تحریر کیے گئے ہیں اور یقیناً ان کے لیے مفید بھی ہیں۔ اسی طرح کے گوشوں میں ایک گوشہ ”بیگم ثاقبہ رحیم الدین“ پر ہے جس میں اس مثالی خاتون کی قومی، سیاسی اور علمی خدمات پر مضامین شامل کیے گئے ہیں، اور یہ مضامین ایسے ہیں کہ نہ صرف ان خاتون کا ان سے ایک بھرپور تعارف سامنے آتا ہے بلکہ اس خاتون کی قومی و سماجی خدمات پر روشنی بھی پڑتی ہے اور خاص طور پر خواتین کے لیے ایک ایسی مثال سامنے آتی ہے جو سبق آموز بھی ہے اور معاشرے کے لیے نمائندگی اور خدمت کی ایک مثال بھی، اور جو سبھی خواتین کے لیے ایک نمونہ بھی ہے۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی صاحبہ یقیناً ان خاتون سے بہت متاثر رہیں اور انھیں ایک مثال سمجھ کر ان کی پیروی اور اتباع کی کوشش بھی کرتی رہی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ گوشہ بالخصوص خواتین قارئین کے لیے خاصا پُرکشش اور سبق آموز کہا جاسکتا ہے جس کی شمولیت بے حد مفید بھی ہے۔ یقین ہے کہ اس طرح کے گوشوں اور ان میں شامل مضامین سے یہ تصنیف اپنی نوعیت کی ایک بے حد مفید اور منفرد تصنیف کی صورت اختیار کرچکی ہے جس پر ڈاکٹر صاحبہ کا سب کو شکر گزار رہنا چاہیے۔ اس مجموعۂ مقالات میں موضوعات کا تنوع اور ان کی اپنی اپنی جگہ افادیت بے حد مفید و متاثر کُن ہے۔ کئی مضامین اور مقالات بے حد قابل ستائش ہیں اور افادیت کے لحاظ سے نہایت وقیع کہے جاسکتے ہیں۔ چناں چہ اپنی نوعیت اور افادیت کے اعتبار سے اس مجموعۂ مضامین کو کبھی شاید نظرانداز نہ کیا جاسکے۔ اس اعتبار سے یہ مجموعہ فاضل مصنفہ کے سابقہ مقالے کے مطابق اپنی جگہ بے حد وقیع اور اپنی افادیت کی مناسبت سے قابلِ قدر بھی ہے۔ یہ دونوں تصانیف بلوچستان میں بلوچستان یونیورسٹی کی حدود اور اس کے علمی و مطالعاتی منصوبوں کے ذیل میں منظرعام پر آئی ہیں جن کے لیے فاضل مصنفہ مبارک باد و استحسان اور تشکر کی مستحق ہیں، اور اس حقیقت کا مظہر بھی ہیں کہ اگرچہ بلوچستان میں علم و ادب کا چرچا اس قدر عام نہیں ہے جس قدر کہ ہونا چاہیے تھا۔ یہ مضمون اس حقیقت کی جانب کم از کم اشارہ ضرور کرے گا کہ اس حوالے سے ہماری رائے کیا ہونی چاہیے۔ بہرحال مایوسی کی کوئی بات نہیں، علم و ادب کو وہاں بھی قابلِ ستائش صورت میں تخلیق پاتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔