جب غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تو جانی و مالی نقصان کی تصویروں نے عالمی سطح پر ایک آگ سی بھڑکادی۔ یہ سب کچھ انتہائی پریشان اور مایوس کن تھا۔ اسرائیلی قیادت بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ جب قتل و غارت اور عمارات و اہم تنصیبات کی تباہی کی تصویریں دنیا کے سامنے آئیں گی تو ملک کی شناخت مزید مجروح ہوگی۔ جب یہ سب کچھ ہوا تب اسرائیل کی حکومت اور اُس کے بین الاقوامی حامی ملک کا امیج درست کرنے کے مشن پر نکل پڑے۔ 18 جنوری 2009ء کو آپریشن کاسٹ لیڈ کے ختم ہونے کے فوراً بعد غیر معمولی شہرت کے حامل دفاعی امور کے تجزیہ کار انتھونی کارڈزمین نے ’’غزہ وار: اے اسٹرے ٹیجک اینالسز‘‘ کے زیرِ عنوان ایک رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر غزہ میں کی جانے والی فوجی کارروائی کی بھرپور جانچ پڑتال کی جانی چاہیے تھی کیونکہ اوّل تو انتھونی کارڈزمین ایک اعلیٰ سطح کا تجزیہ کار تھا اور دوم یہ کہ اس رپورٹ میں اُس نے پوری صورتِ حال اور اسرائیل کی طرف سے عارضی یا ہنگامی نوعیت کے فوجی اقدامات کا خاصے منظم اور مربوط انداز سے جائزہ لیا تھا۔ اس دوران اسرائیلی قیادت پر عالمی سطح کی تنقید بڑھتی ہی جارہی تھی۔
انتھونی کارڈزمین نے اسرائیل کو اس کے تمام غلط کاموں کی ذمہ داری سے آزاد قرار دیا، تاہم ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ اس معاملے میں حتمی فیصلہ دینے کا مجاز نہیں اور جنگ سے متعلق امور کا بھرپور علم اور مہارت نہ رکھنے کی صورت میں کسی کو ایسا کوئی فیصلہ سنانے کا اختیار نہیں۔ یہ بات بہت عجیب تھی۔ انتھونی کارڈزمین نے ایک طرف تو اسرائیل کو تمام جنگی قوانین کی رُو سے حملوں کا حق دار قرار دیا اور اُس کے تمام اقدامات کو کلین چٹ دی اور دوسری طرف اس نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ بھی اسرائیل نے کیا ہے اُس کے بارے میں حتمی رائے یا فیصلہ سنانے کا اُسے بدیہی طور پر کوئی حق نہیں۔ یہ بات اس نے استعمال کی جانے والی طاقت کے تناسب کے موازنے کی بنیاد پر کہی تھی۔ بہرکیف، انتھونی کارڈزمین نے اسرائیل کو کسی بھی طرح کے احساسِ جرم سے مکمل طور پر بری الذمہ قرار دیا۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ بسا اوقات کسی صورتِ حال پر جنگی قوانین کا اطلاق انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر اُس نے یہ کیونکر کہا کہ اسرائیل کو کسی معاملے میں بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ انتھونی کارڈزمین نے اضافی طور پر یہ بھی کہا کہ اسرائیل کے معاملے میں جنگی قوانین جانب دارانہ تھے کیونکہ وہ حماس جیسے غیر ریاستی ایکٹرز کو کسی بھی زنجیر میں نہیں باندھتے تھے۔ ویسے بدیہی طور پر ایسا نہیں لگتا کہ اسرائیل کو بھی جنگی قوانین نے کسی بھی طرح کے بندھن میں باندھا ہو۔ پھر تو ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ڈنکن کینیڈی درست کہتے ہیں کہ جنگی قوانین کسی غیر مساوی، غیر متوازن اور غیر روایتی جنگ میں روایتی فریق کو غیر روایتی فریق پر اچھی خاصی فوقیت دیتے ہیں۔
انتھونی کارڈزمین کی رپورٹ کی بنیاد اسرائیلی حکومت کی طرف سے دی جانے والی میڈیا بریفنگ تھیں۔ کارڈزمین کے لیے ان بریفنگ میں حصہ لینا اس لیے ممکن ہوسکا کہ وہ ثقافتی تبادلے کے ایک اسپانسرڈ پروگرام کے تحت اسرائیل گیا تھا اور اسرائیلی فوج کے ترجمان کی یومیہ بریفنگ سے مستفید ہوتا تھا۔ کیا انتھونی کارڈزمین کو یہ نہیں بتانا چاہیے تھا کہ ثقافتی تبادلے کا یہ پروگرام معذرت خواہانہ رویّے کی حامل امریکن جیوئش کمیٹی کے ماتحت تھا؟ جو کچھ بھی کارڈزمین نے لکھا اُس سے اسرائیل کے سرکاری بیان کی بُو آتی تھی۔
یہ تو ہوا ایک امریکی تجزیہ کار کا احوال۔ دوسری طرف یہ حقیقت انتہائی دلچسپ ہے کہ جو کچھ غزہ میں اسرائیلی فوج نے کیا اُس کے بارے میں اسرائیل کے اپنے تجزیہ کاروں اور لکھاریوں میں شدید نوعیت کی بے یقینی اور بیزاری سی پیدا ہوئی۔ اُن کے لیے اسرائیل کے تمام اقدامات کو بالکل درست قرار دینا ممکن نہ رہا۔ اسرائیل کے معروف اخبار ’’ہارتیز‘‘ میں اوزی بینزیمین نے لکھا ’’اسرائیل کی ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ نے اپنے لیے ایک ایسی شناخت قائم کی ہے جو خاصی تاریک ہے۔ اُس کا وقار دائو پر لگ چکا ہے۔‘‘ بی مائیکل نے اسرائیلی جریدے ’’یدیعوت احرونوت‘‘ میں لکھا ’’اسرائیلی مسلح افواج کی طرف سے جاری کیے جانے والے بیانات سے سچ بتدریج غائب ہوتا چلا گیا ہے اور پولیس، آرمی اور انٹیلی جنس سمیت اسٹیبلشمنٹ کے تمام کلیدی ادارے جھوٹ بولنے کو اپنے مزاج کا حصہ بناچکے ہیں۔‘‘
آپریشن کاسٹ لیڈ جیسے جیسے بڑھتا گیا، اسرائیلی فوج نے جہاں اور بہت سے معاملات میں مکمل جھوٹ بولاٗ وہیں سفید فاسفورس کے استعمال کے حوالے سے بھی جھوٹ ہی بولا۔ ایک طرف اسرائیلی فوج کے ترجمان نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا کہ وہ پورے یقین سے کہہ سکتا ہے کہ غزہ میں کارروائی کے دوران کہیں بھی سفید فاسفورس استعمال نہیں کیا گیا۔ دوسری طرف اسرائیلی مسلح افواج کے سربراہ گیبی اشکینازی نے اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسہ) کی امور دفاع اور امور خارجہ کی کمیٹی کو بتایا کہ اسرائیل کی مسلح افواج بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جنگی قوانین کے تحت کارروائیاں کرتی ہیں اور کسی بھی مرحلے میں سفید فاسفورس استعمال نہیں کیا گیا۔ بنیادی حقوق کی تنظیموں نے بھی بارہا نشاندہی کی کہ اسرائیلی فوج سفید فاسفورس استعمال کررہی ہے مگر عالمی برادری نے ذرا بھی توجہ نہ دی۔ امریکی محکمہ دفاع پیٹاگان کے سینئر اسٹرے ٹیجک تجزیہ کار اور ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے 2006ء کی لبنان جنگ اور پھر آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران اِتنا جھوٹ بولا کہ اب کوئی بھی اسرائیلی فوج کے بارے میں یہ تصور نہیں کرسکتا کہ وہ سچ بھی بول سکتی ہے۔
انتھونی کارڈزمین نے اپنی رپورٹ میں اسرائیلی فوج کی طرف سے یومیہ بنیاد پر دی جانے والی بریفنگ کے بہت سے حصوں کو لفظ بہ لفظ اپنی رپورٹ کا حصہ بنایا اور یہ کہا کہ اِن کا جائزہ لینے سے صورتِ حال کو سمجھنے میں غیر معمولی حد تک مدد مل سکتی ہے۔ اس رپورٹ میں جا بہ جا یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اسرائیلی فورسز صرف متحارب فریق کے خلاف نہیں بلکہ ان کے خلاف بھی لڑتی رہیں گی جو اس کی مدد کرتے ہیں اور خواتین و بچوں کو انسانی ڈھال کی حیثیت سے بروئے کار لانے کے لیے میدانِ جنگ میں بھیجتے ہیں۔ اور یہ کہ اسرائیلی فوج اسرائیلی شہریوں کے لیے خطرہ بننے والوں اور بالواسطہ طور پر ان کا ساتھ دینے والوں پر حملے کرنے میں بالکل نہیں ہچکچائے گی۔ اس رپورٹ میں واضح طور پر درج تھا کہ اسرائیلی فوج غزہ میں حماس کے دہشت گردی کے نیٹ ورک پر حملے جاری رکھے گی تاکہ وہ جنوبی اسرائیل پر حملے کرنے کے قابل نہ رہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کی انفینٹری کور، انجینئرنگ کور، انٹیلی جنس کور، آرمرڈ کور اور آرٹلری کور رات کے وقت غزہ میں کارروائیاں کرتی رہتی تھیں۔ انتھونی کارڈزمین کی رپورٹ کا بڑا حصہ اسرائیلی فوج کے دعووں اور پریس بریفنگ میں جاری کیے جانے والے اعداد و شمار پر مشتمل تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ حماس نے اسرائیلی فوج کے خلاف استعمال کرنے کے لیے گریڈ میزائل حاصل کرلیے تھے۔ اور یہ کہ ان میزائلوں کو لے جانے والی گاڑی کو اسرائیلی فوج نے نشانہ بھی بنایا تھا۔ مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والے اسرائیلی اطلاعاتی مرکز B’Tselem نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ بعد میں اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا کہ وہ گریڈ میزائل نہیں بلکہ آکسیجن ٹینک تھے۔ اس حملے میں 8 شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بعد میں کہا تھا کہ قطعیت کے ساتھ کیے جانے والے اس ڈرون حملے کے دوران ڈرون آپریٹر کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وہ آکسیجن ٹینک لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنارہا ہے جو شہریوں کے زیرِ استعمال ہے۔ یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ اسرائیلی ڈرون آپریٹر نے ایک ایسی گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں غیر متحارب شہری سوار تھے۔ انتھونی کارڈزمین کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ غیر اسرائیلی مواد کے مقابلے میں اسرائیلی مواد زیادہ قابلِ اعتبار تھا۔ غیر اسرائیلی مواد میں اقوام متحدہ کے فراہم کردہ اعداد و شمار بھی شامل تھے۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ مارے جانے والوں میں دو تہائی حماس کے کارکن یا سہولت کار تھے۔ دنیا بھر کے غیر جانب دار اداروں اور تجزیہ کاروں نے غزہ میں کارروائی کے دوران مارے جانے والوں میں حماس کے کارکنوں اور سہولت کاروں کے تناسب سے متعلق اسرائیلی فوج اور حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کو غلط، بلکہ جھوٹ پر مبنی قرار دیا۔ انتھونی کارڈزمین نے اپنی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ پر حملوں کے دوران اس بات کا پورا خیال رکھا کہ شہریوں یعنی غیر متحارب افراد کا کم سے کم جانی نقصان ہو اور بنیادی ڈھانچے کو بھی کم سے کم نقصان پہنچے۔ اس نے اپنی رپورٹ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جب بھی اسرائیلی فوج نے کارروائی کی تب ہدف متعین کرنے کے حوالے سے غیر معمولی احتیاط برتی تاکہ اسکول، اسپتال، کاروباری عمارتیں، مساجد، گرجا اور دیگر مذہبی عمارتیں محفوظ رہیں۔ ساتھ ہی ساتھ رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اسرائیلی فوج نے کسی بھی ہدف کے لیے کم سے کم ہتھیار اور گولا بارود استعمال کیا تاکہ غیر متحارب فلسطینیوں کے لیے کوئی بڑی الجھن پیدا نہ ہو۔ رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اسرائیلی فوج نے تمام زمینی اور فضائی کارروائیوں کے دوران اہداف کے تعین کے دوران کم سے کم جانی و مالی نقصان کا پورا خیال رکھا۔ یہ سب کچھ سرکاری بیانات کے مطابق اور بہت حد تک جانب دارانہ پروپیگنڈے کی حدود میں تھا۔
اسرائیلی قیادت کو آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد دنیا بھر کے میڈیا میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بنیادی حقوق کی علَم بردار تنظیموں نے اسرائیل کی طرف سے طاقت کے وحشیانہ استعمال پر شدید نکتہ چینی کی اور اس حوالے سے غیر معمولی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ بنیادی حقوق کی پاس دار تنظیموں کی طرف سے جاری کی جانے والی رپورٹیں اِتنی زیادہ اور نتائج کے اعتبار سے اِتنی جامع اور یکساں تھیں کہ اُنہیں محض اسرائیل مخالف پروپیگنڈا قرار دے کر نظرانداز یا مسترد نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنیادی حقوق کی تنظیموں نے جو رپورٹیں تیار کیں ان کے لیے فلسطینی عینی شاہدین کے بیانات سے مدد لی گئی، مگر پھر بھی اُن بیانات کو محض حماس نواز یا فلسطین نواز قرار دے کر مسترد نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جو کچھ بھی فلسطینی علاقوں میں ہوا تھا یعنی جو تباہی واقع ہوئی تھی، جو جانی و مالی نقصان دکھائی دیا تھا وہ تو بہرطور حقیقی تھا، اُس میں تو کوئی بناوٹ یا اداکاری نہ تھی۔ ایسا بھی کچھ نہیں تھا کہ حماس نے لوگوں کو اسرائیل مخالف بیانات اور گواہیاں دینے پر مجبور کیا ہو۔ آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد ہی نہیں بلکہ اُس کے دوران بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندوں نے فلسطینی علاقوں کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے تباہی کا خود مشاہدہ کیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ بہت سے لوگوں کو راکٹ حملوں پر حماس کی مذمت کرتے سُنا تھا۔
حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں کی ہر حکمت ِ عملی کو گرین سگنل دینے اور اُسے دل و جان سے قبول کرنے والے فلسطینی سرزمین پر کم ہی تھے۔ یہ بات ایک دنیا جانتی تھی کہ حماس کے حملوں کے جواب میں کی جانے والی اسرائیلی فوجی کارروائیوں کا بوجھ حتمی طور پر تو اُنہیں یعنی عام شہریوں ہی کو سہارنا پڑتا ہے۔ خود فلسطینیوں کو بھی اندازہ تھا کہ کبھی کبھی اُنہیں حماس یا کسی اور فلسطینی مزاحمتی گروپ کی سرگرمیوں کی وجہ سے غیر معمولی جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، معاشی سرگرمیاں تلپٹ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ اِس لیے زیادہ سوہانِ روح تھا کہ فلسطینی خواتین اور بچوں کو بھی بہت کچھ جھیلنا پڑ رہا تھا۔ اُن کی زندگی میں انتہائی نوعیت کی خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ یہ دونوں فریق شدید ذہنی کوفت سے دوچار تھے۔ بیوہ خواتین کے لیے مسائل بہت بڑھ جاتے تھے۔ یتیم بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کا معاملہ بھی رُل جاتا تھا۔
(جاری ہے)