اسرائیل اپنے حق دفاع کی آڑ میں فلسطینی قوم کو مٹانے کے درپے ہے
معرکہ طوفان الاقصیٰ کو 130 دن ہوچکے ہیں، جس میں اسرائیل نے انسانی نسل کُشی کی تاریخ رقم کردی ہے، جس کا مشاہدہ پورا عالم کررہا ہے۔ 75 سال سے اہلِ فلسطین ظلم و سفاکی کے سائے میں زندگی بسر کررہے ہیں، بالخصوص اہلِ غزہ اپنے دین پر ثابت قدمی اور فلسطین کی آزادی کا خواب لیے اپنی زندگیاں، مال ومتاع اور نسلوں کو قربان کرتے ہوئے اسرائیل سے مزاحمت کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی طاقتیں اور انصاف کے بین الاقوامی ادارے صہیونی ریاست کی جانب سے جاری جارحیت کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، اور اس کے جرائم پر پردہ ڈالنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کررہے ہیں۔ لیکن جب حماس اور دیگر مزاحمتی تحریکوں نے طوفان الاقصیٰ کا آغاز کیا تو ان سہولت کاروں نے حماس کے لیے دہشت گردی کا پروانہ جاری کردیا، اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ حماس کی دہشت گردی اور ان کے حملے کے نتیجے میں اسرائیل نے مقابلے کا آغاز کیا ہے۔
حماس کے مکتب کی جانب سے فلسطین کی آزادی کے لیے قائم ہونے والی حرکۃ المقاومہ الاسلامیہ کی حقیقت، اس کی فکر اور اس معرکے کے مقاصد کے حوالے سے اعلامیہ جاری کیا گیا، تاکہ عالمِ عرب و اسلام اور دنیا کے باضمیر لوگ اس تحریک کی حقیقت اور اس معرکے کے مقاصد سے واقف ہوسکیں۔ اردو قارئین کرام کے لیے اس اعلامیے کو اردو قالب میں ڈھالا گیا ہے۔
حماس کی حقیقت
1۔حماس کی تحریک اسلامی فکر اور اعتدال پر مبنی ہے، اور یہ فلسطین کی آزادی کی تحریک ہے جو حق، انصاف اور آزادی پر یقین رکھتی ہے، جبکہ ظلم اور تشدد کے خلاف ہے۔ اسی طرح یہ تحریک مذہبی آزادی،کثیر الثقافتی معاشرے پر یقین رکھتی ہے، اور ہر اُس امر کے خلاف ہے جو مذہبی آزادی اور کسی بھی انسان پر ظلم وجبر کرکے اسے اس کے بنیادی قومی، دینی اور گروہی حق سے محروم کرے۔
2۔ حماس صہیونی منصوبے کے خلاف اس لیے ہے کہ وہ ہمارے عوام، زمین اور مقدس مقامات پر قابض ہے، نہ کہ اس بنیاد پر ہم ان کے مخالف ہیں کہ یہودیت ان کا مذہب ہے۔ اس کے برخلاف اسرائیل اپنے دینی دعوے کی بنیاد پر یہودی پس منظر رکھتے ہوئے فلسطینی عوام پر ظلم ڈھاتے ہوئے ان کو ان کے حقوق سے محروم کیے ہوئے ہے، نیز مذہبی بنیاد پر ان کی زمین اور مقدس مقامات کو یہودی بنانے کے درپے ہے۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس کی اساس اپنے دین پر ہے، ان کو پورے عالم میں شہریت دی جاسکتی ہے، جبکہ وہ خود اہلِ فلسطین کو ان کی سرزمین سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔
3۔ اہلِ فلسطین ہمیشہ سے ہی شہریوں کے خلاف ظلم وجبر، قتل عام و ناانصافی کے خلاف رہے ہیں، چاہے اس کا ارتکاب کرنے والے کوئی بھی ہوں، اور مظلوم کوئی بھی ہو۔ اپنے دینی عقائد، انسانی اقدار اور اخلاق کی بنیاد پر ہم نے یہودیوں پر ظالم جرمنی کی جانب سے کیے جانے والے جرائم اور مظالم کے خلاف آواز بلند کرکے پُرزور مذمت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودیت کے جوہر میں اہلِ یورپ کی صفات شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں ہمارے عربی اور اسلامی ماحول میں ہمیشہ سے ہی یہودیوں اور ہر اُس شخص کو جو کسی بھی دین یا قوم کا حامل ہو، پُرامن ماحول فراہم کیا گیا ہے، جو مذہبی آزادی، کثیرالثقافتی معاشرے کی ایک مثال تھا۔
4۔ تحریک حماس بین الاقوامی قانون، چارٹر اور معاہدوں کے مطابق فلسطین کی آزادی کی تحریک ہے۔ اس کے اہداف وغرض وغایت اور اس کے وسائل قابض اسرائیل سے مزاحمت کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو ان کا حق لوٹانے، آزاد اور خودمختار بنانے کے لیے ممد و معاون ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کے قبضے کا خاتمہ اور ان کو اپنے وطن لوٹانا حماس کا مقصد ہے۔ ان اغراض ومقاصد سے واضح ہے کہ یہ فلسطین کی آزادی کی تحریک ہے، اس بنیاد پر اس نے اپنی تمام سرگرمیوں کا محور ومرکز مقبوضہ فلسطین کی سرزمین کو بنایا ہوا ہے۔ اس کے برخلاف صہیونیوں نے مقبوضہ فلسطین کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اہلِ فلسطین پر ظلم وستم کرتے ہوئے ان کے بھیانک طریقے سے قتل کے جرم کا ارتکاب کیا۔
5۔ ہم اس حقیقت کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں دینی اور بین الاقوامی قانون کی رو سے یہ حق حاصل ہے کہ مسلح ہوکر تمام وسائل کے ساتھ قابض اسرائیل کا مقابلہ کریں۔ سب سے اہم قرارداد(3236) اقوام متحدہ نے 22نومبر 1974ء کو منظور کی جس میں فلسطینیوں کو واپس اپنے وطن ہجرت کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح اب تک جتنے بھی ممالک نے استعمار سے آزادی حاصل کی ہے اس کی بنیاد بھی انہی قوانین پر مبنی تھی، آج وہ آزادانہ زندگی بسر کررہے ہیں۔
6۔ اس وقت اہلِ فلسطین صبر وبہادری کے ساتھ اپنی سرزمین اور جائز حقوق کے لیے قابض کے خلاف میدان میں برسرپیکار ہیں، جس کا ظلم وستم طویل عرصے سے جاری ہے اور جس نے وحشت برپا کرنے میں تمام حدود پامال کردی ہیں۔ اس نے انسانوں کو ہدف بنانے کے ساتھ زندگی کی تمام سہولیات کو برباد کردیا ہے۔ اس کی سفاکی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے معصوم بچوں، پُرامن بزرگوں اور خواتین کے خون کی ندیاں بہادی ہیں۔ اس کی جارحیت سے مساجد و مدراس، جامعات، چرچ، اسپتال، یہاں تک کہ ایمبولینس بھی نہ بچ سکیں۔ یہ سب کچھ پورے عالم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، لیکن اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے طاقت ور ممالک نے بین الاقوامی قانون میں ان جرائم کی سزا کے باوجود سکوت اختیار کیا، اور اس جرم واجتماعی نسل کُشی کو رکوانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
7۔ اسرائیل اپنے حقِ دفاع کی آڑ میں فلسطینی قوم کو مٹانے کے درپے ہے۔ درحقیقت یہ گمراہ کرنے، جھوٹ بولنے اور حقائق کو مسخ کرنے کا عمل ہے۔ قابض قوت کو اپنے قبضے اور اپنے جرائم کے دفاع کا حق حاصل نہیں ہے، بلکہ فلسطینی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قابض کو غاصبانہ قبضہ ختم کرنے اور فلسطینی عوام کی جائز امنگوں کے حصول کے لیے مجبور کرنے کے لیے مزاحمت کریں۔ ہمیں یاد ہے کہ بین الاقوامی قانون، بشمول دیوار کے بارے میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی مشاورتی رائے (2004ء) ’’اسرائیل‘‘ کے حق کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی، جیسا کہ یہ ہے۔ وحشیانہ قابض قوت جسے ’’خود کا دفاع‘‘ کہا جاتا ہے۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت جو اپنے قانونی اور اخلاقی جواز اور جوہر کے بغیر بین الاقوامی قانون کے مطابق قبضے میں ہے۔
٭معرکہ کے مقاصد
قبضہ کرنے والا قابض ہی کہلاتا ہے، چاہے وہ اپنے قبضے کو مختلف ناموں اور اوصاف سے متصف کرکے کوئی بھی صورت دے۔ قوموں کی آزادی سے یہ تجربات سامنے آتے ہیں کہ قابض اور استعمار سے آزادی کے لیے مزاحمت کرنا ہی واحد راستہ ہے، جس کے ذریعے سے استعمار ی قوت ٹوٹ جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دفاعی کوششوں،مزاحمت اور قربانیوں کے بغیر کوئی بھی قوم آزادی حاصل نہیں کرسکتی۔
تمام ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی تحریک کے ممد ومعاون بنیں،نہ کہ اس کو ختم کرنے اور کچلنے کی سازش کریں۔ اسی طرح ان کا یہ بھی فرض ہے کہ قابض اسرائیل کے جرائم کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ اہلِ فلسطین آزادی اور خودمختاری کے ساتھ اپنے وطن میں زندگی بسرکرسکیں،جس طرح دیگر اقوام امن سے زندگی بسر کررہی ہیں۔
اس بنیاد پر ہم درج ذیل امور کا مطالبہ کرتے ہیں:
1۔اسرائیل غزہ سے اپنی دشمنی جلد ختم کرتے ہوئے اجتماعی نسل کشی کرنے سے باز آجائے جس میں ہمارے بچوں، بزرگوں، عورتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔غزہ کی گزرگاہوں کوکھولا جائے، امدادی سامان لوگوں تک پہنچانے کی سہولت فراہم کی جائے۔
2۔قابض اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں ظلم ڈھایا ہے، اس کے جرائم کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ اس سے شہریوں کے قتل کے جرم میں مالی جرمانہ وصول کیا جائے، اسی طرح اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں مزاحمتی تحریک حماس کی تمام دستیاب ذرائع سے حمایت کی جائے، اس لیے کہ وہ آسمانی ادیان اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے۔
3۔ہم پورے عالم کے باضمیر لوگوں بالخصوص عالمی جنوبی ممالک کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ مقبوضہ فلسطین کے دکھ اور تکلیف کو محسوس کریں،اور اسرائیل کی جانب سے ڈھائے جانے والے ظلم کی مذمت کریں، اور اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ ایسا کردار اداکریں جو قابض اسرائیل کے دہرے معیارات کے خلاف ہو۔ عالمی سطح پر ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا جائے جو اہلِ فلسطین کے لیے انصاف، آزادی اور عزت کے ساتھ جینے کا ذریعہ بن سکے۔
4۔طاقت ور ممالک صہیونی ریاست کے جرائم پر پردہ ڈالنے سے گریز کریں،جن کی معاونت کے سبب وہ 75 سال سے ظلم وستم ڈھارہا ہے۔اسی طرح ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کیے جانے فیصلوں کو نافذ کرنے کیa سنجیدہ کوشش کریں، تاکہ اہلِ فلسطین اپنا کامل حق حاصل کرسکیں۔
5۔ بین الاقوامی ممالک اور اسرائیل غزہ کے مستقبل کے بارے میں فکرمند نہ ہوں۔ اس لیے کہ اہلِ غزہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے حوالے سے خودکفیل ہیں۔ لہٰذا اس نوعیت کے منصوبوں کا انکار کیا جائے۔اسی طرح اس امر کی سنجید ہ کوشش کی جائے کہ اسرائیل اہلِ غزہ کو ہجرت پر مجبور نہ کرے۔
6۔اہلِ فلسطین کو سینا،اردن اور دیگر ممالک کی جانب بالجبر ہجرت کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1948ء میں جو فلسطینی بے گھر کردی گئے تھے ان کو واپس فلسطین میں لانے کے لیے اقوام متحدہ 150 سے زائد مرتبہ قرارداد صادر کرچکا ہے۔ لہٰذا اس کے لیے کوشش کی جائے۔
7۔اہلِ عرب، تمام مسلم ممالک اور دنیا کے باضمیر عوام اسرائیل کے قبضے کے خاتمے کے لیے مظاہروں کے ذریعے دباؤ جاری رکھیں، اسرائیلی ریاست قبول کرنے کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں رہیں،اسی طرح ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک جاری رکھیں۔