8 فروری 2024ء کے عام انتخابات قطعی منصفانہ اور شفاف نہیں تھے۔ ان انتخابات میں دھاندلی اور رد و بدل کی نئی مکروہ تاریخ رقم ہوئی ہے۔ بلوچستان کے اندر منظرنامہ بہت شرمناک رہا ہے۔ ایسی وارداتیں منظرعام پر آئی ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔ یہاں پروجیکٹ نواز لیگ اور پروجیکٹ پیپلز پارٹی پر زیادہ کام ہوا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی وجود کو کسی قدر باقی رکھا گیا۔ اس جماعت کے پانچ ارکان طارق مگسی، صادق سنجرانی، ضیا لانگو، سردار صالح بھوتانی، پرنس آغا عمر احمد زئی کامیاب ہوئے ہیں۔ صادق سنجرانی پی بی 32چاغی سے جے یو آئی کے امیدوار امان اللہ نوتیزئی کے مقابلے میں جتوائے گئے ہیں۔ امان اللہ نوتیزئی اس حلقے سے متعدد بار کامیاب ہوچکے ہیں۔ وہ قاف لیگ اور نواز لیگ سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کے والد سخی دوست جان نوتیزئی بلوچستان اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام بھی بعض حلقوں پر نوازی گئی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے زمرک اچکزئی جو پی بی 50 پر کامیاب ہوئے ہیں اسٹیبلشمنٹ کا اہم مہرہ ہیں۔ ان کے حلقہ انتخاب میں حیرت انگیز طور پر خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح 81 فیصد بتائی گئی ہے، حالاں کہ پولنگ اسٹیشنز پر شاذو نادر ہی خواتین نظر آئیں۔ چمن سے پی بی51 پر اے این پی کے اصغر خان اچکزئی ہار چکے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے اباسین اچکزئی تھے۔ دراصل مقابلہ بھی ان دو کے درمیان تھا۔ مگر کامیاب چوتھے یا پانچویں نمبر کے امیدوار کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق اچکزئی ہوگئے۔ اصغر خان اچکزئی تب سے نتیجے کے خلاف دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ اے این پی کے امیدوار زمرک اچکزئی اور نعیم بازئی کو اس دھرنے سے کوئی سروکار نہیں، وہ ایک طرف بیٹھ کر نظارہ کررہے ہیں۔ ان دو کی زبان سے کسی نے انتخابات میں دھاندلی کا لفظ تک نہیں سنا ہے۔ ایسا کریں گے تو ان کے سرپرست خفا ہوجائیں گے۔
انہونیاں پورے بلوچستان میں ہوئی ہیں۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی پر جھاڑو پھر گیا ہے۔ پشتون خوا میپ کے محض محمود خان اچکزئی این اے266 چمن قلعہ عبداللہ پر کامیاب ہوئے ہیں۔ بی این پی کے سردار اختر مینگل این اے 256خضدار پر کامیاب ہوئے، ساتھ ہی پی بی20خضدار پر بھی کامیاب ہوچکے ہیں۔ سردار اختر مینگل کی پوزیشن این اے261سوراب کم قلات کم مستونگ اور این اے264کوئٹہ تھری پر بھی اچھی تھی۔ این اے261 اور اس کے نیچے پی بی36قلات کا نتیجہ حیرت انگیز ہے۔ این اے 261 کے 255 میں سے248پولنگ اسٹیشنز کے نتائج جاری کیے گئے جس میں سردار اختر مینگل 27ہزار331ووٹ لے کر آگے تھے۔ جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری 25ہزار688ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر تھے۔ قلات کے علاقے جوہان، تخت اورگزگ مقامات کے سات پولنگ اسٹیشنز پر پہلے کہا گیا کہ پولنگ نہیں ہوسکی ہے۔ بعد میں جب نتیجہ آیا تو 74فیصد ٹرن آؤٹ دکھایا گیا، حالاں کہ یہ قلات کے انتہائی حساس علاقے ہیں۔ باقی 248پولنگ اسٹیشنز پر ٹرن آئوٹ38فیصد تھا۔ ان سات پولنگ اسٹیشنز پر کل 8838ووٹوں میں6581ووٹ کاسٹ ہوئے ،جن میں91فیصد یعنی5961ووٹ غفور حیدری کو پڑے اور وہ جیت گئے۔اختر مینگل کو صرف64ملے ۔ حیرت ہے کہ انھی سات پولنگ اسٹیشنز پر 96فیصد ووٹ صوبائی حلقے پر جے یو آئی کی مخالف جماعت یعنی بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار ضیا ءلانگو کو پڑگئے اور وہ پی بی36کی ہاری ہوئی نشست جے یو آئی کے سردار زادہ سعید لانگو سے جیت گئے۔ پچھلے انتخابات میں انھی پولنگ اسٹیشنز پر ٹرن آئوٹ37فیصد رہا اور اس میں سے47فیصد ضیاء لانگو اور31فیصد جے یو آئی کے سعید لانگو کو پڑے۔ اس بار سعید کو دو فیصد سے بھی کم ووٹ پڑے۔ نیشنل پارٹی کے حصے میں ایک قومی اور تین صوبائی نشستیں آئی ہیں۔ توقع 6نشستوں پر جیتنے کی، کی جارہی تھی۔ جمعیت علماء اسلام سابقہ پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ جے یو آئی کو قومی کی چار اور بلوچستان اسمبلی کی دس نشستیں ملی ہیں۔ بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ہیں جن کی اس وقت تک تیرہ تیرہ نشستیں ہیں۔ پی بی9کوہلو پر سات پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ انتخابات کے بعد نواز لیگ کے نواب جنگیز مری جیت گئے۔ جیت کیا گئے جتوائے گئے، وگرنہ پیپلز پارٹی کے نصیب اللہ مری جیت گئے تھے۔ نصیب اللہ مری پچھلی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ نون لیگ قومی اسمبلی کی تین نشستیں جیت چکی ہے۔ این اے253ڈیرہ بگٹی کم کوہلو کم سبی کم ہرنائی کم زیارت سے آزاد امیدوار میاں خان بگٹی جیسا گمنام شخص کامیاب ہوا۔ کامیاب ہونے کے فوری بعد انھوں نے نواز لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ میاں خان بگٹی، سرفراز بگٹی کی اسکیم کے تحت کامیاب ہوئے۔ ان کے مقابلے میں شاہ زین بگٹی اور نواز لیگ کے امیدوار دوستین ڈومکی تھے۔ دوستین ڈومکی نگران وزیراعلیٰ علی مردان ڈومکی کے بھائی ہیں۔ سرفراز بگٹی خود پیپلز پارٹی میں ہیں اور میاں خان بگٹی کی بھرتی نواز لیگ میں کرائی۔ این اے 252سے نواز لیگ کے سردار یعقوب ناصر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سردار بابر موسیٰ خیل سے ہارگئے تھے مگر فارم47میں جیت گئے۔ این اے255پر خان محمد جمالی کی کامیابی کے خلاف پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر چنگیز جمالی نے کئی دنوں تک احتجاجی دھرنا دیے رکھا۔ این اے263کوئٹہ پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار سالار کاکڑ مستحکم پوزیشن پر تھے۔ دوسرے نمبر پر محمود خان اچکزئی تھے۔ مگر کامیاب نواز لیگ کے جمال کاکڑ ہوگئے۔ بلوچستان کے اندر تحریک انصاف کو آگے آنے نہیں دیا گیا۔ محض قومی اسمبلی کی ایک نشست این اے262کوئٹہ پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار عادل خان بازئی جیتے ہیں۔ یہ شخص بھی قابلِ بھروسہ نہیں ہے۔ کسی بھی وقت تحریک انصاف سے منہ موڑ سکتا ہے۔ این اے264کوئٹہ پر پیپلز پارٹی کے جمال رئیسانی جنھوں نے فارم45میں چند سو ووٹ لیے تھے، بعد ازاں ہزاروں ووٹوں کے حامل ٹھیرے اور کامیاب قرار دیے گئے، جبکہ سردار اختر مینگل پیچھے رہ گئے۔ پی بی 42 کوئٹہ پر ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ نے فارم45کے تحت9062ووٹ لیے تھے لیکن فارم 45 کے تحت 3466ووٹ لینے والے نواز لیگ کے زرک مندوخیل کو 10423ووٹ دلواکر کامیاب کرایا گیا۔ پی بی40پر ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر نائل نے فارم45میں 6295 ووٹ لیے ہیں، ان پر سبقت پیپلز پارٹی کے صمد گورگیج کو دی گئی جنھوں نے فارم45کے تحت محض555ووٹ لیے تھے۔ پی بی44سریاب پر نیشنل پارٹی کے عطا محمد بنگلزئی کو ہراکر پیپلزپارٹی کے عبید گورگیج کو جتوایا گیا۔ عبید گورگیج نے فارم45کے تحت829وووٹ لیے تھے جبکہ عطا بنگلزئی نے 6488ووٹ حاصل کیے تھے۔ عبید گورگیج ملک شاہ گورگیج کا بیٹا ہے جبکہ صمد گورگیج پیپلز پارٹی کے رہنما سابق وفاقی وزیر سردار عمر گورگیج کا بیٹا ہے۔ ملک شاہ گورگیج این اے259کیچ کم گوادر سے جتوائے گئے ہیں۔ چاغی کے رہنے والے ہیں۔ مزید تعارف یہ ہے کہ افغانستان کے صوبے نمروز سے تعلق ہے۔ خاندان کے افراد وہیں عہدوں پر رہے ہیں۔ مزید تعارف یہ ہے کہ منشیات کے عالمی اسمگلر ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے17فروری کو کوئٹہ میں چار جماعتی اتحاد کے جلسے میں کہا کہ منشیات کے اسمگلروں کو کامیاب کرایا گیا ہے۔ پی بی 45کوئٹہ پر پیپلز پارٹی کے علی مدد جتک جنھوں نے فارم45میں571 ووٹ لیے تھے، انھیں جمعیت علماء اسلام کے محمد عثمان پرکانی جنھوں نے 4790 لیے، پر سبقت دلوائی گئی۔ پی بی46کوئٹہ سریاب پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے ملک نصیر شاہوانی ہروائے گئے۔ کامیاب بی اے پی کے آغا عمر احمد زئی کرائے گئے۔ پی بی38کوئٹہ نواں کلی پر آزاد امیدوار بخت محمد کاکڑ کامیاب ہوئے۔ یہاں یہ ساری مکروہات بھاری رقومات کے عوض دہرائی گئی ہیں۔ بقول محمود خان اچکزئی کے، 70ارب روپے استعمال ہوئے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ دولت کے بل بوتے پر کامیاب ہونے والے ملک کی دولت پر ہی ہاتھ صاف کریں گے۔ حیرت انگیز نتیجہ پی بی10ڈیرہ بگٹی کا تھا جہاں بعض پولنگ اسٹیشنز پر سو فیصد کے آس پاس ووٹ کا استعمال ہوا ہے۔ سرفراز بگٹی 52ہزار ووٹوں سے جیت گئے۔ مقابلے میں نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے گہرام بگٹی تھے جو اس سے پہلے اس حلقے پر جیت چکے تھے، وہ 16 ہزار سے زائد ووٹ لے کر ناکام ہوئے۔ سرفراز بگٹی آنکھ کا تارا ہیں۔ گہرام نے نصیرآباد میں دھرنا دے رکھا ہے اور41ہزار ووٹوں کی بائیو میٹرک تصدیق کرانے کا مطالبہ کیا ہے، بلکہ مجاز فورم سے رجوع کر رکھا ہے۔ مگر حاصل کچھ نہ ہوگا۔ ہوتا تو قاسم سوری جو واضح طور پر دھاندلی سے گزشتہ الیکشن میں جتوائے گئے تھے، کے خلاف نواب زادہ لشکری رئیسانی کے دعوے کا فیصلہ آجاتا، جو اب تک سپریم کورٹ کی فائلوں میں دبا پڑا ہے۔ چناں چہ اب قاضی فائز عیسیٰ سے کیا توقع ہے؟
پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی پر مشتمل چار جماعتی اتحاد احتجاج پر ہے۔ کمشنر آفس کے سامنے9فروری سے دھرنا دے رکھا ہے۔ بلوچستان میں اتحاد کی اپیل پر شٹر ڈائون ہڑتال ہوئی۔ 18فروری کو صوبے کی قومی شاہراہیں ان کی جانب سے بند کرائی گئیں۔ 17فروری کے جلسے میں سردار اختر مینگل نے برملا کہا کہ کور کمانڈر کوئٹہ اور سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی اس پورے کھیل میں شریک تھے۔ محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل نے اداروں کے آفیسرز کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کیا۔ دیکھا جائے تو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ان حالات کی ذمہ دار ہے۔ پی ڈی ایم خوب جانتی ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف بساط بچھائی ہی اسٹیبلشمنٹ نے تھی، جسے پیپلز پارٹی نے بھی پورا کندھا دیا، حالاں کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت ختم ہوچکی تھی۔ فوج، پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کے اشتراک نے اس کے تنِ مُردہ میں پھر سے جان ڈال دی ہے، اور آج پی ٹی آئی مقبولیت کی انتہاپر ہے۔ پی ٹی آئی کے خلاف فوج، عدلیہ اور پی ڈی ایم کی قدغنیں اور رکاوٹیں نہ ہوتیں تو انتخابات میں اس کی کامیابی اس سے بھی بڑی ہوتی۔ محمود خان اچکزئی نوازشریف سے بدظن ہوچکے ہیں۔ اچھا ہوتا کہ پی ڈی ایم کے فوج کی گود میں جاتے وقت ہی برات کا اظہار کرتے۔ تب نہ سردار اختر مینگل اور نہ ہی ڈاکٹر عبدالمالک کو آئین اور جمہوریت کی بالادستی کا خیال آیا۔ کل اگر تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہوکر اقتدار میں آئی تھی تو پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کے نتیجے میں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت بھی فوج نے ہی بنوائی۔ نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ عام انتخابات 2024ء میں بھی وردی والوں کا بغل بچہ بنیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے انکشافات ہرگز اصولی نہیں ہیں بلکہ انتقامی وار ہے، کیوں کہ نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طرح ان کی جماعت پر نظرکرم نہ ہوئی۔ خیبر پختون خوا میں جے یو آئی کو سیٹیں نہ جتوائی گئیں۔ مولانا ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے انجام سے باخبر تھے اسی لیے تو بلوچستان کے ضلع پشین کی نشست این اے 265 سے انتخاب لڑا اور کامیاب ہوگئے۔
بلوچستان کے اندر اِن انتخابات میں پیپلز پارٹی کا کردار انتہائی شرمناک رہا ہے۔ اس کے لوگوں کو مقتدرہ نے جتوایا ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ فوج اور اداروںکی بہت بدنامی ہوئی ہے۔صوبے کے اندر ہر خاص و عام یہ کہتا ہے کہ فوج کے اداروں کے بعض کرداروں نے امیدواروں سے بھاری رقوم لی ہیں۔ عدلیہ کے بجائے انتظامیہ کے لوگوں کو بطور ریٹرننگ افسران تعینات کرکے دھاندلی اور بد عنوانی کا دروازہ کھولا گیا۔ عوام اس سب کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کی دھونس اور دباؤ گردانتے ہیں۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کا ادارہ تو ویسے ہی کھوکھلا ہوچکاہے۔ یہ ادارہ تو آج تک ایک ایم پی اے کے اثر رسوخ سے آزاد نہیں ہوسکا ہے، کجا کہ فوج اور جاسوسی کے ادارے جن کے ہاتھ میں صوبے کی پوری مشینری کی کلید ہے۔ بلاشبہ کامیاب ہونے والی نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور باپ پارٹی ان کی تابع ہی رہیں گی۔ صوبے میں بننے والی حکومت یقینی طور پر
بدانتظامی اور بدعنوانی کی عظیم مثالیں قائم کرے گی۔ آصف علی زرداری کے مالی مفادات بھی پورے ہوں گے۔
جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنی نشست چھوڑنے کا اعلان کرکے بہت رہنما نظیر قائم کی ہے جسے بلوچستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں سراہا جارہا ہے۔ پی بی16جعفرآباد سے جماعت اسلامی کے ایک عام کارکن عبدالمجید بادینی نے جمالی خاندان کے مضبوط امیدواروں سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی کے بیٹے عمر جمالی، سابق صوبائی وزیر راحت فائق جمالی کو شکست دی۔ راحت فائق، فائق جمالی کی اہلیہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جان جمالی کی ہمشیرہ ہیں۔ ”حق دو گوادر کو“ تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن نے پی بی24گوادر کی نشست جیتی۔ حق دو تحریک کا دعویٰ ہے کہ این اے259کیچ کم گوادر پر حق دو کے حسین واڈیلہ کامیاب ہوئے ہیں مگر اُن کی جگہ ملک شاہ کو فارم47میں رد و بدل کرکے کامیاب کرایا گیا۔
قومی اسمبلی اور اس کے نیچے صوبائی حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں میں پانچ سے دس ہزار ووٹوں کا فرق ہے۔ حالاں کہ پولنگ ڈے پر ہر شخص کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے الگ الگ بیلٹ پیپر ایک ساتھ ہی دیے جاتے ہیں۔