پاکستانی انتخابات اور حماقتیں!

مغربی میڈیا ہماری حماقتوں کا سرعام تمسخر اڑا رہا ہے

پاکستان میں 8 فروری کو 12 ویں عام انتخابات کا انعقاد تو ہوگیا لیکن تاحال کوئی پارٹی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ تنہا حکومت سازی کرسکے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے 64 سے زائد ممالک میں اِس سال عام انتخابات منعقد ہوئے یا ہورہے ہیں، جن میں پاکستان کے دو قریبی پڑوسی ممالک بھارت اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔ تادم تحریر بنگلہ دیش میں انتخابات کا انعقاد اس طرح ہوا کہ ساری اپوزیشن ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہوگئی۔ اپوزیشن جماعتوں کے خلاف وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی انتقامی کارروائیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ سزاؤں اور پھانسیوں کے بعد اب اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کر چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں اور خاص طور پر سزائے موت کو غیر انسانی عمل قرار دینے والے مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھی وہ شور سنائی نہیں دیا جوکہ عام حالات میں سزائے موت پانے والوں کے لیے بین الاقوامی میڈیا پر کیا جاتا ہے۔ یہی صورتِ حال پاکستان کے عام انتخابات کے حوالے سے بھی محسوس ہوئی کہ جہاں غیر ملکی میڈیا نے غیر معمولی توجہ دی۔ اگر معاملہ اس الیکشن کی کوریج اور اس کو بین الاقوامی ایڈیشن کا حصہ بنانے کا ہوتا تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہ ہوتی، کیونکہ بین الاقوامی میڈیا الیکشن کی کوریج کرکے اس کو اپنی خاص زبان یا علاقائی سے لے کر بین الاقوامی خبروں تک کا حصہ بناتے ہیں۔ تاہم پاکستان کے موجودہ عام انتخابات کو بین الاقوامی میڈیا نے نہ صرف بین الاقوامی خبروں و ایڈیشن میں جگہ دی بلکہ اپنی مقامی خبروں کا بھی حصہ بنایا۔ بی بی سی ریڈیو 4 جوکہ صرف برطانیہ میں ہی نشر ہوتا ہے اس کے 8-9 فروری 2024ء کے تقریباً ہر بلیٹن کی ہیڈ لائن میں پاکستانی انتخابات کی خبر موجود تھی، حالانکہ اس سے قبل ہونے والے بنگلہ دیش کے انتخابات کے حوالے سے شاید کوئی آدھی سطر کی خبر ہی نشر ہوئی ہو۔ یہی صورتِ حال ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا کی رہی جہاں پاکستان کے انتخابات کو غیر معمولی اہمیت دی گئی، اور انتخابات کے بعد اور اس سے قبل ہونے والی ڈیولپمنٹ بھی مغربی میڈیا کا حصہ رہی۔ برطانوی موقر جریدے “دی گارجین” کے میگزین کا سرورق بھی پاکستان کے عام انتخابات اور اس میں فوجی مداخلت کے حوالے سے ہی رہا۔ اسی طرح تقریباً ہر برطانوی اخبار نے پاکستانی انتخابات کو عوام اور فوج کے درمیان معرکے سے تعبیر کیا، گوکہ اس میں حقیقت موجود ہے کہ پاکستان کے عام انتخابات میں فوجی مداخلت سب کے سامنے واضح انداز میں آتی رہی ہے، اور نہ صرف انتخابات بلکہ اس سے قبل ہونے والے سیاسی جوڑتوڑ، مہم جوئی، اور حلقہ جات کی حد بندیوں تک پر فوجی مداخلت کے الزامات رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہر انتخاب میں فوجی مداخلت کے شواہد موجود ہیں اور اس پر ایک طویل بحث ہوتی رہی ہے تو اس کو کیوں مغربی میڈیا اس طرح جگہ نہیں دے پایا ہے؟ چلیں اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انتخابی دھاندلی کے حوالے سے مغربی میڈیا اب زیادہ حساس ہوگیا ہے تو پھر بنگلہ دیش میں ہونے والے انتہائی آمرانہ طرز کے انتخابات کہ جن میں پوری اپوزیشن کو کچل دیا گیا ہے، اس پر کیوں مغربی میڈیا وہی سوال اور بیانیہ مرتب نہیں کررہا جو پاکستان کے انتخابات کے حوالے سے کیا جارہا ہے؟

اس کے علاوہ بھارت میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف عمل درآمد کرتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور نریندر مودی حکومت کے مسلمان و اقلیتوں کے خلاف اقدامات پر بھی وہ میڈیائی شور سنائی نہیں دیا جو پاکستان کے عام انتخابات کے حوالے سے آج تک مغربی میڈیا میں موجود ہے۔ اس کا مقصد پاکستان کے انتخابات کو منصفانہ قرار دینا قطعی نہیں ہے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے ہر انتخابات کی طرح ان انتخابات میں بھی دھاندلی کی۔ ماضیِ قریب 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) پر کریک ڈاؤن جاری تھا اور جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے تقریباً تمام اُمیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کے بعد مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ واپس کردیے۔ کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کے آخری دن رات 12 بجے مسلم لیگ(ن) کے رہنما حنیف عباسی کو سزا سنا دی گئی، جماعت اسلامی کی قیادت کو بار بار دھمکیاں دی گئیں کہ متحدہ مجلس عمل نہ بنائیں ورنہ کچھ نہیں دیا جائے گا۔ اور اسی طرح سے دوسری پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی مکمل حمایت کرنا اگر 2018ء میں اسٹیبلشمنٹ کا کارنامہ تھا تو آج اسٹیبلشمنٹ کا یہی کارنامہ مسلم لیگ (ن) کے حق میں ہے جس میں تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کرنا، عمران خان کو پے در پے مقدمات میں سزائیں سنانا، اور تحریک انصاف کو توڑ کر دو پارٹیاں بنانا۔ یعنی کھیل وہی ہے، مہرے، پیادے اور بادشاہ بھی ایک ہی ہے تو اس پر ردعمل بھی یکساں ہونا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہے، خاص طور پر مغربی میڈیا میں قطعی ایسا نہیں ہوا۔

اس سب کو سمجھنے کے لیے ماضیِ قریب کو دیکھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا جس کی بنیاد پر اس وقت دنیا میں انقلابات برپا ہورہے ہیں، وہ کیسے اور کیا عمل کرتا اور انقلابات برپا کروارہا ہے۔ اس عمل کا آغاز 2011ء میں عرب اسپرنگ سے ہوا کہ جہاں تیونس سے شروع ہونے والے انقلاب کا یہ عمل مصر تک پہنچ گیا اور اس کو عوامی ردعمل اور مظلوموں کی آواز کا نام دیا گیا جوکہ دراصل درست تھا، لیکن اس کے نتائج پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ عرب اسپرنگ کے نتیجے میں عرب ممالک میں موجود آمرانہ حکومتوں کا خاتمہ تو ضرور ہوگیا لیکن یہ سفر محض شخصیات کی ہی تبدیلی ثابت ہوا۔ ایک آمر کی جگہ دوسرا آمر، اور کہیں غیر ملکی قبضہ اور خانہ جنگی۔ خاص طور پر جہاں طویل آمریت تھی اس معاشرے میں ایک خلیج کو پاٹنے کی کوشش میں ایک نئی خلیج نے جنم لے لیا۔ اس پر ایک طویل بحث کی ضرورت ہے جس میں سوشل میڈیا کی دو دھاری تلوار نے معاشروں کو کس طرح تقسیم کردیا ہے اس پر خود امریکی ماہرین حیران ہیں اور اس معاشرتی تقسیم کو تاحال روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اور دوسری اہم ترین تبدیلی یہ کہ اس مہم جوئی میں اداروں کی شدید ترین ٹوٹ پھوٹ، نظام، نظریات اور فکر کی جگہ شخصیات کا سامنے آنا اور نظریات و فکر کا پیچھے چلے جانا وہ عوامل ہیں کہ جن پر اب مغرب بھی روک لگانے کی کوشش کررہا ہے اور اپنے ہاں کے پیدا شدہ گند کو دوسرے معاشروں میں امپورٹ کرنے کو آزادیِ اظہار اور آزادیِ فکر جیسے عنوانات سے پروان چڑھاتا ہے۔ حالانکہ سوشل میڈیا کے سخت ترین قوانین مغربی ممالک میں موجود ہیں جس میں کسی بھی فرد، ادارے، معاشرے اور تنقید کی ایک حدود متعین کی گئی ہیں۔ برطانیہ میں خود م Offcom اس کام کو سرانجام دیتا ہے اور پولیس بھی کسی بھی غلط اطلاع، معلومات، کردار کشی اور معاشرے کو تقسیم کرنے جیسے سوشل میڈیا کے جرائم کے خلاف انتہائی تیزی سے کارروائی کرتی ہے۔ عدالتوں میں ان مقدمات کا فیصلہ ہفتوں میں ہوجاتا ہے۔

قومی سیاسی محاذ ہو یا بین الاقوامی سیاست… ہر معاملے پر مغرب خود اپنے معاشروں کو میڈیائی پروپیگنڈے کی بنیاد پر تقسیم کرنے سے مکمل طور پر روکتا ہے، کجا کہ ان معاملات پر میڈیا کوئی مہم جوئی کرے۔ یہ ضرور ہے کہ میڈیا اپنی من پسند پارٹیوں کی حمایت کرتا ہے، لیکن اس میں بھی حقائق کی بنیاد پر ہی تبصروں و تجزیوں کی گنجائش ہوتی ہے۔ تاہم مغرب کے میڈیا اور خاص طور پر ڈیجیٹل میڈیا پر صورت ِحال اس کے برعکس ہے۔ یہاں پر اسرائیل کے خلاف بات کرنے، اس کے مظالم کو نمایاں کرنے، اس کی مذمت کرنے کو اب Antisemitism سے جوڑا جارہا ہے۔ اسی طرح مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کرنے کو حماس کی سرپرستی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ یہ معاملہ معاشرے میں نہیں بلکہ میڈیا تک میں موجود ہے۔ وہ بی بی سی جو ایک عرصے تک حماس کو دہشت گرد تنظیم کے بجائے مزاحمتی گروپ کہتا رہا تھا اب اس سے پیچھے ہٹ کر حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دے رہا ہے۔ اس پوری صورتِ حال کو سامنے رکھ کر حالات کا جو تجزیہ بنتا ہے وہ یہ کہ اس وقت مغربی میڈیا کا ہدف بہر صورت پاکستان ہے۔ اس میں خود ہماری اپنی حماقتیں شامل ہیں۔ فوج، عدلیہ، صحافیوں، بیوروکریسی اور سیاست دانوں نے عوام کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ اب 25 کروڑ لوگ تو ہجرت نہیں کرسکتے، لہٰذا معاشرے میں موجود خلفشار، شارٹ کٹ کی تلاش، پاکستان سے مایوسی، افواجِ پاکستان پرغم و غصہ… ان سب کی وجوہات یقیناَ موجود ہیں اور کسی حد تک درست ہیں۔ پاکستان کا بیانیہ جس میں ہم دشمنوں سے دفاع کا علَم بلند رکھتے تھے اب وہ بھی دفن ہوگیا، کیونکہ ہم نے کشمیر گنوا دیا، افغانستان پر ہماری پالیسی ناکامی کا مظہر ہے۔ اب ہم کو کسی بیرونی دشمن سے نہیں بلکہ اندرونی خلفشار سے خطرہ ہے۔ اس کا بیج بھی ہماری عسکری قیادت نے بویا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2016ء سے شروع ہونے والی مہم جوئی کا اصل سہرا افواجِ پاکستان کے سر ہے جس میں تین آرمی چیف جنرل راحیل شریف، جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل عاصم منیر شامل ہیں۔ اس کھیل میں قوم میں تقسیم پیدا کرنے کے لیے جنرل آصف غفور کی قیادت میں میڈیا و سوشل میڈیا کی جو بریگیڈ تیار کی گئی تھی وہی آج گلے پڑ چکی ہے۔ کل بھی بطور استاد اس کو غلط کہنے کی پاداش میں نفرت و انتقام کا نشانہ بنایا گیا تھا، اُس وقت اس کی جانب توجہ کی جاتی تو شاید پورا معاشرہ تقسیم نہ ہوتا، اور نہ ہی بین الاقوامی میڈیا کو پاکستان کا تمسخر اڑانے کا موقع ملتا۔ افراد کو نظریات کے آگے لاکر جو کارنامہ سرانجام دیا گیا اس کا انجام اب سامنے ہے۔ یہی کچھ لیبیا، شام اور عراق میں ہوا۔ قوم کو قوم بنانے کے بجائے ہجوم بنایا گیا، نفرت اور انتقام کے بیانیے کی بنیاد رکھی گئی۔ جلادو، مار دو، پھانسی دے دو کے الفاظ کو نہ صرف قابلِ قبول بلکہ قابلِ فخر اور نڈر قیادت کی علامت قرار دیا گیا۔ حالانکہ قائد نفرت و انتقام کے بجائے محبت و الفت،عفو و درگزر کا نام ہوتا ہے۔ آج مغرب ڈونلڈ ٹرمپ کو بطور مثال پیش کررہا ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے پوری امریکی اسٹیبلشمنٹ نے زور لگایا ہوا ہے کہ کوئی معتدل رہنما سامنے آئے۔ اس کی وجہ سے ہی عمر رسیدہ جو بائیڈن کو سامنے لایا گیا تاکہ اس انقلاب کی رفتار کو روکا جائے جو امریکی معاشرے کو تقسیم کررہا ہے۔

اسی صورتِ حال کا سامنا پاکستان کو ہے۔ فوج کے کارناموں کی طویل فہرست عوام کے سامنے اب سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہے اور ان کی حماقتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ عوام اور فوج کے درمیان خلیج سے پاکستان کی وحدت کو خطرہ ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا و مغربی میڈیا پاکستان کو عرب بہار کے راستے پر گامزن کررہا ہے، لیکن اس راستے پر گامزن ہونے سے قبل ذرا ٹھہر کر حالات اور نتائج کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایک بھی فوجی طاقت باقی نہیں بچی۔ اب پوری امتِ مسلمہ کی عسکری طاقت ایران، پاکستان اور ترکی کے پاس ہے۔ پاکستان واحد ایٹمی مسلم قوت ہے۔ اس ملک کو بچانے والی قوت کوئی شخصیت نہیں بلکہ نظریہ ہے۔ پاکستان میں فوج کو اپنی غلطیاں سدھارنا ہوں گی۔ اب پاکستان اتنی حماقتوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ عوام کا غم و غصہ حق بجانب ہے لیکن قیادتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو نفرت و انتقام کے راستے پر جانے سے روکیں، عسکری قوتوں سے ساز باز نہ کریں۔

قوم کی ترقی و عروج کا راستہ کسی شارٹ کٹ سے نہیں بلکہ اعلیٰ اقدار، تعلیم اور نظریے سے مشروط ہے۔ پاکستان امتِ مسلمہ کا دل ہے۔ اس پر مغرب کی نظریں ہیں۔ اور اس سب میں مغرب کی سازش سے زیادہ ہماری حماقتیں شامل ہیں۔ پاکستان کو اب اندر سے خطرہ ہے۔ اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو نہ ملک بچے گا اور نہ اس پر عسکری راج۔