بلاشبہ ملک اس وقت بحران میں ہے، اور یہ کوئی چھوٹا بحران نہیں۔ انتخابات کے بعد حکومت سازی ایک آئینی ضرورت ہے، لیکن یہ کمپنی چلتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ متنازع انتخابی نتائج اپنی جگہ، اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ بنیادی مسئلہ ملکی معیشت سے متعلق ہے۔ انتخابات کے نتائج اور اس کے نتیجے میں سیاسی بے یقینی صورتِ حال کو گمبھیر بنارہی ہے۔ یہی نکتہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مالیاتی معاہدے کو حاصل کرنے کی ملک کی کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی میعاد مارچ میں ختم ہورہی ہے، اور نئی ڈیل ملک کے کریڈٹ پروفائل کی کنجی ہوگی۔ اگر پاکستان چند ماہ میں آئی ایم ایف سے رقم حاصل کر بھی لے تو اگلے مذاکرات میں ناکامی ملکی لیکویڈیٹی میں دباؤ اور ڈیفالٹ کے امکان میں اضافہ کرے گی۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان کی بیرونی پوزیشن میں بہتری آئی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 9 فروری تک بڑھ کر 8 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ کم از کم اگلے چند سال کے لیے ادائیگیاں ذخائر سے زیادہ ہوں گی، بیرونی ممالک سے مالی اعانت حاصل کرنا اگلی حکومت کے ایجنڈے میں سب سے اہم ہدف ہوگا۔ موجودہ بحران ضد اور اَنا دفن کرکے سیاسی جماعتوں کو ملک کے مستقبل کی خاطر باہمی تعاون کرنے اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کی بات کرتا ہے، اور اس نظام میں ذمے دار سیاسی کردار اور متفقہ لائحہ عمل کے ذریعے اس بحران سے باہر نکلا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں اور یہ ملک ایک ہی کشتی کے سوارہیں، ان میں کوئی بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اس قدر با صلاحیت ہیں کہ چاہیں تو مل کر اس ملک کو بحران سے نکال سکتی ہیں، ورنہ انتخابی دھاندلی کے خلاف بہت جان دار ملک گیر عوامی تحریک چل سکتی ہے۔
حالیہ انتخابات کے نتائج نے جو صورتِ حال پیدا کر رکھی ہے اس میں راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ان کے مؤقف کی سچائی جاننے کے لیے لازم ہے کہ اعلیٰ اختیاراتی کمیشن تشکیل دیا جائے یا سپریم کورٹ اس کا ازخود نوٹس لے، اگر انتخابی نتائج تبدیل کیے گئے ہیں تو پھر اس کے ذمہ دار کرداروں کو عبرت کا نشان بنادینا چاہیے، دوسری صورت میں کمشنر راولپنڈی کو ان کی غلط بیانی پر کٹہرے میں لا کھڑا کردیں۔ انتخابی نتائج تبدیل کرنا ملک کے ساتھ غداری کے مترادف ہے، اور غلط بیانی کرنا اس سے بھی بڑی غداری ہے۔ کمشنر راولپنڈی نے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس آف پاکستان سے متعلق جو بھی کہا، اس کی مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لیاقت علی چٹھہ کے انتخابی دھاندلی سے متعلق الزامات کی تردید کی اور ثبوت مانگے ہیں۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ عام انتخابات میں دھاندلی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں، تاہم بات یہیں ختم نہیں ہوجانی چاہیے، تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں۔
ملک میں ناقابلِ قبول سمجھے جانے والے انتخابی نتائج سے پیدا ہونے والے بحران پر مسلم لیگ(ن) جس کی خاندانی سیاست اب بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں داخل ہوچکی ہے، ملکی سیاسی منظرنامے میں تنکے کے سہارے کی تلاش میں ہے اور اسے پیپلزپارٹی سمیت کسی کی جانب سے بھی مضبوط حمایت میسر نہیں ہے۔نوازشریف حکومت سازی کے لیے پیپلز پارٹی سے ہونے والے مذاکرات، مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی اور دیگر امور پر غور کرچکے ہیں۔ پنجاب میں آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے پر غور کیا گیا، اسحاق ڈار کے علاوہ دیگر کئی رہنمائوں نے یہ تجویز بھی دی کہ مسلم لیگ(ن) کو وفاق میں حکومت نہیں بنانی چاہیے۔ نوازشریف نے زور دیا کہ اگر مرکز میں حکومت بنانی ہے تو کسی بھی اتحادی جماعت کی غیر اصولی بات نہیں ماننی چاہیے۔ اتحادی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے اونٹ پر اتنا بوجھ لاد دیا جائے کہ یہ اسی بوجھ تلے دب کر رہ جائے۔ مسلم لیگ(ن) اپنی سیاسی بقا کے لیے سب کچھ مان رہی ہے تاکہ ’’جمہوری نظام‘‘ ڈی ریل نہ ہو۔ جمہوریت ڈی ریل ہونے کی بات تو الگ ہے، پہلے یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ انتخابی نتائج کس نے، کیوں اور کس کے لیے ڈی ریل کیے؟ اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کمشنر لیاقت چٹھہ کی دماغی حالت غیر متوازن ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو ذمہ دار منصب پر انہیں کیوں رکھا گیا؟ اور ملک میں مزید کتنے اور افسر ہیں جن کا دماغی توازن درست نہیں ہے، اس کے باوجود وہ اپنے منصب پر کام کررہے ہیں؟
کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے انتخابی نتائج میںسنگین دھاندلی میں ملوث ہونے کا اعتراف کرکے پورے ملک میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا کردی ہے کہ انہوں نے راولپنڈی ڈویژن میں قومی اسمبلی کے 13 ہارے ہوئے امیدواروں کو 70، 70ہزار کی برتری دلوائی اور ملک کے ساتھ کھلواڑکیا ہے، اور انتخابی دھاندلی کی ذمہ داری قبول کی ہے۔کمشنر راولپنڈی کا یہ اقدام اگرچہ نہایت غیرمعمولی ہے، لیکن یہ ضمیر کا دبائو نہیں ہے۔ لیاقت علی چٹھہ کے خلاف محکمانہ کارروائی کا امکان ہے جس میں انہیں غلط الزامات کا ملزم ثابت ہوجانے پر 6 ماہ تک قید کی سزا، سرکاری نوکری اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اور دیگر مراعات سے محروم ہونا پڑسکتا ہے۔ ان کے خلاف (اول) محکمانہ کارروائی، (دوئم) توہینِ عدالت کی کارروائی، (سوئم) توہینِ الیکشن کمیشن کی کارروائی، (چہارم) کسی فرد یا افرادکے خلاف نفرت انگیزی اور سنسنی پھیلانے کے حوالے سے پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کی دفعہ 20 کے تحت، اور دی پنجاب سول سرونٹس (ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن) رولز 1975کے تحت محکمانہ کارروائی ہوسکتی ہے۔ لیاقت علی چٹھہ نے چیف جسٹس کی ذات کو نشانہ بنایا ہے، اگر سپریم کورٹ چاہے تو وہ لیاقت علی چٹھہ کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کرکے ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کو آگے بڑھا سکتی ہے جس میں اگر وہ اپنے الزامات ثابت نہ کرسکیں تو 6 ماہ تک قید کی سزا اور سرکاری نوکری سے برخواستگی اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی پنشن اور دیگر مراعات کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ان کے خلاف توہینِ الیکشن کمیشن کی کارروائی شروع کی جاسکتی ہے، الزامات ثابت نہ ہونے کی صورت میں ایف آئی اے حکام سوشل میڈیا پر عام انتخابات کے حوالے سے نفرت اور سنسنی پھیلانے کے جرم میں ان کے خلاف پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ایکٹ 2016 کی دفعہ 20 کے تحت کارروائی کرسکتے ہیں جس کی سزا تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ تک ہوسکتی ہے۔ تاہم یہ سب کچھ ہوگا یا نہیں، اس کے لیے کچھ انتظار مناسب رہے گا۔ دوسری جانب پولیس نے لیاقت علی چٹھہ کی باقاعدہ گرفتاری کی فرمائش تو اس بنیاد پر پوری نہیں کی کہ ایف آئی آر درج ہوئے بغیر کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہ بات بتانا ہوگی کہ پریس کانفرنس کے بعد وہ کہاں ہیں؟ اور کن کی گرفت میں ہیں؟ کمشنر کا پولنگ کے عمل میں کوئی کردار نہ ہونے کے باوجود لیاقت علی چٹھہ نے اتنے بڑے پیمانے پر نتائج کیسے تبدیل کیے؟ اگر ان کا دعویٰ درست ہے تو اس کا طریق کار بھی انہیں واضح طور پر بتانا چاہیے۔ پھر یہ بات بھی جواب طلب ہے کہ اگر واقعی یہ دھاندلی ہوئی ہے تو کسی فردِ واحد کے لیے تو ایسا کرنا کسی صورت ممکن نہیں، متعلقہ انتخابی عملے کی اس میں شرکت لازمی ہے۔ لہٰذا تحقیقاتی عمل میں لیاقت علی چٹھہ کے علاوہ تمام ذمے داروں کا شامل کیا جانا بھی ضروری ہے۔ اگر یہ کام نہ ہوا تو ’’متنازع انتخابی نتائج‘‘ کے خلاف ملک بھر میں جاری بحران بڑھ جائے گا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کمشنر نے پاکستان کی فوج کو اس معاملے سے بالکل باہر نکال دیا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ساری صورتِ حال پاکستان کے اداروں کے لیے تشویش کا باعث ہوگی جو ملک میں معاشی بحران کے خاتمے اور سیاسی استحکام کے خواہاں ہیں۔ بحران کے حل کے لیے انتخابی نتائج میں درستی ضروری ہوگی۔ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت الیکشن نتائج کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کا مؤقف بہت واضح ہے، بیرسٹر گوہر کہتے ہیں کہ عمران خان کی ہدایت پر انہوں نے مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے، مولانا فضل الرحمان بھی خاصے گرج رہے ہیں، انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید پر تحریک عدم اعتماد لانے کا الزام دھرا اور اگلے ہی دن کہہ دیا کہ فیض حمید کا نام غلطی سے نکل گیا تھا۔ بہرحال انہوں نے بھی ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی بھی انتخابات کے نتائج کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کا نعرہ بلند کرچکی ہیں۔ سیاسی جماعتیں احتجاج کی کال دے رہی ہیں۔ جماعت اسلامی نے 25 فروری کو اسلام آباد میں کُل جماعتی کانفرنس طلب کی ہے۔
دوسرا منظرنامہ یہ ہے کہ انتخابات کے بعد ملک میں جس امن و استحکام کی توقع تھی فی الوقت وہ کہیں نظر نہیں آرہا، کیونکہ کسی بھی سیاسی جماعت کو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے درکار سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوسکی۔ تحریک انصاف وفاق اور پنجاب میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے پوری طرح تیار تھی، سیاسی جماعتوں سے اُس کی جانب سے رابطے بھی کیے جارہے تھے لیکن عمران خان نے ہدایت کردی ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ منتخب ارکانِ اسمبلی وفاق اور پنجاب دونوں جگہ اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھیں گے، یوں تحریک انصاف حکومت سازی کے مقابلے سے باہر ہوگئی ہے تاہم اسمبلی میں بڑا سیاسی کردار ادا کرنے لیے خود کو تیار کررہی ہے، اسی لیے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان سنی اتحاد کونسل میں شا مل ہوگئے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کے پارٹی سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروا دیے گئے ہیں۔ فی الحال قومی اسمبلی کے 50 ارکان کے پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کروائے گئے ہیں۔ آئینی نکتہ یہ ہے کہ ایسے منتخب آزاد امیدواروں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی کامیابی کے اعلان کے تین روز کے اندر اندر کسی بھی پارلیمانی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں۔ تحریک انصاف خواتین کی مخصوص نشستیں بچانے کے لیے یہ کام کررہی ہے، اور چاہتی ہے کہ پارٹی الیکشن تک اس طرح کام چلالیا جائے اور بعد میں یہی لوگ تحریک انصاف میں واپس آجائیں۔ لیکن کیا اُس وقت ان کے خلاف فلور کراسنگ کی شق اور قانون لاگو نہیں ہوگا؟ تحریک انصاف کی لیڈرشپ اس آئینی نکتہ کو سمجھ نہیں رہی یا اسے جان بوجھ کر نظرانداز کررہی ہے۔ تاہم وہ اپنے سیاسی کردار کو مضبوط بنانے کے لیے تحفظات کے باوجود اسمبلی میں بیٹھنے کا فیصلہ کرچکی ہے جہاں وہ ایک نئی جنگ لڑے گی۔
ساتھ ساتھ دوسرا منظرنامہ بھی چل رہا ہے۔ پنجاب اور خیبرپختون خوا میں نواز لیگ اور تحریک انصاف اکثریتی بل بوتے پر خاموشی سے حکومت سازی میں مصروف ہوچکی ہیں۔ ایک نئی بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکین مجلس وحدت المسلمین کے بجائے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے اسمبلیوں کا حصہ بن جائیں گے۔ تحریک انصاف کے سینئر رہنما رؤف حسن نے بتایا کہ ’’سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کا متفقہ فیصلہ کیا گیا ہے، مرکز اور پنجاب میں سنی اتحاد کونسل سے ہی مل کر حکومت بنانے کے لیے کوششیں کی جائیں گی، پاکستان تحریک انصاف کے آزاد اراکین کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے پی ٹی آئی کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے قبل پی ٹی آئی کے آزاد اراکین اسمبلی سے بیانِ حلفی لیا جارہا ہے تاکہ وہ اپنی وفاداریاں تبدیل نہ کرسکیں۔ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ، نوازشریف کے سابق اتحادی، سابق وزیر مذہبی امور صاحب زادہ فضل کریم مرحوم کے صاحب زادے ہیں۔ اس اتحاد کے بعد قومی اسمبلی میں اسے ایک بڑی پارلیمانی پہچان مل گئی ہے، اور وہ سینیٹ انتخابات میں بھی ایک بڑا کردار ادا کرنے کے قابل ہوگئی ہے۔ انتخابی نتائج پر جو مسئلہ چل رہا ہے یہ اسی وقت حل ہوگا جب الیکشن کمیشن فارم 45 کی بنیاد پر فارم 47 پر اٹھنے والے تمام اعتراضات دور کردے گا۔ تحریک انصاف نہایت مشکل حالات میں مولانا فضل الرحمان کے پاس کمک لینے گئی ہے۔ اب یہاں دو بیانیے ہیں، پیر پگارا نے یہ کہہ کر کہ فوج سب سیاست دانوں کو آزما چکی، مارشل لا کی دعوت دے دی ہے۔ لیکن مولانا فضل الرحمان نے اسٹیبلشمنٹ سے ’سیاست سے توبہ کرو‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ کس کا مشورہ مانا جاتا ہے۔ بہر حال انتخابی نتائج جیسے بھی ہیں،مسلم لیگ (ن) چارو نا چار حکومت سازی کے لیے متحرک ہے۔ اسے مطلوبہ تعداد میںنشستیں نہیں ملیں جس کے بعد وہ دوسری پارلیمانی جماعتوں کی شرکت ہی سے حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم سے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی بات چیت زگ زیگ انداز میں بڑھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ حکومت میں مکمل طور پر شریک ہونے کے بجائے یہ تاثر دے رہی ہے کہ اس کی حمایت صرف وزیراعظم کے منصب کے لیے مسلم لیگ (ن) کے نامزد کردہ امیدوار کو ووٹ دینے تک ہوگی، جبکہ اس کے بدلے وہ ملک کی صدارت، قومی اسمبلی کے اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین اور گورنر کے منصب پر اپنے امیدواروں کی تائید چاہتی ہے۔ حالات کا یہ تانا بانا مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کے لیے بجاطور پر باعثِ تشویش ہے کیونکہ وہ مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ تنہا خود نہیں اٹھانا چاہتے بلکہ اتحادیوں کو بھی شریک کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن سیاسی جماعتوں کی جنگِ اقتدار کے تناظر میں اصل ہدف عوام کی پریشانیوں میں فوری کمی ممکن بنانا ہے، اس بارے میں کسی کو فکر ہے؟ سب اقتدار اور اختیارات کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی بھی ملک میں ایک مستحکم سیاسی نظام ہی مستحکم معاشی نظام پیدا کرسکتا ہے۔