کمشنر راولپنڈی کا سیاسی دھماکا, کیا انتخابات اور حکومت سازی کا تجربہ کامیاب ہو گا؟

انتخابات کے نتیجے میں سیاسی حکمرانی کی بساط بچھادی گئی ہے، اور جو نتیجہ انتخابات کی بنیاد پر نکالا گیا ہے اسے کوئی بھی ماننے کے لیے تیار نہیں، اور جو مان رہے ہیں اُن کے سامنے سیاسی سمجھوتوں کی ایک کہانی ہے۔ مسئلہ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کا نہیں، اور نہ ہی جو انتخابات ہار گئے ہیں محض وہی دکھی ہیں، بلکہ معاشرے میں مجموعی سوچ یہی ہے کہ انتخابات کے نام پر قوم کے ساتھ سنگین مذاق کیا گیا ہے۔ جو لوگ انتخابات عملی طور پر جیت گئے ہیں وہ بھی اپنی جیت پر جشن منانے کے بجائے پریشان ہیں اور سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ کیسے اپنے حق میں اس جیت کی سیاسی ساکھ کو قائم کرسکیں گے! کمشنر راولپنڈی کے جو انکشافات انتخابات کے تناظر میں سامنے آئے ہیں انہوں نے پورے انتخابی نظام کی حیثیت کو ہی چیلنج کردیا ہے۔ اُن کے بقول اُن پر چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کا دبائو تھا کہ انتخابات کے نتائج ایک ایسی جماعت کے حق میں کرنے ہیں جو عملی طور پر انتخابات ہار گئی تھی۔ کمشنر راولپنڈی کا مؤقف ایک بڑے سیاسی دھماکے سے کم نہیں تھا، اور اس اہم منصب پر بیٹھ کر جو بھی انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگائے اُسے اتنی آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کمشنر راولپنڈی کے بیان کی حقیقت کو سمجھنا ہے تو ہمیں اس بیان پر مسلم لیگ (ن) کا ردعمل دیکھنا چاہیے جس سے اندازہ ہورہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اس بیان سے کتنی تکلیف پہنچی ہے۔ کمشنر راولپنڈی کو ذہنی مریض قرار دینا… واقعی مسلم لیگ(ن) ہی ایسا کمال کرسکتی ہے، کیونکہ یہ فرد جسے ذہنی مریض کہا گیا ہے، کل تک مسلم لیگ (ن) اور شریف برادران کی آنکھ کا تارا تھا۔ اگر مان لیا جائے کہ کمشنر راولپنڈی ذہنی مریض تھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ذہنی مریض اس اہم عہدے تک کیسے پہنچا؟ مسلم لیگ(ن) کو تو کمشنر راولپنڈی کے اعتراف پر اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہیے، مگر اس کی جانب سے تحقیقات کا مطالبہ کرنے کے بجائے کمشنر کو ذہنی مریض قرار دیا جاہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور مسلم لیگ(ن) کا ردعمل بلاوجہ نہیں۔ اسی بنیاد پر اسلام آبادکی قومی اسمبلی کی 3 نشستوں پر الیکشن کمیشن یا اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نتائج کو روکنا ظاہر کرتا ہے کہ انتخابی دھاندلی کا معاملہ بہت آگے تک جاسکتا ہے۔

مسلم لیگ(ن) مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے جارہی ہے اور پیپلزپارٹی اُس کے ساتھ اتحادی کے طور پر آگے بڑھ رہی ہے، مگر مسلم لیگ(ن) بہت بڑے سیاسی بوجھ کے ساتھ اقتدار کی سیاست کا حصہ بن رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے معاملے پر پارٹی میں واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک گروپ مرکز میں حکومت بنانے کے حق میں ہے جبکہ دوسرا گروپ مرکز میں اپوزیشن میں بیٹھنے اور پنجاب میں حکومت بنانے پر زور دے رہا ہے۔ نوازشریف کو اس بات کا بھی گلہ ہے کہ پیپلزپارٹی سودے بازی کا کھیل کھیلنا چاہتی ہے جس میں مسلم لیگ(ن) کو زیادہ نقصان کا خطرہ ہے۔ پیپلزپارٹی مسلم لیگ(ن) سے اختیار تو مانگ رہی ہے مگر اقتدار کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے کسی بھی صورت تیار نہیں۔ نوازشریف پیپلزپارٹی کی اس سودے بازی سے ناخوش ہیں، اور بقول جاوید لطیف: مرکز میں صرف نوازشریف ہی نہیں بلکہ خود شہبازشریف بھی حکومت بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ سوال یہ نہیں کہ نوازشریف یا شہبازشریف کیا چاہتے ہیں؟ یہ جو بھی چاہیں، اصل فیصلہ ان پر اسٹیبلشمنٹ کا ہی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جاوید لطیف کو یہ بھی کہنا پڑا کہ ہم تو حکومت نہیں بنانا چاہتے مگر کچھ لوگ ہم کو ہر صورت میں حکومت میں دیکھنا چاہتے ہیں، حالانکہ ان کو چاہیے کہ وہ ہمارے بجائے حکومت پی ٹی آئی کو دیں جو اکثریت رکھتی ہے، لیکن لگتا ہے کہ حکومت کا بوجھ مسلم لیگ(ن) پر ڈال کر ہمیں اور زیادہ برباد کرنے کا منصوبہ ہے۔ پیپلزپارٹی کو اس بات کا پوری طرح ادراک ہے کہ اس وقت مسلم لیگ(ن) پر سخت دبائو بھی ہے اور اس کی سیاسی پوزیشن بھی بہت کمزور ہے۔ ایک طرف انتخابی دھاندلی، دوسری طرف اس کی بڑے پیمانے پر انتخابی شکست، اور تیسری طرف اس کی جیت کو بھی سیاسی اور قانونی میدان میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ اسی طرح نوازشریف کی واپسی کی باتیں بھی اپنا سیاسی رنگ نہیں جما سکیں۔ ایسے میں پیپلزپارٹی مسلم لیگ(ن) کے ساتھ مل کر حکومت تو بنانا چاہتی ہے مگر اپنی شرائط پر… اور وہ کسی بھی طور پر کمزور وکٹ پر کھیل کر اقتدار کے کھیل میں حصے دار بننے کے لیے تیار نہیں۔ ان انتخابات کا سب سے زیادہ فائدہ بھی پیپلزپارٹی نے اٹھایا ہے۔ وہ سندھ کے بعد بلوچستان میں حکومت بنانے کی طرف بڑھ رہی ہے جبکہ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے ساتھ مخلوط حکومت، ایوانِ صدر، اسپیکر قومی اسمبلی کے کھیل میں حصے دار بننا چاہتی ہے۔ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ اس وقت مسلم لیگ(ن) کے پاس ہماری حمایت کے آپشن کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے اگر مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ڈیل کرنی ہے تو وہ مضبوط بھی ہو اور اپنی شرائط پر بھی ہو۔

مسلم لیگ(ن) میں ایک مایوسی یہ پائی جاتی ہے کہ کہیں اسٹیبلشمنٹ نے ان کے ساتھ ہاتھ نہ کردیا ہو، اور جو اکثریت ان کو انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر ملنی چاہیے تھی اسے ایک منصوبے کے تحت کم کیا گیا ہے۔ حالانکہ سیاسی پنڈتوں کے بقول مسلم لیگ(ن) کو جتنی نشستیں ملی ہیں ان میں سے زیادہ تر سہولت کاروں کی مدد سے ملی ہیں، وگرنہ مسلم لیگ(ن) کی نشستیں 25 تا 30 ہی تھیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ(ن) میں یہ بھی مایوسی پائی جاتی ہے کہ ان کے قائد نوازشریف کے ساتھ ہاتھ کیا گیا ہے اور لندن سے بلا کر ان کو سیاسی تنہائی میں ڈالا گیا ہے، جبکہ ہمیں بتایا یہ گیا تھا کہ اقتدار ان ہی کے ہاتھ میں رہے گا۔ اگرچہ مسلم لیگ(ن) نے مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر نامزد کیا ہے، لیکن کچھ خبریں ایسی مل رہی ہیں کہ پارٹی کے اندر اور پارٹی کے باہر سے بھی کچھ لوگ مریم نواز کے حق میں نہیں ہیں۔ اگر واقعی مریم نواز کو وزیراعلیٰ نہیں بنایا جاتا تو پھر نوازشریف اور مریم نواز کو کیا ملے گا؟ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف بڑی آسانی سے مریم نواز پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پارٹی کے اندر بھی بحران کی شکلیں سامنے آسکتی ہیں۔

مسلم لیگ(ن) کے بارے میں ایک عمومی رائے یہی بن رہی ہے کہ وہ خود انتخابات جیت کر نہیں آرہی، بلکہ اسے جتا کر لایا جارہا ہے، اور یہ بات صرف اس کے سیاسی مخالفین ہی نہیں بلکہ حمایتی بھی کہہ رہے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی کا اصل فائدہ نوازشریف کی جماعت کو ہوا ہے۔ اگرچہ نوازشریف نے پارٹی کی سطح پر اپنے بھائی شہبازشریف کو وزارتِ عظمیٰ اور مریم نواز کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے نامزد کیا ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کو آج بھی سخت مشکلات کا سامنا ہے اورکچھ لوگوںکا خیا ل ہے کہ پنجاب کی سطح پر مریم نواز کی قبولیت پر بھی سوالات موجود ہیں، اور ان اٹھنے والے سوالات پر نوازشریف نالاں بھی ہیں۔ اگرچہ حکومت بن جائے گی مگر یہ حکومت کیسے آگے بڑھے گی، اس پر کئی اطراف سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ ایسی حکومت جس کی تشکیل پر ہی کئی طرح کے ابہام موجود ہیں، اس کا مسقبل کیا ہوگا؟

پی ٹی آئی نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سطح پر عورتوں اوراقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو یقینی بنانے کے لیے مجلس وحدت المسلمین کے مقابلے میں سنی اتحاد کونسل کے ساتھ الحاق کرلیا ہے، اور اُس کے جیتنے والے ارکان اب اس کا باقاعدہ حصہ بن گئے ہیں، دیکھنا ہوگا کہ اس اتحاد کے بعد کیا عورتوں اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی لینے میں کامیاب ہوسکے گی، یا اس پر بھی الیکشن کمیشن مختلف اعتراضات اٹھا کر اسے ان نشستوں سے محروم کرسکتا ہے۔ کیونکہ مسئلہ قانونی سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے جس میں بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر ریلیف دینا ہے یا ابھی بھی اس کے بارے میں یہی پالیسی ہے کہ کوئی سیاسی راستہ نہیں دینا؟ اہم بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ پی ٹی آئی کے آزاد ارکان بہت جلد دیگر جماعتوں میں شامل ہوجائیں گے اور پی ٹی آئی کو چھوڑدیں گے، وہ غلطی پر تھے، کیونکہ ایسا نہیں ہوا،ا ور پی ٹی آئی کے ایک رکن کے سوا باقی تمام ارکان پی ٹی آئی کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔ اسی طرح خیبر پختون خوا میں بھی پی ٹی آئی واضح اکثریت کے ساتھ موجود ہے اور وہ حکومت بنانے جارہی ہے، باقی مرکز اور دیگر صوبوں میں وہ اپوزیشن کے طور پر تیار کھڑی ہے، اور یقینی طور پر حکومت کو ایک بڑی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے بھرپور پارلیمانی کردار ادا کرنے کا فیصلہ بھی اچھا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی سمیت تمام مسائل کو پارلیمانی سیاست میں بھی اور سیاسی میدان میں بھی بھرپور طریقے سے اٹھایا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے بارے میں جو انتخابی نتائج سامنے آئے ہیں اورجس غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی نے کیا ہے اس پر اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں بھی یہ رائے سامنے آئی ہے کہ ہمیں اب پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کے بجائے اس کے ساتھ سیاسی حکمت عملی کے تحت ہی آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ سب کچھ یقینی طور پر پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی کو دیکھ کر کیا جائے گا کہ وہ کس حد تک پارلیمانی سیاست کے دائرے میں رہ کر سیاست کرتی ہے۔لیکن ان انتخابی نتائج کے بعد سب کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی حقیقت ہے اوراس کو نظرانداز کرنے یا دیوارسے لگانے کی پالیسی کسی بھی طور پر درست حکمت عملی نہیں ہوگی۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی سمیت جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں جو انتخابی دھاندلی کو بنیاد بناکر مزاحمتی سیاست کرنے یا تحریک چلانے کی بات کررہی ہیں وہ اس میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں۔ کیونکہ اگر انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک میں شدت پیدا ہوتی ہے اور یہ ایک بڑی تحریک کی صورت اختیار کرتی ہے تو یقینی طور پر آنے والی حکومت کے لیے اس تحریک سے نمٹنا بھی چیلنج ہوگا۔ کمشنر راولپنڈی کے بیان نے انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک کو شدت دے دی ہے۔ انتخابات ہارنے والی جماعتیں یقینی طور پر اپنا سیاسی دبائو بڑھانے کے لیے اپنی احتجاجی تحریک میں شدت پیدا کرنے کی کوشش کریں گی، اور ویسے بھی جس طرز کے انتخابات ہوئے ہیں اور جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کی ملک میں آسانی سے قبولیت ممکن نہیں ہوگی۔

بہرحال قومی سیاست کا منظرنامہ ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے، اور جو سیاسی اور معاشی استحکام ہمیں درکار ہے حکومت بننے کے باوجود اُس کے امکانات بھی محدود ہیں۔ وجہ صاف ہے کہ جب ہم سیاسی مہم جوئی جاری رکھیں گے، ایسی صورت میں ہونے والے پس پردہ سازشی کھیل یا اسی بنیاد پر جوڑتوڑ کا کھیل قومی سیاست میں استحکام کے بجائے عدم استحکام پیدا کرے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کھیل سے ہماری اسٹیبلشمنٹ کیا کچھ سیکھتی ہے، اورجو کھیل چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں اسے کس حد تک کامیابی ملتی ہے۔ کیونکہ جو نئی سیاسی صورتِ حال بنی ہے اس میں یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ پر بھی دبائو بڑھا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان کے اسکرپٹ کی بنیاد پر وہ کچھ نہیں ہوسکا جو ہونا چاہیے تھا۔ اب یہ جو نئی حکومت مسلم لیگ(ن) اورپیپلزپارٹی کی بننے جارہی ہے کیا وہ حالیہ داخلی، سیاسی اور معاشی چیلنجز سے نمٹ سکے گی؟ کیونکہ اگر یہ تجربہ بھی آگے نہ بڑھ سکا تو ملک کے داخلی معاملات میں مزید بحران دیکھنے کو ملے گا۔