وطنِ عزیز کی بدقسمتی ہے کہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح جتنے جمہوری فکر کے حامل تھے اور ایک آئین پسند انسان تھے اُن کے بعد آنے والی قیادتیں اور حکمران اتنے ہی غیر جمہوری، غیر روایتی اور آئین دشمن رہے ہیں۔ یہ ملک قائداعظم نے جمہوری جدوجہد اور عوامی حمایت سے حاصل کیا تھا، لیکن ہم قائداعظم کے راستے پر نہیں چل سکے، اور آج نتیجہ یہ ہے کہ ملک افراتفری کا شکار ہے، اس کی معیشت تباہ حال ہے، آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق ایسا پڑا ہے کہ نکل نہیں پارہا ہے،اور ایک آزاد ملک غلام بن گیا ہے۔ ما ہرِ اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق سب سے پہلے، فوجی حکمران ایوب خان نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسایا تھا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، معین قریشی، محبوب الحق، ملک معراج خالد، نوازشریف، جنرل پرویزمشرف، آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، عمران خان اور شہبازشریف بھی آئی ایم ایف سے قرضے لیتے رہے۔ اس طرح ہم ایک دلدل میں پھنس چکے ہیں۔
امید تھی کہ انتخابات کے بعد کچھ بہتری آئے گی، لیکن اِس بار اسٹیبلشمنٹ نے اتنی زیادہ نااہلی کا ثبوت دیا ہے کہ ان کی اپنی ساکھ بھی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ انتخابات کو اپنے عزائم کے مطابق منعقد یا نتائج حاصل کرنا جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ تاریخ یہی رہی ہے، اس سے مسائل بڑھے ہیں اور معاشی، معاشرتی، سیاسی بحران میں اضافہ ہوا ہے، لیکن موجودہ انتخابات کے نام پر جو کھیل ہوا ہے اس کی تو کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری معیشت کو کمزور کرنے، ملک کو غیرمستحکم کرنے، اور منظم گمراہی پھیلانے کے منصوبے پر کوئی قوت عمل پیرا ہے۔ فوج اور قوم کے درمیان دوریاں پیدا کی جارہی ہیں۔ بات صرف معاشی، اخلاقی اور سیاسی زبوں حالی کی نہیں ہے، خاندان کا نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ موجودہ بحران کے بعد وطنِ عزیز کا جو منظرنامہ سامنے آرہا ہے، وہ دردِ دل رکھنے والے ہر پاکستانی کے لیے اذیت ناک اور پریشان کن ہے۔ نوجوان ملک چھوڑ رہے ہیں، گیلپ کے سروے کے مطابق ملک کے ہر 10 میں سے 4 افراد ملک کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ 70 فی صد پاکستانیوں کو انتخابات پر اعتماد نہیں رہا ہے۔ پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات سے قبل ہی ایسے سروے آچکے تھے کہ ملک میں سیاسی اور معاشی ماحول یکساں طور پر پریشان کن ہے اور 10 میں سے7 پاکستانیوں نے انتخابات کی شفافیت پر عدم اعتماد کا کردیا تھا، 75فیصد پاکستانی اپنی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان میں ایمرجنسی اور مارشل لا لگانے کی بات ہورہی ہے، سب کہہ رہے ہیں کہ ہر سیاسی بگاڑ کی وجہ اسٹیبلشمنٹ ہی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ نہ سیاسی جماعتیں پنپ سکی ہیں اور نہ سیاست آگے بڑھ سکی ہے۔ ویسے تو سبھی جانتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمٰن جیسے اندر کے آدمی کا انٹرویو بہت کچھ آشکار کرچکا ہے۔
ہمارے حکومتی سول ادارے تو ناکام ہیں ہی، لیکن فوج نے اپنی طرزِ حکمرانی سے کون سی ایسی عمدہ مثال قائم کی ہے کہ لوگ سیاست دانوں سے مایوس ہوکر اس طرف سوچنا شروع کریں! اور اب تو سارا کھیل ہی واضح ہوگیا ہے۔ اگر ہم جائزہ لیں تو پاکستان کی تاریخ میں مارشل لا کا ایک تسلسل رہا ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد سے آج تک کئی بار مارشل لا لگ چکا ہے۔ ہر مرتبہ یہ دعویٰ کیا گیا کہ مارشل لا ملک کے مسائل حل کرے گا، لیکن ہر بار یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا۔ مارشل لا کی پاکستان میں ایک منفی تاریخ ہے۔ اس نے جمہوریت کو کمزور کیا ہے، انسانی حقوق کو پامال کیا ہے، اور معاشی ترقی کو روکا ہے۔ جنرل ایوب خان نے 1958ء میں مارشل لا لگایا اور 1969ء تک اقتدار میں رہے۔ اُن کے دور میں جمہوریت کو کمزور کیا گیا اور انسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافہ ہوا۔ جنرل ضیا الحق نے 1977ء میں مارشل لا لگایا اور 1988 ء تک اقتدار میں رہے۔ اُن کے دور میں آمریت کو مضبوط کیا گیا اور ملک برباد ہوا۔ جنرل پرویزمشرف نے 1999ء میں مارشل لا لگایا اور 2008ء تک اقتدار میں رہے۔ ایک فوجی بغاوت میں پاکستان کے اُس وقت کے آرمی چیف پرویزمشرف نے ملک کے وزیراعظم کو ہٹادیا تھا جس پر ان کے خلاف مقدمہ چلا، پھر وہ ملک سے فرار ہوگئے۔ پرویزمشرف کے اس دور میں پاکستان کی سلامتی، عزت اور غیرت کا سودا کیا گیا۔ تو یہ ہے ہماری مارشل لا کی تاریخ جو قوم کے لیے کوئی آپشن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے 14 جون 1948 ء کو اسٹاف کالج کوئٹہ کے فوجی افسروں سےاپنے خطاب میں کہا تھا کہ ”آپ نے جو حلف اٹھایا ہے اس پر عمل کرنا آپ کا فرض ہے“اور ان کو تاکید کی کہ وہ کبھی بھی اپنے حلف کی خلاف ورزی نہ کریں۔قائداعظم کیونکہ دوراندیش تھے، وہ بھانپ گئےتھے کہ فوجی افسران پاکستان کو اپنی ذاتی جاگیر بنانے کی کوشش کریں گے،اسی لیے وہ واضح طور پر مختلف پیرائے میںبار بار کہتے تھے کہ ”پاکستان کی حکومت منتخب سول افراد پر مشتمل ہوگی۔ جو بھی جمہوری اصولوں کے برعکس سوچتاہے، اُسے پاکستان کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔“
پاکستان اور اس کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ قائداعظم نے جس بڑے مقصد کے ساتھ سیاسی تحریک کے ذریعے ایک آزاد ملک کے قیام کے خواب کو حقیقت بنایا تھا وہ ظالموں کے ہاتھ میں چلا گیا، اس پر دھوکے بازوں، ملک دشمنوں اور مفاد پرستوں کا قبضہ رہا ہے، اور سیاسی قیادتوں، سول بیوروکریسی اور جرنیلوں نے اس کو منظم طریقے سے لوٹ کھایا ہے۔ سول حکومت ہو یا مارشل لا حکومت.. سب نے ملک و قوم کو ایک بحران کے بعد دوسرے بحران میں مبتلا رکھا۔ آج وطنِ عزیز غربت اور قرضوں کی محتاجی اور سول بیوروکریسی، فوجی بیوروکریسی اور جاگیردار، سرمایہ دار گٹھ جوڑ کی گرفت میں ہے، بدترین حکمرانی کے نتیجے میں ہم مشرقی پاکستان کھو چکے ہیں، بلوچستان میں آگ اور خون ہے اور اس کو بھی کھونے کے منصوبے بنتے رہتے ہیں۔ اس وقت انتشار کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک پر قرضوں کا بوجھ ہے، آئی ایم ایف پنجے گاڑ کر بیٹھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے ہماری آزادی اور خودمختاری کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ پوری قوم یکسو ہے کہ جمہوری سیاسی عمل ہی اپنی ساری خرابیوں کے باوجود بہتر طریق کار ہے۔ اس صورتِ حال میں ضرورت اس بات کو سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ جب تک ہماری اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت، جوڑتوڑ، پسند ناپسند ختم نہیں ہوگی قائداعظم کا پاکستان معرضِ وجود میں نہیں آسکے گا، اور نہ ہی سیاسی، معاشی اور اخلاقی انتشار ختم ہوسکے گا۔ اس کے لیے سیاسی، سماجی اور اخلاقی بنیادوں پر ایک بڑی اور اصولی تحریک کی ضرورت ہے، جس کے پیچھے عوام کی طاقت موجود ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو ملک کبھی اسٹیبلشمںٹ کے کھیل اور بحران سے باہر نہیں آسکے گا۔ ملک کی بھلائی اور سلامتی کے لیے قوم کو اٹھنا ہوگا۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ
”خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا“
(اے اے سید)