قرآن کا تصورِ زندگی

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :

”جس شخص کی عصر کی نماز قضا ہوگئی گویا اس کا گھر بار، مال اسباب لٹ گیا“۔
(بخاری ، جلد اوّل کتاب مواقیت الصلوٰۃ حدیث نمبر523 )

یہ دنیا بے خدا نہیں ہے۔ اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے جو اس کا مالک، آقا، رب اور حاکم ہے۔ ہرشے پر اس کی حکومت ہے اور وہی اس کا حقیقی فرماں روا ہے۔ ساری نعمتیں اسی کا عطیہ ہیں۔ اس کا اختیارکُلی اور ہمہ گیر ہے۔ جس طرح وہ دنیا کی ہرچیز کا خالق اور مالک ہے، اسی طرح وہ انسان کا بھی خالق ، مالک اور حاکم ہے۔ اس مالکِ حقیقی نے انسان کو ایک خاص حد تک اختیار اور آزادی دے کر، اس زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے اور باقی تمام مخلوقات کو اس کے تابعِ فرمان کیا ہے۔

۲-انسان کو خلافت کی ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے لائق بنانے کے لیے مالکِ حقیقی نے اسے اپنی ہدایت سے نوازا اور اس کی رہنمائی صراطِ مستقیم کی طرف کی ہے۔ اسے بتایا گیا ہے کہ پورا جہاں اس کے لیے ہے، اس کے تابع ہے، لیکن وہ خود خدا کے لیے ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ خدا کی بندگی اختیار کرے اور اپنی پوری زندگی کو رب کی اطاعت میں دے دے۔ اس زندگی کی حیثیت ایک امتحان اور آزمایش کی سی ہے۔ اس میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے کو مالک کی مرضی کے تابع کردے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ لگا دے۔ جس نے اس راہ سے انحراف کیا ، وہ ناکام و نامراد ہے اور آنے والی ابدی زندگی میں جہنم اس کا ٹھکانا ہوگا۔

۳- یہ باتیں انسان کو ازل میں سمجھا دی گئیں۔ ان کا شعور اور احساس اس کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا۔ ان کی تذکیر اور بندگی رب کے راستے کی تشریح و توضیح کے لیے حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک، اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہا۔ ایک طرف انسان کو عقل اور سمجھ دی گئی کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی کے معاملات کی صورت گری کرے اور دوسری طرف خدا کے ان برگزیدہ بندوں (انبیا علیہم السلام) نے بڑی سے بڑی قربانی دے کر انسانیت کو سیدھی راہ پر لگانے کا کام انجام دیا۔ ہرملک اور ہرقوم میں انبیا مبعوث ہوئے۔ اس سنہری سلسلے کی آخری کڑی محمد عربی ؐ ہیں۔ آپؐ ساری دنیا کے لیے بھیجے گئے اور سارے زمانوں کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کا وہی دین، یعنی اسلام لوگوں کے سامنے پیش کیا جو اس سے پہلے پیش ہوتا رہا تھا جن لوگوں نے آپؐ کی دعوت قبول کرلی اور اسلام کو بہ حیثیت زندگی کے دین اور راستہ اختیار کرلیا، وہ ایک اُمت بن گئے۔ اب یہ اُمت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنی زندگی کا نظام اس ہدایت کے مطابق تشکیل دے جو اللہ کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور جس کا نمونہ آپؐ نے اپنی مبارک زندگی میں پیش فرمایا، اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتی رہے۔

قرآن وہ کتاب ہے جس میں پوری دعوت موجود ہے ، جس میں اللہ کا دین اپنی مکمل اور آخری شکل میں ملتا ہے، جس میں وہ ہدایت ہے جو خالق کائنات نے اُتاری ہے اور جو تمام انسانوں کی دائمی خیروفلاح کی ضامن ہے۔ قرآن اپنی حیثیت اور اپنے مقصد کو اس طرح واضح کرتا ہے:

(الف) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o (البقرہ ۲:۲) یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔

(ب) اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔

(ج) یہ رہنمائی تمام انسانوں کے لیے ہے:

الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ (البقرہ ۲:۱۸۵) قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔

(د) یہ ہدایت کا ایسا مرقع ہے جسم میں ازل سے نازل ہونے والی ہدایت جمع کردی گئی ہے اور یہ پورے خیر کا مجموعہ ہے:

وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدہ۵:۴۸) پھر اے نبیؐ، ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے ، اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے۔

(ہ) یہ ہدایت ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo (الحجر۱۵:۹)بلاشبہہ ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کو محفوظ رکھنے والے ہیں۔

(و) انسانیت کے دُکھوں کا واحد علاج یہ ہدایت ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ o (یونس۱۰:۵۷)لوگو!تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے پاس ایک نصیحت آگئی ہے جو دل کے تمام امراض کے لیے شفا ہے اور ہدایت اور رحمت ہے اُن تمام لوگوں کے لیے جو اسے مانیں۔

(ز) اور یہی ہدایت ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی اور حق کا حقیقی معیار ہے۔ اس لیے اس کو مھیمن کہا گیا ہے اور اسی لیے اس کا نام فرقان (حق و باطل میں تمیز کرنے والی) رکھا گیا ہے۔