وہ ہرشخص جو نیا طریقہ نکالے اور اس کو ذرا زور سے چلا دے، اور اپنے زمانے کی برسرِعروج جاہلیت سے مصالحت کرکے اسلام اور جاہلیت کا نیا مخلوطہ تیار کردے، یا فقط نام باقی رکھ کر اس قوم کو پوری جاہلیت کے رنگ میں رنگ دے، ان کو ’مجدد‘ کے خطاب سے نواز دیا جاتا ہے، حالانکہ وہ ’مجدد‘ نہیں ’متجدد‘ ہوتے ہیں، اور ان کا کام تجدید نہیں، ’تجدد‘ ہوتا ہے‘‘
(تجدید و احیائے دین، ص۴۳)