جب حضورؐ آئے

سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا موضوع ہے جس کی وسعت لامحدود اور جس کی لطافت بے نظیر ہے۔ جس طرح پرندے آسمان پر اڑتے ہیں مگر اوجِ ثریا کو نہیں پاسکتے، اسی طرح سیرتِ نبویؐ پر گفتگو کرنے والا اپنی محبت، عقیدت اور ہمت کے مطابق پروازِ تخیل کی تیزی کے باوجود سیرت کے کسی ایک گوشے پر سیر حاصل روشنی نہیں ڈال سکتا۔ حیاتِ طیبہ کی پاکیزگی اور جامعیت ایک ایسی بات تھی کہ قرآن کریم نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کی تائید میں حضورؐ کی زندگی کو مشرکین کے سامنے پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اہلِ ایمان نے آپؐ کی حیاتِ نور کا ذکرِ جمال، محبت و عقیدت میں ڈوب کر کچھ اس ادا سے کیا ہے کہ تحریروں میں جان پڑ گئی اور لفظ بولنے لگے۔ آپؐ کی سیرت لکھنے والے قلم کو رب نے وہ ندرتیں اور قدرتیں بخشیں کہ ہر عہد کا ادبِ عالیہ اس نوری ادب سے شرمانے لگا۔
آج جب ہر طرف نفرتوں کی آگ دہک رہی ہے، تعصبات کے بت پوجے جارہے ہیں، مظلوموں اور مجبوروں کی عزت و آبرو اور جان و مال کو پامال کیا جارہا ہے، جب آتش کدئہ فارس بجھ گیا تھا، دریائے ساوہ خشک ہوگیا تھا اور کسریٰ کے محلات کے کنگرے گر گئے تھے۔ ’’جب حضورؐ آئے‘‘ میں جذب و عشق اور کیف و سرور سے لکھی وہ تحریریں ہیں جو حضور اکرمؐ کی ولادت باسعادت پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی، سیدابوالاعلیٰ مودودی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، راشد الخیری، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، شورش کاشمیری، مولانا ظفر علی خان، عبدالماجد دریابادی، نعیم صدیقی، ماہر القادری، اور اردو کے متعدد ادبا نے اپنے خامہ عنبر فشاں سے لکھیں۔ یہ ایسی تحریریں ہیں جن سے خود یہ مصنّفین جاوداں ہوئے۔
مصنّفین کرام نے لمحہ مقدس پر اپنے جذباتِ عالیہ اور افکارِ عقیدت کا اظہار اس طرح کیا کہ کفر کے اندھیروں میں نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے ہر طرف اجالا پھیل گیا۔ سرزمینِ حجاز جلوئہ حقیقت سے معمور ہوگئی، آتش کدوں کی آگ سرد ہوگئی، ’’صنم کدے ویران ہوگئے!‘‘ پوری دنیا کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ ماہ ’کعبہ‘ کی طرف دیکھنے لگی جو درحقیقت آفتابِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
جناب محمد متین خالد کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم سعادت سے مشرف فرمایا اور بہ توفیقِ ایزدی انہوں نے اردو کے ذخیرۂ سیرت سے ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھول چن کر ایک خوب صورت گلدستہ ترتیب دے دیا۔ ’’جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے‘‘ ایک نہایت مبارک مجموعہ مضامین ہے۔ یہ مضامین صاحبانِ علم و حکمت کی فکرِ بلند کے عکاس ہیں اور سیرتِ پاکؐ پر بلند مرتبہ شخصیات کے خیالات ہیں جو ندرت کے حامل ہیں۔ بہ حیثیت ِمجموعی ’’جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے‘‘ تعمیرِ اذہان کی ایک حسین و جمیل کوشش ہے۔
محمد متین خالد نے بڑی سعی و جستجو اور تلاش و تفحص سے ان تحریروں کو ایک جگہ فراہم کردیا ہے جو مذکورہ بالا موضوع سے متعلق اردو کے بڑے اور نہایت ممتاز اہلِ قلم کا نتیجہ فکر ہیں۔ یہ ایک بڑا اور نہایت قابلِ قدر کارنامہ ہے جو محمد متین خالد نے انجام دیا ہے۔ بڑے بڑے مصنّفین کی تحریروں کو ایک کتاب میں سمیٹ لینا بڑا دقت طلب کام ہے اور جناب متین خالد نے اس کام کو تندہی اور فرض شناسی سے انجام دیا ہے۔ خوب صورت سرورق کے ساتھ سفید کاغذ پر کتاب اچھی طبع ہوئی ہے۔