مصنف کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ آپ عالمی شہرت یافتہ ادیب، مصنف، دانش ور اور مزاحیہ شاعر ہیں۔ دنیا بھر میں آپ کے لاکھوں مداح موجود ہیں۔ آپ کا کلام بہت شوق سے سنا اور پڑھا جاتا ہے۔ آپ بھرپور زندگی بسر کررہے ہیں۔ دنیا بھر کے بیسیوں ممالک کا سفر کیا۔ علما، مشائخ اور مشاہیر سے بے شمار ملاقاتیں اور دوستیاں رہیں۔ بزرگوں سے خاص ربط اور عقیدت رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت پر بزرگوں کی صحبت اور تعلیم کا اثر گہرا نظر آتا ہے۔ ’’میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ یہ مصنف کی خودنوشت بھی ہے۔ جس طرح آپ شاعر باکمال ہیں، اسی طرح آپ نے نثر بھی کمال لکھی ہے۔ شاعری تو ان کی کمال ہے ہی، مگر اب جو ان کے کالموں کا مجموعہ شائع ہورہا ہے بہت عمدہ ہے۔ آسان اور عام فہم الفاظ میں واقعات بیان کرتے ہوئے ادبی چاشنی اوّل و آخر قائم کررکھی
ہے۔ سیاسی و مذہبی تحریکوں کے خفیہ گوشوں کو نمایاں کیا ہے اور تاریخ کی بھولی بسری، ذہن سے محو شدہ باتیں یاد کروائی ہیں۔ ان کو یہ احساس ہے کہ اکابرین کے حیران کن واقعات و حالات تحریری شکل میں آئندہ آنے والی نسلوں کے حوالے کر جائوں تاکہ ان کے لیے یہ باتیں مشعلِ راہ بن جائیں۔ مصنف کا خاصہ تلفظ کی صحت، الفاظ کا استعمال، مطالب کا عمق، فقروں کی آرائش، لہجے کی رونق، بیان کی رنگینی، احساس کی گہرائی کے ساتھ ذہنوں پر فتح مندی ہے۔ یہ سلیقہ انہیں اپنے والدِ محترم سے ملا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ دور میں کتاب لکھنے، پڑھنے اور فروخت کرنے کا رواج نہیں ہے، مگر علامہ عبدالستار عاصم ’’قلم فائونڈیشن‘‘ کے تحت کتابیں چھاپے جارہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض تحریریں اور تقریریں شب برات کے پٹاخوں اور پھلجھڑیوں کی طرح مصنوعی بہار دکھا کر بجھ جاتی ہیں، مگر کتاب ’’میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ پڑھتے وقت کسی مقام پر آنکھوں میں آنسو آجائیں تو انہیں آنے دیجیے گا،اس طرح دل کا میل اترے گا، بوجھ ہلکا ہوگا۔ اسی طرح بعض مقامات پر ہنسی بھی مت روکیے گا، کیوں کہ یہ زندہ دلوں کی نشانی ہے۔
صفحہ نمبر487 پر لکھتے ہیں: ’’یہودی مٹھی بھر ہیں لیکن اتنے منظم ہیں کہ پوری دنیا سے منوایا ہوا ہے کہ ہولوکاسٹ کا تذکرہ نہ کریں کہ اس سے ان کو تکلیف ہوتی ہے۔ بالکل صحیح، لیکن سوال تو یہ ہے کہ سوا ارب مسلمانوں پر مشتمل پچاس سے زیادہ مسلم ممالک کب مغرب سے بات کریں گے؟ کب مغرب کو باور کرائیں گے کہ مسلمان عشقِ رسولؐ میں انتہائی حساس ہیں اور وہ توہینِ رسالت کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے؟ کب مسلم ممالک اپنے آقائے نامدارؐ کی حرمت کے لیے متحد ہوکر ان کو بتائیں گے کہ اگر آپ باز نہ آئے تو آپ کا سوشل، کمرشل اور تجارتی بائیکاٹ کیا جائے گا؟ اگر مسلم لیڈر یہ کام نہیں کریں گے تو پھر دکھی دل کے ساتھ عرض ہے کہ معاملات عوام کے ہاتھ میں ہی آجائیں گے۔ کب تک مسلمان یہ بدتمیزی برداشت کریں گے؟ کب تک، آخر کب تک؟“ سید سلمان گیلانی خوش بخت ہیں کہ ان کے روز و شب اور ان کی آرزوئیں ہم آہنگ ہیں۔ ان کی یادداشتیں نسلِ نو کے لیے ایک ذخیرہ ہیں۔
بہ قول علامہ عبدالستار عاصم ’’یہ کتاب ایک حیرت کدہ ہے، سیکڑوں ناقابلِ فراموش واقعات پر مشتمل اس مجموعے کو شائع کرتے ہوئے فخر محسوس کررہا ہوں۔ سلمان گیلانی نے نصف صدی پر محیط کئی یادگار واقعات اس کتاب کی وساطت سے ہم تک پہنچائے۔ یوں یہ خودنوشت منصہ شہود پر آگئی۔ غیر معمولی طور پر یہ دلچسپ یادداشتیں ہیں۔ اردو ادب میں یہ خودنوشت ایک خاص مقام حاصل کرے گی۔“ علامہ عبدالستار عاصم جادوگر ہیں، جب سید سلمان گیلانی نے اپنی یادداشتیں (خود نوشت) ’’میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ کے عنوان سے قلم بند کرلیں تو اس کی اشاعت کا پہاڑ جیسا مرحلہ درپیش تھا تو کتاب کی اشاعت کی ذمہ داری انہوں نے اپنے سر لی اور کتاب چھاپ کر زندہ دلی کا ثبوت دیا جس کے وہ مستحق بھی ہیں۔
خوب صورت ڈسٹ کور سرورق کے ساتھ کتاب سفید کاغذ پر اچھی طبع ہوئی ہے۔