قصۂ یک درویش! دادا جان کی رحلت

چوتھی قسط

چوتھا یا پانچواں دن تھا، قاعدہ پڑھانے کے بعد استادِ محترم نے آج سورۂ فاتحہ کا سبق پڑھایا اور فرمایا کہ چھٹی سے پہلے یاد کرکے مجھے سنانا ہے۔ یہ سورت مجھے پہلے سے یاد تھی، اس لیے میں بالکل پُرسکون اور مطمئن تھا۔ مکتب کے اوقات سردیوں میں صبح آٹھ سے ساڑھے گیارہ اور بعد دوپہر ظہر تا عصر ہوتے تھے۔ اسی طرح گرمیوں میں صبح سات سے گیارہ اور بعد دوپہر وہی ظہر تا عصر۔ یہ مکتب کوئی سرکاری ادارہ یا کسی منظم سوسائٹی کا قائم کردہ نہیں تھا، بلکہ استادِ محترم اعزازی طور پر پڑھاتے تھے، اس لیے ٹائم ٹیبل تو طے تھا مگر باقاعدگی سے اور منظم انداز میں کلاسیں نہیں ہوتی تھیں۔ استادِ محترم کو اپنی معاشی ضروریات کے لیے بھی کچھ وقت اپنے مویشیوں اور فصلوں کی دیکھ بھال کے لیے صرف کرنا پڑتا تھا۔ اگرچہ ان کا ایک معاون درویش صوفی ابراہیم بھی ان کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ آپ زمین بٹائی پر کاشت کراتے تھے جس کا بیشتر رقبہ ان کے سسر بابا فضل الٰہی عرف بابا گڈے والا کاشت کرتے تھے۔ استادِ محترم کبھی اپنے کھیتوں پر جاتے ہوئے سینئر طلبہ و طالبات کو ذمہ داری سونپ جاتے کہ وہ فلاں فلاں طالب علم یا طالبہ کو ان کا سبق یاد بھی کرائیں اور سنیں بھی۔ اگر اس کام میں کوئی کوتاہی پاتے تو اس پر متعلقہ طلبہ کو سزا بھی دیتے۔ اس لیے پڑھنے اور پڑھانے والے سبھی طلبہ و طالبات بہت محتاط ہوتے۔

درس گاہ میں تعلیم کے زمانے کے بہت زیادہ خوش گوار واقعات کے ساتھ صرف ایک خوف ناک واقعہ رونما ہوا جس کو یاد کرکے ہمیشہ ریڑھ کی ہڈی میں ایک برقی لہر دوڑ جایا کرتی تھی۔ ہم ہر روز تین چار ساتھی اکٹھے گھروں سے ناشتا کرکے نکلتے اور چہل قدمی کے ساتھ چہل پہل کرتے ہوئے مکتب پہنچ جاتے۔ اسی طرح چھٹی ملنے پر بھی کھیلتے کودتے گھر پہنچ جاتے یا کبھی کسی کھیل کود میں لگ جاتے، اور جب طبیعت سیر ہو جاتی تو گھروں کو لپکتے۔ ہمارے گھروں سے مکتب کی طرف جاتے ہوئے راستے میں چار پانچ ایکڑ کا رقبہ گلی اور بڑی گزرگاہ (چھوٹی سڑک) کے درمیان ایسا تھا جہاں ہر موسم کے مطابق کوئی فصل ہوتی تھی۔ اُس زمانے میں گھروں میں باقاعدہ بیت الخلا (Toilets) نہیں ہوتے تھے۔ لوگ قضائے حاجت کے لیے دور کھیتوں میں جاتے تھے۔ خواتین کے لیے ہر محلے میں مخصوص علاقے ہوتے تھے جہاں مرد نہیں جایا کرتے تھے۔

ہمیں مدرسے سے واپس آتے ہوئے اگر پیشاب کرنا ہوتا تو راستے کے کھیتوں کی منڈیر پر فصلوں کے پردے میں بیٹھ کر پیشاب کرلیتے۔ ایک روز درس کے دوران مجھے پیشاب کی نالی میں شدید جلن محسوس ہوئی۔ چھٹی ہونے پر میں نے محسوس کیا کہ سخت پیشاب آرہا ہے۔ حسبِ معمول پیشاب کے لیے کھیت کی طرف گیا، مگر پیشاب کا ایک قطرہ بھی نہ نکلا۔ میں نے پوری کوشش کی، مگر ناکام۔ جلن شدید درد میں بدل گئی، مگر پیشاب بالکل خارج نہ ہوا۔ میری عمر چھ سال کے قریب تھی۔ میں سخت تکلیف میں بمشکل گھر تک پہنچا اور بزرگوں کو صورتِ حال بتائی۔ سبھی لوگ سخت پریشان ہوئے۔ کچھ لوگوں کو گھر بھی بلایا گیا، مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ پھر مجھے ہوش نہیں رہا کہ کیا ہوا۔

ذرا سا ہوش آیا تو میں نے محسوس کیا کہ کسی اجنبی جگہ پر میرے والد اور پھوپھی جان مجھے کسی سواری میں لے کر کہیں جارہے ہیں۔ چند لمحوں کے بعد مجھ پر پھر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ مجھے لالہ موسیٰ کے ایک اسپتال میں لے جاکر آپریشن کرایا گیا۔ مجھے اس سارے عمل کا کچھ پتا نہیں لگا۔ رات کو مجھے ہوش نہیں آرہا تھا، مگر پیشاب کی جگہ سخت درد تھا۔ رات کو مجھے کچھ دوائی گولیوں کی صورت میں دی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ شربت کا ایک چمچ وقفے وقفے سے پلایا جا رہا تھا۔ دوسرے یا تیسرے دن اسپتال سے چھٹی مل گئی اور ہم گھر آگئے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس تکلیف اور پریشانی کی یاد اب بھی آتی ہے تو رونگٹے کھڑے ہونے کے ساتھ اللہ کی نعمتوں اور صحت و عافیت کے انعام پر بے انتہا شکر ادا کرتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ بندہ اللہ کی نعمتوں کو گن نہیں سکتا اور اس کا رواں رواں شکر میں لگ جائے تو بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔

حکایاتِ رومی و سعدی کی طرح پنجابی میں بھی کئی سبق آموز حکایتیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک حکایت کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی بادشاہ شکار کے دوران اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا۔ گرمی کے موسم میں اسے شدید پیاس لگ گئی۔ ایک جانب اسے ایک جھونپڑا نظر آیا۔ اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر وہاں پہنچا۔ درخت کے نیچے ایک دیہاتی بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے پاس مٹی کا مٹکا اور پیالہ پڑا تھا۔ بادشاہ نے کہا: مجھے پانی کا ایک پیالہ پلا سکتے ہو؟ اس نے پہچان لیا کہ کوئی بڑا آدمی ہے۔ کہا: ہاں! پلا سکتا ہوں، مگر آپ اس کے بدلے میں کیا دیں گے؟ بادشاہ نے جواب دیا کہ اپنے مال و دولت کا آدھا حصہ دے دوں گا۔ دیہاتی نے اسے پانی کا پیالہ پلا دیا، پھر سوال کیا: اگر یہ پانی آپ کے جسم سے خارج نہ ہو تو آپ کیا کریں گے؟ بادشاہ نے کہا کہ اپنی دولت کا باقی آدھا بھی دے دوں گا۔ دیہاتی نے بڑی حکمت کے ساتھ کہا: بادشاہ سلامت! آپ کی اوقات اتنی ہی ہے کہ ایک پیالہ پانی بھی اس سے زیادہ قیمتی ہے۔

درس گاہ میں ہفتے میں چھ دن از ہفتہ تا جمعرات درس ہوتا تھا مگر جیسا کہ اوپر تذکرہ ہوا ہے، استادِ محترم کی بعض ذاتی مصروفیات اور ضروریات کی وجہ سے عملاً درس ساڑھے چار یا پانچ دن ہی ہوپاتا تھا۔ یوں یہ کوئی اس طرح کا ادارہ نہ تھا جہاں بہت نظم و ضبط اور قواعد کی کڑی پابندیاں ہوتی ہیں۔ بہرحال میں نے حفظِ قرآن میں اللہ کے فضل سے کبھی کوئی مشکل محسوس نہ کی۔ جو سبق پڑھتا اچھی طرح یاد کرکے سنا دیتا۔ منزل بھی روزانہ کبھی چوتھائی پارہ (ایک پائو)، کبھی نصف پارہ سنانا ہوتی تھی، وہ بھی بآسانی سنا لیتا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ استادِ محترم اس دور میں تمام طلبہ و طالبات کو میری مثال پیش کیا کرتے تھے۔ یقینا تعلیمی اداروں اور مکاتب میں ہر دور میں ایسا ہوتا ہوگا کہ کچھ طلبہ و طالبات کی تحسین کی جاتی ہوگی۔

بچپن کے ان واقعات کو یاد کرتے ہوئے مجھے اپنے دادا ابو بار بار یاد آتے ہیں۔ آپ کی خوراک بہت مختصر اور محدود تھی۔ لسی، مکھن اور ایک چپاتی صبح کو، بعد دوپہر مربہ آملہ اور سیب، اور شام کو دودھ اور چپاتی یا گندم اور جو کا دلیہ۔ آملے اور سیب کے مربے میں باقاعدہ میرا حصہ ہوتا تھا۔ میں آدھے سے زیادہ قرآن حفظ کرچکا تو دادا جان کی صحت جو پہلے ہی کمزور تھی، مزید بگڑ گئی۔ آپ دن بدن کمزور ہوتے چلے گئے۔ گھر میں عیادت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ میرا سبق سورۂ شعراء کے رکوع نمبر 5 میں تھا اور میں مسجد میں [اب درس گاہ ہماری جامع مسجد میں آچکی تھی] سبق یاد کررہا تھا۔ ابھی استادِ محترم کو سبق سنانا تھا کہ مسجد سے ملحق ہمارے گھر سے رونے کی آواز آئی۔ استادِ محترم نے اعلان کیا کہ سب طلبہ و طالبات چھٹی کریں۔

میں اور دوسرے کئی ساتھی سمجھ گئے کہ کیا سانحہ ہوا ہے۔ میں ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ گھر پہنچا تو بہت سی عورتیں گھر میں جمع تھیں اور رو رہی تھیں۔ میری پھوپھی جان تو پنجابی میں بین کررہی تھیں، انھیں سن کر میں بھی پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ میں نے اپنے والدِ محترم کو بھی پہلی بار اس روز روتے ہوئے دیکھا۔ میرا سبق قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حالات سے متعلق تھا۔ اس پورے رکوع کا ترجمہ یہاں دیا جارہا ہے:

’’اور انھیں ابراہیمؑ کا قصہ سنائو جب کہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پوچھا تھا کہ ’’یہ کیا چیزیں ہیں جن کو تم پوجتے ہو؟‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’کچھ بُت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں اور انھی کی سیوا میں ہم لگے رہتے ہیں۔‘‘ اس نے پوچھا ’’کیا یہ تمھاری سنتے ہیں جب تم انھیں پکارتے ہو؟ یا یہ تمھیں کچھ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں؟‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’نہیں! بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے۔‘‘ اس پر ابراہیمؑ نے کہا ’’کبھی تم نے (آنکھیں کھول کر) اُن چیزوں کو دیکھا بھی، جن کی بندگی تم اور تمھارے پچھلے باپ دادا بجالاتے رہے؟ میرے تو یہ سب دشمن ہیں، بحز ایک رب العالمین کے، جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے، جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا۔ اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا۔‘‘

اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی ’’اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر۔ اور مجھ کو صالحین کے ساتھ ملا۔ اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر۔ اور مجھے جنت نعیم کے وارثوں میں شامل فرما۔ اور میرے باپ کو معاف کردے کہ بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے ہے اور مجھے اُس دن رسوا نہ کر جب کہ سب لوگ زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے جب کہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلبِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔‘‘ (اس روز) جنت پرہیزگاروں کے قریب لے آئی جائے گی، اور دوزخ بہکے ہوئے لوگوں کے سامنے کھول دی جائے گی اور ان سے پوچھا جائے گا کہ ’’اب کہاں ہیں وہ جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے؟ کیا وہ تمھاری کچھ مدد کررہے ہیں یا خود اپنا بچائو کرسکتے ہیں؟‘‘

پھر وہ معبود اور یہ بہکے ہوئے لوگ اور ابلیس کے لشکر سب کے سب اس میں اوپر تلے دھکیل دیے جائیں گے۔ وہاں یہ سب آپس میں جھگڑیں گے اور یہ بہکے ہوئے لوگ (اپنے معبودوں سے) کہیں گے کہ ’’خدا کی قسم! ہم تو صریح گمراہی میں مبتلا تھے جب کہ تم کو رب العالمین کی برابری کا درجہ دے رہے تھے۔ اور وہ مجرم لوگ ہی تھے جنھوں نے ہم کو اس گمراہی میں ڈالا۔ اب نہ ہمارا کوئی سفارشی ہے اور نہ کوئی جگری دوست۔ کاش ہمیں ایک دفعہ پھر پلٹنے کا موقع مل جائے تو ہم مومن ہوں۔ یقینا اس میں ایک بڑی نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔‘‘ (سورۃ الشعرا آیت: 69تا 104، رکوع:5)

میرے دادا جان کی رحلت کے وقت میرا سبق سورۂ شعرا کا پورا رکوع نمبر 5تھا۔ میں جب بھی قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے اس حصے پر پہنچتا ہوں تو دادا جان مرحوم شدت سے یاد آتے ہیں اور میں ان کے لیے بہت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بلندیِ درجات کی دعائیں مانگتا ہوں۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض ہے کہ تلاوت کرتے ہوئے ہفتے میں ایک قرآن پاک مکمل ہوجاتا ہے۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے تلاوت جاری رہتی ہے، کبھی کسی مقام پر اس کی تکمیل ہوتی ہے، کبھی کسی وادی میں، ملک کے اندر بھی اور بیرون ملک بھی بارہا یہ لمحات آئے۔ جب قرآن پاک ختم کرتا ہوں تو اُس وقت بھی یہ خیال آتا ہے کہ اگرچہ ختمِ قرآن کے موقع پر آمین کے نام پر ایک بہت بڑی تقریب ہمارے گھر میں منعقد ہوئی تھی جس میں میرے والدین نے پورے گائوں کی پُرتکلف ضیافت کی۔ البتہ اس موقع پر اگر مرحوم زندہ ہوتے تو اس تقریب کی شان ہی کچھ اور ہوتی۔ بہرحال یہ میرے ذاتی تاثرات تھے جو میں نے صفحۂ قرطاس پر منتقل کردیے ہیں۔ (جاری ہے)