(چوتھا باب)
درحقیقت کانٹ کی مراد یہ ہے کہ ’جمالیاتی بصیرت‘ بڑے خاصے کی چیز ہے۔ اس کا ابتدائی اظہار ’حُسن‘ کی اصطلاح سے کیا جاسکتا ہے۔ جیسے مثال کے طور پر ہم یہ کہیں کہ یہ آدمی بہت حسین ہے۔ یہ ہمارے تجربے کی صورت اور قطعیت سے برآمد ہوتا ہے۔ ایک شے کے اندر خواہ وہ فن پارہ ہو، نظم ہو یا موسیقی… فنکار اور ناظرین دونوں کی جانب سے یہ ’جمالیاتی ذوق‘ سامنے آتا ہے۔ اس بصیرت کا انحصار صورت کی داخلی قطعیت پر ہے۔ اس کا تعلق کسی ماورائی حقیقت سے نہیں بلکہ آدمی کے اندر موجود جمالیاتی بصیرت سے ہے۔ یہ ایک فنکارانہ تجربے میں تلاش کی جاسکتی ہے۔ کانٹ اسے تصور کا آزادانہ کھیل کہتا ہے۔ اس طرح خارج کی پابندیوں سے آزاد ذہن ’خودکار غایت‘ بن جاتا ہے، یہ خود اپنے معنی بن جاتا ہے، خود ہی اپنا اختتام، آئینہ، اور بالاخر چراغ بن جاتا ہے۔
یہ ہے وہ حسِ جمالیات جسے کانٹ ’’مقصدیت بغیر مقصد‘‘ کہتا ہے۔ کیونکہ جو اپنی داخلی قطعیت پر مطمئن ہے اور خود کو کسی بھی خارجی ہدف سے روک لیتا ہے، وہ مقصود پالیتا ہے۔ مگر کسی خارجی پابندی سے آزاد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ’آرٹ‘ کسی نظم کا پابند نہیں۔ ایسا نہیں ہے، ہماری حسِ جمالیات تصور کی قوت سے اپنا نظم خود قائم کرتی ہے، جو خارجی دنیا کے انتشار سے اسے محفوظ رکھتا ہے۔ درحقیقت تصور اصولوں پر غور ضرور کرتا ہے مگر یہ خود آوردہ ہیں۔ یہاں ہمیں رومانیت پسند جمالیات، علامتیت، آرٹ برائے آرٹ کی جڑیں ملتی ہیں۔
ہر جمالیاتی تجربہ کسی مخصوص معروض کا ردعمل ہے، مگر اس کا مطلب اس کا آفاقیت سے تہی دست ہونا نہیں ہے۔ کانٹ کے لیے حُسن دیکھنے والے کی آنکھ کا سادہ منظر نہیں ہے۔ وہ سمجھتا ہے جمالیاتی بصیرت کی لطافت اپنی اصل میں ’آفاقی‘ ہے۔ یہ کائناتی سطح پر قابلِ کلام ہے، یہ محض چند ذہین افراد کی اہلیت نہیں، جمالیاتی حس ایک ایسی معروضی خاصیت ہے جو ہر کسی کو حاصل ہے اور وہ فن کی گہرائی کا مشاہدہ کرسکتا ہے اور دوسروں کو اس کا شریک بناسکتا ہے۔ جمالیاتی اشیاء واضح طور پر روزمرہ کی عام اشیا سے مختلف ہیں۔ جمالیاتی اشیا سے تصور قطعیت حاصل کرتا ہے۔ مثال کے طور پر جوتوں کا ایک جوڑا دیکھنا عام سا تجربہ ہے، مگر جب جوتوں کا یہی جوڑا معروف مصور وین ہوہ کے فن پارے میں منقش کسان کے پاؤں میں نظر آئے گا تو انوکھا احساس اور جمالیاتی معنی دے گا۔ یہ جوتوں کا جوڑا اپنے اندر ایک مکمل اور منفرد اظہار ہے، یہ کسی تجربی حقیقت سے بے نیاز ہے۔
آرٹ کے کلاسیکی اور جدید فلسفوں میں اختلاف بہ مشکل ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ کانٹ یہاں متضاد محسوس ہوتا ہے۔ جب افلاطون آرٹ کے غیر عملی کردار کی مذمت کرتا ہے، کانٹ اُس کی تائید کرتا ہے۔ جب قدما جمالیاتی تصور کی فرض کی گئی خودمختاری کا تمسخر اڑاتے ہیں، کانٹ ان کی افضلیت تسلیم کرتا ہے۔ تاہم داخلی آزادی کے ساتھ کانٹ کا ماورائی تصور آدمی کے اظہار کا استحقاق بن کر پیش قدمی کرتا ہے۔ درحقیقت کانٹ کے بعد تصورکا یہ آزادانہ کھیل آرٹ کے جدید نظریات میں مرکزی حیثیت حاصل کرلیتا ہے۔
جمال سے جلال تک
کانٹ تخلیقی تصور کے مثبت کردارکا احاطہ کرتا ہے۔ وہ آرٹ کی حدوں میں اس کی مکمل آزادی کا قائل ہے۔ اس نظریے کا رومانیت پسند تحریک پرگہرا اثرپڑتا ہےجو ’سماجی حقیقت پسندی‘ اور ’صنعتی معاشرہ سازی‘ کی دنیا سے بالکل الگ تھلگ دنیا ہے۔ کانٹ کہتا ہے کہ تصور اور ادراک کے درمیان ایک ہم آہنگی کام کرتی ہے، یہ ایسا آرٹ ہے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس میں زندگی کا احساس منطق سے الگ ہو جاتا ہے۔ کانٹ قطعی طور پرتخلیقی تصور کو احساسات کی دنیا بیان کرتا ہے اور پیش بینی کرتا ہے کہ رومانیت پسند سائنس اورآرٹ کے درمیان اختلاف قائم کریں گے۔ کانٹ کے جمال سے جلال تک کے سفرمیں، جمالیات کی رومانوی جہت شاید سب سے نمایاں ہے۔ درحقیقت یہ تقسیم کانٹ نے پیدا نہیں کی، ایڈیسن، ہچیسن، اور برک یہی بات دیگراصطلاحوں میں پہلے کرچکے تھے۔ مگریہ کانٹ نےسب سے پہلے واضح کیا کہ ان دونوں (حس اور فہم) کا تصور کی تخلیقی سرگرمی سے تعلق کس طرح ایک نظام کی صورت میں کام کرتا ہے۔
تنقیدِ بصیرت میں اس کا بیان ہے کہ ’تفہیم‘ وہ خانہ ہےجہاں جمال اور جلال (beauty and sublime)کی فکری حالتیں راحت بخش ہوتی ہیں، اورتخلیقی شہکارتشکیل دیتی ہیں۔ ’جلال‘ تخلیقی عمل کی انتہائی حالت ہے، یہ ہماری قوتِ بصیرت کی اوج ہے۔ یہ بڑی جلالی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ کیفیت کیوں طاری ہوتی ہے؟ کیونکہ یہ نہ صرف عام فہم تصورات سے ماوراہوتی ہے بلکہ خود تصورکی صورتوں سے بھی فائق ہوجاتی ہے۔ تصورکی یہ حالت حدوں سے آگے ’حالتِ انکار‘ یا ’حالت ِفنا‘ پرپہنچ جاتی ہے۔ یہ ’جلال‘ حُسن سے ہم آہنگ مناسبت کے لیے خطرہ بھی بن جاتا ہے۔ یہ تصورکونئی بلندیوں پر لے جاتا ہے کہ جن کی پیمائش اور گہرائی تک جانا امکان سے ماوراہے۔ ایسا تصور عالمِ ’نامعلوم‘ کے کھوج پراکساتا ہے۔ یہ انتشارکی صورتوں میں نظم کی نئی صورتیں تلاش کرتا ہے۔ اس کانٹین جلال کے بارے میں میری وارنوک کہتی ہیں: ’’تخلیقی تصورکی کارگزاری میں یہ ایک ایسی کیفیت ہے جوہمارے حساس خیالات متحرک کرتی ہے مگر انہیں ظاہری یا حسی طورپرنمایاں نہیں کرتی۔‘‘
’جلال‘ ہماری موضوعی داخلیت کا احساس گہرا اور کشادہ کردیتا ہے، جیسا کہ کانٹ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ”انسانی ذہن یہ (جلالی)کیفیت خود پر طاری کرسکتا ہے“۔ لہٰذا کوئی کہہ سکتا ہے کہ جلال تصورکی لامحدود دنیا کا سفرہے، کہ جسے عام صوری اصطلاحوں میں واضح نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ جلالی کیفیت ’راحت بخش‘ سے زیادہ ’حیران کُن‘ معلوم ہوتی ہے۔ ہم آدمی کی قوتِ تخیل کے معاملے میں کمالِ حیرت کی زد میں ہیں۔ تخیل کی پروازمیں ہم فہم کی حدوں سے نکل جاتے ہیں۔ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ جوکچھ ہم دیکھتے ہیں اورمحسوس کرتے ہیں، یہاں تک کہ اندر کی آنکھ سے مشاہدہ کرتے ہیں حقیقتیں اُن سے ماورا ہیں۔
کانٹ کی Critique of judgment (تنقید ِبصیرت) میں ’’تصور‘‘ کی جوتعریف بیان کی گئی ہے وہ بہت مبہم ہے۔ حُسن کے بارے میں تصوراپنی آزاداورخود مختار قوت کا اظہار کرتا ہے۔ مگر’جلال‘ کے معاملے میں تصوراپنی طاقت ’عجز‘میں ظاہرکرتا ہے۔ یہ ایسی لامتناہیت کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ یوں فنکارانہ تصور ایک علامت کے طور پر کام کرتا ہے، اور یہ ہمیں کانٹ کی مبہم اصطلاح mind’s suprasensible province(ذہن کا ماورائے حس حصہ) کی جانب لے جاتا ہے۔ آرٹ یہاں اس قدر رفعت اختیار کرلیتا ہے کہ ’علامتیں‘ تخلیق کرتا ہے۔ یہ علامتیں ایسی معنی خیز ہوتی ہیں کہ ذہن انہیں پوری طرح گرفت میں نہیں لے پاتا۔ اور نتیجتاً مشاہدہ کرنے والے کے ذہن پر ’کسی پراسرار حد تک عظیم شے‘ کی آگاہی پیدا کرتا ہے۔ مگر اس پراسرار عظیم شے کی مکمل شناخت معطل کردی گئی ہے۔ کانٹ ایک ایسے غیر واضح تعلق کی جانب اشارہ کرتا ہے جو عقلی دلائل اور ’ذہین مفکر‘ کے جمالیاتی نظریات میں ہے۔ گوکہ کانٹ کے ’تصور‘ کے بارے میں یہ نظریات فکرانگیز ہیں، مگر کسی واضح فکر کا کم ہی امکان رکھتے ہیں۔
اس بارے میں کوئی زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہے کہ جمالیاتی تصورات کی کارگزاری تمثیل کے علامتی طریقے پر کام کرتی ہے۔ جمالیاتی حس وجود کی نامعلوم گہرائیوں تک رسائی رکھتی ہے۔ یہاں فنکار کی انفرادیت کا انحصار جمالیاتی حس کے برتنے پر ہے کہ آیا وہ کس طرح تخلیقی قوت کو کام میں لاتا ہے۔ یہاں کانٹ کا افلاطونیت سے اختلاف غیر معمولی ہے۔ افلاطون کی ’ریاست‘ کے برعکس، کانٹ آرٹ کو اخلاقی خیر سے مطابقت میں دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دونوں ہم آہنگ ہیں مگر ایک جیسے نہیں۔ یہ باہم تعامل کرتے ہیں۔ وہ اس یقینی الجھاؤ پر بہ اصرار ’جلال‘ کو تصور کے عقلی دلائل اور جمالیاتی نظریات سے جوڑتا ہے۔ کانٹ یہ دونوں رستے اختیار کرتا ہے۔ یہ کچھ ایسا ہے جیسے وہ دونوں پر ایمان رکھنے کا خواہش مند ہو۔ وہ تصور کی بالادستی بھی مستحکم رکھنا چاہتا ہے اور دلیل کی حدبندی بھی کرنا چاہتا ہے۔ ان دونوں کا تنازع کانٹ کے ہاں ناقابلِ حل ہی رہتا ہے۔ جرمن مثالیت پسند اور بہت سے رومانیت پسند جنہوں نے کانٹ کی پیروی کی، انہوں نے اس معمے کو حل کرنا چاہا اور اس کے لیے تصور اور دلیل کے کامل اختلاط کی کوشش کی۔ انہوں نے تصور کی اس ’انسان پرست‘ قبولیت کے انقلابی نتائج بغیر کسی پشیمانی سینے سے لگائے۔
جرمن مثالیت پسندی، فشٹے اور شیلنگ
جرمن مثالیت پسندی کی تحریک پر کانٹ کا اثر عمومی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاہم کانٹ کے ماورائی تصور کے ابتدائی کلیے اور بعد کے مثالیت پسندوں فشٹے اور شیلنگ کی تھیوریز کے موازنے پرتحقیق میں باقاعدگی کم ہی دیکھی گئی۔ اس کی وجہ بلاشبہ کانٹ کی سرکاری ’عقلیت پرست‘ تشریحات ہیں جنہیں انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے آغاز پر نیوکانٹین فلسفے میں بڑی پذیرائی ملی۔ ہائیڈیگر وہ پہلا جدید فلسفی ہے جس نے اس غفلت کی نشاندہی کی۔ وہ ’کانٹ بک‘ میں لکھتا ہے ”کانٹ کے فلسفہ تصور کا معاصرین پرگہرا اثر ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ فشٹے، شیلنگ، اور جیکوبی نے اپنے اپنے مخصوص انداز میں ’’تصور‘‘ کے ضروری کردار کی تحسین کی۔“
اس سرسری اشارے کو تفصیل سے پھیلانے کی ضرورت ہے۔ شیلنگ اورفشٹے کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ماورائی تصور کے غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش کی اور اس کو ایک ایسے نکتے پہ پہنچا دیا کہ مذہبی قواعد وضوابط اور ان کا روایتی ’تصورِ علم‘ زائل ہوکر رہ گیا۔ کانٹ جیسا کہ ہم نے دیکھا اسی رخ پر آگے بڑھ رہا تھا مگر آخر میں وہ پیچھے ہٹ گیا، اور اس طرح کے اطلاق سے گریز کیا۔ کانٹ کی قدامت پرستی اور روایت کے لیے احترام واضح تھا۔ روایت کا احترام اس کے ہاں اخلاقی تھیوری اور جمالیاتی تھیوری دونوں میں ملتا ہے۔ وہ جرمن مثالیت پسند جنہوں نے کانٹ کا اتباع کیا، اس حد بندی کو مٹا دینا چاہتے تھے اور ذہن کے سارے خانوں کو تخلیقی تصور کے لیے وقف کردینا چاہتے تھے۔ یہ انقلابی پیشرفت ابھرتی ہوئی عرفانی اور باطنی تحریکوں کے احیا کی وجہ سے ہوئی تھی۔ کانٹ کے بعد کے مثالیت پسندوں کی فکر کے مرکزی محرکات عارفانہ اور باطنی تھے۔
The vocation of man میں فشٹے نے کانٹ کی مشہور ’تقسیم‘ ایک طرف رکھ دی، کہ جس میں ایک دنیا کو جانا جاسکتا تھا جب کہ دوسری دنیا سمجھ سے ماورا تھی۔ وہ اعلان کرتا ہے کہ خواہ وجود خودی میں واحد اور لامتناہی کیوں نہ ہو، براہِ راست ’خالص ماورائی مثالیت پسندی‘ کی ملکیت ہے۔ فشٹے اپنی پوزیشن واضح کرتا ہے، وہ ’’تصور‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے اسے ہمارے شعور، زندگی، اور وجود کا انتہائی امکان قرار دیتا ہے۔ وہ کانٹ کی اس دریافت، کہ ’تصور‘ اور ’ماورائی انا‘ میں قریبی تعلق ہے، پر قیاسی اطلاقات کرتا ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ موضوعیت پر سارے حتمی تجزیے بشمول عقلی دلائل صرف ’تخلیقی تصور‘ کی مدد سے ہی ممکن ہوئے ہیں۔ ’دلیل‘ خود تصور کی طاقت سے ہی قابلِ شناخت بن پاتی ہے اور پھر ’اصل وجود کے روحانی نظم‘ تک رسائی دیتی ہے، ایک ایسا نظم جہاں یہ ’خالص سرگرمی تنہا کافی ہوجاتی ہے، اور کسی بھی خارجی دلیل کی ضرورت سے بے نیاز ہوجاتی ہے، کامل آزادی سے ہمکنار ہوتی ہے‘۔ ’تصور‘ اور ’آزادی‘ میں شاید ہی اس سے زیادہ شفاف مساوات ظاہر کی جاسکے۔ دوسرا عظیم جرمن مثالیت پسند شیلنگ فٹشے سے بھی دو قدم آگے بڑھ کردلائل دیتا ہے۔ اپنی عظیم کتاب The System of Transcendental Idealism جو 1800ء میں شایع ہوئی، میں وہ بڑے ولولے سے دعویٰ کرتا ہے کہ ’تخلیقی اورتجزیاتی تصورہی نظام منطق اور فلسفہ کا نقطہ کمال ہے‘۔ یہ متن کہ جو بہت سے رومانیت پسند فن کاروں کے لیے ایک قسم کا فلسفیانہ منشورتھا، ’تصور‘ کی تعریف میں کہتا ہے کہ یہ ایسی ’تخلیقی قوت‘ ہے جس نے مغربی ماوراالطبیعات، آزادی اور ضرورت، وجود اور بننے کا عمل، کائناتی اور مخصوص، ابدی اور عارضی، یہاں تک کہ انسانی اور آسمانی کے درمیان مخالفتوں میں مصالحت قائم کردی۔ یہاں ’تصور‘ سارے مسائل کا اکسیر اعظم ہے۔ یہ انتشار میں نظم ہے۔ الجھن میں سلجھن ہے۔ کائنات میں یہی اول وآخر ہے۔ درحقیقت کوئی بھی یہ باور کرنے میں غلطی نہیں کرے گا کہ شیلنگ نے وجودیاتی الٰہیاتی کی آسمانی تعریف ’تخلیق کار وجود‘ میں ڈھال دی ہے۔ یہ آدمی کے انسان پرست ’تخلیقی تصور‘ کی تعریف ہے۔ شیلنگ سمجھتا ہے کہ ماورائی مثالیت پسندی نے قدیم مابعدالطبیعات کا خاتمہ کردیا ہے اور یہی نئے رومانیت پسند دور کا آغاز ہے۔ اس فیصلہ کن موڑ نے انسان پرست اسلوب پر تاریخ فلسفہ کی ازسرنو تشریح کے قابل بنادیا ہے۔ شیلنگ نے بھرپور عزم کے ساتھ عارفانہ اور سائنسی فکر میں مصالحت کی کوشش کی، جو اُس کے انداز اور پیشکش کی انتہائی صورت تھی۔ شیلنگ اور اُس کے متبعین ساحرانہ تشکیلات، کہاوتوں کے چیستاں، اور مہمل باتیں پیش کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ منطقی قضیے خیالی انہماک کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ یہاں فلسفے کا شاعری کی زبان سے باقاعدہ قرب حادثاتی نہیں ہے۔ یہ فلسفے کے انتہائی مواد میں اہم تغیر کی بات کرتا ہے۔ شیلنگ لکھتا ہے ”معروضی عالم ہی دراصل روح کے حال کی شاعری ہے“۔ آرٹ اور فلسفہ دونوں کا کام ایسی شعوری شاعری خلق کرنا ہے جو وجود کے حال کی صورت گری کرتی ہے۔ یہ ماورائی شاعری ہی دراصل تخلیقِ مسلسل ہے۔ اس عمل میں سارے انسان یکساں طور پر تخلیقی تصور کی مدد سے حصہ لیتے ہیں۔ ماورائی شاعری کا یہ نظریہ یقیناً کانٹ کے فلسفہ تصور ’نامعلوم کی جڑ‘ کی بازگشت ہے۔ مگر شیلنگ یہاں ایک قدم اور آگے جاتا ہے۔ وہ روزمرہ زندگی میں تصور کے ماورائی تخلیقی عمل اور آرٹ اور فلسفہ میں اس کے شعوری تخلیقی عمل میں تعلق بیان کرتا ہے۔ شیلنگ فطرت اور آرٹ کے درمیان وہ تضاد ڈھارہا ہے جو افلاطون سے کانٹ تک رائج رہا تھا۔ بلاشبہ شیلنگ ہمیں باور کرواتا ہے کہ بشمول عقلی نظریات کے، ’تصور‘ فطرت اور آرٹ، دنیا کی اصل اشیا اور ثقافت کی مثالی چیزیں دونوں خلق کرتا ہے۔ مختصراً یہ ’’تصور‘‘ نظمیں اور کائناتیں دونوں خلق کرتا ہے۔ شیلنگ یہ کہہ کر بات ختم کرتا ہے کہ فنکارانہ ذہانت عام فہم لوگوں سے جُدا ہوتی ہے کیونکہ فنکار اپنے شعوری، لاشعوری تصور کی وحدت سمجھ لیتا ہے۔ اور جو راحت آرٹ کی توصیف سے ملتی ہے وہ اسی پوشیدہ اور ظاہر تخلیقی عمل کی ’ہم آہنگی‘ کا تجربہ ہے۔
شیلنگ کہتا ہے کہ تمام فطرت میں زندگی صرف پنہاں کارگزاری میں عیاں ہے۔ اور اگر یہی پوشیدہ عملِ تخلیق ایک آرٹسٹ میں کام کرے تو وہ فطرت سے ہم آہنگی اختیار کرے گا۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آرٹسٹ فطرت کا ماتحت یا محتاج ہے، بلکہ شاعرانہ ذہن کی کارگزاری کو لاادری عملِ تخلیق سے بلند ہونا چاہیے اور آرٹ کے ذریعے شعور میں منظر خلق کردکھانا چاہیے۔ اس طرح ایک فلسفی ایک شاعر سے رہنمائی حاصل کرتا ہے، کہ جو نہ صرف عالم کی تخلیقی ساخت کی تشریح کرتا ہے بلکہ اس تخلیقی عمل میں سرگرمی سے شریک ہوتا ہے اور اُفق تک آزادانہ وسعت اختیار کرتا ہے۔ تاہم یہ بلند بانگ دعوے یقیناً آدمی کے تصور پر الوہی ذہن کی نشاندہی کرتے ہیں۔ شیلنگ تسلسل سے آسمانی تصورات اور تصور کی علامات مساوی طور پر پیش کرتا ہے۔ اس طرح وہ الوہی اور انسانی تخلیق کے درمیان درجہ بندی ڈھا دیتا ہے۔ شیلنگ تصور کے بارے میں روایتی سوچ، کہ تصور خدا کے اصل وجود کی نقل در نقل ہے، کا خاتمہ ضرور کرتا ہے، مگر تصور کا یہ آفاقی اطلاق بھی ’’روشن خیال تحریک‘‘ کے لیے ایک للکار ہے، کہ جس کا اصرار ہے کہ ’’تصور‘‘ عقل کا تابع ہے۔
رومانیت پسند تحریک نے روایت اور روشن خیال عقلیت پرست دونوں کے نظریہ تصور کو الٹا کردیا۔ بہت سے مبصرین نے اسے محتاط بلکہ مخاصمانہ رویّے کے طور پر دیکھا۔ اپنی کتاب Imaginationمیں میری وارنوک نے اسے عقلیت پرست ماحول کے شدید بگاڑ میں دیکھا۔ وہ یقین رکھتی ہے کہ وہ واضح تقسیم جو کانٹ سے چلی آرہی تھی کہ کیا جانا جاسکتا ہے اور کیا نہیں جانا جاسکتا! اب ایک حقیقت بن چکی تھی۔ جرمن مثالیت پسند، جو کانٹ کے بعد ظاہر ہوئے تھے، تصور کی قدر میں عقل، حس، عالم وجود، اور آفاقیت سے اضافہ کرچکے تھے۔ اس طرح کثرت میں وحدت کے انکشاف کا سہرا ’’تصور‘‘ کے سرجاتا ہے، اور کیا اس طرح یقیناً ہم سے ماورا کسی علم یا تشریح کی گنجائش باقی نہیں رہتی؟ یعنی تصور کے سوا کچھ نہیں جو اپنی تخلیق مسلسل کا لامتناہی کھیل آزادی سے کھیل رہا ہے؟
(جاری ہے)