(تیسری اور آخری قسط)
22جولائی 2009ء کو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ سابق فوجی حکمران 3 نومبر 2007ء کے اقدامات کے حوالے سے اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے 29 جولائی کو عدالت میں پیش ہوں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب کسی سابق فوجی حکمران کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے کہا گیا ہو، تاہم وہ پیش نہیں ہوئے۔ یکم اگست 2009ءکو سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ پرویزمشرف کا 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی نافذ کرنا اور ان کے پی سی او غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں۔ عدالت نے انہیں جواب جمع کرانے کے لیے 7 روز کی مہلت دی، تاہم وہ عدالتی نوٹس کو خاطر میں لانے اور اپنے خلاف درج مقدمات کا سامنا کرنے کے بجائے 6 اگست 2009ء کو پاکستان چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے۔ 2011ء تک جنرل پرویزمشرف امریکہ اور برطانیہ کی مختلف جامعات میں لیکچر دیتے رہے۔ اس دوران اُن کے کچھ بہی خواہوں نے آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کے نام سے سیاسی جماعت بنا ڈالی جس کے سربراہ پرویزمشرف تھے۔
24 مارچ 2013ء کو وہ خودساختہ جِلاوطنی ختم کرکے الیکشن 2013ء میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس آئے، اور ساتھ ہی مختلف حلقوں سے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرادیے۔ ان کے خلاف 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کی بنیاد پر سنگین غداری کا مرتکب ہونے کے باعث انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی درخواست عدالت میں جمع کرائی گئی۔ سینئر وکیل اے کے ڈوگر نے انتخابات کے دوران آرٹیکل 62 اور 63 پر سختی سے عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ کو پرویزمشرف کے 3 نومبر 2007ءکے اقدام کا حوالہ دیا، جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا۔ 29 مارچ 2013ء کو سندھ ہائی کورٹ نے پرویزمشرف کی ضمانت میں توسیع کی، تاہم حکم دیا کہ وہ بغیر اجازت ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔ فیصلے کا اقتباس پڑھتے ہوئے عدالت نے مؤقف اپنایا کہ آئین معطل کرکے پرویزمشرف نے سنگین غداری کی ہے۔
وکلا تنظیموں کی جانب سے سپریم کورٹ میں پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی گئی۔ سپریم کورٹ نے 5 اپریل 2013ء کو سنگین غداری ایکٹ 1973ٰء کی دفعہ 2 اور 3 کے تحت پرویزمشرف کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے انہیں عدالت طلب کیا۔ عدالت نے وزارتِ داخلہ کو پرویزمشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا بھی حکم دیا۔ 7 اپریل 2013ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس دوران لال مسجد کیس، بے نظیر بھٹو قتل کیس میں مقدمات کے اندراج کے باعث پرویزمشرف کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 18 اپریل 2013ء کو پرویزمشرف ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود سے فرار ہوگئے۔ تاہم 19 اپریل 2013ء کو پرویزمشرف نے ججوں کو حراست میں لینے کے کیس میں مجسٹریٹ عدالت کے آگے سرنڈر کردیا۔ اسلام آباد میں ان کے فارم ہاؤس چک شہزاد کو ”سب جیل“ قرار دے دیا گیا۔
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت جلد ہی پرویزمشرف کے خلاف مقدمہ شروع کرنے والی ہے۔ اُس وقت وزیراعظم نوازشریف نے 24 جون 2013ء کو قومی اسمبلی اجلاس کے دوران بتایا کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ سے پرویزمشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کی درخواست کرے گی۔ 26 جون 2013ء کو اُن کی طرف سے پرویزمشرف کے خلاف ایف آئی اے انکوائری کے لیے خط لکھا گیا۔ خط میں وزارتِ داخلہ کو حکم دیا گیا کہ وہ پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کی خصوصی ٹیم تشکیل دے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے خصوصی عدالت میں پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کے 5 الزامات عائد کیے۔ وزیراعظم کے خط کی بنیاد پر وزارتِ داخلہ نے ایف آئی اے کی ٹیم تشکیل دے دی۔ 16 نومبر کو ایف آئی اے نے انکوائری مکمل کرکے وزارتِ داخلہ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی اور پھر 13 دسمبر 2013ء کو انکوائری رپورٹ کے تناظر میں لاء ڈویژن کی مشاورت سے پرویزمشرف کے خلاف شکایات درج کرائی گئیں۔
پرویزمشرف کا سب سے بڑا جرم آئین کی معطلی قرار پایا، اس لیے اُن کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دی گئی، جس نے پہلی بار سابق صدر کو 24 دسمبر کو عدالت طلب کیا، تاہم جب وہ عدالتی حکم پر حاضر نہیں ہوئے تو 31 مارچ 2014ء کو پرویزمشرف پر فردِ جرم عائد کی گئی۔ پرویزمشرف نے اپنے خلاف صحتِ جرم سے انکار کیا تو ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا جس کے بعد 18 ستمبر 2014ء کو پراسیکیوشن نے پرویزمشرف کے خلاف شہادتیں مکمل کیں۔ شہادتیں مکمل ہونے پر پرویزمشرف کو بطور ملزم بیان ریکارڈ جمع کرانے کا کہا گیا۔
2 جنوری 2014ء کو پرویزمشرف کو سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت لے جاتے ہوئے دل کے عارضے کی وجہ سے عدالت کے بجائے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی) پہنچا دیا گیا۔ عدالت نے طبی بنیادوں پر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری نہ کیے۔ اے ایف آئی سی نے 7 جنوری کو پرویزمشرف کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں بتایا گیا کہ سابق آرمی چیف کے دل کی تین شریانیں بند ہیں اور انہیں دیگر آٹھ بیماریاں بھی لاحق ہیں۔ خصوصی عدالت نے اے ایف آئی سی کو سابق صدر کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے میڈیکل بورڈ بنانے اور رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔ مذکورہ بورڈ نے اپنی رپورٹ میں پرویزمشرف کی حالت کو ”سنگین“ قرار دیتے ہوئے ان کا علاج ان کی مرضی کے مقام پر کرنے کی تجویز دی۔
خصوصی عدالت نے 7 فروری کو پرویزمشرف کو سنگین غداری کیس میں دوبارہ پیش ہونے کا کہا۔ 18 فروری 2014ء کو 22 سماعتوں میں عدم پیشی کے بعد پرویزمشرف عدالت میں پیش ہوئے، اس دوران دفاع نے موقف اپنایا کہ ان کے خلاف کیس کی سماعت فوجی عدالت میں ہونی چاہیے، جس کی بناء پر عدالت ان پر فردِ جرم عائد نہیں کرسکی، البتہ دلائل کے بعد 21 فروری 2014ء کو خصوصی عدالت نے حکم جاری کیا کہ سابق آرمی چیف کا فوجی عدالت میں ٹرائل نہیں ہوگا۔ بالآخر 30 مارچ 2014ء کو پرویزمشرف پر سنگین غداری کیس میں دوبارہ فردِ جرم عائد کی گئی، تاہم انہوں نے اس بار بھی جرم ماننے سے انکار کردیا۔
3 اپریل 2014ء کو پرویزمشرف نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ اُن کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے تاکہ وہ بیرون ملک جاسکیں، تاہم حکومت نے یہ درخواست مسترد کردی۔ فوج اس ساری صورتِ حال کا بغور جائزہ لیتی رہی۔ بالآخر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ ”حالیہ دنوں میں ادارے (فوج) پر ہونے والی تنقید کے ردعمل میں فوج اپنا وقار اور ادارے کے فخر کا تحفظ کرے گی“۔ اس کے بعد پرویزمشرف کے بیرونِ ملک جانے کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی۔
14مئی 2014ء کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پرویزمشرف پر غیر قانونی طور پر 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے ”ناقابلِ تلافی“ شواہد پیش کیے، تاہم سندھ ہائی کورٹ نے12 جون 2014ء کو وفاقی حکومت کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ”سابق صدر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی کوئی وجہ پیش نہیں کی گئی ہے“۔ 13 جون 2014ء کو خصوصی عدالت نے بھی پرویزمشرف کی 2007ء کی ایمرجنسی کے معاون، تجویز و تائید کنندگان اور اس کو نافذ کرنے والوں کی تفصیلات کی درخواست مسترد کردی۔ 14 جون 2014ء کو حکومت نے سپریم کورٹ میں سندھ ہائی کورٹ کے پرویزمشرف کو بیرونِ ملک سفر کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کی۔ عدالتِ عظمیٰ نے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات اپیل کے زیر التوا ہونے تک معطل کردیے، جس کے تحت پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
8 ستمبر 2014ء کو پرویزمشرف کی قانونی ٹیم نے 2007ء میں ایمرجنسی عائد کرنے کے حوالے سے اُس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کے کردار سے متعلق اہم ثبوت کی طرف نشان دہی کی۔ 15 اکتوبر 2014ء کو سابق صدر کی قانونی ٹیم نے خصوصی عدالت سے پرویزمشرف کے تمام ساتھیوں کا ٹرائل ایک ساتھ کرنے کی درخواست کی۔ 21 نومبر 2014ء کو خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت کو غداری کیس میں اپنی درخواست دوبارہ جمع کرانے کی ہدایت کی اور چارج شیٹ میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز، اُس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے نام شامل کرنے کا کہا۔ 22دسمبر 2015ء کو پرویزمشرف نے کہا کہ انہوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت دیگر سیاسی و عسکری رہنماؤں سے مشاورت کے بعد ایمرجنسی نافذ کی۔
2013ء میں آئین سے غداری کیس کی متعدد سماعتوں سے جنرل پرویزمشرف گریز کرتے رہے۔ بعد ازاں 14 مارچ 2016ء کو پرویزمشرف نے دوبارہ طبی بنیادوں پر بیرونِ ملک جانے کی اجازت طلب کی۔ 16 مارچ 2016ء کو سپریم کورٹ نے پرویزمشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کو ملزم کی غیرحاضری میں سماعت شروع کرنے کا اختیار دے دیا۔ 18 مارچ 2016ء کو پرویزمشرف یہ وعدہ کرتے ہوئے علاج کے لیے دبئی روانہ ہوئے کہ وہ چند ہفتوں میں وطن واپس لوٹ آئیں گے، لیکن وہ کبھی واپس نہ آئے۔ عدالتی کارروائی سے مسلسل غیرحاضری پر خصوصی عدالت نے 11 مئی 2016ء کو سنگین غداری کیس میں پرویزمشرف کو پہلے مفرور اور بعد ازاں اشتہاری قرار دے دیا۔
10نومبر 2017ء کو پرویزمشرف نے پاکستان عوامی اتحاد (پی اے آئی) کے نام سے 23 سیاسی جماعتوں کے ”گرینڈ الائنس“ کا اعلان کیا۔ 29 مارچ 2018ء کو جسٹس یحییٰ آفریدی کی جانب سے سنگین غداری کیس کی سماعت سے معذرت کے بعد خصوصی عدالت کا بینچ تحلیل ہوگیا، جسے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دوبارہ تشکیل دے دیا۔ 31 مئی 2018ء کو وزارتِ داخلہ نے خصوصی عدالت کے احکامات کی روشنی میں نادرا اور ڈائریکٹوریٹ جنرل امیگریشن اور پاسپورٹ کو پرویزمشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ معطل کرنے کی ہدایت کی۔
جون 2018ء میں سپریم کورٹ نے پرویزمشرف کو اس شرط پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی کہ وہ عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہوں گے۔ پرویزمشرف نے کہا کہ وہ پاکستان واپس آنے کے لیے تیار تھے لیکن گرفتاری کے خدشے کے باعث انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا۔ 11 جون 2019ء کو سپریم کورٹ نے نادرا کو پرویزمشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا۔
3 اگست 2018ء کو خصوصی عدالت نے فیصلہ کیا کہ پرویزمشرف کے بیرونِ ملک جانے کی وجہ سے رکنے والا ٹرائل 20 اگست سے دوبارہ شروع ہوگا۔ جان کو خطرات لاحق ہونے کا بہانہ بنا کر پرویزمشرف نے غداری کیس میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے صدارتی سیکورٹی دینے کا مطالبہ کیا۔ 29 اگست 2018ءکو دورانِ سماعت خصوصی عدالت کو بتایا گیا کہ پرویزمشرف کو متحدہ عرب امارات سے پاکستان واپس لانے کے لیے انٹرپول نے ان کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے سے انکار کردیا ہے۔ عدالت نے انہیں وطن واپس لانے کا تقاضا کیا تو اس دوران پرویزمشرف کی پارٹی اے پی ایم ایل کےاعلیٰ عہدیدار نے انکشاف کیا کہ پرویزمشرف کو Amyloidosis کی بیماری لاحق ہے جس کے باعث انہیں کھڑے رہنے اور چلنے میں مشکلات ہیں۔19 نومبر 2018ء کو خصوصی عدالت نے پرویزمشرف کے وکیل سے کہا کہ وہ اپنے موکل کو وطن واپسی کے لیے قائل کریں تاکہ سنگین غداری کیس کی کارروائی آگے بڑھے۔
31 مارچ 2019ء کو سپریم کورٹ نے پرویزمشرف کو حکم دیا کہ وہ غداری کیس میں 2 مئی کو خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہوں ورنہ وہ اپنے دفاع کا حق کھو دیں گے۔ یکم اپریل 2019ء کو چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے خصوصی عدالت کے لیے حکم جاری کیا کہ پرویزمشرف اگر مقررہ تاریخ تک اپنا بیان ریکارڈ نہیں کراتے تو وہ غداری کیس کو اُن کے بیان کے بغیر ہی آگے بڑھائے۔11 جون 2019ء کو سپریم کورٹ نے نادرا کو پرویزمشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا۔ اس دوران غداری کیس میں پراسیکیوشن سربراہ نے استعفیٰ دے دیا۔
8 اکتوبر 2019ء کو خصوصی عدالت نے فیصلہ کیا کہ 24 اکتوبر سے غداری کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔ خصوصی عدالت نے اپنی سماعت مکمل کرتے ہوئے کہا کہ پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ 28 نومبر کو سنایا جائے گا۔ وزارتِ داخلہ اور پرویزمشرف کے وکیل نے فیصلہ روکنے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔ اس دوران پرویزمشرف نے غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی جوکہ عدالت نے سماعت کے لیے منظور کرلی۔ 27 نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کو پرویزمشرف کے خلاف فیصلہ سنانے سے روک دیا۔ 28نومبر 2019ء کو خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کی سماعت میں اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ 3 ججوں پر مشتمل بینچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے پابند نہیں۔ اسی روز لاہور ہائی کورٹ نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوٖظ کرنے کے خلاف دائر درخواست میں وفاقی حکومت کو 3 دسمبر تک مکمل ریکارڈ جمع کروانے کا حکم دیا۔
3دسمبر 2019ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ خصوصی عدالت اس کے فیصلے کی پابند ہے۔ اسی روز لاہور ہائی کورٹ نے پرویزمشرف کی درخواست پر وفاقی حکومت کو سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کیس کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کے لیے وقت دیا۔ 3 دسمبر ہی کو پرویزمشرف کو امراض قلب اور فشار خون (بلڈ پریشر) کے حوالے سے پیچیدگیوں کے باعث دبئی کے اسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔
سنگین غداری کیس میں 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں، اس دوران 4 جج تبدیل ہوئے، عدالت نے متعدد مرتبہ پرویزمشرف کو حاضر ہونے کا حکم دیا اور وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ 4دسمبر 2019ء کو پرویز مشرف نے دبئی کے اسپتال سے جاری ویڈیو پیغام میں کہا کہ ”اس کیس میں میری سنوائی نہیں ہورہی، صرف یہی نہیں کہ میری سنوائی نہیں ہورہی بلکہ میرے وکیل سلمان صفدر کو بھی نہیں سن رہے، میری نظر میں بہت زیادتی ہورہی ہے اور انصاف کا تقاضا پورا نہیں کیا جارہا۔“
5 دسمبر 2019ء کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں استغاثہ کو 17 دسمبر تک کی مہلت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس تاریخ کو دلائل سن کر فیصلہ سنا دیں گے۔ 10 دسمبر 2019ء کو لاہور ہائی کورٹ نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے کے خلاف سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کی درخواست پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو سیکریٹری داخلہ سے ہدایت لے کر پیش ہونے کا حکم دیا۔ 12 دسمبر 2019ء کو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر توفیق آصف نے سابق صدر کے خلاف خصوصی عدالت میں سنگین غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔
16 دسمبر 2019ء کو لاہور ہائی کورٹ نے پرویزمشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کی کارروائی رکوانے کے لیے دائر کی گئی متفرق درخواستوں پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ 17 دسمبر 2019ء کو لاہورہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پرویزمشرف کی جانب سے دائر درخواستوں پر فل بینچ بنانے کی سفارش کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔ اِسی روز جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویزمشرف کو سزائے موت سنا دی۔ انہیں دو ایک کے فرق سے سزا سنائی گئی تھی۔ عدالت نے ہر جرم کے بدلے میں انہیں ایک بار سزائے موت دینے کا حکم دیا۔ خصوصی عدالت نے اس کیس کا 169 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ بھی 19دسمبر 2019ء کو جاری کردیا، جس میں جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ بھی شامل تھا۔ بعد ازاں پرویزمشرف نے اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا جس نے اس سزا کو معطل کردیا۔
اس دوران پرویزمشرف دبئی کے اسپتال میں زیرِ علاج رہے جہاں 5 فروری 2023ء کو اُن کا انتقال ہوگیا۔ اُنہیں تدفین کے لیے پاکستان لایا گیا۔ اس کے بعد اُن کی فیملی نے پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت میں دلچسپی لینا ترک کردی۔ 10 جنوری 2024ء کو سپریم کورٹ میں اس کیس کی ایک بار پھر سماعت ہوئی۔ پرویزمشرف کے وکیل سلمان صفدر پیش ہوئے اور انہوں نے دلائل دیے کہ پرویزمشرف کی فیملی سے بار بار کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہورہا، انہیں اب اس کیس میں دلچسپی نہیں رہی۔ عدالت نے پرویزمشرف کو خصوصی عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزائے موت کو لاہور ہائی کی طرف سے کالعدم قرار دینے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پرویزمشرف کی سزائے موت کا خصوصی عدالت کا فیصلہ بعد از مرگ برقرار رکھنے کا حکم جاری کردیا۔