معاشرے کی صحت کا دارومدار صحتِ خیال پر ہوتا ہے، اور کسی خیال کی صحت کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ خیال اپنے آس پاس موجود خیالات کی اقلیمات سے تصادم و تقابل اور اثر پذیری و اثراندازی کی کتنی صورتیں پیدا کرتا ہے۔ جس طرح سونے کا کھرا پن آگ سے گزر کر ہی ظاہر ہوتا ہے بالکل اسی طرح کسی خیال کی اصلیت اُسی وقت ظاہر ہوسکتی ہے جب وہ دوسرے خیالات کی سلگتی ہوئی بھٹی سے گزرے۔ سونے کا میل کچیل آگ سے صاف ہوتا ہے اور خیال کا خیال سے۔ خیال دوسرے خیال کی بھٹی سے گزرنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ میلا ہوجاتا ہے اور اس کے گرد جھوٹی تقدیس کے ہالے وجود میں آنے لگتے ہیں۔ وہ خیال سے زیادہ ایک بت بن جاتا ہے، اپنی نرمی اور لچک سے محروم ہوکر ایک ٹھوس شے بن جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ ہم اسے معاف کرنے لگتے ہیں۔ یقین جانیے خیال کی عظمت اس کے بت بننے میں نہیں ہے۔
بعض لوگ اس خیال کے حامل ہوتے ہیں کہ ہر خیال کے اظہار کی آزادی نہیں دی جاسکتی۔ اس سلسلے میں اُن کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ انسان برائی کی طرف جلد مائل ہوجاتا ہے، اس لیے ہر طرح کے خیال کی آزادی دینے سے معاشرے میں برائی پھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بظاہر یہ بات درست نظر آتی ہے مگر ہے نہیں۔
آزادیِ اظہارِ خیال کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منفی رجحانات کا حامل فرد بھی یہ سمجھتا ہے کہ معاشرہ اس کے خیالات کو سننے کے لیے تیار ہے، جس کے باعث وہ معاشرے سے بہرحال ایک تعلق محسوس کرتا ہے اور معاشرتی Alienation کا شکار نہیں ہوتا۔ معاشرے کا منفی خیالات کو برداشت کرنے کا یہ جذبہ بجائے خود ایک تہذیبی خدمت ہے۔ آزادیِ خیال کے نتیجے میں معاشرے کی حقیقی مثبت قوتوںکو بھی یہ موقع ملتا رہتا ہے کہ وہ تخریبی یا منفی رجحانات کا جواب دے کر اپنی معنویت کو مسلسل دریافت کرتی اور چمکاتی رہیں۔ اس عمل کے باعث معاشرے کے افراد کی عظیم اکثریت کا ایمان تازہ رہتا ہے اور وہ ذہن کی Deadness نہیں بنتا۔
معاشرے کا سرسری جائزہ اس بات کی گواہی دے گا کہ آزادیِ خیال کے خلاف وہی افراد ہوتے ہیں جن کی ذہنیت ٹھیکے دارانہ ہوتی ہے۔ ٹھیکے دارانہ ذہنیت رکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ صداقت یا سچائی کو دوسروں سے تسلیم کروانا ان کی ذمہ داری ہے۔ جی نہیں، خیر یا صداقت کو اپنے پھیلائو کے لیے آپ کی ضرورت نہیں، آپ کا کام بس اتنا ہی ہے کہ اپنی پوری ذہنی و جسمانی توانائی اور خلوصِ نیت کے ساتھ خیر کو لوگوں کے سامنے پیش کردیں۔ لوگ اسے مانتے ہیں تو اس میں اُن کا اپنا فائدہ ہے۔ نہیں مانتے تو اُن کا اپنا نقصان ہے۔ آپ کا کام بس اتنا ہی ہے۔ خدا نے آپ کو اتنی ہی ذمہ داری دی ہے جتنی آپ کے پاس صلاحیت ہے۔ اگر آپ اپنی ذمہ داریوں کو اپنی فطری صلاحیتوں سے بڑھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اپنے آپ کو ہمیشہ ناکافی محسوس کرتے ہوئے اس امر کی کوشش کریں گے کہ صداقت کو کسی نہ کسی طرح منوائیں۔
’’حق آیا اور باطل چلا گیا… بے شک باطل کو چلے جانا ہے۔‘‘ اس عظیم پیغام کو یاد رکھیے۔ اگر آپ حق ہیں تو باطل سے گھبرانا کیسا؟ اسے ہر شکل میں اپنے سامنے آنے دیجیے۔ اگر وہ باطل ہے تو بالآخر مٹ جائے گا۔ لیکن گزارش یہ ہے کہ اپنے خیر کا سفاکی اور غیر جانب داری کے ساتھ جائزہ لیتے رہیے۔ دیکھیے کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کا خیر شر بن گیا ہو اور دوسرے کا شر خیر بن گیا ہو۔ اگر اس جائزے کے بعد بھی آپ کا دل گواہی دے کہ آپ ہی حق پر ہیں تو اس پر جم جایئے اور آزادیِ اظہارِ خیال کی صورت کو بحال رکھیے۔ یہ خود آپ کے اپنے خیال کی توانائی کے لیے ضروری ہے۔ انسانی عقل کا منظرنامہ آئندہ صدی میں جس بنیاد پر استوار ہوتا نظر آتا ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے۔ خیر یہ تقاضا تو ہمیشہ سے رہا ہے، بس یہ ہے کہ اب یہ زیادہ واضح اور شدید ہوگیا ہے۔ بقول محشر بدایونی کے:
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہو گی وہ دِیا رہ جائے گا
جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ہر طرح کی آزادیِ اظہارِ خیال سے معاشرے میں برائی اور فساد پھیلنے کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں موجود خیر اتنا کمزور ہے کہ برائی کا سامنا نہیں کرسکتا۔ اگر کسی معاشرے میں خیر کی قوت اتنی ہی کمزور ہے تو وہ خیر کے لیے خود ایک شر ہے، بلکہ شر سے زیادہ شر ہے، کیوں کہ اس کا شر سے آنکھیں چار نہ کرنے کا عمل اس کی فطرت اور اس کے مقصدِ وجود کے سراسر منافی ہے۔ اگر آپ کا ایمان اتنا ہی کمزور ہے کہ شر کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو اسے فنا ہی ہوجانا چاہیے۔ اگر کسی کی عصمت اتنی کمزور ہے کہ ایک فقرے سے زائل ہوجائے تو اسے زائل ہی ہوجانا چاہیے۔
اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ اظہارِ خیال کی آزادی سے پھیلنے والی برائیوں کا خیال اکثر اوقات محض ایک مفروضہ ہوتا ہے۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ عام طور پر اس طرح کے خیال کے پسِ پشت کوئی تاریخی حوالہ نہیں ہوتا۔ ذرا خیال کیجیے کہ اپنے بنیادی تہذیبی و ثقافتی روّیوں کا تعین محض مفروضوں کی بنیاد پر کرنا کتنا مضحکہ خیز ہے؟
اس سلسلے میں تیسری بات یہ ہے کہ بالفرض اگر کوئی بات یا شے برائی ہے تو اس برائی کو اظہار میں نہ آنے دینے سے برائی کا وجود ختم تو نہیں ہوجاتا۔ اگر آپ آتش فشاں کے دہانے کو بند کرکے یہ سمجھ لیںکہ اب وہ کبھی نہیں پھٹے گا تو اسے آپ کی حماقت ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ آتش فشاں، دہانے کی بندش کے بعد اپنے زیر زمین موجود اثرات کے دائرے کو وسعت دے گا اور پھر وہ زمین کے کئی کمزور خطوں سے پھٹ کر بہے گا اور زیادہ تباہی پھیلائے گا۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ آزادیِ اظہارِ خیال پر پابندی کی باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ جیسا ایمان اُن کے پاس ہے ویسا ہی دوسروں کے پاس ہوگا۔
جیسے خیر کے وہ مالک ہیں دوسرے افراد بھی ویسے ہی خیر کے مالک ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جس چیز کو وہ اپنے لیے مضر سمجھتے ہیں اسے دوسروں کے لیے بھی نقصان دہ خیال کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے اصولوں کی Generalization اسی طرح کی ذہنیت سے برآمد ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذہنیت ہر صورت میں شدت سے مسترد کیے جانے کے قابل ہے۔
اہلِ علم جانتے ہیں کہ جب کوئی تخریبی خیال اظہار میں آجاتا ہے تو اس کی آدھی تخریبی قوت ختم ہوجاتی ہے، اس کی شدت بھی کم ہوجاتی ہے، کیوں کہ اظہار میں آتے ہی اسے وسعت کے پیمانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ نے دیکھا یا سنا ہوگا کہ دریا کا طوفانی پانی جب میدانوں کا رُخ کرتا ہے تو اپنی آدھی شدت سے محروم ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب چیز اظہار میں آجاتی ہے، منظرِ عام پر آجاتی ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔ لیکن جو چیز منظرِعام پر نہ ہو اُس سے نمٹنے کے لیے کوئی مؤثر اور واضح منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی۔ اور جن خیالات، تصورات اور قوتوں سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی نہ کی جاسکتی ہو، وہ تصورات، خیالات اور قوتیں ایک اندیشہ، ایک تشویش بن جاتی ہیں۔ یہ تشویش ہر وقت ہمارے اعصاب پر سوار رہتی ہے اور ہماری بیشتر ذہنی صلاحیتیں کسی تخلیقی کام پر صرف ہونے کے بجائے اس تشویش پر صرف ہونے لگتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر یہ تخریبی قوتیں اظہار میں آجائیں تو ہم بہت کم ذہنی صلاحیتوں کے استعمال کے ذریعے ان کا بڑی عمدگی سے تدارک کرسکتے ہیں۔ آج ہمارے پورے معاشرے میں اپنے انفرادی اور اجتماعی وجود کی بقا کے بارے میں جو تشویش پائی جاتی ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ہمارے انفرادی اور اجتماعی باطن میں کیسے کیسے فتنے موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں دوسروں پر کیا خود اپنے اوپر اعتبار نہیں۔ ہم میں سے ہر ایک شخص ایک پُراسرار وجود ہے اور دوسرے سے خوف زدہ ہے۔