کشمیر کے ہیرو افضل گوروکی گیارہویں برسی

وادیِ کشمیر کے عوام کے لیے زندگی ایک ایسے خوفناک ڈرامے کا منظر بن کر رہ گئی ہے جو ایک مقام پر رک گیا ہے۔ دہائیوں سے اس منظر کا ایکشن ری پلے جاری ہے۔ جور و ستم کا وہی انداز جو روزاوّل سے اپنایا گیا تھا، سر جھکانے اور حوصلے توڑنے کی وہی کوششیں، تعزیر وعتاب کے وہی طریقے ناموں اور کرداروں کی تبدیلی کے ساتھ جاری ہیں۔

ایک دور میں کسی کردار کا نام مقبول بٹ ہوتا ہے، توکچھ مدت گزرنے کے بعد وہ کردار افضل گورو کی شکل میں، اور کچھ اور وقت گزرجانے کے بعد برہان وانی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اسی طرح جبر کا کوڑا تھامنے والے کرداروں کو کسی دور میں اندراگاندھی، کسی دور میں من موہن سنگھ اور نریندر مودی کہا جاتا ہے۔ دنیا بدل گئی، سرد جنگ ختم ہوگئی، یونی پولر منظر کا عبوری دور بھی اب آخری ہچکیاں لے رہا ہے اور اس کی جگہ ملٹی پولر دنیا کی تشکیل قریب قریب مکمل ہوچکی ہے۔ وسط ایشیا سے مشرقی یورپ تک آزادیوں کی فصل کو لہلہاتے ہوئے بھی زمانے گزر گئے مگر کشمیریوں کے لیے وقت تھم کر رہ گیا ہے۔ 9 فروری2013ء کو حریت پسند رہنما محمد افضل گورو کو بھارتی عدالت کے ذریعے پھانسی کی سزا دی گئی۔

افضل گورو 1969ء میں منی پاکستان کہلانے والے قصبے سوپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سوپور کے تعلمی اداروں سے حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سری نگر کے جہلم ویلی میڈیکل کالج میں داخلہ لیا، اسی دوران وہ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کا حصہ بنے۔ بھارتی حکام نے انہیں 13دسمبر2001ء کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ بھی ایک ایسا فالس فلیگ آپریشن ہے جسے بھارت نے مغرب کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے’’نائن الیون‘‘ کے طور پر پیش کیا، اور یوں مظلومیت کا ایک مشترکہ رشتہ قائم کرلیا۔ اس حملے کو دنیا بھر میں سب سے بڑی جمہوریت پر حملہ بناکر پیش کیا گیا۔ بھارت نے افضل گورو پر ’’پوٹا‘‘ کے متنازع اور سیاہ قانون کے تحت مقدمہ قائم کیا۔ ان کے مقدمے کے ابہامات پر بھارت کی عدالتوں نے کبھی توجہ نہیں دی کیونکہ اُس وقت بھارت میں جمہوری ایوان پر حملے کے نام پر جذباتی ماحول اور فضا بنادی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی ایک کے بعد دوسری عدالت سے ان کے خلاف فیصلے آنے لگے۔ ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ نے بھی ان کی سزائے موت برقرار رکھی۔ افضل گوروکے یوم شہادت پر کشمیری غم وسوگ مناتے ہیں اور یہ واقعہ ان کے دکھوں میں ایک اور اضافہ ثابت ہوا۔ آج بھی ان کی برسی پر کشمیری عوام ہڑتالوں اور مظاہروں کے ذریعے اپنا بھرپور ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ آزمودہ کار سیاسی کارکنوں سے منظر خالی ہونے کے باوجود تازہ دم نوجوان آزادی کا علَم لیے میدانِ عمل میں نکل آتے ہیں۔

وادی میں بھارت نے 5 اگست2019ء کے فیصلے کو قبول کرنے کے لیے عوام پر خوف ودہشت کی رات مسلط کر رکھی ہے، مگر کشمیری عوام سروں کے چراغ ہتھیلیوں پر رکھ کر میدانِ عمل میں موجود ہیں۔ کشمیری عوام کا روزِ اوّل سے مطالبہ تھا کہ بھارت محمد افضل گورو اور محمد مقبول بٹ کے اجسادِ خاکی کو کشمیر منتقل کرے تاکہ ان شہدائے وطن کو پورے اعزاز سے خاکِ وطن کا کفن پہنایا جائے۔

محمد افضل گورو کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی اور بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کا جواز پیش کیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ عدالت نے یہ فیصلہ محض اپنے عوام کو خوش کرنے کی خاطر کیا تھا۔ ظلم کی حد یہ کہ افضل گورو کی پھانسی سے پہلے نہ تو اہلِ خانہ سے ان کی ملاقات کرائی گئی اور نہ ہی ان کا جسدِ خاکی ورثاء کے حوالے کیا گیا۔ اس سے پہلے11فروری 1984ء کو دہلی کی اسی تہاڑ جیل میں معروف حریت پسند محمد مقبول بٹ کو اسی طرح انتقام اور ردعمل میں پھانسی دی گئی تھی اور ان کے جسدِ خاکی کو بھی تہاڑ کے کسی گوشے میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔ اُس وقت بھی کشمیری عوام ان کا جسدِ خاکی مانگ رہے تھے، مگر بھارتی حکومت ان کے غم زدہ بھائیوں کو گرفتار کررہی تھی۔ بھارت کا یہ رویہ کشمیریوں کے دلوں کو زخمی کررہا تھا، اور ان زخموں کی ٹیسیں بعد میں کشمیریوں کی ایک زوردار مزاحمت کی شکل میں سامنے آئی تھیں۔ اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے بھارت وقفے وقفے سے کشمیری رہنمائوں کو بَلی چڑھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افضل گورو کی پھانسی کو دنیا بھر کے منصف مزاج قانونی اور سیاسی ماہرین نے عدالتی قتل قرار دیا۔ ظلم کی انتہا یہ کہ بھارت کشمیریوں کو پھانسی دیتا ہے تو پھر ان کی لاشیں بھی اس خوف سے ورثاء کے حوالے نہیں کرتا کہ یہ مزار جدوجہدِ آزادی کے نشان اور علامتیں بنیں گے اور کشمیری عوام ان سے طاقت اور توانائی حاصل کرتے رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ نظریاتی طاقت اور توانائی حاصل کرنے کے لیے قبروں کا ہونا یا نہ ہونا اہمیت نہیں رکھتا، اصل بات اُس مقصد کی ہوتی ہے جس کی خاطر شہدا نے اپنی جان قربان کی۔ افضل گورو نے آزادی جیسی عظیم نعمت کی خاطر اپنی جان قربان کی۔ اس حقیقت کا ادراک کشمیری عوام کو پوری طرح ہے، اسی لیے کشمیری عوام اپنے متعین کردہ راستے سے سرموانحراف کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔

بھارت نے افضل گورو کو پھانسی دے کر بے نام و نشان بناکر رکھ دیا تو برہان وانی کی صورت میں ایک نیا ہیرو کشمیری معاشرے کو مل گیا، اور برہانی کے بعد سرفروشوں کی ایک پوری قطار کھڑی ہوگئی۔ یوں بھارت کے ظلم اور کشمیریوں کے صبر میں ایک نہ ختم ہونے والی آنکھ مچولی جاری ہے۔

عمومی تاثر یہی تھا کہ کانگریس اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے اور بی جے پی سے ہندو شاونزم کا انتخابی کارڈ چھیننے کے لیے کشمیر کے معروف حریت پسند محمد افضل گورو کی سزائے موت پر عمل درآمد کرسکتی ہے۔ یہاں تک کہا جارہا تھا کہ بھارتی حکومت گجرات کے انتخابات سے پہلے افضل گورو کی سزائے موت پر عمل درآمد کرنا چاہتی ہے تاکہ نریندر مودی اس مسئلے کو انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال نہ کرسکیں،کیونکہ نریندر مودی نے اجمل قصاب کی پھانسی پر یہ بے ساختہ تبصرہ کیا تھا کہ ’’افضل گورو کا کیا ہوا جو اجمل قصاب سے پہلے جرم کا مرتکب ہوا، حالانکہ افضل گورو نے تو جمہوریت کی علامت پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا!‘‘کانگریس نریندر مودی کے اس تبصرے سے یہ نتیجہ اخذ کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ وہ گجرات کے انتخابات میں افضل گورو کی پھانسی کو انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اجمل قصاب اور افضل گورو کا معاملہ یکسر جدا تھا۔ افضل گورو ایک معروف حریت پسند تھے۔ ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ آزادی کی اس تحریک کی حمایت میں گزرا ہے جس کی حمایت کسی عسکری گروہ تک محدود نہیں بلکہ اس تحریک میں کشمیر کی 90 فیصد آبادی شامل رہ چکی ہے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد سے اگر کشمیر میں ایجی ٹیشن جیسی صورتِ حال پیدا ہو تو بلاشبہ لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل کر آزادی کے حق میں اپنا فیصلہ سنادیں۔ یہ نسل در نسل عوامی جدوجہد ہے جس میں ایک طرف بھارت اپنی فوج اور لائو لشکر کے ساتھ شریک ہے تو دوسری طرف کشمیری عوام اس جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

بعض اوقات فیصلے سیاسی مصلحت کی اسیر عدالتیں نہیں کرتیں بلکہ عوام کا اجتماعی ضمیر کرتا ہے۔ افضل گوروکشمیر کے ہر گھر کا ہیرو تھا اور صاف نظر آرہا تھا کہ اس کی موت کشمیر کو ایک بار پھر بغاوت کا الائو بنادے گی۔ بعد میں یہی بات درست ثابت ہوئی۔ کشمیر میں احتجاج اور مزاحمت کی ہر تحریک میں افضل گورو کے عدالتی قتل کا غصہ نمایاں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کشمیریوں کا اجتماعی ضمیر اسے ایک قاتل اور دہشت گرد کے بجائے جدوجہد کی علامت سمجھتا تھا۔ بھارت کا الزام تھا کہ افضل گورو2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا مرکز ی کردار ہے۔اس کے اقدام سے کئی بھارتی شہری ہلاک ہوگئے ہیں، اس لیے بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے اسے سزائے موت کا مستحق جانا ہے۔ مگر بھارت نے افضل گورو کا اوپن ٹرائل کبھی نہیں ہونے دیا۔ اس طرح انصاف کا بنیادی پہلو نظرانداز کردیا گیا۔ پھر بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا وہ وقت تھا جب بھارت کی ساڑھے سات لاکھ فوج کشمیر میں بدترین مظالم ڈھا رہی تھی۔ روزانہ درجنوں لوگ شہید کیے جارہے تھے، خواتین کی آبروریزی کے واقعات عام تھے،کشمیر میں بھارت کے خلاف نفرت کا آتش فشاں پھٹ چکا تھا اورکشمیر ایک مکمل جنگ زدہ علاقہ تھا جہاں دونوں طرف سے ایک دوسرے پر شدید حملے جاری تھے۔ کشمیرعالمی طور پر ایک متنازع مسئلہ بھی ہے۔ ایسے میں کشمیر کے وہ تمام باشندے جنہوں نے بھارت کے خلاف کسی نہ کسی سطح پر مسلح مزاحمت کی اور گرفتار ہوئے، جنگی قیدی کے زمرے میں آتے ہیں۔ جنگی قیدیوں کے ساتھ باغیوں والا سلوک روا نہیں رکھا جا سکتا۔ افضل گورو کے معاملے میں بھارت ان بنیادی حقیقتوں کو نظرانداز کیے ہوئے ہے۔ افضل گورو کے اہلِ خانہ کی طرف سے رحم کی اپیلیں اور اس کے اوپن ٹرائل کی تمام درخواستیں مسترد کی جاتی رہیں۔ اس کی پھانسی سے کچھ ہی دن پہلے کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹویٹر پر ایک پیغام میں لکھا تھا کہ ان کی خواہش تو یہ ہے کہ افضل گورو پھانسی کے پھندے پر جھول جائے۔ عمر عبداللہ کے اس بیان کے کچھ ہی روز بعد بھارت کے صدرِ جمہوریہ پرناب مکھرجی نے 6 دوسری درخواستوں کے ساتھ افضل گورو کی رحم کی اپیل بھی وزارتِ داخلہ کو تبصرے اور رہنمائی کے لیے واپس بھجوا دی، جبکہ بھارت کے وزیر داخلہ کی طرف سے پہلے ہی کہا گیا تھا کہ ایک بار فائل ان تک پہنچے تو وہ اڑتالیس گھنٹے میں گورو کی سزائے موت کا معما حل کردیں گے۔ کشمیری حریت پسندوں نے اسے افضل گورو کی رحم کی اپیل کے استرداد کا اشارہ جان کر اپنا شدید ردعمل ظاہر کیا تھا۔ جبکہ اجمل قصاب کی پھانسی کے بعد انتہا پسند ہندوئوں نے افضل گورو کی سزائے موت پر عمل درآمد کا مطالبہ شروع کردیا، حتیٰ کہ بھارت کے انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز نے اس پر ”Afzal Guru rope used to hang Ajmal Kasab”کے عنوان سے تبصرہ کیا تھا۔ اس خبر کی سرخی میں ہی اس کا سارا متن اور تجزیہ نگار کا مقصد و مدعا بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ گویا کہ افضل گورو کے لیے بننے والی رسّی اجمل قصاب کے لیے استعمال ہوئی۔ اخبار نے اس کی تاویل یہ دی کہ افضل گورو نے 2001ء میں اپنے جرم کا ارتکاب کیا تھا اور 2004ء سے سزائے موت کا منتظر ہے، جبکہ اجمل قصاب نے 2008ء میں جرم کیا تھا۔ جس شخص کو پہلے پھانسی ملنی چاہیے تھی اس کے بجائے بعد میں جرم کرنے والے کو پھانسی دی گئی۔ تہاڑ جیل کی کال کوٹھڑی میںسزائے موت کے منتظر افضل گورو کی طرف اُٹھنے والی انگلیوں نے کشمیر میں بے چینی کے آثار پیدا کردیے تھے۔ یہ خدشات درست ثابت ہوئے اور 9 فروری2013ء کو بھارتی حکومت نے افضل گورو کو عدالت کے ایک غیر منصفانہ اور سیاسی فیصلے کی بنیاد پر تختۂ دار پر چڑھا دیا، مگر اس کے چند ہی برس بعد برہان وانی یہی علَم اُٹھا کر میدان میں آکر بھارت کا دردِ سر بن گیا۔