اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں کراچی کے مینڈیٹ پرڈاکہ:حافظ نعیم الرحمٰن کا نشست چھوڑنے کا اعلان

کراچی کے لوگوں کا سوال ”کیاآپ نوجوانوں کے ہاتھوں میںبندوق دے کر ان کو اسٹریٹ کرمنل بنانا چاہتے ہیں؟“

کراچی میں انتخابات کو جس طرح چرایا گیا ہے اُس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی جیتی ہوئی سیٹوں کو ایم کیو ایم کی جھولی میں ڈال دیا۔ اس پر پورا کراچی اضطراب اور احتجاج میں ہے۔ گلی گلی، محلہ محلہ ایک ہی بات کی جارہی ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ نے کراچی کو پھر سے خون میں نہلانے کا فیصلہ کرلیا ہے؟ آخر کراچی سے ان کی کیا دشمنی ہے؟ اس وقت عالمی اور مقامی میڈیا سمیت سیاست و صحافت کے کھلاڑی کراچی کے پورے انتخابی عمل کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں، کراچی کی چالیس سے زائد سیٹوں پر پٹیشن دائر کردی گئی ہے۔

کراچی کی سیاست اور سماجی ماحول کو جو شخص بھی جانتا ہے وہ اگر الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاکر کراچی کے فارم 45کو ایک نظر پڑھ لے تو اس کی ہنسی نہیں رکے گی، صرف ایک مثال دے رہا ہوں:

کراچی کے انتخابی حلقےNA-236 میں سب کے نتائج کو چھوڑیں، صرف ایک کو دیکھیں کہ پاکستان ڈیفنس موومنٹ نامی پارٹی کے کھاتے میں 5765ووٹ ڈال دیے گئے ہیں۔ اب نام سے ہی اندازہ کرلیں کہ یہ پارٹی کون ہے اور اس کو کن فرشتوں نے ووٹ دیے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو اور کراچی کو مذاق بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو کراچی کے عوام پر مسلط کرنے کے کھیل کو پذیرائی نہیں مل رہی ہے، اور نتیجہ یہ ہے کہ کھیل بنانے والے پریشان ہیں اور صورت حال نئے طریقے سے مینج کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

آخر کراچی کے ساتھ انتخاب والے دن اور اس کے بعد ہوا کیا ہے؟ اب یہ سوشل میڈیا اور میڈیا پر موجود ہے۔ کراچی میں کھیل یہ ہوا کہ پہلے تو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے لوگوں کو بیلٹ پیپر فراہم کیے گئے اور ان کے لوگ پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ بکس میں جعلی ووٹ ڈالنے میں کہیں کامیاب ہوئے، کہیں ناکامی کا ٓشکار ہوئے۔ پھر اس کے ساتھ رینجرز اور پولیس کے سائے میں بعض پولنگ اسٹیشنوں پر جدید اسلحے کے ساتھ حملے بھی کیے گئے۔ لیکن کیونکہ عوامی طاقت ان کے پاس نہیں تھی اور ردعمل بڑا تھا تو جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے لوگوں نے عوامی مزاحمت سے کئی مقامات پر ان کے حملوں اور جعلی ووٹ ڈالنے کے عمل کو ناکام بھی بنایا اور کئی جگہ رینجرز کی وجہ سے یہ کامیاب بھی ہوئے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب دھاندلی کا کام ریاست اور پوری اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں ہو تو کیا ہوسکتا ہے؟ جب پولنگ والے دن اس طرح کی سازش کو ناکام بنایا گیا تو انہوں نے آراوز اور ڈی آراوز کے ذریعے نتائج تبدیل کردیے، اور اِس بار تو ایسا کام کیا کہ لوگ حیران ہیں۔ فارم47 پر جیتنے والے کے ووٹ فارم 45 کے برخلاف بڑھاکر لکھ دیے گئے اور مخالفین کے کم کردیے گئے۔ ایسی اندھیر نگری کہ پوری دنیا ششدر و حیران ہے۔ کراچی کے لوگ ایک ہی سوال پورے ریاستی نظام سے کررہے ہیں کہ کراچی کی قومی و صوبائی اسمبلی کی تمام نشستوں پر جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواران نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں تو ان کا حق انہیں کیوں نہیں ملا؟

اس ساری صورتِ حال میں جماعت اسلامی میدانِ عمل میں ہے اور وہ جعلی مینڈیٹ کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے نتائج ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کے ساتھ سڑکوں پر عوام کا مقدمہ لڑرہی ہے۔ اسی پس منظر میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کی اعلیٰ ظرفی سامنے آئی ہے کہ انہوں نے پی ایس 129 کی اپنی سیٹ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے کو بہت پذیرائی ملی ہے۔

حافظ نعیم نے کراچی کے انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دینے، سپریم کورٹ کی سطح پر عدالتی کمیٹی تشکیل دے کر نتائج کی فارنزک تحقیقات کرانے اور فارم 45کے مطابق حقیقی اور درست نتائج جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے قومی و صوبائی اسمبلی کے جیتے ہوئے امیدواران کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ ”پی ایس 129سے الیکشن کمیشن کے مطابق مجھے26ہزار ووٹ لے کر جیتا ہوا دکھایا گیا ہے جبکہ فارم 45 کے مطابق میرے حاصل کردہ ووٹ 30464 ہیں اور مجھ سے زیادہ ووٹ پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار نے حاصل کیے جبکہ ایم کیو ایم کے امیدوار کو صرف 6010ووٹ ملے، ایم کیو ایم کو تو پورے شہر سے ایک سیٹ بھی نہیں ملی لیکن اسے کراچی سے قومی کی 15اور صوبائی کی 22 سیٹیں دے دی گئیں، میری یہ سیٹ الیکشن کمیشن کے منہ پر طمانچہ ہے، ہمیں خیرات نہیں اپنا حق چاہیے، جو جیتا ہے اسے جیتنے دیا جائے اور جو ہار چکے ہیں ان کو ایک بار پھر شہر پر مسلط نہ کیا جائے، کراچی کے عوام ہمارے ساتھ ہیں اور ہمیں بلدیاتی انتخابات سے زیادہ ووٹ دیے ہیں“۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ”ایک ووٹ بھی ناجائز نہیں لیں گے اور اپنا ایک بھی جائز ووٹ نہیں چھوڑیں گے“۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر راجا سکندر سلطان سے کہتے ہیں اور چیلنج کرتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ الیکشن کمیشن نے کراچی میں یہ کیا کیا ہے؟اب سوال ہے کہ کیا اس پورے عمل کو الیکشن کہا جا سکتا ہے؟ مصطفیٰ کمال، خالد مقبول صدیقی اور فاروق ستار سمیت ایم کیو ایم کے تمام امیدواروں کو اہلِ کراچی نے مسترد کیا ہےاور وہ میڈیا پر ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اپنے جعلی میڈیٹ کا بھونڈے طریقے سے دفاع کررہے ہیں ۔

جماعت اسلامی نے سندھ ہائی کورٹ میں جیتی ہوئی سیٹیوں کے لیے پٹیشن دائر کردی ہے۔ حافظ نعیم نے کہا ہے کہ ”جن سیٹوں پر ہم جیتے ہیں ان کو مزید چیلنج کریں گے، جن پر کوئی اور جیتا ہے ان کو کلیم نہیں کریں گے، جعلی مینڈیٹ لے کر خوشیاں اور جشن منانے والوں کے لیے یہ انتہائی شرم کا مقام ہے، ان کو ڈوب مرنا چاہیے۔ نوازشریف، شہبازشریف، زرداری اور بلاول کو بھی سوچنا چاہیے کہ جعلی مینڈیٹ کے بل پر کیوں وکٹری تقاریر کررہے ہیں؟ ہمارا یہ مطالبہ چیف الیکشن کمشنر سے بھی ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کو ساری صورتِ حال پر خط ارسال کرچکے ہیں ان سے بھی اپیل ہے کہ اس کا نوٹس لیں۔ الیکشن کمیشن ایک کھلونا بنا ہوا ہے اور الیکشن کو تماشا بنادیا گیا ہے، ازخود مرتب کیے گئے نتائج کا اعلان کرنا عوامی رائے پر شب خون مارنا ہے، کیا عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو ملک سے مایوس کرکے، جمہوریت اور انتخابات پر سے اعتماد ختم کرکے ان کو دہشت گرد بنانا چاہتے ہیں؟“ حافظ نعیم نے اہم بات اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہی کہ کیا آپ نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق دے کر ان کو اسٹریٹ کرمنل بنانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے چیف جسٹس سے کہا کہ”وہ فوری نوٹس لیں، کراچی میں جعلی فارم 45بنائے جارہے ہیں، چھاپے ماریں اور اس دھاندلی اور عوامی رائے کو روندنے کا عمل بند کرائیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ”ہم ملک میں آئین و قانون اور جمہوریت کی بالادستی چاہتے ہیں اور اسی فریم ورک کے تحت آئینی و قانونی اور سیاسی جدوجہد اور مزاحمت کریں گے۔ گولیاں نہیں چلائیں گے، اداروں سے لڑنا چاہتے ہیں نہ لڑیں گے لیکن اپنی سیٹوں اور مینڈیٹ پر قبضے پر خاموش بھی نہیں رہیں گے، بلدیاتی انتخابات پر قبضے اور میئر کے جعلی انتخاب سے لے کر عام انتخابات تک جمہوریت دشمنی اور کراچی کے عوام کے مینڈیٹ پر قبضے کا عمل جاری ہے، جن لوگوں نے کسی بھی نشست پر چند ہزار ووٹ بھی نہیں لیے ان کو شہر پر مسلط کرنے کی کوشش اہلِ کراچی کے ساتھ سراسر زیادتی ہے، پی ٹی آئی کو جو ووٹ ملے ہیں ان کے مینڈیٹ کا ہم احترام کرتے ہیں، اور اگر ایم کیو ایم بھی شفاف طریقے سے جیتتی تو ہم قبول کرتے، لیکن جس طرح پہلے سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو بیلٹ پیپر کی بُکس دے دی گئی تھیں، 8 فروری کو پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کیے گئے، اس پر ہم نے مسلسل الیکشن کمیشن کو تحریری شکایات ارسال کیں لیکن کوئی نوٹس نہیں لیا گیا، فارم 45 چند جگہ بڑی مشکل سے دیے گئے، رات گئے اور صبح تک ہمارے کارکنان اور پولنگ ایجنٹ فارم 45کے لیے جدوجہد کرتے رہے، اور جب فارم 45 میں ہم نے واضح طور پر کامیابی حاصل کرلی تو پہلے نتائج روکے گئے اور پھر فارم47میں نتائج تبدیل کرکے ہماری جیتی ہوئی سیٹیں ہروا دی گئیں، اس پورے عمل کو الیکشن کہنا ناانصافی ہے، الیکشن کے نام پر کراچی کے عوام کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے اور عوام کے مینڈیٹ کو چرایا گیا ہے۔ کراچی کے عوام جماعت اسلامی کے ساتھ ہیں، بدترین دھاندلی سے انتخابات سے ہمیں نکال دیا گیا لیکن عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جاسکتا۔ عوام نے ہم کو ووٹ دیے ہیں، ہم اس مینڈیٹ کا دفاع اور تحفظ کریں گے، ہر فورم پر عوام کا مقدمہ لڑیں گے۔“

اس وقت کراچی سمیت پورے ملک کے نتائج کے سلسلے میں ملک میں بے چینی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے سارے پلان اے، بی، سی ناکام ہوچکے ہیں۔ عوام نے ووٹ کی طاقت سے انہیں مسترد کردیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ نوشتہ دیوار پڑھ لیا جائے اور عوام کا مینڈیٹ واپس کیا جائے، ورنہ حالات بتارہے ہیں کہ کچھ بہت برا ہونے والا ہے جس کا نتیجہ وطنِ عزیز کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔