ایک طویل بے یقینی کے تکلیف دہ مراحل طے کرنے کے بعد بالآخر 8فروری کو پاکستان میں عام انتخابات کا انعقا د ہو ہی گیا۔ بہرحال انتخابات کے نتائج نے پورے ملک کو ایک نئے مخمصے میں ڈال دیا ہے، انتخابی عمل کی شفافیت پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے، تاہم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں حکومت سازی کے لیے ’ڈیل‘ فائنل ہوگئی، مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کو زیادہ سے زیادہ حصہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آصف زرداری کو صدر کے عہدے، چیئرمین سینیٹ، قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ اور بلوچستان میں وزارتِ اعلیٰ کی پیشکش کی گئی ہے۔ بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ کے ساتھ ڈپٹی وزیراعظم بھی بنایا جا سکتا ہے۔ پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کو وزارتوں کی پیشکش کی گئی ہے۔ جہاں تک مسلم لیگ(ن) کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے لیے امیدوار کا سوال ہے، لگتا یہی ہے کہ نوازشریف موجودہ صورتِ حال میں شاید ذمہ داری نہ اٹھائیں۔ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے مرکز میں شہبازشریف اور اس کے بعد مریم نواز اہم امیدوار ہوسکتی ہیں۔ حکومت کی تشکیل کے لیے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور پیپلزپارٹی میں بند دروازوں کے پیچھے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں اور کچھ حلقے انتخابی باب کو بند ہوتا دیکھنے کے لیے بے تاب ہوں گے، جن کے نتائج کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کیا جائے گا۔
انتخابات کے آفٹر شاکس یہ ہیں کہ متعدد سیاسی جماعتوں کا اتحاد جی ڈی اے، اے این پی اور جماعت اسلامی انتخابی نتائج مسترد کرچکے ہیں، اسٹاک مارکیٹ گر چکی ہے، اور پی ٹی آئی نے صدرِ مملکت سے ملاقات کی ہے جس کی روشنی میں صدر الیکشن کمیشن کو خط لکھ سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ حکومت یا کسی بھی طاقت ور کو معاملات کے سلجھائو کے لیے تحریک انصاف کے ساتھ باضابطہ بات چیت کرنا ہوگی، اس کے بغیر سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ انتخابی نتائج کی کمزوریوں کا حل بھی اسی میں ہی ہے۔
اس الیکشن میں نمایاں بے ضابطگیاں سامنے آئیں اور ووٹرز کو ان کا جواب ملنا چاہیے، ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ووٹرز کے خدشات کو فوری طور پر دور کرے اور جہاں جہاں بھی مینڈیٹ چوری ہوا ہے اس کا ازالہ ہونا چاہیے، کیونکہ انتخابی نتائج سے بین الاقوامی برادری سمیت دیگر حلقوں میں اس بات پر تشویش بڑھ رہی ہے کہ آخر کیوں الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج سے سیاسی جماعتیں مطمئن نہیں ہیں؟ جہاں امیدواروں کو فارم 45 نہیں دیا گیا، یہ ایک سنگین بے ضابطگی ہے۔ ان انتخابات کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں اس سے قومی بحران حل ہونے کے بجائے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ بحران ملک کی معیشت کے لیے کہیں زیادہ خطرناک نہ بن جائے۔ حالیہ انتخابات کے نتائج کے بعد ہر طرف ہنگامہ برپا ہے۔ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو آئندہ جون تک کئی بڑی ادائیگیاں کرنی ہیں جس کے لیے اسے طویل عرصے پر مشتمل ایک بڑا قرض پروگرام درکار ہوگا۔ پاکستان پر واجب الادا بیرونی قرضوں کی صورتِ حال غیر یقینی اور غیرمستحکم ہے۔ 30 جون 2024ء تک پاکستان پر آئی ایم ایف سمیت کُل قرضہ 820 کھرب روپے تک پہنچ جانے کا تخمینہ ہے، اور اگر اندرونِ ملک ریونیو، اور بیرونی سطح پر ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں اضافہ نہ ہوا تو جون 2025ء تک قرضوں کی مالیت 922.4 کھرب روپے تک پہنچ جائے گی۔ اب کون سی حکومت اور سیاسی جماعت یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ راتوں رات یہ مسائل حل کردے اور مہنگائی سے نجات دلا دے؟
الیکشن کمیشن نے جس طرح کے نتائج دیے ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ تجزیہ بھی درست ہوگا کہ پولنگ کے عمل میں تاخیر اور انتخابی ضابطۂ اخلاق کی بدترین حد تک خلاف ورزیاں بھی طے شدہ منصوبے کاحصہ تھیں۔ یہ انتخابات کئی اہم وجوہات کی بنا پر انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ ہمارا ملک اس وقت بدترین معاشی اور سماجی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے جن کا مقابلہ صرف ایسی حکومت کرسکتی ہے جسے اپنے فیصلوں میں عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہو۔ الیکشن کمیشن کے لیے ضروری تھا کہ انتخابی میدان کو شفاف اور غیر متنازع رکھتا اور ملک کی بالغ آبادی کو آزادانہ طور پر اپنے حقِ خود ارادیت کا استعمال کرنے میں مدد دی جاتی، لیکن تاریخ گواہی دے گی کہ عام انتخابات 2024ء میں الیکشن کمیشن اپنی تمام ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام رہا، نتیجتاً انتخابات اپنے انعقاد اور بعد میں نتائج کے بعد تنازعات کی زد میں آگئے۔ یہ بات تقریباً واضح ہے کہ یہ انتخابات ملک کے سیاسی بحران کا حل ثابت نہیں ہوں گے، اگر حکومت سازی کے لیے کچھ بندوبست کر بھی لیا گیا تو پھر نیا بحران ہوگا، کیوں کہ خوف پیدا کرکے اختلافِ رائے دبانے کے ہتھکنڈوں کے استعمال سے ممکنہ طور پر قوم بحران اور عدم استحکام کی صورت حال سے دوچار رہے گی۔ یہ ناقابلِ برداشت بات ہے کہ اتنے اہم موقع کو لاپروائی سے ضائع کردیا گیا۔
انتخابات جیسے تیسے بھی ہوئے، اب ہوگئے ہیں۔ حتمی سرکاری نتائج کے اعلان کے بعد مرکز میں پارلیمنٹ وجود میں آجائے گی، وفاق میں وزیراعظم اور صوبوں میں نئے وزرائے اعلیٰ منتخب کیے جائیں گے۔ نتائج مرتب کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کا پہلا کام مخصوص نشستوں پر خواتین اور اقلیتی اراکین کا تعین کرنا ہے۔ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی میں براہِ راست منتخب ہونے والے 266 اراکین کے علاوہ 60 خواتین اور 10 اقلیتی اراکین بھی ہوں گے، یوں نئی قومی اسمبلی کے اراکین کی مجموعی تعداد 336 ہو گی۔ حتمی نتائج کے نوٹیفکیشن کے تین روز میں آزاد منتخب ہونے والے اراکینِ اسمبلی کو اپنی سیاسی وابستگی واضح کرنا ہوتی ہے۔ ہر آزاد رکن انفرادی طور پر الیکشن کمیشن کو مطلع کرنے کا پابند ہے کہ قومی اسمبلی یا متعلقہ صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے دوران اس کا تعلق کس سیاسی جماعت سے رہے گا۔ آزاد منتخب نمائندوں کی جو تعداد بتائی جارہی ہے یہ بھی درست نہیں ہے۔ جو سمجھتے ہیں کہ آزاد امیدوار میرٹ پر تھے وہ بھی کسی بھول کا شکار ہیں۔ یہ انتخابات ایک خاص ترکیب اور خاص اجزاء سے تیار کرکے کرائے گئے ہیں۔ جن آزاد منتخب ارکان کے بارے میں شور ہے یہ منصوبہ بھی جلد سامنے آجائے گا۔ آئین کے مطابق انہیں فیصلہ کرنا ہے کہ الگ آزاد پارلیمانی گروپ بنانا ہے یا کسی دوسری جماعت میں چلے جانا ہے۔ یہ وہی فیصلہ کریں گے جو انہیں کہا جائے گا۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان ووٹنگ ڈے کے بعد 14 روز میں الیکشن کے حتمی اور سرکاری نتائج کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرنے کا پابند ہے۔ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے نتائج پر مشتمل الگ الگ نوٹیفکیشن قومی اسمبلی اور متعلقہ صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کو بھیجے جاتے ہیں۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 91 کے تحت پولنگ ڈے کے بعد 21 ویں روز (جو نتائج کے نوٹیفکیشن جاری ہونے کا ساتواں دن بنتا ہے) نئی قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوگا۔ صدرِ مملکت 21 روز سے قبل بھی ایوانِ زیریں کی بیٹھک طلب کرسکتے ہیں۔ نئی اسمبلی کے اجلاس کے پہلے روز اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 91(3) کے مطابق اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد کوئی دوسرا کام اور بحث کیے بغیر قومی اسمبلی (اپنے اراکین میں سے) کسی مسلمان رکن کو وزیراعظم کے لیے منتخب کرے گی۔ آرٹیکل 91(4) واضح کرتا ہے کہ نئے وزیراعظم کا انتخاب قومی اسمبلی کے کُل اراکین کی اکثریت کے (51 فیصد) ووٹوں سے کیا جائے گا۔ وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار کو کم از کم 169 اراکین کے حمایت کی ضرورت ہو گی۔ آئین کے آرٹیکل 91 میں فراہم کی گئی وضاحت کے مطابق ’’اگر کوئی رکن پہلی رائے شماری میں اتنی اکثریت حاصل نہیں کرتا، تو پہلی رائے شماری میں دو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے اراکین اور موجود اور ووٹ دینے والے اراکین کے ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنے والے اراکین کے درمیان انتخاب کا دوسرا دور ہوگا۔ آرٹیکل 91 (4) کے مطابق وزیراعظم کے عہدے کے لیے منتخب ہونے والے رکن کو صدر وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے بلائے گا، اور صدر نئے چیف ایگزیکٹو کے ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے اس سے حلف لیں گے۔ حلف اٹھانے کے بعد ملک کا نیا چیف ایگزیکٹو اپنی کابینہ تشکیل دے گا۔
یہ کہنا کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ الیکشن 2024ء حقیقی معنوں میں آزاد امیدواروں کا تھا۔ یہ انتخابی نتیجہ اتنا حیران کن نہیں تھا۔ انتخابات سے چند ہفتے پہلے تجزیہ یہی تھا کہ ’آزاد‘ امیدوار اِس بار الیکشن کی کلید ہیں، اور وہی بڑی تعداد میں کامیاب ہوں گے۔ انتخابی نتائج آجانے کے بعد گلی، محلوں کے بجائے اب اگلی جنگ پارلیمنٹ میں لڑی جائے گی، جہاں حکومت سازی کے لیے کم از کم 169 ارکان کی حمایت چاہیے۔ یہ تعداد آزاد امیدواروں اور کسی ایک بھی سیاسی جماعت کے پاس نہیں ہے، اب مخلوط حکومت بنے گی، اور چھوٹی اتحادی جماعتیں بڑے مطالبات کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہوںگی۔ قومی اسمبلی میں عددی تعداد کے لحاظ سے مسلم لیگ (ن) کے پاس سادہ اکثریت ہے، سندھ میں پیپلزپارٹی کو اکثریت ملی ہے، خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں ضرب تقسیم کا عمل کچھ زیادہ ہی کرنا پڑے گا۔ ’آزاد‘ امیدواروں کی تعداد اگرچہ زیادہ دکھائی دی ہے لیکن ان میں سے نصف تعداد جن کے قابو میں ہے انہی کی طرف جائے گی۔ انتخابی نتائج کا اونٹ جس کروٹ بیٹھنا تھا اب بیٹھ چکا ہے، بس اب انتظار ہے کہ پی ڈی ایم ٹو کی حکومت کب بنتی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے لیے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار نوازشریف ہوں گے یا شہبازشریف؟ یہ فیصلہ بھی رواں ہفتے ہی ہونا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو سادہ اکثریت کی توقع تھی لیکن وہ اپنے ووٹرز کو راغب نہیں کرسکی، تاہم پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار ایسا کرنے میں کامیاب رہے۔ اب پیپلز پارٹی مراعات کے ذریعے آزاد امیدواروں کو اپنی طرف متوجہ کرے گی۔ حکومت کسی کی بھی بنے، ملک کو اب ٹھیک ہونے اور ہمارے سیاست دانوں کو طویل المدتی قواعد و ضوابط کے لیے مل کر کام کرنے اور پارلیمنٹ کو اپنے مرکزی فورم کے طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ انتخابی نتائج کی لڑائی اپیلٹ ٹریبونل اور عدالتوں میں لڑی جائے، شاہراہوں پر دھرنوں سے نہیں۔ تاہم دھرنوں کا یہ سلسلہ جو شروع ہونے والا ہے، جمہوریت کا پورا درخت کاٹ دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
8 فروری کے انتخابات میں 5 کروڑ سے زائد ووٹرز نے حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ ملک میں ووٹر ٹرن آؤٹ 48 فیصد رہا۔تقریباً 6 کروڑ افراد نے ووٹ ڈالا۔ووٹر ٹرن آؤٹ میں گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں کمی آئی۔ اسلام آباد میں ووٹر ٹرن آؤٹ 54.2، پنجاب میں 51.7، سندھ میں 43.9، کے پی میں 41.4 اور بلوچستان میں 35 فیصد رہا۔ مردوں کا ووٹر ٹرن آؤٹ 52.2 فیصد، جبکہ خواتین کا 43.2 فیصد رہا۔ پی ٹی آئی امیدواروں کو ایک کروڑ 68 لاکھ ووٹ ملے، جبکہ 2018ء میں ایک کروڑ 69 لاکھ ووٹ ملے تھے۔ انتخابی عمل کے جائزے کے مطابق مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بینک ایک کروڑ 29 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ 33 لاکھ ہوا، پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک 69 لاکھ سے بڑھ کر 76 لاکھ ہوا۔ انتخابی عمل میں شریک تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی جائزہ رپورٹس ضرور جاری کرنی چاہئیں۔ حالیہ انتخابات میں الیکشن کمیشن نے ملک میں 5664 مبصرین تعینات کیے۔ ان مبصرین کا مشاہدہ یہ رہا کہ 28 فیصد پولنگ اسٹیشنوں پر افسران نے فارم 45 کی کاپی مبصرین کو نہیں دی، اسی طرح یہ دیکھنے میں آیا کہ آر او آفس میں مبصرین کو نہیں جانے دیا گیا۔ یوں اس صورتِ حال کا تجزیہ یہی ہے کہ انتخابی شفافیت پولنگ اسٹیشن پر تو قائم رہی لیکن پولنگ ختم ہونے کے بعد آر او ز کی سطح پر شفافیت پر سمجھوتا ہوا۔ پورے انتخابی عمل میں 16 لاکھ بیلٹ پیپر مسترد ہوئے ہیں۔ 2018ء میں یہ تعداد 40 لاکھ تھی۔ اسی طرح 25 حلقوں میں مسترد ووٹوں کا تناسب جیت کے مارجن سے زیادہ تھا۔ ملک بھر میں قائم 29 فیصد پولنگ اسٹیشنوں کے باہر فارم 45 آویزاں نہیں کیے گئے، یہ بھی شکایت ملی کہ مبصرین کو نصف آر او دفاتر میں نتائج کی تیاری میں رسائی نہیں دی گئی، 130حلقوں میں آر اوز نے مبصرین کو مشاہدہ نہیں کرنے دیا۔ اسلام آباد میں 3، پنجاب میں 78، سندھ میں 21، خیبرپختون خوا میں 17 اور بلوچستان میں 11 آر او آفس میں رسائی نہیں دی گئی۔ ان انتخابات میں حلقوں میں ریکارڈ امیدوار تھے، حلقہ بندی کے عمل سے خاصے امیدوار متاثر ہوئے۔ بہرحال یہ بات خوش آئند رہی کہ ملک میں دہشت گردی کے باوجود جماعتوں نے الیکشن میں حصہ لیا، ان حالات میں الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل مکمل کیا۔ تاہم ابتدائی نتائج کی تیاری اور اعلان نے منظم الیکشن کو گہنا دیا ہے۔ بہرحال تمام تر کمزوریوں کے باوجود انتخابات سے ملک میں بے یقینی دور ہونے میں مدد مل سکتی ہے اگر سیاسی جماعتیں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اورملک کو مستحکم بنائیں۔