عوام کی رائے کا احترام لازم ہے!

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسلامی شناخت تو عرصہ ہوا مٹا دی گئی تھی، 8 فروری کے عام انتخابات اور اس کے بعد کی صورتِ حال نے مملکت کے پہلے سے داغ دار جمہوری چہرے کو بھی مزید داغ دار کردیا ہے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں پیدا کیے گئے حالات سے دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ طرح طرح کے اعتراضات امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور دیگر مختلف ممالک کی جانب سے انتخابی نتائج پر اٹھائے جا رہے ہیں، جن میں خاصا وزن بھی موجود ہے، مگر ہمارے اربابِ اقتدار، نگران حکمران ’’میں نہ مانوں‘‘ کی رٹ لگا رہے ہیں۔ نگران وزیراعظم جناب انوارالحق کاکڑ کا ارشاد ہے کہ ’’انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوئے، کسی ملک کے کہنے پر مبینہ دھاندلی کی تحقیقات نہیں کریں گے، دوست ممالک اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے، جمہوری عمل کا تسلسل خوش آئند ہے، غیر معمولی حالات کے باوجود انتخابات ہونا بڑی کامیابی ہے، کسی پر کوئی دبائو نہیں تھا، تمام جماعتوں کو کھیل کے لیے یکساں میدان مہیا کیا گیا، نتائج کے اعلان میں تاخیر کا مطلب دھاندلی نہیں ہوتا‘‘۔ جناب کاکڑ مزید فرماتے ہیں کہ ’’پُرامن احتجاج سیاسی کارکنوں کا حق ہے مگر انارکی پھیلانے کی اجازت دیں گے نہ تشدد کسی صورت برداشت کریں گے‘‘۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محترم محسن نقوی کا فرمان ہے کہ ’’عوام گمراہ کرنے والوں سے بچیں، پُرامن احتجاج سے کوئی نہیں روکے گا مگر نو مئی جیسے واقعات دہرانے کی کوشش ہوئی تو بڑا سخت ردعمل آئے گا‘‘۔ نگران حکمرانوں کا اصل فرض آئین میں دی گئی 90 روز کی مدت کے اندر صاف، شفاف، غیر جانب دارانہ اور آزادانہ انتخابات کروا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے سپرد کرنا تھا، مگر انہوں نے آئین کو کھلم کھلا پامال کیا اور قانون کو اپنے مقاصد کے لیے موم کی ناک کی طرح جدھر چاہا موڑ لیا۔ وفاقی نگران حکومت تین ماہ کے بجائے چھ ماہ سے زیادہ، اور پنجاب و خیبر کی حکومتیں ایک سال سے زیادہ عرصے سے قوم پر جبراً مسلط ہیں۔ اس غیر آئینی اقتدار کے دوران نگران حکمرانوں کا کردار واضح طور پر جانب دارانہ رہا۔ اب جب کہ انتخابات کا مرحلہ گزر چکا ہے تو پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ شرمناک کردار ادا کرتے ہوئے پی ڈی ایم۔ ٹو کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ اس سے زیادہ جانب داری اور کیا ہوگی کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے رہنمائوں کی ملاقات نگران وزیراعلیٰ کے گھر پر ہوئی ہے اور وہ دونوں جماعتوں کو شراکتِ اقتدار کے فارمولے تجویز کررہے ہیں اور ان کے مابین موجود اختلافات کی خلیج ختم کرانے کے لیے دوڑ دھوپ میں مصروف ہیں۔ کیا نگران حکمرانوں کا کردار یہی ہوا کرتا ہے؟ کیا غیر جانب داری اسی کا نام ہے؟

8 فروری کے انتخابی عمل نے ملک کے اہم قومی اداروں کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے، عدلیہ کا وقار اس عمل میں اس قدر پامال ہوا ہے کہ عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ انتظامیہ نے انتخابات کے دوران اور اس سے قبل جس طرح یک طرفہ کھیل کھیلا ہے، اس کے بعد اُس کی غیر جانب داری کے دعووں پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی حلقہ بندیوں، کاغذاتِ نامزدگی کی وصولی، رائے دہندگان کو دور دراز مقامات پر رائے دہی پر مجبور کرنے، ایک جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرکے انتخابی عمل سے خارج کرنے، اور پھر انتخابات کے روز کھلے بندوں انٹرنیٹ اور موبائل کی بندش، پولنگ اسٹیشنوں پر قبضوں، ٹھپہ مافیا کے راج، غنڈہ گردی اور بدمعاشی سے چشم پوشی جیسے تمام اقدامات کے باوجود مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد جس طرح نتائج بلاوجہ روک کر طویل تاخیر کے بعد فارم 45 سے متضاد نتائج جاری کرکے اپنی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا لی ہے۔ رہا مقتدر اداروں کا معاملہ، تو دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ مبصرین اب انہیں کچے کے ڈاکوئوں کی جبری اغوا اور ڈکیتی کی وارداتوں سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ ان سب اداروں نے سیاسی و انتخابی جعل سازی میں اپنے اپنے منفی کردار کے ذریعے ملک کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے اور قوم کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تاہم تمام تر مایوس کن حالات اور بے یقینی کی کیفیت کے باوجود سلام ہے عوام کے عزم و ہمت کو جنہوں نے ہر طرح کے جبر اور گھٹن کے باوجود حوصلہ نہیں ہارا اور اپنے جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے انتھک جدوجہد سے ہر طرح کی خلائی مخلوق کے ناپسندیدہ عزائم کو جرأت اور استقامت سے ناکام بنایا ہے اور مستقبل میں بھی غیر منتخب شدہ لوگوں کو جبراً مسلط کرنے کی کوششوں کی حوصلے اور حکمت سے مزاحمت جاری رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ سلام ہے اُن سیاسی رہنمائوں کو جنہوں نے قید و بند کی صعوبتوں کا مقابلہ پامردی سے کیا اور ظلم کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا۔ سلام ہے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی عظمت کو جنہوں نے عام آدمی کے حقوق کی بحالی کی جنگ ہر میدان میں جواں مردی سے لڑی، جن کے کردار سے خائف ہو کرفیصلہ سازوں نے جماعت اسلامی کے ایک بھی رکن کو قومی اسمبلی میں پہنچنے نہیں دیا اور اس کے لیے دھونس دھاندلی کا ہر حربہ آزمایا۔ اس میں محترم سراج الحق کا اگرچہ رتی برابر قصور نہیں تھا مگر انہوں نے جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے از خود جماعت اسلامی کی امارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ سلام ہے حافظ نعیم الرحمٰن کی فراست کو، جن کی جماعت سے کراچی کے عوام کا واضح مینڈیٹ چھین کر ان کا منہ بند رکھنے کی خاطر انہیں صوبائی اسمبلی کی نشست پلیٹ میں رکھ کر پیش کی گئی مگر اس زیرک انسان نے یہ سیاسی رشوت قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے پیش کرنے والوں کے منہ پر دے مارا … کہ جماعت اسلامی کے لوگ بکنے اور جھکنے کو کسی صورت تیار نہیں، طاقت وروں کے یہ تحائف انہیں قبول نہیں، ہاں اپنا حق مگر اپنے زورِ بازو سے حاصل کرکے رہیں گے۔

صاحبانِ فکر و دانش کا قولِ فیصل اگرچہ یہی ہے کہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا، اور اقتدار کی بھوک میں مبتلا سیاست دانوں اور قوت کے زعم میں مدہوش مقتدر اربابِ اختیار کی حد تک یقیناً یہ آج بھی سو فیصد درست ہے کہ 1964ء میں بانیِ پاکستان کی محترم بہن کو غدار قرار دیا گیا، 1971ء میں ملک دولخت کروا لیا گیا مگر منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا، 1977ء میں عوام کی رائے کے بجائے دھاندلی کے ذریعے اقتدار کو طول دینے کی کوشش میں ملک کو جمہوریت کی پٹری سے اتار دیا گیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور اہلِ قوت رائے عامہ کا احترام کرنے کے بجائے اپنے فیصلے بزور نافذ کرنے پر بضد ہیں، مگر عوام اب اس جبر کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے پر تیار نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہرطرح کی رکاوٹوں کے باوجود، جیلوں میں بند قیادت کی عدم موجودگی، نام و نشان کے بغیر قطعی یک طرفہ، جلسے، جلوسوں، پوسٹرز اور بینرز کی موجودگی اور ذرائع ابلاغ کے منفی پروپیگنڈے کے علی الرغم اپنی رائے کی قوت کو منوایا ہے اور اختیار کے ایوان میں ایک بھونچال برپا کردیا ہے۔ قومی سلامتی اور ملکی بقا کا تقاضا یہی ہے کہ خلائی مخلوق اپنی شکست کو قبول کرلے اور عوام کی رائے کے آگے بند باندھنے کے بجائے اس کو تسلیم کرے، اور تمام ادارے اپنی اپنی حدوں میں رہتے ہوئے اپنے آئینی فرائض تک خود کو محدود کرلیں، ورنہ بپھرے عوام کا سیلاب سب کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔

(حامد ریاض ڈوگر)