”نعت نامے بنام صبیح رحمانی“ کا جدید ایڈیشن مع اصلاحات و اضافات ہمارے پیش نظر ہے۔ یہ مجموعہ مکاتیب نعتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے بارے میں ایک ایسے اہم عہدِ ادب کی جھلک لیے ہوئے ہے جو بیسویں صدی کے آخری اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے یعنی دو صدیوں کے درمیان نعت کے حوالے سے اُن درخشاں سالوں پر محیط ہے جن میں صنفِ نعت اور اس سے متعلقہ موضوعات و مسائل کے حوالے سے رجحان ساز ادبی کام ہوا۔ ویسے تو نعت کے حوالے سے گزشتہ صدی کے آخری ربع میں تنقیداتِ نعت اور منتخباتِ نعت کے حوالے سے کئی کتابیں اور رسائل کے نعت نمبر چھپنا شروع ہوگئے تھے، مگر اس صنف… جسے بعض ناقدین اور مدیران ’موضوعِ محض‘ سمجھ کر مسلسل نظرانداز کیے ہوئے تھے… کے فنی محاسن اور اعلیٰ تخلیقی اقدار کے حامل نمونوں کی موجودگی کے باعث اب اِس کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ایسا صنفِ نعت کی تخلیق، تنقید، تدوین اور تحقیق میں مقدار اور معیار دونوں حوالوں سے ہوا اوراِن عشروں میں اس صنف نے سال بہ سال اور عشرہ بہ عشرہ اپنے سفر کا ہر قدم جست نما انداز میں طے کیا۔
”نعت نامے بنام صبیح رحمانی“ کی اشاعتِ اول جولائی 2014ء میں ہوئی تھی جس میں 185 مکتوب نگاروں کے 500 سے زائد خطوط شامل تھے۔ اہلِ علم و دانش بالخصوص وابستگانِ نعت کی جانب سے اس کی بھرپور پذیرائی اور تحسین کے بعد اس کی جدید اشاعت میں 219 اہلِ علم کے قریباً ایک ہزار خطوط شامل ہیں۔ اس ترتیب و انتخاب میں کتابی سلسلہ ”نعت رنگ“ کے مدیر سید صبیح رحمانی (جو بحیثیت ایک نعت خواں، نعت گو شاعر اور ادیب، نعتیہ ادب کے فروغ اور نقدِ نعت کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں) کے نام لکھے گئے ایسے مکاتیب کو ترجیحاً پیش نظر رکھا گیا ہے جو علمی، ادبی، تحقیقی، تنقیدی نکات پر مشتمل ہیں۔
معروف محقق اور مورخ ڈاکٹر معین الدین عقیل کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ”مشاہیر کے مکاتیب کے مجموعے یا انتخابات تو بکثرت شائع ہوتے اور زیرِ مطالعہ آتے رہے ہیں لیکن موضوعاتی مکاتیب یا مکاتیب کو موضوعات کے تحت یکجا کرنے اور انھیں بطور ماخذ استعمال کرنے کا خیال ہماری اس روایت میں یکسر انوکھا اور اسی اعتبار سے مفید بھی ہے۔ اب نعت کا اور اس کے فن و رجحانات کا مطالعہ ان مکاتیب کی روشنی میں بھی کیا جاسکتا ہے، جو اس مجموعے میں شامل ہیں۔ اس مجموعے کو مزید افادیت سہیل شفیق صاحب نے اپنے اہتمام سے بخشی ہے، جنھیں جمع و ترتیب اور حاشیہ نگاری کا یوں بھی خوب سلیقہ ہے۔ متن کی ترتیب اور ضروری قطع و برید سے موضوع کو نمایاں کرنے میں ان کا کمال یہاں ظاہر ہے، پھر اس پر مستزاد ان کی کاوشِ خاص کے سبب مکتوب نگاروں اور متن کی موضوعی شخصیات پر تعارفی و تصریحی شذرات اس مجموعے سے استفادہ کرنے والوں اور ساتھ ہی رجال سے عمومی دلچسپی رکھنے والوں کے لیے مزید مفید ثابت ہوں گے۔ اپنی موضوعی افادیت کے باعث یہ مجموعہ ہر طرح خوش آئند ہے اور اسے بصداقتِ دل خوش آمدید کہنا چاہیے۔“
اس کتاب میں ان خطوط کی جمع آوری نعتیہ منظرنامے میں کئی مباحث اور مکالموں کے امکانات کی نشاندہی کرتی ہے۔ بقول محققِ نعت ڈاکٹر ریاض مجید ”ان مکاتیب میں جن امور و مسائل کی نشان دہی ہوئی ہے وہ اہم ہی نہیں اردو نعت کے مستقبل کے حوالے سے مکالمے کے وسیع امکانات لیے ہوئے ہیں۔ ہر دور میں جزوی طور پر یا وضاحت کے ساتھ ان نکات پر مزید گفتگو ہوسکتی ہے، مکالمہ در مکالمہ ان میں سے کئی مضامین و موضوعات پر تلاش و تحقیق سے مقالے تحریر ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مکاتیب میں فطری طور پر بعض ایسے امور در آتے ہیں جن کی گہرائی کا اکثر اوقات کہنے والے کو بھی پتا نہیں ہوتا، پڑھنے والے کی آنکھ کبھی پہلی بار پڑھتے ہوئے اور کبھی کئی سالوں بعد اس سے کئی کارآمد، مفید مطلب اور مکالمہ خیز مباحث اخذ کرلیتی ہے۔“
فاضل مرتب نے مکتوب نگاران اور خطوط میں مذکور350 سے زائد شخصیات کے مختصر کوائف (تاریخ پیدائش و وفات، علمی وادبی حیثیت، تصنیفات و تالیفات اور اعزازات وغیرہ) کا تذکرہ حواشی میں کیا ہے اور ہر ممکن کوشش کی ہے کہ یہ تذکرہ درست، جامع اور مکمل (Updated)ہو۔ آخر میں مکتوب نگاران اور خطوط میں مذکور شخصیات کا اشاریہ بھی دیا گیا ہے جس سے اس مجموعہ مکاتیب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ فاضل مرتب کی محنت اور تحقیقی و علمی ذوق اس کی سطر سطر سے عیاں ہے-
مکتوب نویسی کی تقریباً معدوم ہوتی روایت میں اس مجموعہ خطوط کی (مع اصلاحات و اضافات)بارِ دگر اشاعت لائقِ تحسین اور تقدیسی ادب کے فروغ کے سلسلے میں ایک اہم اور منفرد کاوش ہے، جس کے لیے فاضل مرتب اور ادارہ نعت ریسرچ سینٹر کراچی لائقِ صد مبارک باد ہیں۔