پاکستان میں آئین شکنی کی روایت: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس روشنی میں

(دوسری قسط)

پاک فوج کے مطابق نواب اکبر بگٹی فوجی آپریشن کے دوران غار میں ہونے والے ’پراسرار‘ دھماکے کی وجہ سے ہلاک ہوئے جس میں تین افسران اور چار سپاہی بھی ہلاک ہوئے۔ جب کہ نواب اکبر بگٹی کے 37 ساتھی بھی مارے گئے۔ ایک باوقار بلوچ قومی لیڈر کا اس قدر بےدردی اور بے رحمی سے قتل پرویزمشرف کے سیاہ کارناموں میں سے ایک نمایاں واقعہ ہے۔ ایک ایسے وقت پر اکبر بگٹی کا اس قدر بےرحمانہ طریقے سے قتل جبکہ حکومتی ٹیم کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں وہ اسلام آباد جاکر پرویزمشرف سے ملاقات پر آمادہ بھی ہوگئے تھے، ملکی سیاسی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش اور افسوس ناک واقعہ ہے۔ ڈیرہ بگٹی میں اس فوجی آپریشن کے دوران حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے ایک مشترکہ وفد کے ذریعے مصالحت کی کوششیں بھی کی گئیں، ساتھ ہی فوجی کارروائی بھی جاری رہی۔

ایک موقع پر صدر پرویزمشرف نے اپنے ایک انٹرویو میں بگٹی جنگجوؤں کو وارننگ دی کہ اگر انہوں نے مزاحمت ترک نہ کی تو ”انہیں پتا بھی نہیں چلے گا کہ انہیں کہاں سے ہِٹ کیا گیا ہے“۔ پرویزمشرف کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا، جس پر مصالحتی کوششوں میں شریک حکومتی ارکان نے بھی تنقید کی۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کی مذمت کرنے والوں میں پرویزمشرف کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم بھی شامل تھی۔

نواب اکبر بگٹی کی فوجی آپریشن میں ہلاکت نے بلوچستان میں قوم پرست مزاحمت کو پھر سے زندہ کردیا۔ سن 2015ء میں جنرل پرویزمشرف پر کوئٹہ کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں اکبر بگٹی قتل کا مقدمہ بھی قائم ہوا جس میں انہیں جنوری 2016ء میں بری قرار دے دیا گیا۔ تاہم اکبر بگٹی کے بیٹے اور مقدمے میں مدعی جمیل بگٹی نے عدالتی فیصلے کو مسترد کردیا تھا۔

جنرل پرویزمشرف کے دور میں 2007ء سب سے ہنگامہ خیز سال ثابت ہوا۔ وہ ہر حال میں اپنا عہدہ برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ 2002ء میں ریفرنڈم سے انتخاب اور بعدازاں قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر اپنی صدارت کو قانونی جواز دینے کا جو بندوبست انہوں نے کیا تھا اس کی مدت پوری ہونے والی تھی۔ وہ پہلے ہی 2004ء میں آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کے وعدے سے مکرچکے تھے جبکہ متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اُن پر آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کے لیے مسلسل احتجاج کررہی تھیں اور دباؤ ڈال رہی تھیں۔

دوسری جانب 2005ء میں چیف جسٹس بننے والے جسٹس افتخار چودھری اسٹیل مل کی نج کاری، گوادر میں بااثر افراد کو خلافِ ضابطہ اراضی کی الاٹمنٹ، جبری طور پر لاپتا کیے گئے افراد اور مفادِ عامہ کے دیگر کیسز میں سوموٹو نوٹسز کے ذریعے مقدمات کی سماعت کررہے تھے۔ ان مقدمات کی وجہ سے پرویزمشرف کو یہ خدشہ تھا کہ افتخار چودھری اگر چیف جسٹس رہے تو اداروں کی نج کاری، آئینی طور پر اہمیت کے حامل مقدمات اور بالخصوص صدارتی انتخاب ان کے لیے مسائل کا باعث بنیں گے۔

فروری 2007ء میں ٹی وی میزبان اور وکیل نعیم بخاری کا ایک خط منظرعام پر آیا جس میں جسٹس افتخار چودھری پر اپنے بیٹے ارسلان افتخار کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اِسی خط کو جواز بناتے ہوئے 9 مارچ 2007ء کو جنرل پرویزمشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو آرمی ہاؤس طلب کرکے دو گھنٹے تک بٹھائے رکھا جہاں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت دیگر افسران ان سے مستعفی ہونے پر اصرار کرتے رہے۔ تاہم جب انہوں نے انکار کیا تو ان پر بے ضابطگیوں کے الزامات لگاکر انہیں ’غیر فعال‘ کردیا گیا اور ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم چوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوا دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جاوید اقبال کو قائم مقام چیف جسٹس بنادیا گیا، جبکہ اُس وقت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج رانا بھگوان داس بھارت کے دورے پر تھے۔

ٹی وی اسکرینز پر وردی میں ملبوس صدر جنرل پرویزمشرف سے جسٹس افتخار چودھری کی ملاقات کے مناظر اور اگلے روز اخبارات میں اس کی تصویر شائع ہونے کے بعد ملک بھر میں وکلا نے احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا۔ اگلے ہی روز 10 مارچ 2007ء کو سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس افتخار چودھری کو ان کے خلاف موصول ہونے والے ریفرنس کا نوٹس بھجوا دیا۔ جسٹس افتخار چودھری کو ان کے گھر تک محدود کردیا گیا، تاہم جب وہ 13 مارچ کو اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کی سماعت میں شریک ہونے کے لیے گھر سے نکلے تو سیکورٹی پر مامور پولیس اہل کاروں نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ جسٹس افتخار نے سپریم کورٹ کی عمارت کی جانب پیدل جانے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں زدوکوب کیا۔ اس موقع کی تصاویر سامنے آنے کے بعد وکلا اور اپوزیشن جماعتوں نے ملک گیر احتجاج شروع کردیا جو عدلیہ بحالی تحریک کی شکل اختیار کرکے بالآخر پرویزمشرف کی اقتدار سے محرومی پر منتج ہوا۔

ایک طرف وکلا، صحافیوں، سماجی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے عدلیہ بحالی تحریک زوروں پر تھی تو دوسری جانب معزول چیف جسٹس اپنی بحالی کی قانونی جنگ عدالت میں لڑرہے تھے اور بار کونسلز کی دعوت پر مختلف شہروں میں خطابات بھی کررہے تھے، جہاں انہیں وکلا برادری اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ بھرپور عوامی پذیرائی بھی مل رہی تھی۔ اس ہنگامہ خیزی میں جنرل پرویزمشرف دوسری بار صدر منتخب ہونے کے لیے پر تول رہے تھے۔ 12 مئی 2007ء کو صدر پرویزمشرف نے اسلام آباد میں ایک جلسے کا انعقاد کیا، جبکہ اِسی روز کراچی میں معزول چیف جسٹس کو بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے لیے پہنچنا تھا۔ اُس وقت سندھ میں جنرل پرویزمشرف کی حامی جماعت ق لیگ اور ایم کیو ایم کی اتحادی حکومت تھی، لہٰذا انتظامیہ نے معزول چیف جسٹس کو ائرپورٹ سے باہر نہیں آنے دیا جبکہ شہر کی بڑی شاہراہوں اور داخلی و خارجی راستوں کو بند کردیا گیا۔ دوسری طرف کراچی میں اپوزیشن جماعتوں (پیپلز پارٹی، اے این پی، جماعتِ اسلامی، مسلم لیگ ن و دیگر) نے معزول چیف جسٹس کے استقبال کے لیے ریلیاں نکالنا تھیں۔ ساتھ ہی حکومتی اتحادی ایم کیو ایم نے اِسی روز ایم اے جناح روڈ پر جلسے کا اعلان بھی کررکھا تھا۔ اس ساری صورتِ حال کو سندھ حکومت کی طرف سے جان بوجھ کر تصادم کی طرف لے جایا گیا۔ اُس وقت ایم کیو ایم کے وسیم اختر سندھ کے وزیر داخلہ تھے۔ اُن کے حکم پر پولیس نے جسٹس افتخار چودھری کے استقبال کے لیے نکالی گئی ریلیوں پر فائرنگ شروع کردی، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد جاں بحق ہوگئے، متعدد زخمی ہوئے اور جگہ جگہ گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور دیگر املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ اِسی روز جنرل پرویزمشرف نے اسلام آباد جلسے سے خطاب میں کراچی میں تاریخ کی اس بدترین پولیس گردی کو مُکّا لہراکر ”عوامی طاقت کا مظاہرہ“ قرار دیا۔

جسٹس افتخار چودھری بار ایسوسی ایشن سے خطاب کیے بغیر واپس چلے گئے۔ 12 مئی کے اِن پُرتشدد واقعات اور اپوزیشن جماعتوں اور وکلا برادری کی ریلیوں پر بدترین پولیس گردی، اندھا دھند فائرنگ نے کراچی میں الطاف حسین دور کے لسانی فسادات کی یاد تازہ کردی۔ کم و بیش چار ماہ تک جاری رہنے والی احتجاجی تحریک اور قانونی جنگ کے بعد 20 جولائی 2007ء کو عدالت نے افتخار چودھری کے خلاف ریفرنس کو ناقابل سماعت قرار دے کر انہیں منصب پر بحال کردیا، لیکن یہ بحالی عارضی ثابت ہوئی۔

اس دوران لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ پر فوجی آپریشن کا دلخراش واقعہ پیش آیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا کہ امریکہ نے نائن الیون واقعے کی ذمہ داری القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم کے بعض ارکان پر عائد کرتے ہوئے نیٹو افواج کے ساتھ مل کر افغانستان پر چڑھائی کردی اور اس جارحیت کو نام نہاد ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کا نام دے کر پاکستان کو اس میں شامل ہونے کا حکم دیا، اور شامل نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیں۔ امریکی دھمکیوں کے آگے کمانڈو صدر پرویزمشرف نے فی الفور سرنڈر کردیا اور یوں نائن الیون حملوں کے بعد دنیا بھر میں پاکستان امریکہ کا سب سے اہم اور ”دہشت گردی“ کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی بن گیا۔

سابق صدر پرویز مشرف نے جہاں افغان طالبان کے خلاف امریکی و نیٹو سپلائز کے لیے پاکستان کے طول و عرض کھول دیے، وہیں قوم کو بتائے بغیر کئی پاکستانی ہوائی اڈے اور دیگر عسکری سہولیات بھی امریکہ کے حوالے کردیں۔ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختون خوا کے ہوائی اڈوں اور ائراسٹرپس سے نہ صرف امریکی اتحادی لڑاکا طیاروں اور ڈرونز کے ذریعے براہِ راست افغان طالبان پر حملے ہوتے رہے بلکہ انھی سہولیات سے پاکستان میں بھی جاسوسی کی جاتی رہی۔ اتنا کچھ کرنے کے باوجود امریکہ مسلسل پاکستان سے ڈو مور کے تحت اپنے مطالبات دُہراتا رہا، اور بات نہ ماننے کی صورت میں کولیشن سپورٹ فنڈ روک کر پاکستان کو بلیک میل بھی کرتا رہا۔ مذکورہ مطالبات کے تسلسل میں امریکہ نے پاکستان میں موجود جہادی تنظیموں کی ایک فہرست پرویزمشرف کو فراہم کرکے اُنہیں banned outfits (کالعدم تنظیمیں) یا القاعدہ assets قرار دے کر اُن کے خلاف کارروائی کرنے، اُن کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور اُن کے سربراہوں، رہنماؤں کو پابندِ سلاسل کرنے یا امریکہ کے حوالے کرنے کے مطالبات رکھ دیے۔ مذکورہ فہرست میں ایک بڑا نام اسلام آباد کے عین وسط میں واقع لال مسجد اور اُس کے خطیب مولانا عبدالعزیز کا بھی تھا۔ پرویزمشرف نے اپنے امریکی آقا کے حکم کی تعمیل میں جب لال مسجد اور اس کی انتظامیہ کے خلاف آپریشن کرنے کی ٹھان لی تو اُسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے تنگ آکر ملک میں نفاذِ شریعت کا مطالبہ کردیا۔ اگرچہ اُن کا یہ مطالبہ مبنی برحق اور آئینِ پاکستان کے عین مطابق تھا، تاہم حکومتی انکار کے بعد وہ طیش میں آگئے اور یوں لال مسجد انتظامیہ اور پولیس کے درمیان پُرتشدد کارروائیوں کا ایک سلسلہ چل پڑا جس میں لال مسجد کے طلبہ اور ملحقہ خواتین مدرسہ جامعہ حفصہؓ کی لٹھ بردار طالبات کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں جاری رہیں۔ اس افراتفری میں انہوں نے پہلے پولیس والوں کو اغوا کیا، بعد ازاں اسلام آباد میں قائم چائنیز مساج سینٹر سے چینی اور پاکستانی خواتین و حضرات کو پکڑ کر قید کرلیا۔ یہ ساری صورتِ حال ملکی و بین الاقوامی میڈیا کی غیر معمولی توجہ کا مرکز بن گئی۔ مذاکرات کے نتیجے میں پہلے پولیس والوں اور بعد ازاں چائنیز مساج سینٹر سے اغوا کیے گئے تمام خواتین و حضرات کو رہا تو کروا دیا گیا لیکن اس دوران پولیس اور لال مسجد انتظامیہ کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بھی برابر جاری رہا، جس میں خاصا جانی و مالی نقصان بھی ہوا۔ حکومت نے مولانا عبدالعزیز سے مصالحت کے لیے مختلف دینی، سیاسی اکابرین کا سہارا لیا لیکن سب بے سُود رہا۔ بالآخر چودھری شجاعت حکومتی وفد کے ساتھ وہاں پہنچے اور رات بھر ٹیلی فونک مذاکرات کے ذریعے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور اُن کے بھائی عبدالرشید غازی کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے، جس کے چیدہ چیدہ نکات میں (1) دونوں مولانا حضرات کی آبائی گاؤں راجن پور روانگی (2) اگر مسجد/ مدرسہ میں کوئی غیرملکی ہوں تو اُن کی گرفتاری، (3) دیگر تمام طلبہ و طالبات اور اساتذہ کی پُرامن گھروں کو روانگی، (4) جامعہ حفصہؓ کے لیے دیگر سیکٹر میں متبادل جگہ کی فراہمی وغیرہ شامل تھے۔ چودھری شجاعت حسین یہ معاہدہ لے کر پرویزمشرف کے پاس پہنچ گئے اور اُنہیں مزید تشدد سے روکنے کی خاطر معاہدے کی شقوں پر راضی کرنے کی کوشش کی۔ تاہم نامعلوم وجوہات کی بناء پر پرویزمشرف نے یہ معاہدہ ماننے سے یکسر انکار کردیا اور لال مسجد اور اس سے متصل خواتین مدرسہ جامعہ حفصہؓ کے خلاف فی الفور فوجی آپریشن شروع کرنے کا حکم دے دیا۔ مسجد و مدرسہ پہلے ہی سیکورٹی اداروں کے محاصرے میں تھے۔ 3 سے 10 جولائی 2007ء تک جاری رہنے والے اس فوجی آپریشن کے نتیجے میں مدرسے کے مہتمم مولانا عبدالعزیز کے بھائی غازی عبدالرشید اور اُن کا بیٹا، اُن کی معمر والدہ سمیت مبینہ طور پر لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے اساتذہ، طلبہ و طالبات سمیت درجنوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آپریشن کے دوران ایس ایس جی کے لیفٹیننٹ کرنل ہارون الاسلام بھی جان گنوا بیٹھے۔

محرکات جو بھی ہوں لیکن پرویز مشرف کی عاقبت نااندیشی، mishandling اور ہٹ دھرمی سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے عین وسط میں پیش آمدہ یہ دلخراش واقعہ بعد میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے قیام کی وجہ بنا اور ملک میں بم دھماکوں، خودکش حملوں کا ایسا سلسلہ چل پڑا جو آج تک جاری ہے اور جس میں اب تک سیکڑوں سیکورٹی اہلکاروں سمیت ہزاروں بے گناہ شہری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ جنرل پرویزمشرف لال مسجد انتظامیہ کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازعے کو مارچ 2007ء میں آسانی سے حل کرسکتے تھے۔ لیکن ایک طرف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے بعد ملنے والی ہزیمت سے عوام اور میڈیا کی توجہ ہٹانے، تو دوسری طرف اپنے امریکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے انہوں نے ایک نیا شوشا چھوڑا کہ مذہبی انتہا پسندی اسلام آباد تک پہنچ چکی ہے لہٰذا اس کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔ اسی مقصد کے تحت لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے خلاف آپریشن کی راہ ہموار کی گئی۔ دوسری طرف لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور اُن کے بھائی غازی عبدالرشید بھی معاملے کی نزاکت کو سمجھ نہ سکے اور علماء کرام سمیت دیگر ثالثوں کی طرف سے معاملے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کی پیشکشیں برابر ٹھکراتے رہے۔ یوں انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن کے نام پر لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں لال مسجد سے متصل مدرسہ جامعہ حفصہؓ مکمل منہدم جبکہ لال مسجد کو جزوی نقصان پہنچا۔ اُس وقت میڈیا میں گردش کرنے والی بعض اطلاعات کے مطابق آپریشن کے نتیجے میں درجنوں بے گناہ طالبات شہید ہوئیں۔ آپریشن میں شامل سیکورٹی اہلکار بھی نشانہ بنے، اور یوں پرویزمشرف دور کے متنازع اور غیر دانش مندانہ اقدامات میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ ہوا۔

صدر پرویزمشرف چونکہ پہلے ہی صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے، لہٰذا اگست 2007ء میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے آرمی چیف اور صدارت کا عہدہ رکھنے پر انتخاب کے لیے پرویزمشرف کی اہلیت کو عدالت میں چیلنج کردیا۔ ان درخواستوں میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ اس وقت کی قومی و صوبائی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے والی ہیں اس لیے آئندہ مدت کے لیے صدر کے انتخاب کے لیے وہ موزوں الیکٹورل کالج نہیں ہیں۔

صدارتی انتخاب کے لیے 6اکتوبر 2007ء کا اعلان ہوچکا تھا۔ 28 ستمبر کو سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ کے اکثریتی فیصلے نے جنرل پرویزمشرف کی اہلیت سے متعلق درخواستوں کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کردیا۔ بینچ میں شامل تین ججوں نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ اس فیصلے سے قبل 27 ستمبر کو صدارتی انتخابات کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع ہوچکے تھے۔ وکلا نے 2000ء میں پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہ الدین کو اپنا امیدوار نامزد کردیا، جب کہ پیپلز پارٹی نے مخدوم امین فہیم کو امیدوار بنایا۔

صدر پرویزمشرف کے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہونے پر جسٹس (ر) وجیہ الدین اور مخدوم امین فہیم نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔ انتخاب سے تین دن قبل ان درخواستوں کی سماعت کے لیے 9 رکنی بینچ بنایا گیا اور چیف جسٹس افتخار چودھری اُس بینچ میں بھی شامل نہیں ہوئے۔ بعدازاں بینچ کے ایک رکن کی سماعت سے معذرت کے بعد جسٹس خلیل الرحمان رمدے سمیت 2 ججوں کو بینچ میں شامل کیا گیا۔

5 اکتوبر 2007ء کو بینچ نے اپنے مختصر حکم نامے میں کہا کہ اہلیت کی درخواستوں پر فیصلے تک الیکشن کمیشن انتخاب میں کامیاب امیدوار کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی درخواستوں پر سماعت کے لیے 17 اکتوبر کی تاریخ مقرر کردی۔ 6 اکتوبر کے صدارتی انتخاب میں جنرل پرویزمشرف کامیاب ہوگئے لیکن عدالتی حکم کے مطابق ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روک لیا گیا۔

سپریم کورٹ کے 11 رکنی بینچ نے 17 اکتوبر کر جنرل پرویزمشرف کی اہلیت سے متعلق روزانہ کی بنیادوں پر 2 نومبر تک سماعت کی اور اس کے بعد سماعت 5 نومبر تک ملتوی کردی۔ جنرل پرویزمشرف کو خدشہ تھا کہ عدالت ان کے خلاف فیصلہ دے گی لہٰذا اِسی خوف کے زیراثر انہوں نے 3 نومبر 2007ء کو بطور آرمی چیف ملک میں غیر آئینی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین کو معطل کردیا، جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدلیہ کے 61 جج فارغ ہوگئے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو صدر یا وزیراعظم کے خلاف فیصلہ کرنے کے اختیار سے محروم کردیا گیا، ملک کے تمام نجی ٹی وی چینلز کو بند کردیا گیا اور صرف سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی پر ایمرجنسی کے احکامات نشر کیے جانے لگے، جس میں ”انتہاپسندی کی سرگرمیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات“ کو ایمرجنسی کی وجہ قرار دیا گیا۔ اس دوران اپوزیشن نے مسلسل اپنا دباؤ برقرار رکھا، جس کے نتیجے میں بالآخر 28نومبر 2007ء کو لگ بھگ سوا نو سال آرمی چیف رہنے کے بعد جنرل پرویزمشرف فوج کی کمانڈ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کرکے آرمی چیف کے عہدے سے دست بردار ہوگئے اور اگلے روز یعنی 29 نومبر کو سویلین صدر کی حیثیت سے عہدے کا حلف اُٹھالیا۔ جنرل پرویزمشرف نے 2007ء کا عبوری آئینی حکم نامہ (پی سی او) بھی جاری کردیا جس کے بعد جسٹس افتخار چودھری سمیت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے متعدد ججوں کو نظربند کردیا گیا۔

15 دسمبر 2007ء کو پرویزمشرف نے ایمرجنسی ختم کی اور عبوری آئینی حکم نامہ (پی سی او) واپس لیا اور صدارتی فرمانوں کے ذریعے ترمیم شدہ آئین کو بحال کردیا۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی عدالتوں کے چیف جسٹس اور ججوں نے تازہ حلف اٹھایا۔

نومبر 2007ء میں وردی اُتارنے کے بعد پرویزمشرف نے 8 جنوری کو ملک میں عام انتخابات کا اعلان کردیا، لیکن 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کو خودکش حملے میں اُس وقت شہید کردیا گیا جب وہ لیاقت باغ میں انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر واپس روانہ ہورہی تھیں۔ اس حملے کا الزام بھی پرویزمشرف پر لگا اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی طرف سے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پی پی پی رہنماؤں کا مؤقف تھا کہ پرویزمشرف کی ایما پر بے نظیر بھٹو کو مناسب سیکورٹی نہیں دی گئی، لہذٰا وہ بھی مجرمانہ سازش کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے پرویزمشرف کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ تاہم مختلف مواقع پر پرویزمشرف اپنے اُوپر لگنے والے الزامات کی تردید کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری کو بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمے دار ٹھیراتے رہے۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد عام انتخابات کی تاریخ تبدیل کرکے 18 فروری 2018ء کردی گئی۔ انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی اور مسلم لیگ (ن) اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس نے مرکز میں مخلوط حکومت بنالی۔ تاہم پرویزمشرف کے غیر آئینی، غیرقانونی اقدامات کا بوجھ اَب اتحادی حکومت بھی اُٹھانے سے قاصر تھی، اس لیے اتحادی حکومت کے اندر سے بھی پرویزمشرف کو صدارت سے ہٹانے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ آخر کار اتحادی حکومت نے اُن کے مواخذے کی تحریک جمع کر ا دی۔ تاہم مواخذے کا سامنا کرنے سے قبل ہی پرویزمشرف 18 اگست 2008ء کو مستعفی ہوگئے اور بعد ازاں 2009ء میں بیرونِ ملک چلے گئے۔ یوں پرویزمشرف کے پُرفتن 9 سالہ دورِ حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ (جاری ہے)