چوتھا باب : ما بعد تصور،جدید بیانیے (2) تجربیت

فلسفے کی پیش رفت میں تیسرا دور ڈیوڈ ہیوم کے فلسفے سے عبارت ہے۔ فلسفۂ تصور پر عیسائی متکلمین سے لے کر کانٹین مثالیت پسندی تک جو کام ہوا ہے اس میں ڈیوڈ ہیوم کا فلسفۂ ’’تجربیت‘‘ بڑے خاصے کی چیز ہے۔ یہ فلسفہ یعنی ایسا نظریۂ علم جو ’’تجربیت‘‘ پر استوار ہے۔ کانٹ نے کہا ہے کہ ڈیوڈ ہیوم وہ فلسفی تھا جس نے اُسے عقائدی گڑھوں سے باہر نکالا اور دوبارہ یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ مغربی مابعد الطبیعات کی بنیاد کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے۔

ہیوم ایک شدید متشکک تھا۔ ہیوم کے تشکیکی نتائج کافی چونکادینے والے ہیں۔ یہ نتائج خالصتاً برطانوی تجربیت پسندی سے متاثر تھے، اور اس کا سرخیل جان لاک تھا۔ لاک کا فلسفہ ایک ایسے عہد کا فلسفہ ہے جس میں سچ کے حصول کے لیے آدمی کے تخیل کو کمتر خیال کیا گیا، یعنی اسے ’وہمی صورت‘ قیاس کیا گیا، ’سچ‘ تک پہنچنے کے لیے اسے غیر معیاری قرار دیا گیا۔ یہ فلسفہ اٹھارہویں صدی کی میراث بنا جس میں ذہن کی تخلیقی قوت کوکمتر حیثیت دی گئی۔ جان لاک تصور کے نامعقول اثرات سے محتاط تھا۔ وہ اپنے مضمون THOUGHTS CONCERNING EDUCATION میں والدین کو مشورہ دیتا ہے کہ بچوں کو خیالی قصے کہانیوں سے دور رکھیں، ایسی خیالی دنیا ابتدا ہی میں برباد کردیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاک کے بعد آنے والے رومانیت پسند شاعروں نے اس روش پر شدید ناپسندیدگی کا اظہارکیا۔ ولیم بلیک نے لاک پرالزام لگایا کہ اُس نے انسانی تصور سنگلاخ چٹانوں پر دے مارا ہے۔ کالریج نے کہا کہ جان لاک نے انسانی ذہن کو ایک سرد میکانیت کی نذرکردیا ہے۔ اس طرح لاک کے فلسفے سے بیزاری رومانیت پسند تحریک کا مزاج بن گئی۔ جان لاک کے فلسفے کی مذمت کی گئی۔ ییٹس نے دعویٰ کیا کہ لاک نے دنیا کو ہم سے قریب کرنے کے بجائے دور کیا ہے۔ ہیوم نے بنیادی طور پر لاک کے فلسفے کو قبول کیا ہے کہ جس میں ’’تصور‘‘ کو حواس کا زائل ہوتا ہوا ’نقش‘ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم ہیوم نے اس فلسفے کا رخ بدل دیا، اور اسے انتہائی افسانوی(FICTIONILSM) قراردیا۔ ہیوم نے اعلان کیا کہ انسانی علم اور اس کا ماخذ تصورات اور خیالات سے مملوضرور ہے مگر اس کا اصل منبع مابعدالطبیعات میں نہیں رہا۔ ہیوم کا اصرار تھا کہ حاضر و موجود کی دنیا اور اس کا ٹھوس تجربہ ہی واحد ’موجودگی‘ ہے جسے ہم جان سکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ تصور عقل کو خودمختار حیثیت سے معزول کردیتا ہے، اسے احساسات کا تابع بنادیتا ہے۔ اس طرح تصور کی ساکھ احساسات کی درجہ بندی طے کرتی ہے۔ اس طرح آدمی کی عقل کسی بھی ٹھوس شناخت سے محروم رہتی ہے۔ یوں خارجی دنیا کی آزاد موجودگی مشتبہ ہوجاتی ہے۔ ہیوم نے اپنا یہ نکتہ پوری قوت سے TREATISE OF HUMAN NATURE میں اٹھایا ہے۔ وہ کہتا ہے: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حقیقتوں اوردلائل کی دنیائیں افسانوی بن چکی ہیں، جب کہ تصورکی نقلیں کسی ماورائی سچائی کی اصل بیان نہیں کررہی ہیں بلکہ اپنے آپ میں معدوم ہوچکی ہیں۔ اگر واحد سچائی ’تصوراتی‘ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کہیں کوئی سچائی نہیں۔ وہ اس بات پر زوردیتا ہے کہ اگر حقیقت سوائے افسانوی مجموعے کے کچھ نہیں تو ہمیں ان افسانوں کو ہی حقیقت سمجھ کرچمٹ جانا چاہیے کیونکہ ان کے بغیر ہماری روشن خیال زندگی کا سکون برباد ہوجائے گا۔ زندگی میں یکسوئی اور تسلسل ختم ہوجائے گا۔ اس لیے تصوراتی نظام بہر صورت انتشار سے بہتر ہے۔ یہی ہیوم کی دلیل کا اہم ترین نکتہ ہے اور یہ اسے ضمیر کے بحران میں مبتلا کردیتا ہے کہ اگر سچ بیان کردیا جائے تو معاشرہ انتشار کا شکار ہوجائے، اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو اجنبیت اور خودفریبی کی تنہائی میں کڑھنے کی سزا بھگتی جائے۔ وہ کہتا ہے کہ کہیں کوئی سچ موجود نہیں مگریہ ایسی معلوم حقیقت ہے جس سے نظام زندگی منتشر ہوجائے گا، دنیا کا سکون برباد ہوجائے گا۔ دوسرے لفظوں میں اگر لوگ تصورات پر یقین نہ کریں تو روشن خیال دلیل کی ساری عمارت ہی ڈھے جاتی ہے۔

یہاں تک کہ ایک سیدھا سادہ وعدہ بھی بے اعتبار ٹھیرتا ہے، اپنا معروضی جواز کھو بیٹھتا ہے، کہ جو شخص وعدہ کرتا ہے اگلے ہی روز منطقی طور پر کہہ سکتا ہے کہ اب وہ، وہ شخص نہیں رہا جو گزشتہ روز تھا۔ ہیوم کے لیے تخیل کی پرواز ایک ثقافتی حقیقت ہے اور اس طرح کے حالات میں دلیل کے لیے واحد قابلِ جواز کردار یہ رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی تشکیک میں ہوشیار ہوجائے، محتاط ہوجائے۔ دلیل کے بغیر فلسفی اس قابل نہیں رہے گا کہ نام نہاد حقیقتوں تک پہنچ سکے… ثقافت اور افسانویت کی حقیقتیں! وہ ناگواری سے اعتراف کرتا ہے کہ ’’حقیقت‘‘ کی اس دریافت کی حقیقت سے فلسفیوں کولازماً باخبر رہنا چاہیے، کیونکہ اگر لوگ یہ جان لیں کہ بادشاہ، ریاست، اور یہ سارا نظام بے بنیاد ہے، اس کی کوئی سماجی منطقیت نہیں ہے، اگر لوگ یہ جان جائیں کہ یہ اختیار، یہ قانون، یہ تعلیم، یہ اخلاق، یہ مذہب کچھ نہیں ہے تو ایسی صورت میں یہ ریاست، یہ معاشرہ زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہے گا۔ اس طرح ایک معقولیت پسند متشکک محسوس کرتا ہے کہ وہ معاشرے کے لیے اجنبی ہے، ایک ایسا منفی کردار جو لوگوں میں گھل مل نہیں سکتا۔ یہاں تک کہ وہ ہر انسانی سرگرمی سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ اس تنہا انسان کے اندر ایک ایسی ناقابلِ برداشت حقیقت موجود ہوتی ہے جو سمجھتی ہے کہ دنیا سوائے نقلوں کی پرچھائیوں کے کچھ نہیں ہے، سب تصورات کا گورکھ دھندا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ ایک خاموشی اُس پرمسلط کردی گئی ہے کیونکہ بولنا سماج کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے اور امن و امان سے رہنا خطرے میں پڑسکتا ہے۔ ہیوم مثال دیتا ہے کہ یہ ’تصور‘ افلاطون کے غارکے تصورجیسا ہے، ایک ایسی تصوراتی دنیا جہاں دھوکے میں رہنا ہی پُرسکون زندگی کا باعث تھا۔ مگر یہاں ہیوم اور افلاطون میں ایک اہم فرق سامنے آتا ہے۔ ہیوم کسی ماورائی حقیقت پر یقین نہیں رکھتا کہ جو غار سے باہر موجود ہو۔ وہ سمجھتا ہے کہ تمام انسان جو ثقافت کا حصہ ہیں جھوٹے ہیں، یہ شاعر اور فنکار پیشہ ورانہ طور پر جھوٹے لوگ ہیں۔ اس طرح ہیوم تصور کو مقدر کا معمّا سمجھتا ہے۔ یہ دنیا ایک افسانہ ہے، اور اچھے برے افسانے میں تمیز کیسے کرسکتے ہیں؟ اور یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ کون سا افسانہ معاشرے کی فلاح کے لیے ہے؟

ہیوم اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ انسان خسارے میں ہیں۔ سوال فقط یہ ہے کہ ہم کیسے اور کتنا ان خیالی تصورات کے ساتھ سمجھوتا کرسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب واقعی بہت مشکل ہے اور ہمیں انتہائی مخمصے میں ڈال دیتا ہے۔ ہم جس طرح بھی اس سوال کا جواب دینا چاہیں، تضاد کا شکار رہیں گے، اور یہ تضاد ہمیں غلطیوں تک لے جائیں گے، حماقتیں ہوں گی، معاملات میں گمراہ رہیں گے اوربالآخر ہم اپنی حماقتوں پرشرمندہ ہوں گے۔ وہ کہتا ہے کہ دلیل کے لیے تخیل کی پرواز سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں رہی۔ اگر ہم اس اصول کو قبول کرلیں اور ہر طرح کی دلیل کی مذمت کریں تو ہم حماقتوں کی آخری حد پر پہنچ جائیں گے، اور اگر ہم اس طرح کی دلیل کو مسترد کرتے ہیں تو ہم انسانی فہم کے سارے سلسلے کو الٹ دیں گے۔ اس لیے ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں ہے اور میں نہیں جانتا کہ اس سلسلے میں کیا ہونا چاہیے، ہم اس بارے میں کیا کرسکتے ہیں! اس روشن خیال عظیم مفکر نے اپنے آخری تجزیے میں یہ سوال چھوڑ دیا ہے کہ ہم اس انتہائی افسوس ناک صورت حال میں ممکنہ طور پر کر ہی کیا کرسکتے ہیں؟ ہمارے پاس بقا کی جو واحد حکمت عملی ہے وہ ’’گریز‘‘ ہے۔ ہیوم آخرمیں اپنی ساری کتابیں بند کردیتا ہے اور دوستوں کے ساتھ کھیل تماشے میں مگن ہوجاتا ہے۔ جب کہ دوسری جانب اس معمے کا حل کانٹ کے پاس ایک مختلف صورت میں موجود ہے۔

کانٹ اور ماورائی تصور:
ایمانویل کانٹ جب ماورائی تصور کی بات کرتا ہے تو اس سے اُس کی کیا مراد ہوتی ہے؟

کانٹ کہتا ہے: ’’تصور‘‘کُل علم کی پوشیدہ حالت ہے۔ کتاب ’’تنقید عقلِ محض‘‘ میں وہ لکھتا ہے: ’’ماورائی تصور‘‘ انسانی روح کی گہرائی میں چھپا ایک آرٹ ہے، اس کی بنیاد شے کی معروضیت کو موضوع کی موضوعیت میں قائم کرتی ہے، نہ کہ آدمی سے بعید کسی ’ماورائی نظام‘ میں۔

ماورائی تصور دنیا میں ہمارے تجرے کی پیشگی شرط ہے۔ کانٹ کے لیے ’ماورائیت‘ کی اصطلاح کا تعلق تجربے کی اولین شرط سے ہے۔ یہاں یہ سب سے پہلے تجربے پر زور دیتی ہے۔ افلاطونی مابعد الطبیعات کے برعکس، کانٹ ماورائیت کو کسی دوسرے عالم کی ’ابدی صورتوں‘ کے بجائے آدمی کے ’ذہن‘ میں جگہ دیتا ہے۔ کانٹ وضاحت کرتا ہے کہ ماورائیت اشیا کی معلومات سے اتنی متعلق نہیں جتنی اشیا کے بارے میں ہمارے علم سے متعلق ہے۔ یہیں سے جدید انقلابی اسلوبِ تحقیق برپا ہوتا ہے۔ کانٹ کے ہاں ماورائیت کا سوال یہ صورت اختیارکرتا ہے: علم کا حصول کیسے ممکن ہے؟

ڈیکارٹ اور ہیوم کے فلسفے پہلے ہی یہ بات مستحکم کرچکے ہیں کہ ’’موضوعیت‘‘ کو بالادستی حاصل ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ جدید مثالیت پسندی کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ کانٹ کا ڈیکارٹ اور ہیوم سے اختلاف یہ ہے کہ وہ ’ماورائیت‘ کی بنیاد پر آدمی کی موضوعیت کے دعوے پیش کرتا ہے۔

کانٹ دلیل دیتا ہے کہ تصور نقلوں کی پیشکش کا نمونہ نہیں ہے بلکہ اسے ماورائی نمونے کے طور پردیکھنا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے انسان کی تخلیقی قوت سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ انسان کی خلّاقیت ہی تصورکرنے کا عمل واضح کرسکتی ہے۔ تصور ذہانت اور حواس کے درمیان کسی مصالحت کا کردار ادا نہیں کرتا بلکہ یہ ان دونوں خصوصیات کی جڑ ہے۔

کانٹ معروضی علم کے جواز کو بحال کرتا ہے۔ وہ یہ دلیل مستحکم کرتا ہے کہ معروضی تصور ’مرکب تجزیے‘ کی شکل میں سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ ہمارے احساس اور فہم کے تجربات کا مرکب ہوتا ہے۔ اس طرح تصور ایک من مانی صورت حال سے نکل آتا ہے اور ایک تخلیقی کارگزاری اور ایک خالص علم بن جاتا ہے۔

کانٹ تصور کو کیسے اس راستے پر قابلِ جواز ٹھیراتا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں ’’تنقید عقلِ محض‘‘ کے مزید کئی تکنیکی دلائل کو دہرانا ہوگا۔ کانٹ ہیوم کے تجربی دلائل کا جائزہ لیتا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ انسان کا سارا علم اس کا تجربہ ہے، علم ’حسی تجربے‘ کے سوا کہیں نہیں ہے۔ کانٹ اس بات کی جزوی تائید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محض حسیاتی تجربے سے علم حاصل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے ہمیں اپنے فہم سے بھی کام لینا پڑتا ہے اور ہمارے حواس ہماری قوتِ فہم کے بغیر بے کار ہیں۔ اسی طرح ہمارا فہم بغیر احساس اور تجربے کے محض ’خالی پن‘ ہے۔ پہلے قدم پرکانٹ ہیوم کے اس فلسفے کو رد کرتا ہے کہ علم سارا کا سارا تجربے سے حاصل ہوتا ہے۔ کانٹ کہتا ہے کہ علم دونوں ذرائع سے حاصل ہوتا ہے، اس میں ادراک اور حواس دونوں کا یکساں کردار ہے، اور ان دونوں میں سے کوئی ایک چیز بھی اگر موجود نہ ہو تو علم کا حاصل ہونا محال ہے۔

کانٹ اگلے قدم پر یہ واضح کرتا ہے کہ احساس اور ادراک کس طرح متحد ہوکر ہمارے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔ وہ اس دلیل کو ایک مرکب تجزیے (synthesis)کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ یہ دونوں خصوصیات کس طرح تعامل کرتی ہیں۔ محض یہ کہ کوئی بھی ایسی شے جو ہمارے حواس میں داخل ہوتی ہے علم کا سبب نہیں بن سکتی۔ جب اشیاء شعور کے ساتھ اپنے تعلق کو قائم کرکے دکھا دیتی ہیں تو علم کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ یہ کام اشیاء مجموعی طور پر بھی کرتی ہیں اور انفرادی سطح پر بھی، اور یہ ہماری شعوری کارگزاری ہوتی ہے، شعوری تصور ہوتا ہے جو ہمیں تجربے کی درست سمجھ میں مدد فراہم کرتا ہے، اور اس طرح ہمارے ادراک شدہ تصورات ہمیں چیزوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

کانٹ کی جمالیات:
’’تنقید عقلِ محض‘‘ (Critique of pure reason)کی دوسری اشاعت میں تخلیقی تصور کے لیے جہاں کانٹ نے اپنے بہت سے دعووں سے رجوع کیا، وہیں ’’تنقیدِ بصیرت‘‘ (The Critique of Judgement) میں اپنے تصورِ جمالیات کوقدرے نرم کیا ہے، اس حد تک کہ شاعری کو لائسنس جاری کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ کہ جب وہ فلسفہ تصور کے دفاع کی جنگ لڑ رہا تھا، اس نے تخلیقی تصور کے لیے کچھ حدیں بھی مقرر کیں۔ کانٹ نے اپنے تصورِ جمالیات کی تھیوری The Critique of Judgement میں مفصل پیش کی۔

حس ’جمالیات‘ کے لیے کانٹ نے انسانی ذہن کو تین خانوں میں بانٹ دیا: ادراک، دلیل، اوربصیرت۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کا فہم اور اس کی دلیل دونوں مشترکہ طور پر کسی درست نتیجے پر پہنچاسکتے ہیں۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ نتائج مختلف قسم کے ہوسکتے ہیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ کانٹ حسِ جمالیات سے حاصل ہونے والی بصیرت کوبہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جمالیات یعنی ’ذہن کی کشادگی اوراحساس لطیف‘ تخلیقی تصور کے لیے لازم ہے، جیسا کہ جرمن فلسفی ہربرٹ مارکوزنے مشاہدہ کیا ہے:

’’تنقیدِ بصیرت میں جمالیات کی جہت کا لطافت سے تعامل ابھرکر سامنے آتا ہے، یہ محض ذہن کا ایک خانہ نہیں بلکہ اس کا مغزہے۔ جمال اس مقام پرآزادی کے وجدانی اظہارکی علامت بن جاتا ہے۔ جب کہ آزادی ایک ایسا احساس ہے جوکسی حس میں سما نہیں سکتا، اس طرح کا اظہاربالواسطہ اور علامتی یا تمثیلی ہی ہوسکتا ہے۔‘‘