بنی اسرائیل:ایک قوم جس نے اپنے خدا کو بھلا دیا تھا

یروشلم خدا وند خدا کا متبرک شہر تھا‘ اللہ کی ہدایت کو لے کر کتنے ہی نبی اس شہر سے اٹھے تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے اسرائیل کے منتشر گروہوں کوجمع کرکے حق و صداقت کی راہ پر لگانے کی انتھک کوشش کی تھی‘ اس شہر میں شان و شوکت والے سلیمان نبی نے اپنا ہیکل تعمیر کرایا تھا‘ اور عرصہ دراز تک یروشلم امن پسندوں اور اللہ کے وفاداروں کا شہر بنا رہا تھا۔ مگر بنی اسرائیل ان نعمتوں کے منکر ہو گئے جو اللہ کی طرف سے ان پر نازل ہو رہی تھیں‘ انہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے‘ انہوں نے توحید کا دامن چھوڑ دیا اورمشرکوں کے رسوم و رواج اپنا لیے، وہ فسق و فجور میں ایسے گم ہو گئے جیسے ان کے پاس کبھی اللہ نے اپنے کسی رسول کو بھیجا ہی نہیں تھا۔ کتنے ہی سچے رسول اللہ کی طرف سے ان کو خبردار کرتے رہے اور انہیں عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے ،مگر وہ دنیا کی آغوش میں مست و بے خبر پڑے رہے‘ یہاں تک کہ اللہ کا قہر ان پر نازل ہوا اور ظالم و ستم گار قومیں ان کے شہروں پر ٹوٹ پڑیں اور صدیوں تک وہ ذلت و خواری کے ساتھ سخت گیر دشمنوں کی غلامی میں مصیبتیں جھیلتے رہے۔

مکہ میں اللہ کے آخری رسولؐ پر قرآن عظیم کی آیات نازل ہو رہی تھیں۔ یہ ہدایت کا وہی سلسلہ تھا جو اس سے پہلے بنی اسرائیل کے نجات دہندہ موسیٰؑ ابن عمران کے پاس بھی مقدس فرشتہ لے کر آیا تھا۔ اور اب وہی فرشتہ مکہ میں رسول اکرمؐ محمد بن عبداللہ کے پاس اللہ کی آیات لے کر آیا تھا۔ اس وقت یہ ہدایت تورات کے صحیفوں میں محفوظ کر لی گئی تھی مگر گم کردہ راہ اسرائیل کے دنیا پرست عالموں نے ظالم اور عیاش حکمرانوں کی حسب مرضی اس میں تحریف کی۔ اللہ کی آیات کو بدل کر رکھ دیا اور حقیقت افسانوں میں گم ہو کر رہ گئی اور یہود بھول گئے کہ وہ کہاں سے چلے تھے اور کہاں کہاں بھٹکتے رہے تھے۔ ضروری تھاکہ ان کو ان کی تاریخ کی بھولی بسری باتیں یاد دلا دی جائیں۔

یہ وہ موقع ہے جب کہ قادر کائنات ربِ ارض وسموات نے فخرِکائنات سرور عالم حضور اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں کی سیرکرائی اورنظام کائنات کے اسرار آپؐ پر کھول دیے۔

’’پاک ہے وہ جو لے گیاایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دورکی اس مسجد تک، جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔‘‘

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل کے مقدس شہر یروشلم ہو کر آئے تھے اور ضروری تھا کہ اُس قوم کو جسے یروشلم نے اس کے برے کرتوتوں کی وجہ سے اگل دیا تھا، اس کے پچھلے سیاہ کارنامے یاد دلائے جائیں۔یہ بھی بتا دیا جائے کہ اسے ان بداعمالیوں کی سزا کس کس طرح بھگتنی پڑی تھی اب پھر ایک بار اللہ کا ایک رسول‘ اللہ کا آخری ہدایت نامہ لے کر ان کے پاس پہنچ رہا تھا اور اس بدبخت قوم کو اللہ نے ایک اور موقع دیا تھا کہ وہ اپنی روش کو بدل دے اور جو حق اللہ کی کھلی نشانیوں کے ساتھ آیا ہے اس کی تکذیب نہ کرے۔ چنانچہ زبانِ رسالتؐ سے انہیں خبردار کیا گیا۔

’’ہم نے اس سے پہلے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا تھا، اس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا۔‘‘

’’تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پرسوار کیا تھا اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا۔‘‘

’’پھر ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر بھی متنبہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھائو گے۔‘‘

’’آخر کار جب ان میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا تو اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زورآور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھس کر ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر ہی رہنا تھا۔‘‘

’’اس کے بعد ہم نے تمہیں ان پر غلبہ کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔‘‘

’’دیکھو! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے برائی ثابت ہوئی۔‘‘

’’پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کرکے رکھ دیں۔‘‘

’’ہوسکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے، لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے اور کافر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے جہنم کو قید خانہ بنا رکھا ہے۔‘‘