حماس اسلامی فکر کی حامل تحریک ہے، اس تحریک سے وابستہ افراد کی اسلامی فکر کے مطابق ذہن سازی کی جاتی ہے
اسرائیلی ریاست کے 75 سال سے جاری ظلم وجبر سے نجات کے لیے فلسطین کی مزاحمتی تحریک نے 7 اکتوبر 2023ء کو طوفانِ اقصیٰ معرکے کا آغاز کیا، جس پر اسرائیل اور اُس کے اتحادی ممالک نے آہ و بکا شروع کردی، اور مختلف الزامات عائد کیے۔
7 اکتوبر 2023ء سے متعلق اسرائیل کی جانب سے جھوٹے پروپیگنڈے اور ان کی طوفانِ اقصیٰ سے متعلق غیر مصدقہ معلومات کے حوالے سے حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ (حماس ) کی جانب سے ذیل میں چند امور کی وضاحت کی جارہی ہے:
1۔ طوفانِ اقصیٰ (7 اکتوبر) نے صرف اسرائیل کے عسکری مقامات کو نشانہ بنایا، اور اسرائیل کی قید میں موجود ہزاروں فلسطینیوں کے تبادلے کے پیش نظر دشمن کے فوجیوں اور جنگجوؤں کو گرفتار کیا۔ اسی طرح اس حملے کو غزہ کے اردگرد اسرائیلی عسکری مقامات پر مرکوز رکھا، کیونکہ غزہ پر بمباری انھی مراکز سے کی جاتی ہے۔
2۔حماس اسلامی فکر کی حامل تحریک ہے، اس تحریک سے وابستہ افراد کی اسلامی فکر کے مطابق ذہن سازی کی جاتی ہے، جس میں جنگ کے دوران پُرامن شہریوں، بالخصوص پُرامن بچوں، بزرگوں، عورتوں کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔ اس وقت کتائب القسام کے مجاہدین اسی تعلیم پر عمل پیرا ہیں۔ طوفانِ اقصیٰ کے آغاز کے وقت اگر کسی شہری کو نقصان پہنچا بھی تو وہ غیر ارادی طور پر پہنچا ہوگا۔ اس لیے کہ اس وقت ہم بھی ظالم دشمن سے دفاع کے ساتھ ساتھ اس کا مقابلہ کررہے ہیں، اس لیے کہ وہ دن رات ہمارے بچوں، بزرگوں، عورتوں کو مہلک ہتھیاروں سے شہید کررہا ہے۔
3۔ 1987ء میں حماس کا قیام عمل میں آیا۔ اس نے اپنے قیام کے آغاز سے اس امر کی پابندی کی ہے کہ عام شہریوں کو اس جنگ میں نقصان نہ پہنچایا جائے۔ 1994ء میں صہیونی مجرم باروخ جولدشتاین نے خلیل شہر(ہیبرون) میں ابراہیم مسجد میں نمازیوں کا قتلِ عام کیا، تو اُس وقت بھی حماس اور دیگر جماعتوں نے اس امر پر زور دیا کہ لڑائی میں شہریوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے، لیکن قابض اسرائیل نے اس کا جواب دینا بھی گوارا نہ کیا، حماس شہریوں کو جانی و مالی نقصان سے بچانے کی صدا بلند کرتی رہی، لیکن صہیونی اپنی ضد پر قائم رہتے ہوئے اس جرم سے باز نہ آئے۔
طوفانِ اقصیٰ کے آغاز کے وقت دونوں جانب سے فورسز کی نقل و حرکت، باڑ کی وسیع خلاف ورزیوں اور غزہ کی پٹی کے ہمارے آپریشن کے علاقوں سے الگ ہونے کے نتیجے میں شہریوں کو نقصان پہنچا ہوگا۔
جن اسرائیلی شہریوں کو غزہ میں قید کیا گیا اُن کے ساتھ حماس کے مجاہدین کا حُسنِ سلوک دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ ان کو ہم نے جلد آزاد کرنے کی کوشش کی، جو عملاً 7 دن کی عارضی جنگ بندی کے دوران ہوسکا۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل نے بین الاقوامی قانون، انسانی معاشرے کے عرف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انسان دشمنی پر مبنی سلوک کیا۔
4۔ 7 اکتوبر کے دن کتائب القسام کی جانب سے اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے قابض اسرائیل کے بیانات صرف جھوٹ و بہتان پر مبنی ہیں، اس امر کا دعویٰ صرف اسرائیلی ذرائع نے کیا ہے، کسی آزاد اور مصدقہ ذریعے نے ان کی تصدیق نہیں کی۔
یہ امر معروف ہے کہ اکثر اسرائیلی ذرائع ابلاغ اپنی حکومت کے حقائق اور اس کی جعل سازی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ اس کے جرائم کو صحیح ثابت کرکے حماس کا خاتمہ کیا جاسکے۔
اسرائیل کے کذب و بہتان کی حقیقت ذیل میں دی گئی اہم معلومات سے واضح ہوگی:
٭ اس دن لی گئی ویڈیو کلپس، اور بعد میں شائع ہونے والی اسرائیلیوں کی شہادتوں نے ظاہر کیا کہ القسام کے جنگجوؤں نے عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا لیکن اسرائیلی فوج کی غلط فہمی کے نتیجے میں ان میں سے کئی پولیس فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔
٭ یہ بات پورے یقین کے ساتھ ثابت ہوچکی ہے کہ چالیس شیر خوار بچوں کے قتل کا دعویٰ جھوٹا تھا، اور اس کا اعتراف اسرائیلی ذرائع نے بھی کیا ہے۔ یہ وہ پروپیگنڈا ہے جو مغربی میڈیا میں بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا ہے۔
٭ یہ الزام کہ مزاحمتی جنگجوؤں نے اسرائیلی خواتین کی عصمت دری کی، جھوٹ ثابت ہوا اور حماس نے اس کی تردید کی۔
٭ اسرائیلی اخبار یدیعوت احرونوت (2023-10-15) اور ہارتس(2023-11-18) کی رپورٹ کے مطابق (طوفان الاقصیٰ کے دن) یہودی اپنی عید عرش کی مناسبت سے مقام رعیم کے قریب محفل لگائے ہوئے تھے، جس سے مجاہدین لاعلم تھے۔ مجاہدین جب وہاں داخل ہوئے تو اسرائیل نے اباشی نامی طیاروں سے 364 اسرائیلی شہریوں کو قتل کیا۔ اسی طرح یدیعوت احرونوت اخبار کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹر سے حملے کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مجاہدین کو قتل کردیا جائے اور (محفل میں شریک یہودی) ان کے قیدی نہ بن سکیں۔
٭ اسرائیلی اخبارات کی رپورٹوں سے یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ اسرائیلی فوج کے حملوں اور جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں غزہ کے اطراف میں اسرائیلی قیدیوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوچکی ہے۔ اسی طرح ان کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملوں اور تحریکِ حماس سے جھڑپوں کے نتیجے میں مجاہدین کے ساتھ ساتھ اسرائیلی شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں، اور ان کے گھر مسمار کیے جاچکے ہیں۔ اسرائیل کا حماس کے پاس اسرائیلی قیدیوں کو قتل کرنے کے حوالے سے واضح موقف ہے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی شہریوں کو قتل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اس طرح قابض دشمن اپنی جارحیت کے ذریعے شہریوں، مجاہدین اور قیدیوں کو جانی نقصان پہنچانے پر کاربند ہے۔
٭ ان کے مکروفریب اور بہتان تراشی کی حقیقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ طوفانِ اقصیٰ کے آغاز میں اسرائیلی حکام نے یہ اعلامیہ جاری کیا کہ اسرائیلی مقتول شہریوں کی تعداد 1400 ہوچکی ہے۔ پھر چند ہفتوں کے بعد اس تعداد میں کمی کرتے ہوئے کہا کہ 1200 اسرائیلی شہریوں کو جانی نقصان پہنچا ہے جبکہ 200 کتائب القسام کی نعشیں تھیں۔
یہاں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
1۔ کیا یہ قتل عام اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملے کا نتیجہ نہیں ہے؟
2۔ اس خطے میں اسرائیل کے سوا کس کے پاس ایسے مہلک ہتھیار ہیں جو انسانوں کو جلا کر بھسم کرسکیں؟
لیکن اسرائیل کے مصدقہ ذرائع نے ان کے اس جھوٹ سے پردہ ہٹاتے ہوئے دنیا کے سامنے ان کے پروپیگنڈے کو واضح کردیا ہے۔
٭ قابض اسرائیل کے جرائم کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی جانب سے غزہ پر کیے جانے والے فضائی حملوں کے نتیجے میں 60 اسرائیلی قیدی ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دشمن کو اپنے فوجی اور حماس کی قید میں موجود اسرائیلی شہریوں کی کتنی ”فکر“ ہے۔ مزید یہ کہ وہ ان کی بھاری قیمت کی ادائیگی سے بچنے کے لیے ان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
5۔ دوسری جانب غزہ کے اطراف میں مسلح آبادکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی، جو قابض فوج کی جانب سے حماس کے خلاف جنگی کارروائیوں میں شریک رہے، اس دوران ان میں جو قتل ہوئے ان کو اسرائیل نے شہریوں کی لسٹ میں درج کردیا۔
6۔ یہ امر قابلِ تعجب ہے (ممکن ہے اکثر لوگ اس سے ناواقف ہوں) کہ جس اسرائیلی شہری کی عمر 18 سال سے زیادہ ہے، ریاست کی جانب سے اُس کے لیے ضروری ہے کہ فوجی کارروائیوں میں حصہ لے، اس میں مرد کے لیے 32 ماہ اور عورت کے لیے 24 ماہ کی مدت مقرر کی گئی ہے، جس میں وہ جنگی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اس عمل کا مقصد یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی حفاظت کے لیے جنگی صلاحیتوں کے حامل ہوں۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے اپنے لوگوں کی فکر کو ’’مسلح جدوجہد‘‘ کا حامل بنارہے ہیں۔ اس منصوبے کی پشت پر قابض اسرائیل نے یہ تصور دیا کہ ’’عسکری طاقت سے ملک قوی ہوتا ہے‘‘ نہ کہ ’’ملک فوج کی قوت کا‘‘ سبب بنتا ہے۔
7۔ صہیونیوں نے اب تک بڑی تعداد میں بچوں اورخواتین کو شہید کرکے اہلِ فلسطین کو ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔
8۔ الجزیرہ کی شائع کردہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے اوسطاً 136 بچے یومیہ شہید ہوئے ہیں، جبکہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ کے دوران (جس کو دوسال سے زائد عرصہ گزرچکا ہے) اوسطاً ایک بچہ قتل ہوا ہے۔
9۔ صہیونیوں کے تشدد کا دفاع کرنے والے اس جنگ میں ہونے والے بڑے نقصانات اور واقعات کا غیر جانب دارانہ مطالعہ نہیں کرتے، بلکہ وہ ان کے قتلِ عام کا دفاع کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف حماس کے خلاف ہرجھوٹے دعوے کے معاون بنے ہوئے ہیں۔
10۔ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب منصفانہ اور آزادانہ تحقیق کی جائے گی تو ہمارا بیانیہ سچ ثابت ہوگا، جبکہ قابض اسرائیل کے من گھڑت الزامات کی تردید ہوگی، جس طرح غزہ پر جارحیت کے دوران اس کی جانب سے دیے گئے اعدادوشمار جھوٹ اور فریب پر مبنی تھے۔
اسی طرح اُس کی جانب سے حماس کی قیادت پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے الشفا اسپتال کو ہیڈکوارٹر بنایا ہوا ہے، جہاں عسکری آپریشن کے دفتر کے علاوہ قیدیوں کو رکھنے کا ٹھکانہ ہے (جس کی بنیاد پر اسرائیل نے اس پر بمباری کی)۔ اس الزام کے بعد جو کچھ حاصل ہوا وہ اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ قابض اسرائیل اپنے دعوے میں جھوٹا تھا۔ لہٰذا ہمیں اس بات پر شرحِ صدر ہے کہ جب غیرجانب دارانہ اور منصفانہ تحقیق کی جائے گی تو اس سے فلسطینی (حماس) بیانیے کی تصدیق ہوجائے گی۔