قصۂ یک درویش! پہلی درسگاہ

تیسری قسط

دادا جان مرحوم کی زندگی کے یادگار واقعات میں سے اوپر بیان کردہ واقعہ میرے علم میں بھی تھا، مگر میرے والد مرحوم کے ماموں زاد، میرے رشتے کے چچا میاں محمد سعید نے یہ انگلینڈ میں کئی بار مجھے اور دیگر عزیزوں کو سنایا۔ وہ فرماتے ہیں: ’’میرے والد میاں محمد اسماعیل جوانی میں فوت ہوگئے۔ اپنے پیچھے (دو بیویوں سے) سات بیٹیاں، دو بیٹے اور دو بیوگان چھوڑ گئے (ایک بیوی، میری سوتیلی ماں ان کی وفات کے بعد جلد ہی فوت ہوگئی تھیں) ہمارے تایا میاں مخدوم عالم بھی جوانی میں وفات پا گئے۔ وہ بھی بیوہ اور تین بیٹیاں چھوڑ گئے تھے۔ بابا فتح علی صاحب جب بھی ہمارے ہاں آتے تو اپنی بیٹی اور نواسیوں ہی کی طرح ہماری والدہ اور ہم بہن بھائیوں سب کے بارے میں خیریت دریافت کرتے، کوئی مشکل ہوتی تو ہماری بھی اپنی بیٹی اور نواسیوں ہی کی طرح مدد کرتے۔‘‘

فرطِ جذبات سے چچا سعید کی آواز رندھ گئی اور مزید فرمایا ’’ایک مرتبہ فروری کے مہینے میں تشریف لائے تو آپ کو پتا چلا کہ ہم دونوں گھروں میں گندم کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے اور دونوں وقت باجرہ، جوار وغیرہ کی روٹیاں پکتی ہیں۔ جب واپس چلے گئے تو اگلے دن بھائی فیض محی الدین (میرے والد مرحوم) ایک بہت بڑی گدھی کے اوپر گندم کی دو بوریاں لادے ہوئے ایک خادم (بابا غلام علی نائی) کے ساتھ ہمارے ہاں آئے۔ پہلے ایک بوری ہمارے برآمدے میں اتاری اور پھر دوسری بوری اپنی بہن کے برآمدے میں اتار دی۔‘‘ یہ تھا ان کا اخلاقی طرزِعمل۔ اللہ اپنے بندے کے درجات بلند فرمائے۔ واضح رہے کہ ایک بوری ڈھائی من یعنی پورے ایک سو کلو کی ہوتی تھی۔

یہی واقعہ میری پھوپھی جان نے ایک بار میری جوانی کی عمر میں مجھے سنایا تو میں نے ان سے سوال کیا ’’جب خادم موجود تھا تو والد صاحب پھر کیوں ساتھ گئے؟‘‘ فرمانے لگیں ’’میرا پتر! اگر کسی خادم کو دے کر بھیج دیتے تو بھی پوری امانت بلا کم و کاست اپنی جگہ پر پہنچ جاتی، مگر اپنائیت و محبت کی وہ چاشنی اس میں نہ ہوتی جو خاندان کے کسی فرد کے خود جانے سے ہوتی ہے۔‘‘ ایک تو پنجابی زبان میں’’میرا پتر‘‘ سننے کا لطف، اور دوسرا اس حکمت بھری وضاحت کی روحانی چاشنی! اللہ اللہ!!

دادا جان میری صحت اور بیماری دونوں حالتوں میں اکثر مجھے بھی اپنے ساتھ گھوڑی پر بٹھا کر گکھڑ لے جاتے۔ وہاں جاکر ماحول کی کچھ تبدیلی اور پھوپھی جان اور پھوپھی زاد بہنوں کی محبت بھری رفاقت سے میری طبیعت بھی کسی حد تک سنبھل جاتی تھی۔ دادا جان کبھی کبھی میری چھوٹی بہن ام وقاص (زبیدہ بی بی) کو بھی گھوڑی پر اپنے آگے بٹھا لیتے اور مجھے پیچھے۔ ہم دونوں کو ایک پگڑی نما کپڑے (صافے) کے ساتھ اپنی کمر کے ساتھ باندھ لیتے۔ اس سفر کے دوران راستے کی ہر چیز، نہر اور اس کی تنگ پلی، کھیت اور مویشی، چرواہے اور چراگاہیں، درخت اور جھاڑیاں، راستے میں جگہ جگہ دادا جان کو ملنے والے بزرگ اور جوان، جوآپ کو ادب و احترام سے سلام کرتے، اب تک یاد ہیں۔ راستے میں دادا جان افراد اور مقامات کے بارے میں ہمیں معلومات بھی فراہم کرتے رہتے، یہاں تک کہ ہم منزل پہ پہنچ جاتے جہاں پُرتپاک اور یادگار استقبال ہوتا تھا۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے میرا بچپن سخت بیماری میں گزرا۔ میری اسی بیماری کے دوران ایک روز میرے بڑے مجھے ساتھ کے گائوں جوڑا کے ایک بزرگ سے دم کرانے کے لیے اُن کے پاس لے گئے۔ وہ ایک مسجد کے امام ہونے کے ساتھ جوڑا گائوں کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب بھی تھے۔ مرحوم کا تیلی گھرانے سے تعلق تھا اور نیک آدمی تھے۔ حافظ مولاداد نام تھا۔ میں نے دیکھا کہ بزرگ خود معذور تھے، ان کا نچلا دھڑ مفلوج تھا۔ مجھے یہ منظر عجیب لگا اور میں نے اپنی افتادِ طبع کے مطابق اپنے بزرگوں سے پوچھا ’’یہ بابا جی مجھے کیا دم کریں گے؟ یہ تو خود معذور و بے بس ہیں۔‘‘ میرے بزرگ یہ سن کر مسکرائے مگر مجھے خاموش کرا دیا۔ قصہ مختصر یہ کہ اس بزرگ نے کچھ کلام پڑھ کر مجھے دم کیا اور ساتھ ہی مشورہ دیا کہ آخری چہار شنبہ آنے پر بچے کو کسی درس میں قرآن پڑھنے کے لیے داخل کرا دیں۔

میری عمر کوئی ساڑھے چار، پانچ سال کے درمیان تھی اور ان دنوں مسلسل بخار کی وجہ سے بہت زیادہ کمزوری تھی۔ ایک دن میں نے محسوس کیا کہ گھر کے بزرگان میرے بارے میں کچھ مشورہ کررہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد پھوپھی جان نے مجھے نئے کپڑے پہنا کر تیار کیا اور کہا کہ میری جان! آج آپ کو درس میں بٹھانا ہے۔ میں سخت پریشان ہوگیا، شور مچانا چاہتا تھا، مگر دادا جان کو دیکھ کر احتراماً چپ رہا۔ تھوڑی دیر بعد دادا جان نے مجھے اپنے بازوئوں میں اٹھا لیا۔

درس گاہ کی جانب سفر کا وہ منظر اور اس کا ایک ایک لمحہ مجھے یوں یاد ہے جیسے ابھی آج ہی کی بات ہو۔ خادم خاص بابا امام دین موچی نے شیرینی اٹھائی جو اُس زمانے میں بہترین گڑ ہوا کرتا تھا اور خوب کھلے دل سے تقسیم کیا جاتاتھا۔ اس نے دادا جان سے اصرار کیا کہ وہ مجھے بھی اٹھا لیتا ہے، مگر دادا جان نے فرمایا کہ نہیں میں خود اٹھا کے لے جائوں گا۔ گھر کے کسی فرد نے نہیں کہا کہ میں اٹھاتا ہوں کیوںکہ ان سب کو معلوم تھا کہ بزرگ میاں فتح علی ایسی کسی پیش کش کو قبول نہیں کریں گے۔ جوں ہی گھر سے نکلے تو گلی راستے میں جو بھی مرد، عورت، نوجوان ملا ہر ایک نے بہت والہانہ انداز میں کہا ’’میاں جی، باپو جی، چاچا جی! لائو مجھے دے دو میں بچے کو اٹھا لوں‘‘۔ بعض لوگوں نے میرا نام لے کر بھی اصرار کیا۔ میں سب کچھ چپ چاپ دیکھ اور سن رہا تھا۔ یہ ایک لحاظ سے بڑا اعزاز تھا کہ گائوں کے سب سے معزز بزرگ مجھے اپنے بازوئوں میں اٹھائے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود اندر سے کسی قدر پریشان بھی تھا کہ اب کسی مشکل وادی میں اترنا ہو گا۔

ہماری جامع مسجد تو ہمارے گھر سے بالکل ملحق، گائوں کے عین مرکز میں ہے۔ کسی زمانے میں درس یہیں ہوتا تھا، بعد میں معلوم نہیں کس وجہ سے استاد محترم اس مسجد کو چھوڑ کر دوسری مسجد میں چلے گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ انھوں نے درس گاہ کا مقام کئی مرتبہ تبدیل کیا۔ جس مسجد میں ان دنوں حافظ جان محمدؒ صاحب کا مکتب تھا، وہ گائوں کے درمیان سے گزرنے والی لالہ موسیٰ، ڈنگہ روڈ کے عین اوپر گائوں کے شمال مشرقی کونے پرواقع تھی اور مشرقی مسجد کہلاتی تھی۔ وہاں پہنچ کر دادا جان نے میرے اور اپنے جوتے اتارے اور میری انگلی پکڑ کر مسجد کے اندر لے گئے۔ آپ کو دیکھتے ہی استاد محترم اور تمام بچے، بچیاں احتراماً کھڑے ہو گئے۔ واضح رہے کہ سب بچے بچیاں تقریباً چھ سات سال سے دس بارہ سال کی عمر کے تھے۔ بچیوں کی کلاس جنوبی جانب تھی اور بچوں کی شمالی جانب، بیچ میں فاصلہ تھا اور اسی مرکزی جگہ پر استاد محترم قبلہ کی جانب محراب میں بیٹھ کر سبق پڑھاتے تھے اور پھر سنتے بھی تھے۔

سبق یاد نہ کرنے پر سزا بھی ملتی تھی، مگر ہلکی پھلکی، کبھی محض زبانی اور کبھی جسمانی! آج کل جو ہم ہر روز پُرتشدد سزائوں کی ہولناک خبریں پڑھتے سنتے ہیں، اس کا تصور بھی وہاں نہ تھا۔ لڑکے تقریباً بیس بائیس ہوں گے اور لڑکیاں پندرہ سولہ یا کم و بیش۔ استاد محترم کے مصلّے کے سامنے درخت کی لمبی ٹہنی کا ایک لمبا تڑنگا عصا رکھا ہوا تھا۔ پہلی حاضری پر میری نظر سب سے زیادہ اسی عصائے موسوی پر مرتکز تھی۔ بہرحال مجھے استاد محترم کے سپرد کیا گیا جنھوں نے بڑی خوشی اور محبت کے ساتھ مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔ دادا جان کی موجودگی میں شیرینی تقسیم ہوئی جس کے بعد اجتماعی دعا کی گئی۔ پھر دادا جی اللہ حافظ کہہ کر گھر چلے گئے۔ استاد محترم نے مجھے تعوّذ اور بسم اللہ پڑھائی اور حروف ابجد کا پہلا سبق دیا۔

دادا جان رخصت ہوتے ہوئے استاد محترم سے اور مدرسے کے طالب علم، میرے ایک کزن میاں عبدالوحید (عمرگیارہ، بارہ سال)، برادرِ خورد حافظ شیر علی (والد میاں وقاص وحید) سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ چھٹی کے بعد ادریس کو کندھوں پہ اٹھا کر آرام سے گھر لے آنا۔ چھٹی کے وقت برادرم عبدالوحید نے مجھے اٹھا لیا اور بہت خوشی کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کی تیزرفتاری سے میں قدرے پریشان تھا، مگر درس گاہ سے میرا خوف کسی حد تک دور ہو گیا، پھر بھی مجھے اس ماحول میں زیادہ اطمینانِ قلب حاصل نہ ہوا۔ گھر جا کر میں نے پھوپھی جان سے کہا کہ استاد صاحب کے پاس ایک لمبا عصا ہے جس سے وہ بچوں اور بچیوں کو کسی وقت مارتے بھی ہیں۔ مجھے اس سے بہت ڈر لگتا ہے۔ دادا جان سے کہیں کہ مجھے گھر میں ہی تعلیم دلا دیا کریں۔ میری باتیں سن کر پھوپھی جان پہلے تو مسکرائیں،پھر پیار محبت سے کہا: میری جان، میں قربان! درس گاہ میں ہی پڑھائی اچھی ہوتی ہے۔‘‘ رات کو سونے سے پہلے پھوپھی جان مجھے دلچسپ کہانیاں سناتی رہیں اور میں سنتے سنتے حسب معمول میٹھی نیند سو گیا۔

میری والدہ محترمہ میرے لیے مسلسل دعائیں کرتی رہتی تھیں اور اللہ کا ان پر یہ بہت بڑا احسان تھا کہ وہ مستجاب الدعوات تھیں۔ ان کا تذکرہ آگے قدرے تفصیل کے ساتھ عرض کروں گا۔ دوسرا دن ہوا تو مجھے پھوپھی جان نے بہت تسلی دی اور کہا کہ تم تو بڑے ذہین، باصلاحیت اور حوصلے والے بچے ہو، کوئی فکر نہ کرو، تم ان شاء اللہ کامیابیاں حاصل کرتے جائو گے۔ پھوپھی جان کے ساتھ والدہ محترمہ نے بھی ڈھارس بندھائی اور اس تسلی و حوصلہ افزائی (Counseling) کے بعد مجھے مکھن اور رات کی تنوری روٹی کے ساتھ ہلکا سا ناشتہ کرایا گیا جس کے بعد گرم موسم کی وجہ سے لسی پی کر میں مکتب جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ بھائی عبدالوحید کا گھر ہمارے گھر سے متصل تھا بلکہ ایک وسیع و عریض صحن تقریباً مشترک ہی تھا۔ عبدالوحید صاحب (ابووقاص) نے مجھے اپنے کندھوں پر بٹھا لیا اور سامنے پچاس ساٹھ قدم گلی کی نکڑ تک نہایت شریفانہ بلکہ مودبانہ انداز میں چلتے ہوئے پہنچے۔ میری دو بہنیں، دادا جان اور گھر کے دیگر افراد یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔

سواری بہت خوش تھی مگر سوار کا دل اداس تھا۔ گلی کے نکڑ پر میں نے آخری بار مڑ کر گھر کی طرف دیکھا۔ جوں ہی نکڑ سے اگلی گلی میں داخل ہوئے تو وحید بھائی جان شوخ گھوڑے کی طرح چوکڑیاں بھرتے اور اچھل کود کرتے ہوئے منزل کی جانب بھاگے۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے ان کے سر کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور کل کی واپسی کی طرح آج بھی ’’یا اللہ خیر یا اللہ خیر‘‘ کہتا ہوا منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ راستے میں کئی دیگر طالب علم بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے۔

کل تو بسم اللہ اور خوش آمدید کی رسم تھی۔ آج سے باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہو گیا۔ یہ غالباً جون 1951ء کی کوئی تاریخ تھی۔ استاد محترم نے بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ مجھے اپنے قریب بٹھایا اور پہلا سبق حروفِ ابجد کا پڑھایا۔ میرے لیے یہ کوئی مشکل نہیں تھا۔ میں نے پورا قاعدہ دو تین دنوں میں پڑھ لیا۔ اب میرا خوف بھی دور ہو گیا تھا اور میں نے دادا جان سے بھی کہہ دیا کہ بھائی وحید میرے ساتھ جایا اور آیا کریں مگر میں ان کے کندھوں پر سوار ہونے کے بجائے اپنے قدموں پہ چلنے کے قابل ہوں، آپ بے فکر ہو جائیں، میں ان شاء اللہ اچھی طرح پڑھائی کروں گا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میرے ان الفاظ سے دادا جان کی خوشی دیدنی تھی۔ انھوں نے بے ساختہ مجھے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور ڈھیروں دعائیں دیں۔  (جاری ہے)