معصومیت کے معنی ہیں اپنی فطرت اور اپنی حقیقت سے ہم آہنگ ہونا
یہ احساس بہت عام ہے کہ ہماری زندگی گزشتہ پچاس ساٹھ سال کے عرصے میں غیر معمولی تغیرات کا شکار ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ بہت سی چیزیں طویل عرصے تک ہماری زندگی کا حصہ بنے رہنے کے بعد ہماری زندگی سے یا تو رخصت ہوچکی ہیں یا رخصت ہورہی ہیں، اور کوئی دن جاتا ہے کہ ان کی رخصتی کا عمل مکمل ہوجائے گا۔ زندگی کو خلا سے بیر ہے، اس لیے ہماری زندگی سے رخصت ہونے والی چیزوں کی جگہ دوسری چیزیں لے رہی ہیں۔ مادی زندگی کے بارے میں تو ہم یہ بات تقریباً وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اس کے دائرے سے کیا کیا رخصت ہوا ہے، اور رخصت ہونے والے کی جگہ کس نئی چیز نے لی ہے۔ لیکن ذہنی، جذباتی اور احساساتی زندگی کے بارے میں ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اس میں کیا کیا تغیرات رونما ہوئے ہیں، کیا کیا چلا گیا ہے اور کیا کیا نئی چیزیں آگئی ہیں؟ اس کے باوجود بھی ہم زندگی کے غیر مادی یا غیر مرئی دائرے میں رونما ہونے والے تغیرات پر گفتگو کرتے رہتے ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے بعض تغیرات سے آگاہ بھی ہیں اور تجربات و مشاہدات کی روشنی میں واضح طور پر ان کی نشان دہی بھی کر سکتے ہیں۔ مثلاً یہ بات سبھی کہتے ہیں کہ معصومیت ہماری زندگی سے رخصت ہوچکی ہے یا ہونے والی ہے۔ یہ ذرا کچھ شدت پسندانہ رائے ہے، لیکن متوازن رائے کا اظہار کرنے والے بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ معصومیت کا عنصر ہماری زندگی سے کم ہوگیا ہے بلکہ ہولناک حد تک کم ہوگیا ہے۔ اس ہولناکی کی وضاحت لوگ اس طرح کرتے ہیں کہ اب تو بچے بھی معصوم نہیں رہے۔ ظاہر ہے کہ معصومیت نے جو جگہ خالی کی ہے اس جگہ پر کسی نہ کسی کو تو براجمان ہونا ہی تھا۔ سو لوگ کہتے ہیں کہ اس کی جگہ چالاکی، عیاری اور مکاری نے لے لی ہے۔ کچھ لوگ باتوں کو فلسفے کی چاشنی میں بھگو کر پیش کرنا پسند کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو چالاک اور عیار کہنا زیادتی ہے البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ عمر سے پہلے پختہ ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی معصومیت زائل ہوجاتی ہے۔ عمر سے پہلے پختہ ہونے کے مختلف اسباب بھی گنوائے جاتے ہیں مگر یہاں ان کو دہرانا مقصود نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ معصومیت کے معنی کیا ہیں؟ عام طور پر معصومیت کے جو معنی بیان کیے جاتے ہیں کیا وہ درست ہیں؟ اگر نہیں تو اس کے درست معنی کیا ہیں؟ معصومیت کی انسانی زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ یہ باتیں اور ان باتوں کی کچھ ذیلی باتیں:
دنیا کے ہر معاشرے میں ہمیشہ سے یہ بات تسلیم کی جاتی رہی ہے کہ بچے معصوم ہوتے ہیں۔ لیکن اب جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اب تو بچے بھی معصوم نہیں ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب تو بچے بھی معصوم نہیں ہوتے لیکن کسی زمانے میں بڑے بھی معصوم ہوا کرتے تھے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اب دس سال کا بچہ جو باتیں جان لیتا ہے وہ باتیں کسی زمانے میں پچیس سال کے نوجوان کو بھی معلوم نہیں ہوتی تھیں۔ اب چوں کہ بچہ یہ باتیں جان لیتا ہے اس لیے اُس کی معصومیت رخصت ہوجاتی ہے اور وہ گھاگ بن جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ معصومیت کا انحصار لاعلمی پر ہے۔ آپ یاد دلائیں گے کہ اصل مسئلہ جاننا نہیں بلکہ عمر سے پہلے جاننا ہے۔ بات شاید یہ بھی ہے، مگر بات صرف یہیں تک نہیں ہے۔ کسی بات کو عمر سے پہلے جاننے کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ اسے کس طرح اور کس انداز میں جانا گیا ہے؟ عام طور پر باتیں جس طرح اور جس انداز میں جانی جاتی ہیں ان کا استعمال بھی کم و بیش اسی طریقے اور اسی انداز میںکیا جاتا ہے۔ اچھا یہ تو ہوا اس مسئلے کا ایک پہلو۔ مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بہت سے لوگ عمر سے پہلے بہت سی باتیں جاننے کے باوجود بھی معصوم نظر آتے ہیں اور معصوم کہلاتے ہیں، بلکہ معصومیت کا گہرا تاثر بڑی عمر کے بہت سے لوگوں کے چہروں پر بھی نظر آتا ہے، ایسے لوگ جو زندگی کے بارے میں بہت کچھ جان چکے ہوتے ہیں۔ دراصل ہم جسے معصومیت کہتے ہیں وہ عام طور پر چہرے پر موجود ایک ملائم سی کیفیت ہوتی ہے۔ چہرے کی کیفیت اندرونی کیفیت ہی کا عکس ہوتی ہے۔ چہرہ اندرونی کیفیات کا اشتہار بنے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بہت سے لوگ چہرے کو اندرونی کیفیات کے عکس سے بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن چہرے کی ساری کیفیات آنکھوں میں منتقل ہوجاتی ہیں اور آنکھیں سارا پول کھول کر رکھ دیتی ہیں۔ آنکھیں اور مسکراہٹ، اور مسکراہٹ کے انداز اور قہقہہ… تو گویا چہرے کی مخصوص کیفیت ہی معصومیت ہے؟ نہیں۔ چہرے کی معصومیت تو اندرونی کیفیت کا عکس ہے۔ مگر یہ اندرونی کیفیت کیا ہے جسے ہم معصومیت کہہ رہے ہیں؟ اس بات کو بھی ہم بچوں ہی کے حوالے سے سمجھ سکتے ہیں۔
بچوں کے بارے میں ایک عام بات یہ کہی جاتی ہے کہ وہ سچے ہوتے ہیں۔ بچے ہونے کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس سے ان کی مراد وہی ہوتی ہے۔ یعنی وہ ہنستے ہیں تو واقعتاً ہنستے ہیں، اور روتے ہیں تو واقعتاً روتے ہیں۔ کوئی چیز انہیں درکار ہوتی ہے تو واقعتاً درکار ہوتی ہے اور وہی درکار ہوتی ہے۔ ان کی حقیقت اور مفاد میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ان کا مفاد ان کی حقیقت اور ان کی حقیقت ان کا مفاد ہوتی ہے۔ مفاد کا لفظ ہم نے یہاں عام معنوں میں نہیں بلکہ مطالبے، خواہش اور آرزو کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ اس اعتبار سے معصومیت کے معنی ہیں اپنی فطرت اور اپنی حقیقت سے ہم آہنگ ہونا۔
بڑوں کا معاملہ عام طور پر بچوں کے برعکس ہوجاتا ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر ان کے قول و فعل ہی میں نہیں، قول اور قول میں، اور فعل اور فعل میں فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ کہتے کچھ اور ہیں لیکن مراد کچھ اور ہوتی ہے، یا کہنا کچھ اور چاہتے ہیں اور کہہ کچھ اور دیتے ہیں۔ اس طرح ان کا عمل بظاہر جس مقصد کے لیے ظہور میں آتا ہے وہ انہیں مطلوب ہی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر کہیں تو یہ آپ کے کام آرہے ہیں لیکن اس کی وجہ کوئی مالی مفاد ہے یا اسی طرح کی کوئی اور بات۔ اس عمل کے تواتر کے ساتھ ہوتے رہنے کے نتیجے میں وہ اپنی فطرت اور حقیقت سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور معصومیت گنوا دیتے ہیں۔
اچھا! ہمارے یہاں یہ تصور ہے کہ انبیا معصوم ہوتے ہیں۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہر خطا سے مامون کردیتا ہے اور ان سے کوئی خطا نہیں ہوسکتی۔ لیکن ایک معنی یہ بھی ہے کہ وہ اپنی حقیقت سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ ایسی ہم آہنگی انبیا کے سوا کسی اور کو نصیب نہیں ہوسکتی، لیکن یہ ہم آہنگی انسانیت کا آئیڈیل ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا ہے کہ ’’اے میرے رب چیزیں جیسی ہیں مجھے ویسی ہی دکھا۔‘‘
اور یہ حقیقت ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کو چیزیں اپنی اصلی حالت میں نظر آتی تھیں اور وہ کسی بھی طرح کے التباس میں مبتلا ہونے سے محفوظ تھے۔ اس اہم ترین حوالے کے بعد ہم اس سوال کے قریب پہنچ گئے ہیںکہ معصومیت کی اہمیت کیا ہے؟
کائنات کی ہر شے اپنی فطرت اور اپنی حقیقت کے عین مطابق جلوہ گر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس دن اور رات کے آنے جانے میں اور سیاروں کی گردش میں سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ ظاہر کی آنکھ سے دیکھیے توستارہ‘ ستارہ ہے اور رات‘ رات اور دن‘ دن۔ لیکن درحقیقت ستارہ ستارے سے کچھ زیادہ ہے، اور اسی طرح رات اور دن بھی رات اور دن سے کچھ زیادہ ہیں۔ انسان اس ’کچھ زیادہ‘ کا بھی مشاہدہ کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی فطرت سے یعنی اپنی حقیقت سے ہم آہنگ ہو۔ یعنی معصوم ہو۔ ایک معصوم ہی دوسرے معصوم کو دیکھنے کی طرح دیکھ سکتا ہے۔ ایک معصوم ایک عیار کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اگر انسان اپنی حقیقت سے ہم آہنگ ہو تو وہ نہ صرف اپنے آپ سے ہم آہنگ ہوگا بلکہ اس پوری کائنات سے ہم آہنگ ہوگا۔ پھر یہ کائنات اس کے لیے اجنبی اور دہشت ناک نہیں رہے گی جیسا کہ مغربی فلسفہ ہمیں بتاتا ہے۔ اس اعتبار سے ہم آہنگی سے محروم ہونا پوری کائنات کے مشاہدے سے محروم ہونا ہے جس میں ہماری دنیا اور اس کی اشیا بھی شامل ہیں۔ بچے فطری مظاہر جیسے چاند، سورج، بادل، پہاڑ وغیرہ میں خوامخواہ کشش محسوس نہیں کرتے، اس کی وجہ ہے اور وہ یہ کہ وہ خود کو فطرت اور اس کے مظاہر سے ہم آہنگ محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو نہ جانتے ہیں اور نہ بتا سکتے ہیں کہ ایک معصوم دوسرے معصوم کے لیے کشش محسوس کررہا ہے۔ لیکن بات یہی ہے۔ مظاہرِ فطرت بچوں کو اپنے ساتھ ایک پراسرار رابطے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ فطری مظاہر کی کشش تو بڑے بھی محسوس کرتے ہیں لیکن وہ ان مظاہر کو تھکن اتارنے، بوریت دور کرنے اور اچھا وقت گزارنے کے ایک ذریعے سے زیادہ اہمیت نہیں دے پاتے، چنانچہ انہیں ان مظاہر کے قریب جاکر تفریح اور پکنک تو مل جاتی ہے، اور کچھ نہیں ملتا۔ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔