غزہ پر آھن و آتش کی بارش :وحشت وسفاکی کا پانچواں مہینہ

بدترین قتل عام کے باوجود اسرائیل عسکری فتح سے ابھی بہت دور ہے

غزہ پر آتش و آہن کی مسلسل بارش کا پانچواں مہینہ شروع ہوگیا۔ فی الحال یہ وحشت ختم ہوتی نظر نہیں آتی، اور ختم ہو بھی کیسے، کہ عالمی عدالت سمیت کسی میں یہ ہمت نہیں کہ اسرائیل کا ہاتھ پکڑ سکے۔ عدالت کے حالیہ فیصلے سے ان وحشیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ ٹھوس شواہد و ثبوت کے باوجود عالمی عدالت نے غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کو نسل کُشی قرار دے کر خونریزی فوری طور پر بند کرنے کا حکم دینے کے بجائے ”احتیاط“ کی نصیحت کرتے ہوئے وضاحت کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔ اس عرصے میں اسرائیل کو حملے جاری رکھنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

اہلِ غزہ کا قتلِ عام جاری رکھنے کے لیے اتحادیوں نے خزانوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔ ہر روز امریکہ کے تین دیوہیکل مال بردار طیارے مہلک گولہ بارود لے کر تل ابیب اتر رہے ہیں۔ اس ”کارِخیر“ میں اب جرمنی بھی سرگرم ہوگیا ہے اور ٹینکوں کے 15 ہزار گولے خصوصی پروازوں سے اسرائیل پہنچا دیے گئے ہیں۔

امریکہ اور یورپ کے ساتھ اسرائیل کے عرب احباب بحری نقل و حمل میں تل ابیب کو کلیدی اعانت فراہم کررہے ہیں۔ ایشیا سے اسرائیل آنے والے جہازوں کا تیز ترین راستہ بحیرہ احمر ہے، کہ یہاں سے شمال مشرق میں خلیج عقبہ کے دہانے پر اس کی ایلات بندرگاہ ہے، جبکہ بائیں جانب نہر سوئز سے گزرکر بحر روم کی اسرائیلی بندرگاہوں تک رسائی مل جاتی ہے۔ حوثی کارروائیوں کی بنا پر بحیرہ احمر اسرائیل کے لیے نوگو ایریا بن چکا ہے جس کی وجہ سے خلیج عقبہ اور نہر سوئر دونوں راستے عملاً مسدود ہیں۔ اسرائیل کے عبرانی چینل 13 نے انکشاف کیا ہے کہ اب اسرائیل آنے والے جہاز خلیج عدن سے بحیرہ احمر کی طرف جانے کے بجائے دائیں جانب خلیج اومان میں متحدہ عرب امارات (UAE)کی خوف فکّان اور فجیرہ کی بندرگاہوں پر مال اتار رہے ہیں، جہاں سے ٹرکوں کے ذریعے سعودی عرب اور اردن کے راستے یہ سامان اسرائیل پہنچایا جارہا ہے۔ یعنی اہلِ غزہ کے قتل عام میں گوری اقوام کے ساتھ اسرائیل کے عرب دوست بھی مقدور بھر حصہ لے رہے ہیں۔

جہاں متحدہ عرب امارات درآمدی محصولات و بندرگاہ اخراجات اور سعودی عرب و اردن راہداری کی مدمیں اہل ِغزہ کے لہو کی قیمت وصول کررہے ہیں، وہیں غزہ جانے والے امدادی ٹرکوں نے آمرِ مصر جنرل السیسی کے لیے کمائی کا ایک نیا کھاتہ کھول دیا ہے۔ امداد بھیجنے والے اداروں نے الزام لگایا ہے کہ مصری فوج سے وابستہ جنرل انٹیلی جنس سروس (GIS) غزہ جانے والے سامان پر 5000 ڈالر فی ٹرک حفاظتی فیس وصول کررہی ہے۔

جنگ بندی سے تو کسی کو دلچسپی نہیں لیکن غزہ میں زیر حراست اسرائیلی قیدی چھڑانے کے لیے امریکہ، یورپی یونین، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ گزشتہ دنوں پیرس میں تفصیلی مذاکرات ہوئے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ مذاکرات کا مقصد وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی پر مقامی دبائو کم کرنا ہے۔ محاذِ جنگ سے ٹوٹے پھوٹے ٹینکوں کی آمد، جلی ہوئی لاشوں اور نشانِ عبرت بنے معذور جوانانِ رعنا کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ بی بی اپنی قوم کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ طاقت کے ذریعے حماس کو قیدیوں کی رہائی پر مجبور کردیں گے، لیکن لواحقین کے مظاہروں میں شدت آتی جارہی ہے اور قیدیوں کی واپسی کے ساتھ اب بی بی کی رخصتی کا مطالبہ بھی شروع ہوچکا ہے۔

ایک اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل پر گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم ایہود بارک نے ہاتھ جوڑ کر کہا ”بی بی! خدا کے واسطے جان چھوڑ دو“۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرنیتن یاہو اقتدار سے چمٹے رہے تو اسرائیل غزہ کی دلدل میں غرق ہوجائے گا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم نے متنبہ کیا کہ” اسرائیل کے لیے مہلت تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ غزہ سے سر ٹکراتے 100 دن گزر گئے، اب نئی سوچ اور اپروچ کی ضرورت ہے۔ اگر بی بی ملک سے مخلص ہیں تو غلطی تسلیم کرکے گھر چلے جائیں اور اسرائیلی عوام کو نئی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیں۔

اسرائیل کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے عوض عارضی جنگ بندی اور امدادی سامان کی غزہ روانگی میں سہولت کاری کے وعدے کیے جارہے ہیں، جبکہ مستضعفین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی اور آئندہ حملہ نہ کرنے کے وعدے کی سلامتی کونسل سے ضمانت کے بعد ہی قیدیوں کے تبادلے پر بات ہوگی۔ دو ریاستی فارمولے کو مستضعفین نے مہمل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اہلِ غزہ نے 25 ہزار معصوم جانوں کی قربانی بلدیاتی اختیارات حاصل کرنے کے لیے نہیں دی، ہمیں نہر سے بحر تک فلسطین کے سوا کچھ قبول نہیں۔

3 فروری کو بی بی نے بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے امن تجاویز حماس کو بھیج دی گئی ہیں جس کا جواب جلد متوقع ہے۔ اسی ضمن میں ترک صدر کے مشیر سلامتی ابراہیم کالن نے قطر میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ سے ملاقات کی ہے۔ عرب ذرائع سے باتیں کرتے ہوئے امریکی حکام نے خیال ظاہر کیا ہے کہ چھے ہفتے جنگ بندی اور قیدی رہا ہوجانے کے بعد بی بی کے پاس جنگ دوبارہ شروع کرنے کا کوئی جواز نہ ہوگا۔

جواز و دلیل اُن لوگوں کے لیے اہم ہے جو خود کو کسی فورم پر جواب دہ سمجھتے ہوں۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ فوج کی سرپرستی میں حوّارہ کے فلسطینیوں پر پتھرائو اور فائرنگ کرنے والے چار انتہا پسند قبضہ گردوں (settlers) کی اسرائیلی میڈیا پر تصویر دیکھ کر امریکی صدر نے جب ان کے خلاف تادیبی پابندیاں (Sanctions) عائد کیں تو بی بی اور ان کے اتحادی سخت مشتعل ہوگئے۔ ایوانِ وزیراعظم سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ”علاقے کے باسیوں کی عظیم اکثریت پُرامن، اور قانون پر عمل کرنے والوں کی ہے۔ یہاں کے بہت سے نوجوان غزہ میں اسرائیل کا دفاع کررہے ہیں۔ قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی کا نظام موجود ہے اور اس تناظر میں امریکی صدر کا یہ قدم غیر ضروری ہے۔“ وزیرخزانہ اسموٹرچ نے اس پر ایک ردّا مزید لگاتے ہوئے کہا کہ ”اپنا دفاع کرنے والے معصوم اسرائیلیوں پر پابندی لگاکر امریکی صدر پُرامن آبادکاروں پر حملوں کو جائز قرار دے رہے ہیں۔“

غزہ میں پائیدار جنگ بندی اس لیے بھی بہت مشکل لگ رہی ہے کہ بی بی سرکار کے انتہا پسند اتحادی غزہ سے فلسطینیوں کو نکال کر وہاں اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کے لیے انتہائی پُرعزم ہیں، گزشتہ ہفتے بی بی کے دفتر کے باہر قدامت پسندوں نے زبردست مظاہرہ کیا جس کی قیادت 12 وزرا کررہے تھے۔ مظاہرین نے غزہ خالی کرائو، بحیرہ روم ہمارا ہے کے نعرے لگائے۔ جلوس کے سامنے ایک بڑے بینر پر عبرانی میں درج تھا کہ ‘فلسطینیوں کا غزہ سے انخلا ہی پائیدار امن کا ضامن ہے۔

اسرائیلی فوج کی خون آشامی، کچھ عرب ممالک سمیت ساری دنیا کا تعاون، اور انتہا پسندوں کی جانب سے غزہ کو چٹیل میدان بنادینے کے دعوے ایک طرف.. لیکن بدترین قتل عام کے باوجود اسرائیل عسکری فتح سے ابھی بہت دور ہے۔ اس کے فوجی اعلامیوں میں ہر روز ایک نئی سرنگ کے انکشاف اور تباہی کی باتصویر خبر شائع ہوتی ہے۔ غزہ کے اسپتالوں، مساجد، جامعات اور مفادِ عامہ کی عمارات اسی جواز پر تباہ کی گئیں کہ ان کے نیچے سرنگوں کے دہانے ہیں۔ قبضے میں لی گئی بہت سی سرنگوں کا امریکی صحافیوں کو دورہ بھی کروایا گیا۔ ان سرنگوں کو بحر روم کے پانی سے بھرنے کے لیے جدید پمپ اور بکتربند مواد میں لپٹے پائپ امریکہ نے فراہم کیے ہیں۔ لیکن وال اسٹریٹ جنرل نے اسرائیلی فوج کے حوالے سے بتایا کہ 114 دن گزر جانے کے بعد بھی 80 فیصد سے زیادہ سرنگیں صحیح سلامت اور اہلِ غزہ کے قبضے میں ہیں جن تک رسائی تو کیا، اسرائیلیوں کو ان کا کچھ پتا ہی نہیں۔ اہلِ غزہ نے حملہ آوروں کو پھانسنے کے لیے جعلی سرنگیں کھود رکھی ہیں جو دراصل آگ کے گڑھے ہیں جن کی زد میں آکر درجنوں اسرائیلی سپاہی راکھ بن گئے۔

اس حوالے سے اسرائیلی میڈیا پر ایک بڑی دلچسپ خبر کتوں کے بارے میں شائع ہوئی ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ دورِ حاضر کی جنگوں میں کتے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسرائیلی فوج غزہ میں سرنگوں کے سراغ اور دھماکہ خیر مواد برآمد کرنے کے لیے امریکی نسل کے تربیت یافتہ کتے بھی لائی ہے۔ دوسری جانب اہلِ غزہ کے یہاں کتے پالنے کا رواج نہیں لیکن اسرائیلی فوج کے غزہ میں قدم رکھتے ہی مقامی آوارہ کتے میدان میں آگئے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کے کتے ہمارے کتوں کی طرح سمجھ دار تو نہیں لیکن بہت بہادر، لڑاکا اور خونخوار ہیں۔ ہمارا کتا غزہ کے کسی کتے کی گرفت میں آجائے تو اپنی ہلاکت کے باوجود وہ اسرائیلی کتے کی گردن میں دانت گاڑےرکھتا ہے۔

میدانِ جنگ کی خبروں پر شدید سنسر کے باوجود اسرائیلی فوج میں تھکن کی خبریں اسرائیلی میڈیا پر بھی آرہی ہیں، کئی بریگیڈ کی واپسی کے بعد اسرائیلی فوج نےاپنے مایہ ناز Kfirبریگیڈ کو ”آرام“ کے لیے غزہ سے واپس بلالیاہے۔ پیادہ فوج پر مشتمل یہ بریگیڈ خان یونس میں تعینات تھا۔شدید جانی نقصان کی بناپرپیادہ اور ہلکے بکتربند دستوں پر مشتمل 6 بریگیڈ اس سے پہلے واپس بلائے گئے ہیں۔ 2 فروری کو اسرائیلی فوج نے اپنے ٹینکوں کے غزہ سے واپس ہونے کی تصاویر شائع کی ہیں جن میں یہ ٹینک بوسیدہ نظر آرہے ہیں۔ اس حوالے سے عسکری حلقوں میں یہ لطیفہ بھی عام ہے کہ اہلِ غزہ کے تیار کردہ راکٹوں کے ہاتھوں ایک کروڑ ڈالر کے Merkava ٹینک کا حشر دیکھ کر فلپائن اور دوسرے خریدار اب اسرائیلی ٹینکوں کے بجائے 200 ڈالر کے یاسین RPG خرید رہے ہیں۔

میڈیا اور امریکی قیادت پوری طرح اسرائیل کی پشت پر ہیں لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی آہستہ اہستہ واضح ہونے لگا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس اور جامعہ شکاگو کے ادارے NATIONAL OPINION RESEARCH CENTERیا NORCنے 2 فروری کو رائے عامہ کا جو جائزہ شائع کیا ہے اس کے مطابق 50 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ غزہ میں اسرائیلی کارروائی حد سے گزر چکی ہے۔ نومبر میں یہ خیال 40 فیصد امریکیوں کا تھا۔ اس سروے کی اہم بات یہ ہے کہ اب ریپبلکن پارٹی سے وابستہ افراد کی رائے بھی تبدیل ہورہی ہے۔ نومبر میں 18 فیصد ریپبلکن سمجھتے تھے کہ اسرائیل زیادتی کررہا ہے۔ اب یہ تناسب 33 فیصد ہوچکا ہے۔

اسی عوامی دبائو کا نتیجہ ہے کہ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمانی اجتماع (Caucus)نے ایک قرارداد کی منظوری دی جس میں (فلسطین و اسرائیل) دو ریاستی فارمولے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ رائے شماری کے دوران 51میں سے 49 سینیٹروں نے تحریک کی حمایت کی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مضبوط و مستحکم جمہوری اسرائیل کے شانہ بشانہ فلسطینی امنگوں کی ترجمان آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست مشرق وِسطیٰ میں پائیدار امن کی ضمانت بن سکتی ہے۔

تباہی و بربادی کے باوجود اہلِ غزہ مایوس نہیں۔ یکم جنوری سے نئے تعلیمی سال کا آغاز اس شان سے ہوا کہ پٹی کا کوئی بھی اسکول، جامعہ، لائبریری، طباعتی مرکز، بچوں کا تفریحی پارک سلامت نہیں۔ اساتذہ کی بڑی تعداد بھی شہید ہوچکی، لیکن سخت جان اور پُرعزم اہلِ غزہ کہاں ہار ماننے والے ہیں! آتش و آہن کی موسلا دھار بارش میں کھلے آسمان تلے اسکول قائم کردیے گئے ہیں جہاں باقاعدگی سے کلاسیں شروع ہوچکی ہیں۔ اسی مثبت نوٹ پر ہم آج کی گفتگو ختم کرتے ہیں۔
……………………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاورٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔