2024ء کے عام انتخابات کے تناظر میں جو کچھ اہلِ وطن کو سیاست کے میدان میں دیکھنے کو ملا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری ترجیحات میں سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون کی بالادستی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر طاقت کی سیاست رکھتا ہے جہاں طاقتوروں کے لیے وہی اصول اہم ہیں جو اُن کی سیاسی ضروریات یا ذاتی مفادات کو تقویت دے سکیں۔ آئین اور قانون کے بجائے اُن کے اپنے مفادات کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور اسی کو بنیاد بناکر سیاسی حکمت عملیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ اگرچہ ہماری سیاسی، جمہوری اورانتخابی تاریخ پہلے بھی اچھی نہیں تھی، لیکن اِس دفعہ انتخابات 2024ء کو بنیاد بناکر ہم نے مزید نئی خرابیوں کو جنم دیا ہے۔ جب بھی مؤرخ ہماری جمہوری اور انتخابی تاریخ کے بارے میں لکھے گا تو اس میں 2024ء کے انتخابات کا باب ضرور ہوگا، اور یہ باب ماضی کے مقابلے میں زیادہ سیاہ ہوگا۔ سیاست میں جب اختلافات کو سیاسی دشمنی میں تبدیل کیا جاتا ہے تو اس کے نتائج سیاست اور جمہوریت کی کمزوری کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔
2024ء کے انتخابات کا بنیادی دائرہ تحریک انصاف اور اس کے سابق چیئرمین عمران خان کے گرد ہی گھومتا ہے۔ وہی ان انتخابات کی بحث کا نکتہ رہے ہیں۔ ہماری مجموعی سیاسی اورانتخابی بحث عمران خان کی حمایت یا مخالفت کے گرد ہی گھومی ہے اور اب بھی گھوم رہی ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے لیے… چاہے وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی… خطرہ بن گئے تھے۔ خطرہ بننے کی وجوہات میں یقینی طور پر پی ٹی آئی کی اپنی سیاسی مہم جوئی بھی شامل تھی جس میں 9مئی سرفہرست ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود عمران خان نے سبھی سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو چیلنج کیا ہوا تھا، اور اسی بنیاد پر آج اُن کے سامنے بڑی بڑی مشکلات ہیں جن کا انہیںسامنا ہے۔
عمران خان کے خلاف انتخابات سے قبل تین بڑے مقدمات کا فیصلہ سنادیا گیا ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ تمام فیصلے انتخابات کے بعد ہوں گے۔لیکن لگتا ہے کہ فیصلہ کرنے والوں نے سمجھ لیا تھا کہ عمران خان کے سیاسی جن کے خاتمے کے لیے ہمیں یہ فیصلے ہر صورت انتخابات سے قبل کرنے ہوں گے تاکہ ووٹروں پر اثرانداز ہوا جاسکے۔ پہلے مقدمے میں یہ ثابت کیا گیا کہ عمران خان کسی بھی طرح بڑے سیاسی منصب کے اہل نہیں اور انہوں نے قومی راز یا قومی سلامتی کے معاملات میں اپنی کمزوری دکھائی ہے، اور اسی بنیاد پر ان کو اور شاہ محمود قریشی کو دس دس برس کی سزا سنادی گئی ہے، اس فیصلے میں لکھا گیا کہ ان دونوں کے عمل سے ہمارے ریاستی مفادات، قومی سلامتی اور پاک امریکہ تعلقات کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ دوسرے مقدمے توشہ خانہ میں ثابت کیا گیا کہ عمران خان کرپٹ اور بدعنوان ہیں اور انہوں نے مالی طور پر کرپشن کی ہے۔ اس سزا سے عمران خان کے بارے میں اس بیانیے کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی کہ عمران خان کسی صورت بھی کرپٹ اوربدعنوان نہیں ہیں۔ تیسرے مقدمے میں نکاح کے شرعی یا غیرشرعی ہونے کے تناظر میں سزا دے کر ان کے اخلاقی پہلو سمیت ریاست مدینہ کے بیانیے کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور ثابت کیا گیا کہ عمران خان اخلاقی طور پر بھی بدعنوان ہیں۔ یعنی عمران خان کو ملک دشمن، مالی اور اخلاقی طور پر کرپٹ دکھایا گیا ہے اور ان کے حامیوں سمیت ووٹرز اور سپوٹرز کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ خود کو عمران خان سے علیحدہ کرلیں اور اب ان کی سیاسی واپسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کھیل کو محض عمران خان تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی سزا سنادی گئی ہے، اور دوسری طرف ان کی پوری جماعت کو سیاسی طور پر مفلوج اور یرغمال بنادیا گیا ہے۔ انتخابات میں پی ٹی آئی کے سیاسی وجود کو ختم کرنے کے لیے جو حکمت عملیاں اختیار کی گئی ہیں تاریخ میں اس طرز کی مثالیں بہت کم ملیں گی۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ بہت کچھ ہوا مگر یہ کہنا کہ یہ بھی محض ماضی کی طرح کا کھیل تھا، درست نہیں، بلکہ اس دفعہ حدود کی مزید پامالی کی گئی ہے۔ اس لیے عملی طور پر 2024ء کا انتخاب مائنس ون فارمولے یعنی عمران خان کی سیاسی بے دخلی کو بنیاد بناکر لڑا جارہا ہے۔ عمران خان کے بہت سے ارکان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں لیکن وہ پارٹی نشان کے بجائے آزاد حیثیت سے لڑرہے ہیں، اس کے باوجود انہیں انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں، اور عملاً ان کے ہاتھ پیر باندھ کر ان کو مفلوج کرکے سیاسی میدان میں چھوڑا گیا ہے۔ کھیل یہیں ختم نہیں ہورہا بلکہ انتخابات سے تین دن قبل بھی ان کے امیدواروں کو اغوا اورگرفتار کیا جارہا ہے اور یہ منطق پیش کی جارہی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار انتخاب جیت بھی گیا تو اس کو اپنی وفاداری تبدیل کرکے اُدھر جانا ہے جہاں اسے بھیجا جائے گا۔ یعنی انتخابات کے بعد بھی کسی بھی صورت میں پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آرہا۔ دوسری طرف 9مئی کو بنیاد بناکر پی ٹی آئی کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے اس جماعت کو کالعدم قرار دینے کے کھیل کی حکمت عملی کو بھی آگے بڑھایا جارہا ہے۔ پچھلے دنوں پنجاب میں وزارتِ داخلہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 9مئی کے سانحے میں پی ٹی آئی کے تمام لوگ اپنی قیادت یعنی عمران خان کی ہدایت پر ریاست پر حملہ آور ہوئے تھے اور اس کا مقصد ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا اور ریاست کے خلاف بغاوت تھی۔ خاص طور پر جس انداز سے، جس عجلت کے ساتھ اور کسی قانون و ضابطے کو نظرانداز کرکے عمران خان، بشریٰ بی بی اورشاہ محمود قریشی کو سزائیں سنائی گئی ہیں اس سے ہمارے عدالتی نظام پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ خاص کر جس انداز سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے نکاح کو غیر شرعی یا غیر قانونی قرار دیا گیا اور جس انداز سے ان کی اس رشتے میں تضحیک کی گئی، ایسا لگتا ہے کہ دشمنی میں خودکو بہت آگے تک لے جانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور مقصد انصاف سے زیادہ عمران خان کو سبق سکھانا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم دشمنی کے اس کھیل میں حد درجہ نیچے جاسکتے ہیں۔ اس پر سبھی کو دکھ ہے کہ جو کچھ ملک میں قانون اور احتساب کے نام پر ہورہا ہے وہ درست نہیں، اور اس سے ہمارے ریاستی نظام کی ساکھ پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جو کچھ آج عمران خان کی دشمنی میں ہورہا ہے کل کسی اورکے خلاف بھی ہوگا، اس لیے ہمیں کسی پر خوشی منانے کے بجائے کل کا انتظار کرنا چاہیے کہ نئی باری کس کی ہوگی۔ مکافاتِ عمل کا یہ کھیل بہت سے لوگوں کو بہا لے جائے گا اور ہمیں برباد کردے گا۔
پاکستان میں عدالتوں اورججوں سمیت قانون کو بنیاد بنا کر ہم نے قانونی سے زیادہ سیاسی فیصلے کیے ہیں، اور عمران خان کے خلاف جو بھی مقدمات ہیں ان کی نوعیت قانونی سے زیادہ سیاسی ہے۔ ماضی میں بھی ہم نے بھٹو سے لے کر بے نظیر، اوربے نظیر سے لے کر نوازشریف تک سب کو سیاسی مقدمات میں الجھا کر پورے عدالتی نظام کو خراب کیا ہے۔ اب ایک بار پھر عمران خان کی دشمنی میں عدالتوں اورججوں کا جس انداز سے استعمال ہورہا ہے وہ واقعی تکلیف دہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ نے لندن میں منعقدہ ایک کانفرنس میں کہا ہے کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ عدالتی فیصلوں کی حمایت کرسکیں اورکہیں کہ عدلیہ درست سمت میں جارہی ہے۔سب سے بڑھ کر دکھ اس بات کا ہوا کہ اس ملک میں جو کچھ پچھلے پندرہ ماہ میں ہوا اور جس انداز سے ایک جماعت کو ختم کیا جارہا ہے اورجس طریقے سے انسانی حقوق کی پامالیاں ہورہی ہیں اس پر عدالتوں کی جانب سے خاموشی اختیار کرنا اُن کی بے بسی یاسیاسی سمجھوتوں کی کہانی لگتی ہے۔ اس لیے لوگ اسٹیبلشمنٹ سمیت عدلیہ سے بھی نالاں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ملک میں اب تک کسی کے خلاف غلط ہورہا ہے اس میں بڑا کردار عدلیہ سے جڑے سمجھوتوں کا ہے۔اس پورے کھیل میں سب سے زیادہ نقصان سیاست، جمہوریت، آئین و قانون کی بالادستی کا ہوا ہے۔ سیاسی قوتوں نے ایک دوسرے کی دشمنی میں خود جمہوریت کو کمزور کیا، اورجو محدود سی جگہ جمہوریت اور سول سوسائٹی کے لیے تھی اسے بھی قربان کردیا ہے۔ پاکستان اب سیاسی اورجمہوری معاملے میں ایک ہائبرڈ نظام کا حصہ بن گیا ہے جہاں سیاسی قوتوں کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتیں زیادہ بالادست ہوگئی ہیں۔اس لیے انتخابات ہوجائیں اور نئی حکومت بھی سلیکشن کی مدد سے تشکیل دے دی جائے۔ اب جمہوری قوتوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، اورمعاملات وہی چلائیں گے جن کے پاس طاقت بھی ہے اور سیاسی قوتوںکو کنٹرول کرنے کا ریموٹ بھی۔ سیاسی قوتوں نے اپنے فیصلے سیاسی میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کرکرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھا یا اُس پر بھروسا کیا تو اس کھیل میں اُن کا کمزور ہونا یقینی تھا۔اب سیاست اورجمہوریت کو دوبارہ سیاسی ٹریک پر لانا آسان نہیں ہوگا، اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم سب سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنی تک لے گئے ہیں جس کی قیمت اب ہم سب کو ادا کرنا ہے۔
اس لیے موجودہ انتخابات کی کوئی اہمیت نہیں، اور یہ انتخابات نہیں بلکہ کسی کو بے دخل کرکے کسی کی سلیکشن کو یقینی بنانا ہے، اور اسی بنیاد پر کھیل کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ اس لیے عام انتخابات کا کھیل کسی بھی صورت میں ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا نہیں کرسکے گا۔ آنکھ مچولی، سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچر کا یہ کھیل منفی بنیادوں پر شروع کیا گیا ہے، اور اس کے نتائج بھی قومی سطح پر منفی ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم کسی کی دشمنی اور کسی کی محبت میں تمام حدیں پھلانگ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، مگر یہ بھول رہے ہیں کہ اس طرز کی حکمت عملی ماضی میں بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی تھی اور اب بھی نہیں دے سکے گی، کیونکہ جب بھی سیاسی حکمت عملی کا مقابلہ غیر سیاسی حکمت عملی سے کیا جائے گا اور اس حکمت عملی میں طاقت کو بالادستی ہوگی تو اس کے نتائج بھی منفی ہی ہوں گے۔ یہ جو حالات کو جان بوجھ کر یا اپنی غیر سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر خراب کیا جارہا ہے اس میں ہم سبھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ قوم نے پری پول رگنگ کے جو مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اس میں الیکشن ڈے پر کیا کچھ کسی کی حمایت اورمخالفت میں دیکھنے کو ملے گا، اور اس کے بعد جو نتائج آئیں گے انہیں بنیاد بنا کر انتخابات کے بعد کا جو منظر حکومت سازی کا ہوگا اس میں کیا کچھ منفی معاملات دیکھنے کو ملیں گے۔ اصولی طور پر پری پول، الیکشن کے دن سمیت حکومت سازی کے مراحل میں سوائے دھاندلی اورجعلسازی کے کچھ نہیں۔ اس طرز پر ہونے والے انتخابات ہوں یا حکومت کی تشکیل… دونوں کو ہی داخلی اور خارجی محاذوں پر سیاسی، قانونی اور اخلاقی ساکھ کے بحران کا سامناہوتا ہے۔ اس لیے انتخابات کے بعد بھی ہمیں بڑی محاذ آرائی، ٹکرائو اور تنائو دیکھنے کو ملے گا۔یہ کہانی کا آغاز ہے اوراسے آگے بڑھنا ہے، دیکھنا صرف یہ ہے کہ8فروری والے دن لوگ کتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے آتے ہیں۔کیونکہ اگر 60فیصد لوگ باہر نکلتے ہیں تو جو کچھ اسکرپٹ میں لکھا ہے اس میں بڑی تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے، وگرنہ روایتی طرز کے انتخابات سے کسی بڑی تبدیلی کا امکان باقی نہیں رہے گا،کیونکہ ہم سیاسی دشمنی کی اس حد تک جانا چاہتے ہیں کہ اس میں سیاست اورجمہوریت کی قربانی بھی دینا پڑی تو ہمیں کوئی غم نہیں ہوگا۔